Filmi Shakhsiyaat Aur Milli Naghmay
فلمی شخصیات اور ملّی نغمے
تحریر شاہد لطیف
یہ ایک ایسا موضوع ہے جِس پر نہ جانے اب تک کیوں نہیں لکھا گیا۔
ہر سال کی طرح 14 اگست کی آمد پر گلیاں بازاراور خریداری مراکز سبز پرچموں سے سجنے اور ملّی نغمات ریڈیو ٹی وی سے نشر ہونے لگے ہیں ہر طرف نغمات کا چرچا ہے لیکن کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ان کے شاعر، موسیقار اور گلوکار کون کون ہیں۔ 70 کی دہائی میں اور اس کے بعد جب ملّی نغمات کا چرچا ہو ا تو موسیقاروں میں سہیل رعنا کا نام ہر ایک کی زبان پر آ نے لگا۔اس کی ایک بنیادی وجہ پاکستان ٹیلی وژن کا قیام ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ مقبول ملّی نغمات کا سہرہ ہمارے نامور موسیقار سہیل رعنا کے سر ہے۔اِنہوں نے اِس میدان میں کافی کام کیا لیکن اِن سے بہت پہلے بھی مقبول ملّی نغمات موجود تھے جو اب بھی گائے جاتے ہیں۔۔۔ میں یہیں سے ابتدا کرتا ہوں۔
پاکستانی ملّی نغموں کی جب بھی بات ہو گی، یا کوئی تاریخ لکھی جائے گی اُس کا آ غاز گلوکارہ منور سلطانہ ( نومبر 1924 سے مئی 1995 ) کے نام سے ہو گا۔ ہمارے ہاں کسی گیت کے مقبول ہونے میں صرف گلوکار/گلوکارہ ہی کو یاد رکھا جاتا ہے حالاں کہ موسیقار اور نغمہ نگار بھی اُتنا ہی اہم ہے۔1946 میں قائدِ اعظم ؒ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے میاں بشیر احمد نے جو ترکی میں پاکستان کے پہلے سفیر بنے ، ایک نغمہ لکھا جِس کی دھن غلام قادر فریدی نے بنائی۔ یہ گیت گلوکارہ منور سلطانہ کی آواز میں صدا بند ہو ا اور اس کے گراموفون ریکارڈ ہز ماسٹر وائس سے جاری ہوئے۔ گیت کے بول تھے:
ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم ، جان ہے محمد علی جناح
لوگوں کو یہ گیت مسعود رانا (جون 1938 سے اکتوبر 1995 ) کی آواز میں یاد ہو گا۔جب کہ اسے سب سے پہلے منور سلطانہ نے گایا گویا ملّی نغمات کا آغاز قیامِ پاکستان سے بھی ایک سال قبل ہو گیا تھا۔ پھر 14 اگست کی رات 12:30بجے ریڈیو پاکستان لاہور سے منور سلطانہ نے شوکت تھانوی کا لکھا او ر غلام قادر فریدی کی بنائی ہوئی دھن میں ایک گیت براہِ راست گایا۔ اُس وقت صدابندی کی سہولت میسر نہیں تھی:
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمار ا رہے
شوکت تھانوی ( فروری 1904 سے مئی 1963) کا ذکر آیا تو یہ لکھنا ضروری خیال کیا کہ نوجوان نسل کو علم ہو کہ یہ صاحب کتنی جہتوں کے لئے مشہور ہیں: صحافی، ناول نگار، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، ادیب اور شاعر ۔۔۔ اردو ادب کی ہر ایک صنف پر نہایت عمدہ قلم چلایا اور نام پیدا کیا۔
اسی مبارک رات 14 اگست کو نصرت فتح علی (اکتوبر 1948 سے اگست 1997 ) کے والد استاد فتح علی اور تایا استاد مبار ک علی کی آوازوں میں علامہ اقبال ؒ کے ساقی نامہ کا کچھ حصہ قوالی کے انداز میں بھی براہِ راست نشر ہوا۔
پاکستانی فلمی صنعت کے شروع کے ایک گلوکار علی بخش ظہور (مئی 1905 سے نومبر 1975 ) نے 1951میں ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک ملّی نغمہ : ’’ زندہ باد زندہ باد، پاکستان زندہ باد۔۔۔‘‘ ریکارڈ کرایا جو کافی مقبول ہوا۔ 50کی دہائی میں نغمہ نگار تنویرؔ نقوی (1919 سے1972 )کے بولوں پر موسیقار غلام فرید قادری نے منور سلطانہ، دھنی رام اور خود اپنی آواز میں کسی فلم کے لئے یہ جنگی گیت ریکارڈ کروایا۔مذکورہ فلم تو تیار نہ ہو سکی البتہ وہ نغمہ ریڈیو سے نشر ہوتا رہا:
آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھے چلو
بڑھے چلو، بڑھے چلو، بڑھے چلو
اس نغمہ کا اعجاز دیکھئے کہ 1965کی جنگ میں صدر ایوب کی تقریر کے فوراََ بعد یہ نغمہ نشر ہوا۔
13 اگست 1954 کی شب وہ یادگار گھڑی ہے جب پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے ہمارا قومی ترانہ نشر ہوا۔ترانے کی دھن احمد جی چھاگلہ نے بنائی تھی ۔ خاکسار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے چھاگلہ صاحب کا وہ پیانو دیکھا اور ’ چھوا ‘ ہے جس پر انہوں نے قومی ترانے کو کمپوز کیا تھا۔نہ صرف یہ بلکہ قومی ترانہ ریکارڈ کروانے والی آوازوں میں سے مندرجہ ذیل کو میں نے دیکھا اور بعض سے فیض بھی حاصل کیا:
احمد رشدی(اپریل 1934 سے اپریل 1983 )، نسیمہ شاہین، زوّار حسین، نہال عبداللہ، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، شمیم بانو، اقبال علی، مہدی ظہیر اور اختر وصی علی وہ اشخاص ہیں جن سے مجھے تعلقِ خاطر رہا۔ فلمی گلوکار کی حیثیت سے احمد رشدی کو کون نہیں جانتا ! نسیمہ شاہین نے بھی کراچی کی کئی فلموں میں گیت گائے۔نہال عبد اللہ ، فلمساز و گیت نگار فضل احمد کریم فاضلی کی اولین فلم ’’ چراغ جلتا رہا ‘‘ کے موسیقار تھے۔ مہدی ظہیر (1927 سے 1988 )نے دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے لئے جمیل الدین عالی ؔ ( جنوری1925 سے نومبر 2015 ) کا خصوصی گیت ’’ اللہ اکبر‘‘ سہیل رعنا کی موسیقی میں ریکارڈ کرایا تھا۔ اختر وصی علی ،گلوکارہ مہناز کے والد اور آل انڈیا ریڈیو کے صفِ اول کے کلاسیکی موسیقی کے فنکار تھے۔وہ اس کم تر سے بہت شفقت کرتے تھے۔
قومی اور ملی نغمات کے فروغ میں پاکستانی فلمی صنعت کی بڑی خدمات ہیں۔یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ 1970تک اکثر مقبول ملّی نغمات فلمی ہی تھے۔
1949میں پاکستان کی دوسری فلم ’’ شاہدہ‘‘ بنائی گئی جس کے ہدایتکار لقمان تھے۔بھارت سے پاکستان ہجرت کے تناظر میں گلوکارہ منور سلطانہ کی آواز میں گیت ریکارڈ کیا گیا:’’ الوداع پیارے وطن الوداع۔۔۔‘‘ فلم کے پہلے ملّی نغمے کی صدا بندی کا اعزاز بھی منور سلطانہ ہی لے گئیں۔مذکورہ نغمہ قتیلؔ شفائی ( دسمبر 1919 سے جولائی2001 ) نے لکھا اور دھن ماسٹر غلام حیدر ( 1908 سے 1953 ) نے بنائی۔
1955میں فلم ’’ شرارے‘‘ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی ( نومبر1910 سے نومبر 1975) اور گیت نگار تنویرؔ نقوی تھے۔مذکورہ فلم میں ایک نہیں دو نہیں تین ملّی نغمات تھے: پہلا ’’ او سفینہ ڈوبے نہ، یہاں کنارہ وہاں کنارہ۔۔۔‘‘ آوازیں پکھراج پپو، فضل حسین اور ساتھی، دوسرا ’’ اے متوالے، ہمت والے۔۔۔‘‘ آوازیں پکھراج پپو اور عنایت حسین بھٹی اور تیسرا ’’ اے سب کے نگہبان۔۔۔‘‘ آواز منور سلطانہ۔
18 جون 1959 کو نمائش کے لئے پیش ہونے والی سیف الدین سیفؔ (مارچ 1922 سے جولائی1993 ) کی معرکۃالآراء پنجابی فلم ’’ کرتار سنگھ‘‘ میں اِن ہی کا لکھا ہو ا ملّی نغمہ بہت مشہور ہوا۔اس کی دھن موسیقار بھائیوں کی جوڑی سلیم اور اقبال المعروف سلیم اقبال نے بنائی :’’ اج مک گئی اے غماں والی شام۔۔۔‘‘
