پاکستان ٹیلی وژن ، فلم اور اسٹیج گلوکار تمغہ حسنِ کارکردگی یافتہ عالمگیر




پاکستان ٹیلی وژن ، فلم اور اسٹیج گلوکار

تمغہ حسنِ کارکردگی یافتہ

عالمگیر

تحریر شاہد لطیف

پاکستان میں پاپ Pop موسیقی روشناس کرانے والوں میں عالمگیر کا نام سرِ فہرست ہے۔راقم جب پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے 1980 میں منسلک ہوا تو اُس وقت عالمگیر کا نام بن چکا تھا۔فلم ’’ آئینہ‘‘ میں موسیقار روبن گھوش کے ’’ مجھے دل سے نہ بھلانا‘‘ اور مہناز کے ساتھ دوگانا ’ ’ وعدہ کرو ساجنا‘‘ اور علی سفیان آفاقی کی فلم ’’ جاگیر ‘‘ میں بزمی صاحب کی موسیقی میں ’ ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے‘ سُپر ہٹ ہو چکے تھے۔ پھر پی ٹی وی سے بھی اُس کے کئی ایک گیت مشہور ہو چکے تھے۔ سینئیر خاتون پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے ساتھ میں موسیقی کے پروگرام کیا کرتا تھا۔ایسے ہی ایک پروگرام ’’ اُمنگ ‘‘ میں پہلی مرتبہ عالمگیر نے بحیثیت موسیقار ،شاعر محمد ناصرؔ سے 4 گیت لکھوائے۔دو عالمگیر کی آواز، ایک افشاں احمد کا گیت اور ایک افشاں کے ساتھ دوگانا۔شاید یہ عالمگیر کو بھی اُس وقت پتا نہ ہو گا کہ آگے چل کر اس کے یہ دو گیت بہت زیادہ مقبول ہوں گے: ’’ شام سے پہلے آنا دھوپ ساری ڈھل چکی ہو، پھول سارے کھِل چکے ہوں، موسم سارے لے آنا‘‘، ’’ کہہ دینا آنکھوں سے۔۔۔‘‘۔افشاں کا گیت: ’’ دور کہیں جھیلوں کے پیچھے مجھ کو گیت سنائے، میں نے جس کے سپنے دیکھے شاید وہ آ جائے‘‘ بہت پسند کیا گیا۔


عالمگیر کے ساتھ میں نے خاصا وقت گزارا۔وہ گلوکار کیسا تھا؟ گٹار کیسا بجاتا تھا؟ یہ بعد کی بات ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ بہت منکسر المزاج تھا۔ویسے تو جلد گھل مل جانے والوں میں سے تھا لیکن نہ جانے کیوں یہ ٹیلی وژن میں مغرور مشہور تھا۔عالمگیر نے اپنا نام بنانے میں اتنی زیادہ مشکلات دیکھی تھیں کہ اس جیسا شخص کبھی مغرور ہو ہی نہیں سکتا۔ 


اُس نے مجھے خود بتایا تھا : ’’ امریکہ جانے کے لئے میرے بڑے بھائی نے 15سال کی عمر میں کراچی ایک عزیز کے پاس بھیجا کہ کراچی یونیورسٹی سے ڈگری لو اور پھر امریکہ آنا۔ میں جب کراچی پہنچا تو میرے کزن ڈھاکہ جا چکے تھے‘‘۔ یہاں سے عالمگیر کی مشکلات شروع ہوئیں ، کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لہٰذا پہلی رات جھیل پارک میں بسر کی۔ساز و سامان کوئی تھا نہیں ایک عدد گٹار اور ایک بیگ۔ صبح نوکری کی تلاش شروع کی، سامنے ہی ایک ریستوراں نظر آیا۔وہاں 350/روپے ماہانہ اور رات کا کھانا روزانہ، 2گھنٹے گٹارکے ساتھ گانا گانے کی بات طے ہوئی۔

عالمگیر نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ قسمت اُس کو پی ٹی وی کراچی مرکز لے گئی جہاں وہ پروگرام ’’ سنڈے کے سنڈے‘‘ کے آرکسٹرا میں گٹار سٹ کی حیثیت سے میوزیشن تھا۔پاپ موسیقی میں ایک گیت بنایا جانا تھا لیکن کوئی آواز بھی معیار پر پورا نہیں اتر رہی تھی۔ایسے میں کسی نے پروڈیوسر کو کہا کہ وہ جو لڑکا گٹار بجا رہا ہے وہ ایلویس پریسلے کے انگریزی گانے بھی گاتا ہے۔ اُسے موقع دیا گیا اور قسمت نے یاوری کی۔پہلا گیت ہسپانوی موسیقی میں اسپین کا مشہور گیت تھا جو یہاں ’’ البیلا راہی‘‘ کی شکل میں نشر ہوا۔یہ اُس نے باقاعدہ ایلویس کی طرح رقص کر کے ریکارڈ کرایا۔


