ُپی ڈی ایف فائل: آپ کو بھول جائیں ہم ۔۔۔معروف فلمی شاعر تسلیم ؔ فاضلی






آپ کو بھول جائیں ہم ۔۔۔ معروف فلمی شاعر



تسلیم ؔ فاضلی



(1947سے 17 اگست 1982 )

تحریر شاہد لطیف

اظہار انور المعروف تسلیم ؔ فاضلی نے 1947 میں دہلی کے ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے تذکروں میں تاریخِ پیدائش 1941 بھی ملتی ہے۔بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی آنکھ کا تارہ اور لاڈلے تھے۔والد سید مرتضیٰ حسین دعاؔ ڈبایؤی اور دو بڑے بھائی صباؔ فاضلی ( یہ جوانی میں ہی انتقال کر گئے) اور نداؔ فاضلی شاعر اور ادیب تھے۔ اس طرح سے گویا لکھنا لکھانا اور شعر گوئی تسلیم ؔ فاضلی کی گھٹی میں تھی۔ابھی یہ کافی چھوٹے تھے جب ان کو اُس وقت کے جید اہلِ قلم کے پاس اُٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا؛ جیسے شکیل ؔ بدایونی، جگر ؔ مرادآبادی اور جانثار ؔ اختر وغیرہ۔ یہ اور دیگر نامور ادبی شخصیات تسلیم ؔ فاضلی کے والد کے پاس آیا کرتی تھیں۔گھر کی بیٹھک کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے والد اور بھائیوں کے ہمراہ چھوٹے بڑے مشاعروں میں بھی جانا شروع کر دیا۔اِس سب کا بہت خوشگوار اثر ہوا اور تسلیم ؔ فاضلی نے کم عمری ہی میں شعر کہنے شروع کر دیے۔وہ میٹرک کا امتحان دینے کے فوراََ بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے ۔

’’ ہمارابچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا ‘‘ یہ کہانی اُس وقت بھی تھی۔تسلیم ؔ فاضلی کی والدہ کی شدید خواہش تھی کی اُن کا کوئی بچہ تو ڈاکٹر یا انجینئربنے لیکن۔۔۔ تسلیم ؔ فاضلی نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی سے انٹر سائنس پھر اسلام آباد سے فنون میں بی اے کیا۔ اس تمام عرصے شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا البتہ اسلام آباد میں شاعری پر بھرپور توجہ دی اور فلمی دنیا میں جا داخل ہوئے۔


اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو برابرپیدا کیا لیکن کچھ لوگوں کو اللہ کی طرف سے خاص صلاحتیں عطا ہوتی ہیں پھر کامیابی کے لئے اگر قسمت کی یاوری حاصل ہو جائے تو معاملہ سونے پہ سہاگے ہو جاتا ہے۔ تسلیم ؔ فاضلی کے ساتھ یہ سب رہا۔ قسمت جو مہربان ہوئی تو یہ فلمی دنیا کے کرتے دھرتوں کی نظروں میں آ گئے یوں محض 16 سال کی عمر میں ہمایوں مرزا کی فلم ’’ دھوپ چھاؤں‘‘ (1963 ) کے لئے پہلا فلمی گیت لکھا ۔ غلام نبی اور عبد الطیف کی موسیقی میں آواز مسعود رانا کی تھی۔غلام نبی اور عبد الطیف کی جوڑی نے کم کام کیا لیکن جو بھی کیا کمال کا کیا۔ ان کی شاہکار مثال فلم ’’ آگ کا دریا ‘‘ ہے جس کے گیت جوش ؔ ملیح آبادی نے لکھے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں کئی مرتبہ موسیقار غلام نبی کے پاس بیٹھنے کا شرف حاصل رہا ہے۔بہر حال اسی سال پھر فلم ’’ نیلم ‘‘ میں منظور اشرف کی موسیقی میں احمد رشدی کی آواز میں تسلیم ؔ فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت: ’ نہ میں چور نہ چور کا بھائی۔۔۔‘ بہت مقبول ہوا۔واضح ہو کہ اس فلم میں موسیقار نذیر علی، منظور اشرف کے معاون تھے جنہوں نے آگے چل کر خود بھی موسیقار کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔اِس کمتر نے مقدور بھر کوشش کر دیکھی لیکن1963سے آگے چار سال تسلیم ؔ فاضلی کی فلمی مصروفیات کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ ستمبر 1967کو رفیق رضوی کی فلم ’’ پھر صبح ہو گی‘‘ نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ موسیقار ناشاد کی موسیقی میں تسلیم ؔ فاضلی نے اس فلم کے لئے ایک گیت لکھا جسے رونا لیلیٰ نے گایا تھا : ’ دیّا رے دّیا رے کانٹا چبھاپاؤں میں۔۔۔‘ یہ اپنے زمانے کا سپر ہِٹ گیت تھا۔


