بجلی کی ترسیل میں آئے دن کے طویل بریک ڈاؤن۔۔۔کیوں؟





بجلی کی ترسیل میں آئے دن کے طویل بریک ڈاؤن۔۔۔کیوں؟

تحریر شاہد لطیف

بدھ کے روز ملک کے ایک بڑے حصہ میں کئی گھنٹے بجلی کی فراہمی بند رہی جس کے نتیجہ میں تمام نظامِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا۔اس کی وجہ ترسیلی نظام میں فنی خرابی تھی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، خطرہ کی گھنٹی ہے کہ ایک مہینے میں دو مرتبہ ملک گیر بجلی کی ترسیل کا بریک ڈاؤن ہو گیا ۔ معلومات کیں تو ذرائع نے بتایا کہ مختلف گرڈ اسٹیشنوں پر اچانک نظام میں ہو جانے والی کسی بھی بے قاعدگی یاتکنیکی خرابی کو وہیں کے وہیں روکنے والا وہ خود کار حفاظتی دفاعی طریقہ سرے سے موجود ہی نہیں جس سے ’ قومی گرِڈ ‘ پر پڑنے والے بوجھ کے خاتمے کی کوئی تدبیر کی جاتی۔اِس سے اس دعوےٰ کی بھی قلعی کھل گئی کہ ’ نظام کی اَپ گریڈیشن‘ اور اصلاحات کر دی گئی ہیں۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاور سیکٹر میں مانیٹرینگ سمیت تکنیکی عملہ کی اہلیت اور فعالیت کے معاملات شرمناک حد تک کمزور ہیں لہٰذا یہ بھرتیاں سنگین اور مجرمانہ ہیں۔

بجلی کا پورا نظام اب تک نا قابلِ بیان پیچیدگی کا شکار ہے ، لہٰذا خاکسار کے نزدیک’’ بریک ڈاؤن ‘‘ کی حقیقتت ،تحقیق طلب ہے۔ بجلی کے پورے نظام سے مراد بجلی کا پیدا کیا جانا، اُس کی تقسیم اور لوڈ مینیجمنٹ ہے۔ کہیں سے بھی سرا پکڑیں کوئی کام قاعدے کا نہیں ہو رہا۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ بدھ کو گدو مظفر گڑھ ٹرانسمشن لائن ’ ٹِرِپ‘ کر گئی، جس سے ’ فریکوئنسی ‘ میں اتار چڑھاؤ آ گیا اوراس کے نتیجہ میں تربیلا، منگلااور غازی بروتھا کی سپلائی لائنیں بھی ٹِرِپ کر گئیں۔ اس طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا کو بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے خود کار حفاظتی نظام نے اپنا کام صحیح کیا۔ مشینیں لاکھ جدید ترین ہوں ، صحیح مشین کا انتخاب اور ان کو لگانا پھر کنٹرول روم میں اہلیت کے حامل افراد کا ڈیوٹی کے دوران موجود ہونا ۔۔۔یہ بھی اہمیت میں ہر گزکم نہیں۔ واپڈا تو ’ سفید ہاتھی‘ ہے ہی لیکن کے۔ الیکٹرک بھی کوئی کم نہیں۔ماضی میں جب یہ کے۔ای۔ایس ۔سی کہلاتی تھی تب میری ایک آنکھوں دیکھی مثال موجود ہے کہ ایک ’منظورِ نظر ‘ افسر کو جدید مشینری لینے جرمنی بھیجا گیا جو خود اپنے منہ سے کہتا تھا ’’میں تو محض گھومنے پھرنے اور سودے میں کمیشن کھرا کرنے گیا ‘‘۔ اب ایسے افسر نے کیا خاک چھان بین کی ہو گی کہ کون سی مشین بہتر ہے ۔

یہ خاکسار اپنے کالموں میں کئی بار کہہ چکا ہے کہ جب تک اہلیت اور قابلیت کو پسِ پشت ڈال کر مخصوص لوگوں کو نوازا جاتا رہے گا ،کوئی کام بھی ڈھنگ کا نہیں ہو گا۔رمضان المبارک کی نام نہاد رمضان نشریات اس کی ایک اور مثال ہیں ۔پچھلے کئی سالوں سے مسلسل بعض نجی ٹی وی چینل رمضان کی سحر و افطار نشریات نامور کھلاڑیوں، اداکار ، ماڈل و اداکاراؤں، گلوکار گلوکاراؤں اور کھلاڑیوں سے کرواتے رہے۔ یہ رمضان کے تقدس کا مذاق ہے۔ افسوس کہ ہم نے دین اور دنیا کو الگ الگ کر دیا ہے۔جو دین کو سمجھتے ہیں وہ عموماََ دنیاوی جھمیلوں سے الگ رہتے ہیں اور جو دنیاوی اعتبار سے کسی بھی میدان میں مہارت حاصل کرتے ہیں وہ دین کو صرف رسمی نماز روزے کی حد تک جانتے ہیں۔ وہ اپنے میدا ن کے ماہر   ہیں لیکن رمضان نشریات کے نام پر وہ اپنی کونسی مہارت دکھاتے ہیں یا دکھا سکتے ہیں !!! کیا ایسے پروگراموں کے پیش کرنے والے اور دیگر ذمہ دار نا اہل نہیں؟ جنہوں نے رمضان نشریات کی روح کو سمجھا ہی نہیں ۔اسی طرح واپڈا کے پاور سیکٹر میں غیر تکنیکی افسر شاہی، ذمہ دارعہدوں پر فائز ہیں۔اِن ہی کی وجہ سے توانائی کا بحران کم ہونے کے بجائے شدید تر ہو گیا ہے۔ ترسیلی نظام میں مزید بہتری نہ لانے سے ہی تو ایک ماہ میں دو بڑے بریک ڈاؤن ہوئے۔کوئی سخت قسم کی انکوائری بیٹھی؟ ۔۔۔نہیں ! کسی کو اس بات کا ذمہ دار ٹہرایا گیا؟۔۔۔نہیں ! کسی اعلی افسر سے پوچھ گچھ کی گئی؟۔۔۔نہیں ! !!

