جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں ۔۔۔ گلوکار شرافت علی خان




جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں ۔۔۔

گلوکار شرافت علی خان
(16 اگست 1924 سے 17 اپریل 1991)

تحریر شاہد لطیف

سُپر ہٹ فلم ’ وعدہ‘ 1957میں نمائش کے لئے پیش ہوئی جس کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکار وحید الدین ضیاء الدین احمد المعروف ڈبلیو۔زیڈ۔ احمد تھے۔اِس فلم کو مقبول بنانے میں ایک گیت کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔یہ سدا بہار گیت، سیف الدین سیفؔ کی نظم ہے جسے موسیقار رشید عطرے کی موسیقی میں گلوکار شرافت علی نے صدا بند کرایا ۔آج 59 سال بعد بھی یہ اسی طرح ترو تازہ ہے ۔ نظم/ گیت کے بول ہیں : ’’ جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں ۔۔۔‘‘اسی فلم میں گلوکارہ کوثر پروین اور شرافت علی خان کا دوگانا:’’ بار بار برسیں مورے نین۔۔۔‘‘ بھی بہت مقبول ہو ا ۔

شرافت بھائی سے خاکسار کی بھی ملاقات رہی۔وہ ایسے کہ جامعہ کراچی میں میرے ساتھ اُن کے ایک صاحبزادے لیاقت علی خان پڑھا کرتے تھے لہٰذا لیاقت کے ہاں کبھی کبھار اِن سے ملاقاتیں ہو جایا کرتی تھیں۔ اُن کا قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا تھا۔مضبوط ڈیل ڈول ، خوش مزاج اور محبت بھرے انسان تھے۔ مجھے موسیقی کا شوق تھا ،نئے پرانے گانے ازبر تھے، جب کبھی لیاقت کے گھر جاتا اور ان کے والد سے ملاقات ہوتی تو مجال ہے کبھی اُنہوں نے روکھے پن یا بڑائی کا اظہار کیا ہو ۔۔۔ہمیشہ مسکراتے ہوئے خوشی سے ملتے ۔ 

شرافت علی رامپور کے ایک معزز گھرانے میں 16 اگست 1924کو پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے علی گڑھ سے ایم۔ایس۔سی کیمسٹری کی سند لی۔ زمانہ طالبِ علمی میں تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ موسیقی کی خدا داد صلاحیت کے ساتھ اللہ نے اچھی آواز بھی عطا کی تھی۔ علی گڑھ میں اس صلاحیت کو سامنے آنے کا موقع ملا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آل انڈیا ریڈیو میں ’ اے گریڈ ‘ گلوکار کا درجہ حاصل کر لیا ۔ 1948 میں اکیلے لاہور، پاکستان ہجرت کی جہاں اُنہوں نے دواؤں کی تقسیم کا کاروبار شروع کیا۔ 1954میں اپنے والدین سے ملنے ہندوستان گئے۔اُس وقت سہراب مودی فلم ’ مرزا غالب ‘ بنا رہے تھے۔اُنہوں نے شرافت علی کو اِس فلم کے لئے ایک غزل ریکارڈ کرانے کی دعوت دی : ’’ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے۔۔۔‘‘۔

حافظ محمدعثمان نے ایک طویل عرصہ شرافت بھائی کے ساتھ طبلے پر سنگت کی، مجھے اس دورہ ء ہندوستان سے متعلق اُنہوں نے بتا یا : ’’ 1954 میں شرافت بھائی کم وبیش چھ ماہ بمبئی رہے جہاں اُنہوں نے نامور موسیقار سجادحُسین کے معاون کے طور پر کام کیا‘‘۔ یہاں میں بتاتا چلوں کہ سجاد صاحب بہت اکھڑ، تیز مزاج اور قوتِ برداشت میں بہت کم تھے۔اِن کے ساتھ چھ ماہ گزارنا کوئی معمولی واقعہ ہر گز نہیں ۔ وہ ایک بہت قابل موسیقار تھے اور اپنے سے بڑھ کر کسی کو نہیں مانتے تھے۔ اِن کی موسیقی کی ایک مِثال:’’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی۔۔۔‘‘ بھارتی فلم ’ سنگدل ‘ کا مشہور گیت ہے۔’’چھ ماہ جلد ہی گزر گئے ۔ سجاد حسین، شرافت علی کو بمبئی میں روکنا چاہتے تھے۔ مزید برآں اُن کو گلوکار کی حیثیت سے مزید 5 فلمیں بھی مل گئی تھیں لیکن شرافت بھائی دُھن کے پکے تھے لہٰذا واپس لاہور آ گئے ‘‘۔

پاکستان میں تین سال بعد1957 میں اُن کا گیت : ’’ جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں ۔۔۔‘‘ ہواؤں کے دوش پر ابھرا تو اِس نے ملک میں ہر طرف مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے لیکن اِس کے بعد انہوں نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ آخر اس کی کیا وجہ تھی؟ 