پھر 1968 کا سال کیا آیا تسلیم ؔ فاضلی نے نہ صرف پچھلے سالوں کی فلمی غیر حاضری پوری کر دی بلکہ اِن کی قسمت کا تارہ دن بہ دن، ماہ بہ ماہ ترقی اور شہرت کی جانب رواں ہو گیا۔پہلے سید شوکت حسین رضوی کی فلم ’’ عاشق‘‘ (1968)    میں موسیقار ناشاد کی دل پذیر موسیقی میں رونا لیلیٰ اور مہدی حسن کی آوازوں میں یہ گیت : ’اے گُلِ نو بہار جھوم، اے دلِ بے قرار جھوم۔۔۔‘‘بہت مقبول ہوا ۔اس گیت کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی دھن میں رونا لیلیٰ کی آواز اور گیت کے بولوں میں واضح خوشی کا تاثر چھلکتا ہے جب کہ اُسی دھن میں مہدی حسن کی آواز اور گیت کے بولوں میں واضح غم ہے۔اس قسم کا کام میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا۔اس گیت کی مقبولیت کے با وجود یہ فلم فلاپ ہو گئی اور اس کے بعد سید صاحب نے پھر کوئی فلم نہیں بنائی۔


اب تو اللہ نے تسلیم ؔ فاضلی کو دولت و شہرت سے مالا مال کر دیا۔ ان کے لکھے گیتوں نے مقبولِ عام ہو کر ایسا جادو کیا کہ فلم نگری کے پنڈت اِن کے پیچھے ہو لئے۔ہر ایک فلم ساز کی کوشش ہوتی کہ تمام نہیں تو کچھ گیت تو اِن سے ضرور لکھوائے جائیں۔پھر بہت جلد ایسا بھی ہوا کہ کیا اداکار اور کیا اداکارائیں ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ تسلیم ؔ فاضلی کا لکھا ایک گیت اُس پر بھی فلمایا جائے۔میری اس بات کی دلیل خود وحید مراد ( 1938سے 1983)کی زندگی کی آخری سلور جوبلی فلم ’’ ہیرو ‘‘ (1985 ) ہے۔وحید مراد نے بہت چاؤ سے تسلیم ؔ فاضلی سے مذکورہ فلم کے گیت لکھوائے تا کہ فلم کو قبولِ عام حاصل ہو سکے۔ لیکن وحید مراد کے دنیا سے جانے کے بعد یہ فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی۔


تسلیم ؔ فاضلی کو تین مرتبہ بہترین گیت نگار کے نگار ایوارڈ حاصل ہوئے:

