ترکی کی خود انحصاری اور خود داری۔۔۔ ہمارے لئے ایک سبق
ترکی کی خود انحصاری اور خود داری۔۔۔ ہمارے لئے ایک سبق
تحریر شاہد لطیف
2017 کے امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے عالمی صورتِ حال بتدریج تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکی ریاستیں اور وہاں کے عوام بھی کسی حد تک صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے مضطرب ہیں۔بعض ریاستوں کی اعلیٰ عدالتوں نے داخلہ اور امیگریشن کے صدارتی احکامات کو نہ صرف ماننے سے انکار کر دیا بلکہ ان کو غیر قانونی بھی قرار دیا۔اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک بھی بدلتی ہوئی کھلی امریکی معاندانہ پا لیسی سے پریشان ہیں ۔ صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی ان کی عجیب و غریب پالیسیوں کی توجیہات پیش کرتے رہتے ہیں لیکن اِن کی کوئی تک بھی تو ہو ۔۔۔صدر ٹرمپ کے کئی سرکاری عہدے دار انہی پالیسیوں کی وجہ سے مستعفی ہو گئے۔پھر اِن پالیسیوں نے کئی ایک دوست ممالک کو دوستی کے دائرے سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین کے ممالک، پاکستان اور ایران نے بھی جواباََ اپنا رویہ بدل لیا ہے۔
ترکی سے اللہ جانے صدر ٹرمپ کو کیا بیر ہے حالانکہ ترکی نیٹو کا ایک اہم ملک ہے۔ ترک صدر طیب اردگان کی اقتصادی، تجارتی ، معاشرتی اور سیاسی پالیسیوں کا ترک عوام اور دیگر ممالک میں بے مثال مقبولیت حاصل کرنا اورفلسطین پر اسرائیلی قبضہ پر دوٹوک موقف اختیار کرنا شاید امریکہ کو پسند نہیں آیا۔ ترک امریکہ تنازعہ میں ایک اور عنصر ازمیر شہر کے پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری اینڈریوبر ونسن بھی ہو سکتا ہے۔ ترک حکومت کا کہنا تھا کہ مذکورہ پادری نے 2016 میں اِن کا تختہ الٹنے کی ناکام سازش کے کرتا دھرتا فتح اللہ گولن کی حمایت کی تھی۔انہیں دو سال جیل کی سزا ہوئی ۔اس کے بعد اُن کی ملک سے باہر جانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ازمیر میں واقع ان کے گھر میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ریاست شمالی کیرولینا سے تعلق رکھنے والے پادری پر بے بنیاد الزامات ہیں ۔ ترک حکومت اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ امریکی ریاست پینسلوینیا میں مقیم ترک حکومت کے مطلوب فتح اللہ گولن کے بدلے مذکورہ پادری کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔واشنگٹن حکام نے ترکی پر معاشی دباؤ ڈالتے ہوئے اسٹیل اور ایلومینیم برآمدات پر20 اور 50 فی صد ٹیرف لگا دیا ۔اس پابندی کے بعد سے ترکی کی معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ترکی کرنسی لیرا کی قدر میں سال کے شروع سے اب تک 40 فی صد کمی واقع ہو چکی ہے۔معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسلسل کمی سے ترک معیشت کو بہت مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کے ر جحان سے کاروباری افراد کو سخت نقصان پہنچنے کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا بہت امکان ہے کہ مستقبل قریب میں لیرے کی قدر مزید کم ہو جائے ۔اس صورتِ حال سے یورپی منڈیوں میں بھی خاصی ہلچل نظر آتی ہے۔ ترک امریکی تنازعہ کے اثرات بینکنگ سیکٹر تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔اس پس منظر میں صدر طیب اردگان نے عوام سے کہا کہ ترکوں کے اقتصادی دشمنوں سے وہ خوفزدہ نہ ہوں۔ امریکی ڈالر ہمارا راستہ نہیں روک سکتانیز یہ کہ اب ان کے خلاف ہماری بھی قومی جنگ ہے۔ اپنے اوپر عائد پابندیوں کا بھر پور جواب دیتے ہوئے انہوں نے امریکی الیکٹرانک اشیاء کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ کا آئی فون مارکیٹ میں ہے تو جنوبی کوریا کاسام سنگ بھی ہے ۔پھر ہمارا اپنا وینس اور ویسٹل اسمارٹ فون بھی ہے۔ نیز یہ بھی کہا کہ امریکہ نے معیشت کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے ۔یہ اقتصادی جنگ کا آ غاز ہے جو ہم پر مسلط کی جا رہی ہے۔ لیکن ہم جنگوں سے گھبرا کر نہ اپنے موقف سے ہٹیں گے نہ اب امریکہ کو کوئی رعایت دیں گے۔ ترکی پر عائد اسٹیل اور ایلومینیم ڈیوٹیوں کو دوگنا کرنے کے جواب میں طیب اردگان نے ترک عوام کو کُل امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے ساتھ امریکی مصنوعات کی درآمدی محصولات کو دوگنا کر دیا۔
