اتنا نہ بڑھا پاکیء داماں کی حکایت




اتنا نہ بڑھا پاکیء داماں کی حکایت

تحریر شاہد لطیف

محاورے اور ضرب الامثال ایسے ہی نہیں بن جا تے، اِن کے پیچھے کوئی کہانی یا واقعہ ہوا کرتا ہے۔ ایک کہاوت سنتے آئے تھے کہ’ آپ ہی سوال کریں آپ ہی دیں جواب‘ وہ سابقہ وزیرِ اعظم نواز شریف پر صادر آتی ہے۔اُن کی مسلسل چیخ و پکار کہ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کا جواب انہوں نے خود ہی دے دیا۔ شاید انہیں انتظار تھا کہ عدالتِ عالیہ سے تا حیات نا اہلی کے فیصلے کے بعد اپنے سوال’ مجھے کیوں نکالا‘ کا ’ کہیں ‘ سے جواب آ جائے ۔ اب 10ماہ ہونے کو آئے لیکن ’ جِس ‘ موثر جواب کا انتظار تھا وہ نہیں آیا لہٰذا اب سابقہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے اگلے روز خود ہی جواب دے دیا کہ ’ مجھے یوں نکالا‘۔۔۔

اُنہوں نے ایوان فیلڈ ریفرنس میں اپنے بیان کے آخری حصہ میں اِس راز سے پردہ اُٹھایا کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ سے کیوں نکالا۔اُنہوں نے کہا کہ مجھے مشرف غداری کیس چلانے پر نکالا ۔اب حقائق کیا ہیں؟ سابقہ وزیرِ اعظم کے نیب عدالت میں دیے گئے الزامی وعوےٰ کا جواب کون دے گا؟ دوسرے الفاظ میں اب انہوں نے فوج اور سول حکومت کے ما بین ایک نیا جھگڑا کھڑا کر دیا۔اس طرح وہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں اپنی مظلومیت جتلا کرعوام میں مقبولیت مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور شاید غیر ملکی ’ دوستوں ‘ کو وہ پیغام دینا چاہتے ہیں جو گرتی ہوئی پاکستانی حکومتیں عرصہ سے کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اب تو عوام بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ جب ’آپ ‘ کے پاس اختیارات تھے تب آپ نے اسٹیبلشمنٹ کو نکیل کیوں نہیں ڈالی؟ یہ کہنا کہ پارلیمان ہی سُپریم ہے اور تمام دیگر ادارے یعنی فوج اور عدلیہ اس کے ماتحت ہونے چاہیں تو کیا آپ کے پاس کوئی ٹھوس دلیل ہے ۔۔۔ یہ پہلے تو ٹھیک تھے لیکن وزیرِ اعظم کی نااہلی کے بعد ٹھیک نہیں رہے ! 

نواز شریف نے الزام لگایا کہ انہیں پرویز مشرف کے آئین توڑنے پر غدّاری کا مقدمہ چلانے پر گھر بھیجاگیا اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ذریعے قائل کروانے کی کوشش کی گئی کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ڈالو ! پھر ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی معرفت ایک معروف غیر سیاسی شخصیت کے ذریعے اُس وقت کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو اشارہ دیا گیا کہ وہ نواز شریف سے کہیں کہ وہ لمبی رخصت پر چلے جائیں یا پھر اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ اس پیشکش کے نہ ماننے پر 126 دن کے دھرنے کے ذریعے وفاق کی علامت، اسلام آباد کو مفلوج کر دیا گیا۔نواز شریف کی عدالت اور پریس کانفرنس کے خاص نکات کا اختصار یہ ہے کہ 2013 اور 2015 کے عرصے میں کچھ ’ قوتیں‘ وزیرِ اعظم کے اقتدار میں رکاوٹیں ڈالتی رہیں اس کا ایک شاخسانہ وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کا ہٹایا جانا ہے جنہوں نے مذکورہ دھرنے کے پیچھے ایک انٹیلی جنس کے سربراہ کا نام لیا تھا۔ بعد میں وزیرِ اعظم کے دیرینہ رفیق پرویز رشید اور طارق فاطمی کو ڈان لیکس کی وجہ سے گھر جانا پڑا۔یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن اس کے بعد۔۔۔اس کے بعد پانامہ لیکس کا غوغا ہوا۔اس قصہ میں نواز شریف کا نام نہیں تھا،پھر بھی اُنہوں نے خود اور اپنے خاندان کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا کہ ڈھونڈھ لو اگر کوئی کرپشن یا منی لانڈرنگ کی ہو! اِس طرح خود ایک مشکل گلے میں ڈال لی۔پھر ایک ادارے کے بعد دوسرا ادارہ جے آئی ٹی یعنی جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم میں شامل ہوتا چلا گیا۔جب وقت کا پہیہ گھوما تو وزیرِ اعظم گھر جا چکے تھے۔ پاکستان میں یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ہاں البتہ ایک کام نیا ہوا ہے وہ یہ کہ نواز شریف اپنی اقتدار سے بیدخلی کو عوامی میدان میں چیلنج کر رہے ہیں۔ اور بقول اُن کی میڈیا ٹیم کے وہ اُن قوتوں کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے جناب خواجہ ناظم الدین سے لے کرنواز شریف تک کو حکومتی مدت پوری کئے بغیر گھر بھیجا۔