پہلا ایوارڈفلم ’’شبانہ ‘‘ (1976 ) ، ’ تیرے سوا دنیا میں کچھ بھی نہیں۔۔۔‘ آواز مہدی حسن اور موسیقار ایم اشرف۔
دوسر ا نگار ایوارڈ فلم ’’ آئینہ ‘‘ ( 1977)، ’ مجھے دل سے نہ بھلانا۔۔۔‘ موسیقار روبن گھوش ؛یہ گیت فلم میں 4 مرتبہ اِن آوازوں میں ریکارڈ ہوا: نیرہ نور، مہدی حسن اور مہناز کا دوگانا، عالمگیر اور مہناز کا دوگانا اور مہدی حسن کی آواز۔
تیسرا نگار ایوارڈ فلم ’’ بندش‘‘ ( 1980) ، ’ تجھے دل سے لگا لوں، پلکوں میں چھپا لوں۔۔۔‘ موسیقی روبن گھوش اور آواز مہناز۔


مجھے مشہور فلمی شخصیت علی سفیان آفاقی نے بتایا کہ وہ اپنی ذاتی فلم ’’ آس ‘‘ (1973 )بنا رہے تھے،نثار بزمی موسیقار اور مسرورؔ انور گیت نگار تھے۔کسی وجہ سے مسرورؔ بھائی مصروف ہو گئے تو باہم رضا مندی سے تسلیم ؔ فاضلی کو بلوایا گیا اور منٹوں میں یہ گیت تیار ہو گیا: ’ میری مرضی ، میں تو گاؤں گی۔۔۔ ‘ اس گیت کا پس منظر یہ تھا کہ ہیروئن رات کو گھر والوں کو تنگ کر تی ہے نہ سوتی ہے نہ سونے دیتی ہے۔ تسلیم ؔ فاضلی نے عملاََ یہ سین سُن کر محض چند منٹوں میں پورا گیت بزمی صاحب کے سامنے بیٹھ کر اُن کے مشورے سے لکھ ڈالا۔ یہ گیت انٹر نیٹ پر دستیاب ہے، آپ بھی دیکھئے۔تسلیم ؔ فاضلی کی اِن ہی خصوصیات کی بنا پر مسرورؔ انور کہا کرتے تھے کہ ’’ تسلیم ؔ فاضلی ایسے فاضل ہیں جنہیں تسلیم کیا جا چکا ہے‘‘۔

موسیقار خلیل احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے استاد امانت علی خان کی آواز میں ابنِ انشاء کے گیت : ’ انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو اِس شہر میں جی کا لگانا کیا۔۔۔کی دھن بنائی تھی۔ یہ گیت بہت زیادہ مقبول ہو ا۔فلمسازایس سلیمان کی فلم ’’ طلاق‘‘ ( 1976) میں اسی میٹر، اسی دھن پر موسیقار خلیل احمد نے تسلیم ؔ فاضلی سے یہ گیت لکھوایا: ’ قدموں میں تیرے جینا مرنا اب دور یہاں سے جانا کیا۔۔۔‘ اسے ملکہ ترنم نورجہاں نے صدا بند کروایا۔اتفاق دیکھئے کہ یہ گیت بھی ٹیلی وژن والے گیت کی طرح عوام میں خاصا مقبول ہوا۔اِس پر ابنِ انشاء بہت ناراض ہوئے اور روزنامہ جنگ کراچی میں اپنے کالم میں یہ شعر لکھ کر دل کا حال بیان کیا: ’ اے یار، یار جانی یہ دیس ہے ٹھگوں کا، یاں اک نگاہ چوکی اور مال دوسرے کا‘‘۔ فلمی حلقوں میں بھی یہ بحث چھڑی۔۔۔ میری رائے کے مطابق گیت ’ انشاء جی اٹھو۔۔۔‘ جتنا ابنِ انشاء کا ہے اتنا ہی موسیقار خلیل احمد کا بھی ہے۔اگر گیت کے بول ابنِ انشاء کے تھے تو دھن خلیل احمد کی تھی۔رہی بات بالکل اُسی ’’ میٹر / بحر ‘‘ پردوسرے شاعر سے بول لکھوانے کی تو یہ لکھوایا جا سکتا تھا کیوں کہ موسیقار ایک ہی تھا۔ اِسی ایک کالم کے بعد ابنِ انشاء نے شاید دوبارہ اس بات کا شکوہ نہیں کیا۔اس تمام قصے میں کسی کی جرا ت نہیں ہوئی کہ وہ مادام نورجہاں سے پوچھتا کہ انہوں نے تسلیمؔ ؔ فاضلی کا یہ گیت کیوں صدا بند کرایا؟