عالمگیر خو ش قسمت تھا کیوں کہ ’’ اُمنگ ‘‘ سے پہلے اُس نے کئی بار کوشش کی کہ اُسے اپنے گیتوں میں خود موسیقی دینے کی اجازت دی جائے لیکن انکار کیا جاتا رہا کہ موسیقاروں کی موجودگی میں گلوکار یہ کام نہیں کر سکتا۔پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کی مہربانی تھی کہ اُس کی یہ خواہش پوری ہوئی۔پھر یہ کہ محمد ناصرؔ نے بھی گیت کا حق ادا کر دیا۔ محمد ناصرؔ کا ساتھ عالمگیر کو بہت راس آیا۔’’ یہ شام اور تیرا نام۔۔۔‘‘، ’’ میں نے تمہاری گھاگھر سے کبھی پانی پیا تھا۔۔۔‘‘، ’’ پاس آ کر کوئی دیکھے تو پتا لگتا ہے۔۔۔‘‘۔بہر حال موسیقار کی حیثیت سے یہ گیت EMI اسٹوڈیو کراچی میں ریکارڈ ہوئے۔راقم نے یہیں سے آڈیو کا کام سیکھا تھا لہٰذا یہاں کے ریکارڈسٹ اور دیگر عملہ اور خود ای ایم آئی میرا دوسرا گھر تھا۔سب لوگوں نے بہت حوصلہ افزائی کی اور توقع سے بڑ ھ کر نتائج ملے۔ 


پی ٹی وی سے ہٹ کر بھی عالمگیر سے میری دعا سلام تھی۔وہ ایسے کہ میرے جامعہ کراچی کا ہم جماعت، سید سہیل اختر علوی الفلاح بی روڈ پر رہتا تھا جِس کے پڑوس میں عالمگیر کا سسرال تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عالمگیر نماز روزے سے جڑنے لگا تھا۔ایک روز بہت صبح مجھے ملا اور کہنے لگا کہ جب یہاں کسی کی کوئی تقریب ہونے والی ہو تو مجھے کہا جاتا ہے کہ محلہ داری ہے خود بھی آؤ اور چھوٹا موٹا فنکشن فری میں کراؤ۔۔۔کرا لیا۔پھر ؟۔۔۔پھر اصل منافقت کی کہانی شروع ہوتی ہے، محلہ کی عورتیں ہمارے ہاں نہیں آتیں اور کہا جاتا ہے یہ تو شو بزنس والے ہیں نہ جانے یہاں کون کون آتا ہو گا۔میں تو یہ سوچا کرتا ہوں کہ میرا ایک بیٹا ہے، اگر بیٹی ہوتی تو اُس کی شادی کا مسئلہ ہو جاتا۔


عالمگیر سے ملاقاتوں کا دوسرا دور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہوا۔میں ریاست ویسٹ ورجینیا کے شہر ساؤتھ چارلسٹن میں رہتا تھا۔وہاں میں نے موسیقی کا ایک گروپ بنایا ہوا تھا۔بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے موسیقی کے شوقین خواتین و حضرات ہفتہ میں ایک دن میرے غریب خانے میں جمع ہوتے تھے۔میرے پاس اپنا ساؤنڈ سسٹم اور دو عدد کی بورڈ تھے۔میری عالمگیر سے فون پر دعا سلام رہتی تھی۔ ہمارے گروپ میں ڈاکٹر انتخاب احمد بہت فعال تھے۔اِن کا آئیڈیا تھا کہ ایک بڑا پروگرام عالمگیر شو کروا یا جائے۔اس پس منظر میں یہ شو ہوا اور بہت کامیاب ہوا۔عالمگیر نے اپنے مخصوص رنگ میں بھر پور مظا ہرہ کیا۔اس کے بیچ بیچ مقامی فنکاروں نے بھی گیت سنائے جن میں بنگلہ دیش کے پروفیسر اسلام محمود ، پاکستان سے سیما کلور، اشرف مغل، عمران اور یہ کم تر بھی شامل تھے۔ حاضرین کی اکثریت بھارت اور بنگلہ دیش کی تھی۔ انہوں نے پہلی مرتبہ عالمگیر کو سنا تھا۔لوگوں میں عالمگیر اور یہ پروگرام اتنا مقبول ہوا کہ آئندہ برس دوبارہ عالمگیر شو کروایا گیا۔ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’ لائیو ‘‘ Live گانا ہی اصل گانا ہوتا ہے۔


1977 میں عالمگیر کو بہترین پلے بیک سنگر کا خصوصی نگار ایوارڈ دیا گیا۔ 
عالمگیر کو 2013میں صدرِ پاکستان نے تمغہ حسنِ کارکردگی دیا۔


عالمگیر کے یادگار گیتوں میں بزمی صاحب کی موسیقی میں بنجمن سسٹرز کے ساتھ ’’ خیال رکھنا۔۔۔‘‘ اب بھی بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔

پچھلے دنوں عالمگیر کے گردے کی تبدیلی کا بڑا آپریشن ہوا تھا۔اللہ تعالی نے فضل کیا اور وہ ماشاء اللہ اب صحت مند ہے اور پچھلے دنوں ایک مقامی ٹی وی چینل میں گلوکار محمد علی شہکی کے ساتھ صبح کی نشریات میں نظر آیا تھا۔اللہ سے دعا ہے کہ صحت اور عافیت کے ساتھ وہ ہم میں موجود رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
 یہ تحریر 15 مئی 2018، بروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے ایک ساتھ شائع ہوئی۔













 

Comments

Popular posts from this blog