نسیم حجازی کے ناول ’ آخری چٹان‘ پر مبنی فلم ’’ چنگیز خان‘‘ جمعہ 24 جنوری 1958کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اس فلم کے ایک جنگی ترانے نے مقبولیت کا وہ مقام حاصل کیا کہ اسے پاک فوج کے بینڈ کی سرکاری دھن قرار دے دیا گیا ۔یہ نغمہ طفیل ؔ ہوشیار پوری نے لکھا اور موسیقار رشید عطرے نے دی ۔اس کو گلوکار عنایت حسین بھٹی (12جنوری 1928 سے 31 مئی 1999 )نے ایک زبردست ولولے اور جوش کے ساتھ گایا:
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر اللہ اکبر
سلور جوبلی فلم ’’ سلطنت ‘‘ جمعہ 19 اگست 1960 کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں موسیقار بابا جی اے چشتی ( 17 اگست 1905 سے 25 دسمبر 1994) کی دھن پر صوفی غلام مصطفےٰ تنسم ( 4 اگست 1899 سے 7 فروری 1978 )کا لکھا ہوا جنگی گیت بہت مقبول ہوا۔اسے آئرین پروین، عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں نے ریکارڈ کروایا:
قدم بڑھاؤ ساتھیو قدم بڑھاؤ
تم وطن کے شیر ہو شیر ہو دلیر ہو
حب الوطنی پر مبنی فلمساز شیخ لطیف اور ہدیتکار رفیق رضوی کی سپر ہٹ فلم ’’ بیداری‘‘ جمعہ6دسمبر 1957 کو ریلیز ہوئی۔موسیقاراُستاد فتح علی خان اور نغمہ نگار فیاضؔ ہاشمی ( 1920 سے نومبر 2011 ) تھے۔مذکورہ فلم کے تین ملّی نغمات تھے جو آج تک مقبول ہیں:
آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
اس ملّی نغمے میں آوازیں سلیم رضا ( 7 جولائی 1932 سے 23 نومبر 1983 ) اور ساتھیوں کی ہیں۔
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظمؒ تیرا احسان ہے احسان
یہ ملّی نغمہ منور سلطانہ اور ساتھیوں کی آوازوں میں ہے۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
آواز سلیم رضا۔
جمعہ 10 ستمبر 1965کو بھارت کے ساتھ حالتِ جنگ میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی سلور جوبلی فلم ’’ مجاہد ‘‘ کے ایک ملّی نغمے نے تو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔خلیل احمد ( 3 مارچ 1936 سے 22جولائی 1997) کی موسیقی میں حمایتؔ علی شاعر کا یہ گیت مسعود رانا اور شوکت علی نے ریکارڈ کروایا تھا:
ساتھیو مجاہدو
جاگ اٹھا ہے سارا وطن
مسعود رانا کو اِس نغمہ پر بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔
جمعہ 12 دسمبر 1969کو فلمساز و ہدایتکار اے جے کاردار کی فلم ’’ قسم اُس وقت کی‘‘ ریلیز ہو ئی۔اس فلم کا ایک ملّی نغمہ بہت پسند کیا گیا جسے جوشؔ ملیح آبادی( 1898 سے 1982 ) نے لکھا اور موسیقی سہیل رعنا کی :
قسم اُس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے
ہمارے ہاتھ سے دنیا نئے سانچے میں ڈھلتی ہے
اس گیت کو مجسم جذبے اور بھرپور تاثر کے ساتھ مجیب عالم ( ستمبر 1948 سے جون 2004)نے ریکارڈ کرایا۔میری رائے میں مجیب عالم کی خالص پلے بیک سنگنگ آواز تھی۔ مجھے اُن کے ساتھ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کا ایک پروگرام ’’ آواز و انداز ‘‘ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
ملّی نغمات کو شاعر ایک خاص جذبے اور کیفیت میں آ کر لکھتے ہیں۔ جیسے مہدی حسن ( 1927 سے 2012 ) کی آواز میں کلیم ؔ عثمانی کا مندرجہ ذیل نغمہ جس کی دھُن نثار بزمی نے بنائی :