اب تسلیم ؔ فاضلی کے چند مقبول گیتوں کا ذکر :

فلم "میرا نام ہے محبت " (1975) :  ' یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم۔۔۔ ٗ آواز مہدی حسن اور موسیقار ایم اشرف تھے۔
فلم "آئینہ " ( 1977) : ْ مجھے دل سے نہ بھلانا۔۔۔ '۔آوازیں نیرہ نور، مہدی حسن، مہدی حسن اور مہناز، مہناز اور عالمگیر ۔موسیقار  روبن گھوش۔
فلم "افشاں (1971 ):  ْ خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے ۔۔۔ '۔ آواز
مہدی حسن اور نور جہاں کے الگ الگ گیت ۔ موسیقار ناشاد ۔
فلم " زینت " ( 1975 ) :  ' رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے ۔۔۔ ' آواز مہدی حسن ۔موسیقار  ناشاد۔
فلم "بندش "( 1980 ) : ' سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جانِ من ۔۔۔ ' آواز
اخلاق احمد۔موسیقار  روبن گھوش ۔
فلم "انصاف اور قانون"(1971 ) : ' سو برس کی زندگی میں ایک پَل تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل ۔۔۔ ' آواز مہدی حسن ۔ موسیقار ایم اشرف۔
فلم " من کی جیت" (1972 ) : '  دِنوادِنوا میں گِنوں کب آئیں گے سانوریا۔۔۔ ' آوازرونا لیلیٰ اور موسیقی ایم اشرف۔
فلم " میرے حضور " ( 1977) ' ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبومہک رہی ہے۔۔۔ ' آوازیں: مہدی حسن اور نورجہاں نے الگ الگ گایا۔موسیقار ایم اشرف۔
فلم "دامن اور چنگاری " ( 1973) ' ہمارے دل سے مت کھیلو ،کھلونا ٹوٹ جائے گا۔۔۔'۔ آواز  مہدی حسن، موسیقار  ایم اشرف۔
فلم "تم ملے پیار ملا" (1969 ) ' آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں۔۔۔'
مہدی حسن اور نورجہاں کا دوگانا ۔موسیقی ناشاد ۔
فلم "شمع " (1974 ) ' کسی مہرباں نے آ کر میری زندگی سجا دی۔۔۔ ' آواز  ناہید اختر  اور موسیقی ایم اشرف۔

خاکسار کی تحقیق کے مطابق فلم ’’ من کی جیت ‘‘ (1972 ) کے فوراََ بعد کیا چھوٹے کیا بڑے فلمساز، سب تسلیم ؔ فاضلی سے اپنی فلموں میں گیت لکھوانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔شباب پروڈکشن کی فلموں میں اِن کے گیتوں نے چار چاند لگا دیے اور فلم ’’ میرا نام ہے محبت‘‘ کے گیتوں نے تسلیم ؔ فاضلی کو صفِ اوّل کے گیت نگاروں میں شامل کروا لیا۔ بیشک یہ اللہ کی عطا تھی اور اِن کی عاجزانہ فطری انکساری بھی اللہ کی ودیعت تھی جس کی بدولت انہوں نے 1963سے1982تک کے فلمی سفر میں ایک خصوصی مقام پایا ۔ فلم نگری میں دولت اتنا دماغ خراب نہیں کرتی جتنا شہرت کرتی ہے ۔ فلمی نگار خانوں میں ان کا طوطی بولتا تھا اور عوام کے دلوں میں یہ مقبول ترین تھے لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ تسلیم ؔ فاضلی کی عاجزی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔

چونکہ تسلیم ؔ فاضلی کا شعبہ شاعری تھا لہٰذا فلم سے ہٹ کر بھی کچھ نمونہء کلام پیش ہے:

آؤ جانچ لیتے ہیں درد کے ترازو پر
کِس کا غم کہاں تک ہے شدتیں کہاں تک ہیں
کچھ عزیز لوگوں سے پوچھنا تو پڑتا ہے
آج کل محبت کی قیمتیں کہاں تک ہیں

گزر چلی دبے پاؤں شامِ عید
خیالِ یار جو آیا تو آنکھ بھر آئی

لفظ ٹوٹے لبِ اظہار تک آتے آتے
مر گئے ہم تیرے معیار تک آتے آتے
ہم سمجھتے تھے کہ کچھ وقت لگے گا شاید
اک انکار کو اقرار تک آتے آتے
ایک لمحے کی مسافت بھی بڑی ہوتی ہے
ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے

میری تباہیوں میں تیرا ہاتھ ہے مگر
میں سب سے کہہ رہا ہوں مقدر کی بات ہے

اپنے ہی سائے سے ہر دم لرز جاتا ہوں
راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے
کتنے ناداں ہیں تیرے بھولنے والے کہ تجھے
یاد کرنے کے لئے عمر پڑی ہو جیسے

مجھے بھی گانے اور بجانے کا شوق ہے۔یہ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ کیا پاکستان ، کیا افریقہ اور کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ، میں نے جہاں جہاں موسیقی کے پروگرام کیے وہاں ایک بھی ایسا پروگرام نہ تھا جہاں کسی نے مندرجہ ذیل گیت نہ گایا ہو۔اگر میں نے بھی کبھی گیت سنائے تو یہ گیت ضرور سنایا۔اور تو اور جنوبی ایشیا یعنی پاکستان، بھارت بنگلہ دیش کے افراد کی گھریلو محافل جیسے فیملی گیٹ ٹو گیدر ، سالگرہ، ڈھولکی یا مہندی کے موقع پر لڑکیاں اور مقبول گیتوں کے ساتھ یہ ضرور گاتی تھیں:

رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
پہلے جاں، پھر جانِ جاں پھر جانِ جانا ں ہو گئے
پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلف مٹ گئے
آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے


پاکستانی فلمی صنعت کی ایسی کئی معروف شخصیات ہیں جن سے میری ملاقات نہ ہو سکی۔ لیکن یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اُن کے ساتھ کام کرنے والوں کا ساتھ رہا۔ اس طرح اُن گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے سے خود اُن ہستیوں کے ساتھ بھی خاصی شناسائی پیدا ہو گئی۔ ایک ایسا ہی معلومات کا سرچشمہ علی سفیان آفاقی بھی تھے۔ 


میں 2009 سے2011 کے درمیان لاہور کے ایک نجی ٹیلی وژن چینل سے منسلک رہا ، اتفاق سے یہ نوائے وقت گروپ کے ہفت روزہ فیملی میگزین کے دفتر کے قریب واقع تھا۔جس روز پرچہ پریس میں جاتا میں اُس دوپہر اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر دلچسپی سے اُن کی باتیں سُنتا ۔ تسلیم ؔ فاضلی اور اداکارہ نشو کی شادی، پھر اس کی ناکامی پر بھی کافی گفتگو ہوئی؛ لیجئے میں اُس کا نچوڑ پیش کرتا ہوں۔