پچھلے دنوں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے رفقاء کے تیز و تند بیانات سے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ (ن) لیگ اپنی تمام کشتیاں جلا چکی۔اب واپسی کا راستہ بند ہو چکا۔کسی چیز کی جستجو کرنا اور کوشش کرتے رہنا ہر شخص کا حق ہے، اب (ن) لیگ اگر آنے والے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرے ،( جو ہوتا تو دکھائی نہیں دیتا) اور پارلیمان سے نواز شریف کی تاحیات نا اہلی ختم کرائے تب ہی وہ وزارتِ عظمیٰ پر براجمان ہوں گے۔ جس تیزی سے (ن) لیگی ارکانِ اسمبلی پی ٹی آئی میں داخل ہو رہے ہیں وہ اِس لیگ میں پھیلی بے چینی ظاہر کرتی ہے۔جانے والوں میں زیادہ تر وہ ارکان ہیں جنہیں دورِ اقتدار میں نواز شریف نے ملاقات کا وقت بھی نہیں دیا تھا۔

بہرحال سابق وزیرِ اعظم کی یہ پریس کانفرنس ملک کے سیکورٹی اداروں سے براہِ راست ٹکراؤ ہے، اور اسے سرکاری طور پر (ن) لیگ کا موقف مانا جا رہا ہے۔یہ ملک کے اداروں اور خود ملک کی یک جہتی کے لئے نقصان دہ ہے۔ہمارے لیڈران کو اپنی ’ ذات‘ اور ’ انا‘ سے باہر آنا چاہیے۔پاکستان پہلے ہی کئی طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہے، بھارتی سرحدوں سے آئے دن نہتے شہریوں کو بلا وجہ کی گولہ باری سے شہید کیا جا رہا ہے، ملک میں ہونے والی دہشت گردی ، بھارت کا ہمارے دریاؤں کا پانی روکنا، کمزور سفارتکاری اور امریکہ سے تعلقات کے الجھاؤ کیا کم ہیں جو اب فوج کو بھی سیاسی بیانات میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔اگر نواز شریف کی حمایت میں کچھ اور آوازیں ہم نوا ہوتی ہیں تو یہ مستحسن اقدام نہیں ہو گا۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ! مبینہ پریس کانفرنس میں نواز شریف نے ایک دلیل پیش کی کہ نیب کی کثیر پیشیوں میں استغاثہ کے وکیل اور گواہان اُن پر کوئی ایک الزام بھی ثابت نہ کر سکے لہٰذا۔۔۔ دوسری طرف آصف علی زرداری سات سال جیل میں رہے اور اُن پر ایک الزام بھی ثابت نہ ہو سکا۔۔۔

دو صدی پہلے شیفتہؔ مصطفےٰ خان آج کے حالات کی پیشن گوئی کر گئے تھے:
                         اتنا نہ بڑھا پاکیء داماں کی حکایت
                        دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 26 مئی2018، بروز سنیچر روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے بیک وقت کالم ' اُلٹ پھیر ' میں شائع ہوئی۔

















 

Comments

Popular posts from this blog