ہمارے خیال میں ترکی لیرا کا یہ عدم استحکام عارضی ہے جس سے نبٹنے کے لئے ہنگامی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ترکی لیرا کوئی پہلی مرتبہ اس صورتِ حال کا شکار نہیں ہوا۔ 1995 سے 1996 کے دوران اور پھر 1999 سے 2004 میں اس سے بھی بری حالت ہو گئی تھی۔ ماضی میں بھی لیرا عدم استحکام کا شکار ہوا بلکہ ’’ لیروں لیر ‘‘ ہو گیا۔یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی ہے کہ دو مواقع پر ترکی لیرا دینا کی سب سے زیادہ بے وقعت کرنسی بن کر رہ گیا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ معاشی طور پر مقروض ملک خواہ کتنا ہی آزاد ہو وہ ہمیشہ ’’ قرض دینے ‘‘ والے کے اشاروں پر نہ چاہتے ہوئے بھی چلتا ہے۔ اور اگر کبھی وہ اپنی ’’ من مانی ‘‘ کی کوشش کرے تو سب سے موثر ہتھیار ’’ اُس کو دیا گیا قرض‘‘ ہی ہوتا ہے۔ پھر جلد ہی من مانی کرنے والی حکومتیں واپس اپنی ’’ جی حضوری ‘‘پر آ جاتی ہیں یا اپنے ہی ملک میں بے آ برو ہو کر عبرت کا نشان بن جاتی ہیں ۔پھر نئے گماشتے حکومت میں آ جاتے ہیں اور یہ غلامانہ چکر چلتا ہی رہتا ہے۔یہی دو مرتبہ ترکی کے ساتھ ہوا۔ لیکن آفرین ہے موجودہ صدر طیب اردگان پر کہ انہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر خارجی اور اقتصادی دباؤ کے باوجود سر اُٹھا کر جینے کا عزم کر لیا ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ’’ ایک در بند تو سو در کھُلے ‘‘۔صدر ظیب اردگان نے اِس پر عمل کیا۔تجارتی اعتبار سے ڈالر کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن متبادل ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔صرف انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ملک کی معیشت کا ایک قابلِ قدر حصہ تجارت یعنی درآمدات و برآمدات ہے۔اسی لئے ترک صدر نے اپنی تجارت کے لئے دوسرے ممالک کو دعوت دی ۔انہوں نے روس، ایران اور دیگر کو تجویز پیش کی کہ ہم آپش میں اپنی مقامی کرنسی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں تا کہ ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کیا جا سکے۔اس تجویز پر روس کے صدر نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا اور امید ہے نئی تجارتی پالیسیوں کے ساتھ ترکی بہت جلد اپنی گرتی معیشت کو سنبھال لے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران ہی اپنے ملک کو عزت دلواتے ہیں اور وہی اسے ذلّت کی پستیوں میں گراتے ہیں۔عوام کا کردار صرف انتخاب کی حد تک ہے پھر یہ حکمران کا کام ہے کہ مصیبت و آزمائش میں وہ اپنے عوام کا کس طرح حوصلہ بلند رکھتے ہیں۔کیسے خود بھی اپنی آسائشوں کو ختم کرتے ہوئے عوام کے لئے عملی نمونہ بنتے ہیں۔اور ثابت کرتے ہیں کہ ’’ عوام کا فیصلہ‘‘ درست تھا۔اس تمام صورتِ حال کا سامنا پاکستان کو بھی ہے۔ہم بھی ’ دباؤ ‘ میں ہیں۔گو کہ نئی حکومت کو سادہ اکثریت نہیں ملی لیکن اگر ’’ حکمران ‘‘ کسی کے دباؤ میں آئے بغیر ( اندرونی اور بیرونی) پاکستان کو عزت دلانے والا کوئی انقلابی قدم اُٹھاتے ہیں تو یقین کیجئے کراچی سے خیبر تک تمام عوام ان کے ساتھ ہو گی۔بس ترکی والے عزم کی ضرورت ہے
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 18 اگست کے نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ 11 پر کالم " اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔
Comments