شعری ذوق اور تاش کا کھیل ’ بِریج ‘ اداکارہ نشو اور تسلیم ؔ فاضلی کے مشترک شوق تھے۔ فرصت کے اوقات کبھی کبھار محافل جم جاتیں۔لیکن جب بات مزید آگے بڑھی تو تسلیم ؔ کے مخلص ساتھیوں نے آنے والے حالات سے انہیں خبردار کر دیا۔نشو کے پہلے شوہر انعام ربّانی بیوی اور بچی ( صاحبہ) کو پاکستان میں چھوڑ کر ملک سے باہر تھے ۔ مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد بالآخر نشو نے طلاق لے لی۔ اب جب تسلیم ؔ فاضلی نے نشو کی شادی کا سوچاتو اُن کے خاندان نے سخت ترین مخالفت کی۔گو کہ تسلیم ؔ ؔ فاضلی اور بڑے بھائی ( بھارتی فلمی صنعت کے معروف گیت نگار ندا ؔ فاضلی) کا اوڑھنا بچھونا ہی فلمی صنعت تھی لیکن پھر بھی تسلیم ؔ کے خاندان نے شادی کے بعد بھی اس رشتے کی مخالفت جاری رکھی۔فلمی صنعت سے وابستگی جتنی نشو کے لئے باعثِ نفرت اور بری تھی منطق کے لحاظ سے تسلیم ؔ اور نداؔ کے لئے بھی اتنی ہی بری اور قابلِ نفرت ہونا چاہیے تھی۔جو چیز نشوکے لئے بری وہ اِن کے لئے کیسے اچھی ہو گئی؟ یہ تو کھلی منافقت تھی۔ 


جب اِن کی بیٹی ( مدیحہ) پیدا ہو ئی تو بجائے امن کے ، مخالفت مزید بڑھ گئی ۔یہاں دو نکات بہت اہم ہیں: پہلا یہ کہ نشو اداکارہ کی حیثیت سے ایک فلمی شاعر سے بہت زیادہ معاوضے پر کام کرتی تھی۔ نشو کا ہاتھ اور اخراجات بھی اسی حساب سے لمبے چوڑے تھے۔ دوسری بات یہ کہ تسلیم فاضلیؔ اپنے خاندان والوں کو بہتر سمجھتے تھے۔انہیں یا تو یہ شادی کرنا ہی نہیں چاہیے تھی اور جب کر ہی لی تھی تو پھر ہر قیمت پر نشو سے نبھانے کو کوشش کرتے اور خاندانی دباؤ برداشت کرتے۔لیکن لگتا ہے کہ وہ شاید سب کو خوش رکھنے کے چکر میں چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہ گئے۔ا س کہانی کا جوانجام ہوا وہ تو ہونا ہی تھا۔اِس ناکام شادی میں نشو کو قصور وار ٹہرانا بالکل غلط ہے۔ خود تسلیم ؔ ؔ فاضلی نے اپنی خاندانی پیچیدگیوں کے سامنے پسپائی اختیار کی۔اس طرح نشو اپنی بچی ( مدیحہ) تسلیم ؔ فاضلی کے خاندان کے حوالے کر کے واپس گجرات چلی گئی۔ 


کون جانتا تھا کہ 1969میں لکھے گئے یہ اشعار آخر زمانے میں خود اُن کے حالات پر صادر آ ئیں گے:

آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں
آپ سے کیا گلہ کریں آپ سے کچھ گلہ نہیں
ہم تو سمجھ رہے تھے یہ تم ملے پیار مل گیا
اِک تیرے درد کے سوا ہم کو تو کچھ ملا نہیں
شیشہء دل کو توڑنا اُن کا تو ایک کھیل تھا
ہم سے ہی بھول ہو گئی اُن کی کوئی خطا نہیں
کاش وہ اپنے غم مجھے دے دے تو کچھ سکوں ملے
وہ کتنا بد نصیب ہے غم ہی جسے ملا نہیں
جرم ہے گر وفا تو کیا ، کیوں بے وفا کو چھوڑ دوں
کہتے ہیں اس گناہ کی ہوتی کوئی سزا نہیں


وہ اِن کی زندگی سے تو چلی گئی لیکن دل سے نہ جا سکی۔ دل بھی کس کا ۔۔۔شاعر کا ! ! اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مزید دل کو نہ سنبھال سکے۔۔۔ دل کی باتیں دل ہی میں رہ گئیں اور محض 35 سال کی عمر میں اپنی مقبولیت اور فلمی سفر کے عین عروج میں یہ حقیقی وارداتِ قلبی برداشت نہ کر تے ہوئے 17 اگست 1982 کو راہی عدم ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اختتام






 

Comments

Popular posts from this blog