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
اِن سطور کو پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے اِس ملّی نغمے کا پس منظر بیان کرتا ہوں:
ایک مرتبہ موسیقارنثار بزمی ( 1924 سے 2007) کے ہاں کلیم ؔ عثمانی کا ذکر آ گیا تو انہوں نے مجھے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ کہنے لگے: ’’ ایک رو ز فجر کے وقت کلیمؔ عثمانی ( 1928 سے 2000) میرے گھر آئے ۔پوچھا خیریت ‘‘ ؟ جواب دیا ’’ ابھی تھوڑی دیر قبل ادھ سوئی ادھ جاگی کیفیت میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے قائدِ اعظم ؒ کمرے میں غصہ کی حالت میں آئے اور کہ رہے ہیں کہ میرے ملک کا کیا خراب حال کر رکھا ہے؟ تم لوگوں نے تو مایوس ہی کیا ! ہاں! اگر کسی سے اچھی امید ہے تو وہ اس ملک کے بچے ہیں ۔بس تب سے طبیعت سخت مضطرب ہے‘‘۔ بزمی صاحب نے جواب دیا: ’’ قائدؒ نے کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں کہا ۔ سب کو آزما کے دیکھ لیا، اب ان بچوں سے ہی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ بس وہ کچھ ایسا لمحہ تھا کہ بیساختہ کلیم ؔ عثمانی کو ایک خیال سوجھا کہ ’’ تم ہو پاسباں اس کے‘‘۔بس پھر کیا تھا مکھڑا بن گیا۔گویا بانیِ پاکستان اس ملک کے بچوں سے کہ رہے ہیں:’’یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے۔۔۔‘‘۔اس طرح سے ریکارڈ وقت میں بے مثال طرز کے ساتھ یہ نغمہ مکمل ہوا۔جس کو پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے اختر وقار عظیم نے پیش کیا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ہر دور میں بچوں ہی سے امید رکھنا چاہیے۔
1980میں گلوکار محمد افراہیم کی آواز میں اسد محمد خان کا لکھا اور سہیل رعنا کی موسیقی میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے یہ ملّی نغمہ نشر ہو کے عوام میں بہت مقبول ہوا:
زمیں کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے
خدا کر ے خدا کرے سدا ہری بھری رہے
مسرور ؔ انور ( 1944 سے 1996 ) پاکستانی فلمی صنعت کے معتبر کہانی، مکالمہ اور گیت نگار ہیں۔1965 کی دوسری پاک بھارت جنگ میں مندرجہ ذیل ملّی نغمہ آج بھی وہی پہلی والی بے ساختگی اور کشش رکھتا ہے :
اپنی جان نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
اِس نغمے کی دھُن اور آواز دونوں مہدی حسن کی ہیں۔
1971 کی تیسری پاک بھارت جنگ کے بعدملکی حالات کو دیکھتے ہوئے قوم کے اندر نیا ولولہ اور جوش پیدا کرنے کے لئے مسرورؔ انور نے سہیل رعنا کی موسیقی میں یہ معرکۃالآراء ملّی گیت لکھا:
سوہنی دھرتی اللہ رکھے
قدم قدم آباد تجھے
اس نغمے کوشہناز بیگم نے ریکارڈ کروایا۔ یہاں مسرورؔ انور نے لفظ ’ سوہنی ‘ کو استعمال کر کے پنجابی ٹَچ دیا جو عوام نے بہت پسند کیا۔یہ ایک نئی جہت قائم ہوئی جس پر چلتے ہوئے جمیل الدین عالیؔ نے یہ نغمہ لکھا:
جیوے جیوے جیوے پاکستان
پاکستان پاکستان جیوے پاکستان
یہاں عالیؔ صاحب نے لفظ ’ جیوے ‘ کا استعمال بہت خوب کیا۔اس گیت کی موسیقی اور آواز بھی سہیل رعنا اور شہناز بیگم کی تھی۔
عالیؔ صاحب نے کئی ایک ملّی نغمات لکھے۔چند کا ذکر :