شرافت بھائی کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر ابھی تک پردے پڑے ہوئے تھے۔ قارئین کی نمایندگی کرتے ہوئے میں نے اُن کے بڑے بیٹے صباحت علی خان ، ہم زلف مظہر عالم اور طبلہ نواز عثمان سے رابطہ کیا تا کہ اِن باتوں کی وضاحت ہو سکے۔ تینوں سے گفتگو کرنے کے بعد ایک دھماکہ خیز انکشاف سامنے آیا ۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ فلم وعدہ کی نمائش کے فوراََ بعد مذکورہ فلم کے موسیقار رشید عطرے نے نئی فلم کے لئے شرافت علی سے ایک گیت کی ریہرسل کرائی ۔ جب وہ وقتِ مقررہ پر ریکارڈنگ کے لئے اسٹوڈیو پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اُن کا تیار کیا ہوا گیت سلیم رضا ریکارڈ کرانے کے لئے تیار کھڑے ہیں ۔شرافت بھائی حیران رہ گئے۔۔۔کیا میرے ساتھ سلیم رضا کی بھی ریہرسل ہوتی رہی ہے؟؟؟۔۔۔ جب اِس معاملے کے بارے میں موسیقاررشیدعطرے سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ گیت سلیم رضا بہتر گا سکتا ہے ۔۔۔شرافت بھائی کے صاحبزادے صباحت کا کہنا ہے میرے والد صاحب کہا کرتے تھے: ’’ یہ میری توہین تھی ۔۔۔اُسی لمحے ہمیشہ کے لئے فلموں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔۔۔‘‘۔ رشید عطرے سمجھ گئے کہ شرافت علی ناراض ہو کر چلے گئے ہیں۔۔۔ فوراََ اُن کے پیچھے آدمی دوڑائے ، خود عطرے صاحب بھی اُن کے پاس گئے۔۔۔لیکن پھر شرافت بھائی آخر دم تک اپنے اس فیصلہ پر قائم رہے‘‘۔ طبلہ نواز محمد عثمان نے اس سلسلے میں مجھے بتایا : ’’ شرافت بھائی غصہ کے بہت تیز تھے لیکن تھے معاملہ فہم ، تبھی تو چھ ماہ موسیقار سجاد حسین کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزارے۔وہ کوئی نو آموز گلو کار نہیں تھے کہ گانے کا شوق پورا کرنے کے لئے موسیقار کا ہر نارو ا رویّہ برداشت کریں بلکہ وہ آل انڈیا ریڈیو کے ’ اے گریڈ ‘ گلوکار رہ چکے تھے۔رشید عطرے صاحب کے علاوہ کئی دوسرے موسیقار بھی اُن کو ڈھونڈتے پھر ے لیکن وہ پھر دوبارہ فلموں کی گلوکاری کے لئے رضا مند نہیں ہوئے‘‘۔ 

خاکسار کی تحقیق کے مطابق فلموں میں گانا نہ گانے کے فیصلے کے بعد بھی اُنہوں نے فلمی لوگوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھے البتہ وہ 1958 میں کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے کاروبارکر لیا ۔ ساتھ ہی ریڈیو پاکستان کراچی میں بھی ’ اے گریڈ ‘ گلوکار کی حیثیت سے منسلک ہو گئے ۔ وہ 1958 سے 1981تک ریڈیو پاکستان کراچی سے فعال رہے۔ان کاریڈیو اور ٹیلی وژن کی مشہور شخصیت آغا ناصر سے بھی قریبی تعلق تھا ۔ ریڈیو پاکستان میں میوزیشنوں کے چھوٹے موٹے مسائل حل کروانے میں ہمیشہ مستعد رہا کرتے ۔ اُن کے زمانے کے میوزیشن آج بھی اُن کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ 

جب اُن کی آواز میں فلم وعدہ کا گیت مشہور ہوا تو اُس زمانے میں صرف ریڈیو یا گراموفون ریکارڈہوتے تھے۔اخبارات اپنے فلمی ایڈیشن شائع نہیں کر تے تھے۔ فلمی جرائد بھی خال خال تھے لہٰذا بہت سے لوگ ان کو نہیں پہچانتے تھے ۔اس سلسلے میں یہ دلچسپ قصہ مزے لے لے کر بیان کرتے تھے کہ کئی مرتبہ ایسی محفلوں میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں کوئی اور صاحب بطور ’ شرافت علی‘ ، اُن ہی کا گیت ، سنا رہے ہوتے ۔ آج بھی اُن محفلوں کے بعض چشم دید گواہ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ : ’’ شرافت علی نے کبھی اشارتاََ بھی اس نا پسندیدہ حرکت کا ذکر نہیں کیا ‘‘۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ شرافت علی خان صاحب کھانا بہت عمدہ اور ذائقہ دار بنایا کرتے تھے۔ وہ ہری مرچوں والا قیمہ بہت لاجواب بنایا کرتے تھے۔ طبلہ نوازمحمد عثمان کا کہنا ہے کہ شرافت بھائی کے ہاتھ کا پکا آلو گوشت ذائقے دار ہوا کرتا تھا۔
کہاں گلوکاری کہاں شکار کا شوق وہ بھی شیر کا۔۔۔جی ہاں ! انہوں نے 1940 میں 16 سال کی عمر میں اپنے چچا کے ہمراہ پہلے شیر کا شکار کیا۔اور کچھ ہی عرصہ بعد ایک پاگل ہاتھی بھی جس نے علاقے میں تبا ہی مچا رکھی تھی۔ماشاء اللہ دراز قد اور ہاتھ میں شارٹ گن! بہت سجتی تھی۔ ہمارے ملک کے مشہور اور مستند شکاری، جناب جسیم خان، شرافت علی صاحب کے دوستوں میں سے ہیں۔
                        سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
                        خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 15 مئی 2018 کے روزنامہ نوائے وقت لاہور اور اسلام آباد کے صفحہ فن و ثقافت میں   بیک وقت   شائع ہوئی۔














  

Comments

Popular posts from this blog