ذرا ئع نے بتایا کہ توانائی ڈویژن میں دو جوائنٹ سیکریٹری پاور سیکٹر کو کنٹرول کر رہے ہیں جو دونوں ہی ’ نان ٹیکنیکل‘ افراد ہیں۔افسر شاہی اسی کو کہتے ہیں۔ یہ اور اس قبیل کے دیگر افسران نے حکومت کی جانب سے بجلی کے شعبے میں اختیار کی گئی ’ کام چلاؤ‘ حکمتِ عملی کی وجہ سے ابھی تک ملک میں بجلی کے جاری بحران پر قابو نہیں پایا۔ٹرانسمشن کے نظام میں ذرہ برابر بہتری نظر نہیں آتی۔اِن غیر تکنیکی افراد کے اعلی عہدوں پر براجمان رہنے سے ان کے ماتحت ماہر انجینئر سخت مایوسی کا شکار ہیں۔یہ اعلی افسران تکنیکی معاملات کی الف ب نہیں جانتے اپنی افسر شاہی کے حصار میں قید رہتے ہیں۔ پاور سیکٹر کے انتظامی ڈھانچے کی تباہی پر عوامی تشویش میں اضافے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے ۔

بدھ کو ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن کے سلسلے میں تربیلا ڈیم کا بھی بار بار ذکر آیا۔ا للہ کا احسان ہے کہ اِس ڈیم کے لئے عالمی بینک سے 1968 اور انٹر نیشنل ڈیویلپمنٹ ایسو سی ایشن بینک سے 1978میں لئے گئے قرضے ستمبر 1981 میں اُتارے جا چکے ہیں ورنہ کوئی بعید نہیں تھی کہ یہ بھی۔۔۔

یہ بند 1960 میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں: راوی، ستلج اور بیاس کے پانی کو بھارت میں دیے جانے کی صورت میں تلافی کے لئے بنایا گیا۔تربیلا ڈیم دنیا کا سب سے بڑا مٹی کا بنایا گیا بند ہے جو 1976میں مکمل ہوا۔اس کا بنیادی مقصد آب پاشی ، سیلاب کو کنٹرول کرنا اور بجلی پیدا کرنا تھا۔ ڈیم میں جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں پانی جمع کیا جاتا ہے جب دریا بھرا ہوا ہوتا ہے۔

ماہرین نے اس بند کی مدتِ حیات کا انداز ہ 50سال لگایا تھا ۔اس کی وجہ کوہِ ہمالیہ سے آنے والا سالانہ 200 ملین ٹن تلچھٹ اور گارا ہے جو دریا اپنے ساتھ لاتا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ جتنی امید کی جا رہی تھی یہ مقدار اُس سے کہیں کم ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ تربیلا ڈیم 85 سال کی عمر پا سکتا ہے۔

عجیب ستم کی بات ہے کہ 1960سے یہ بات تمام حکومتوں کو معلوم تھی کہ ہمارے حصہ میں دریاؤں کاپانی سندھ طاس معاہدے کے تحت کم رہ گیا ہے۔اس کم آبی کی پیش بندی کا کسی نے بھی خیال نہیں کیا۔جو حکمران آئے اپنی اپنی ترجیحات ساتھ لائے ۔ہمارے اصل حکمران یہ افسر شاہی بھی شاہی ٹھاٹھ باٹھ میں رہی۔بڑے بڑے سیکریٹری آئے اور چلے گئے۔۔۔ آب بیتیاں لکھیں لیکن اپنے دور کے صدور یا وزرائے اعظموں کی توجہ پانی کے مسئلہ پر نہ دلا سکے۔

بات ہو رہی تھی حالیہ بجلی کے بریک ڈاؤن پر۔۔۔اس سلسلے میں ذرائع نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے صورتِ حال کا نوٹس لیا ہے۔ میری اِس کمیٹی سے درخواست ہے کہ وہ اربابِ اختیار کو قابلِ عمل سفارشات بھی ارسال کرے تا کہ بجلی کے بحران کو حل کیا جا سکے۔عوام کو حکومتی سطح پر بننے والے کمیشنوں اور اُن کی رپورٹوں پر کبھی بھی اعتماد نہیں ہوتالیکن پھر بھی وہ پاور سیکٹر میں بجلی کی پیدا وار اور تقسیم کے نظام کو شفاف اور غلطی سے پاک دیکھنے کی توقع رکھتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
 یہ تحریر 19 مئی کو روزنامہ نوائے وقت کراچی  کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔  


 

Comments

Popular posts from this blog