’’ اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں۔۔۔‘‘ آواز نورجہاں ‘‘ اور ’’ میرا انعام پاکستان، محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان۔۔۔‘‘ ۔ نصرت فتح علی خان کے اِس ملّی نغمے کو بہت پذیرائی ملی۔
مسرورؔ انور کے لکھے کئی ایک مشہور ملّی نغمات ہیں جیسے: ’’ وطن کی مٹی گواہ رہنا۔۔۔‘‘۔اس کو خلیل احمد کی موسیقی میں نیرہ نور نے ریکارڈ کروایا تھا۔’’ جُگ جُگ جیے میرا پیارا وطن ۔۔۔‘‘ ، اسے خلیل احمد کیموسیقی میں ناہید اختر نے گایا۔
صہباؔ اختر (1931 سے 1996 ) نے فلموں میں کافی کم لکھا لیکن جو لکھا اعلیٰ پائے کا لکھا۔اِن کا لکھا ایک ملّی گیت نہ صرف اپنے وقت کا سپر ہِٹ نغمہ تھا بلکہ آج بھی نا ممکن ہے کہ 14 اگست کے موقع پر کوئی اسے بھول جائے:
میں بھی پاکستان ہوں
تو بھی پاکستان ہے
اسے1982 میں سہیل رعنا کی موسیقی میں محمد علی شہکی نے گایا۔صہباؔ اختر بے حد سادا انسان تھے ۔ ایک تذکرہ کرتا چلوں۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے لئے موسیقار کریم شہاب الدین کی دھنوں پر صہباؔ صاحب سے گیت لکھوانے تھے۔ میں اور کریم بھائی لانڈھی میں صہباؔ صاحب کے سرکاری مکان میں گئے۔یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی۔کہنے لگے آؤ میاں باہر فٹ پاتھ پر بیٹھ کر لکھتے ہیں۔کریم بھائی نے جیب سے ماچس کی ڈبیہ نکالی۔اس پر ردہم بجا کر ’ ڈمی بول ‘ اور ’ لا را ۔۔۔لارا ۔۔۔‘ کرنا شروع کیا۔کچھ دیر صہباؔ صاحب خاموش رہے پھر کاغذ پر پنسل دوڑنے لگی اور گیت تیار۔۔۔
یہ پاکستانی فلمی ملّی نغموں کا یہ مختصر احوال 14 اگست کے دن کاحق ادا نہیں کر سکتا۔یہ دن ہماری بہت سی یادوں کو تازہ کرتا ہے۔اسی حوالے سے ہم اپنے سدا بہار ملّی نغموں کا ذکر کر رہے ہیں ۔انگریزی کا ایک محاورہ ہے old is gold مجھے نہیں معلوم کہ اس کا کوئی مترادف اردو زبان کا بھی محاورہ ہے !! بہرحال پرانے نغمات کی کھوج تحقیق کے دوران میں یہ مسلسل یہ سوچتا رہا کہ 80 کی دہائی کے بعد نئے ملّی نغمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مجھے 90کی دہائی میں اور اس کے بعد کوئی ایسا ملّی نغمہ نہ مل سکا جو اِن مذکورہ نغمات کا مقابلہ کر سکے۔ہاں !! نئی صدی میں ایک نیا رحجان ضرور تشکیل پایا کہ پرانے مقبول نغمات کو خواہ وہ فلمی ہوں یا ملّی ۔۔۔ری مکس کیا جائے۔اس طرح نئے ٹیلنٹ میں صرف ’’ آوازوں ‘‘ کا اضافہ ہوا۔وہ شاعر اور موسیقار کہاں گئے جنہوں نے لا زوال شاعری اور دھنیں تخلیق کیں۔یہ وہ شاعر اور موسیقار تھے کہ جنہیں کوئی اکیڈمی یا ادارہ راہنمائی کے لئے میسر نہ تھا۔انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے بے بشمار شاہکار تخلیق کیے۔میں سوچتا ہوں کیا آج خداداد صلاحیتوں کا فقدان ہو گیاہے؟ جبکہ آج کل کئی ادارے فن کی تربیت کر رہے ہیںیا میڈیا کی مخصوص ژخصیات اپنے چہیتوں کے علاوہ کسی اور کو موقع ہی نہیں دینا چاہتیں؟
بہرحال قیامِ پاکستان سے منور سلطانہ کی آواز میں ملّی نغموں کاجو سفر شروع ہوا وہ جاری ہی رہے گالیکن فی زمانہ ہمیں اس معیار کے نغمات بنتے نظر نہیں آتے۔اب نہ وہ آوازیں رہیں نہ شاعر رہے اور نہ ہی موسیقار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 7 اگست کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی
Comments