’ اعتراف ۔۔۔ ‘
ایڈورڈ فریڈرِک بینسَن:
ایڈورڈ فریڈرِک بینسَن Benson Edward Frederic (1867-1940)برطانیہ کے ایک نامور ناول نگارگزرے ہیں۔اِن کی وجہ شہرت روحوں کے بارے میں لکھی گئی مختصر کہانیاں اورمختلف جگ بیتیاں بھی ہیں۔ درجِ ذیل تحریر ’ اعتراف‘ اُن کی مشہور کہانی
The Confession of Charles Linkworth سے ماخوذ ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ اعتراف ۔۔۔ ‘
تحریر شاہد لطیف
ڈاکٹر طلعت معمول کے مطابق پھانسی پانے سے قبل مجرم کا صبح سے دو مرتبہ چیک اپ کر چکے تھے۔ جب زندگی کی آخری اُمید بھی دم توڑ جائے تو عام طور پر مجرم خاموش ہو کر قسمت پر قانع ہو جاتے ہیں کیوں کہ وہ اِس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ہر گھڑی وہ مقررہ موت سے نزدیک تر ہوتے جا رہے ہیں۔مجرم لقمان کے چہرے پر موت کی زردی اُسی وقت چھا گئی تھی جب اُسے بتایا گیا کہ اُس کی رحم کی اپیل مستر د ہو گئی ہے جب کہ پہلے ، خواہ جھوٹی سہی، اُس کے چہرے پر اُمید چھلکتی نظر آتی تھی۔ اب اِس کی جگہ موت کی اذیت نے لے لی تھی ۔ اورپھر جب سرکاری طور پر اُس کو یہ خبر سُنائی گئی تو لقمان کی برداشت جواب دے گئی اور داکٹر طلعت کو بلوانا پڑا لیکن اُس کی یہ بے ہوشی عارضی تھی تھوڑی ہی دیر میں وہ پوری طرح ہوش میں آ گیا۔ اُسے بخوبی علم تھا کہ اُس نے کیا سُنا ۔
قتل ایک قبیح جرم ہے اور قاتل کے لئے عوام کے دل میں میں کوئی ہمدردی نہیں ہو تی۔لقمان بھی قاتلوں کی اسی صف میں شامل تھا۔ اُس کی ’ شیفیلڈ ‘ Sheffield میں ایک چھوٹی سی اسٹیشنری کی دوکان تھی۔گھر میں اِس کے علاوہ اِس کی بیوی او رماں رہتی تھیں ۔ اُس پر الزام تھا کہ اُس نے اپنی ماں کو قتل کر دیا۔اُس وقت لقمان لوگوں کا مقروض تھا۔ماں کے پاس بینک میں ایک خطیر رقم موجود تھی،وہ ہر مہینہ اپنے بیٹے کو با قاعدگی سے گھریلو اخراجات کے لئے رقم دیتی تھی ۔ماں بیٹے کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اُن کے درمیان پچھلے دو سالوں سے جھگڑے چلے آ رہے تھے اور وہ کئی مرتبہ دھمکی دے چکی تھی کہ اب وہ گھر یلو اخراجات کے لئے رقم نہیں دے گی۔ اُس دِن بیوی کی عدم موجودگی میں کسی معمولی بات پر دونوں ماں بیٹے میں اچھاخاصا جھگڑا ہو گیا جس کے نتیجے میں لقمان کی ماں بینک سے اپنی رقم نکلوا لائی ۔اُس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ کل شیفیِلڈ چھوڑ کر مستقلاََ اپنے دوستوں کے ساتھ رہے گی ۔ بس اِسی رات اُس نے اپنی ماں کوگلاگھونٹ کرہلاک کر دیا اور رات کی تاریکی میں مکان کے پچھواڑے چھوٹے سے باغ میں دفنا دیا۔اگلے روز صبح صبح اُس نے ماں کا سامان صندوقوں میں بند کیا اور ریلوے اسٹیشن پہنچ کر اُن کو ’ کنگ کراس ‘ اسٹیشن جانے والی پسیجر ٹرین میں بُک کروا د یا۔پھر رات اپنے کچھ دوستوں کو کھانے پر گھر بلوایا اور باتوں باتوں میں اُنہیں بتایا کہ اِس دفعہ ماں بہت ناراض ہو گئی تھی اور اب وہ اپنا سامان لے کر چلی گئی ہے ۔ یہ لوگ بھی ماں بیٹے کے آئے روز کے جھگڑوں سے واقف تھے۔ لقمان نے یہی کہانی ایک اضافے کے ساتھ بیوی کو گھر آنے پرسُنا ئی کہ اب کی دفعہ ماں اس قدر غصہ میں تھی کہ پتا تک نہیں بتایا کہ کہاں جا رہی ہے۔بیوی نے بھی دِل میں سوچا کہ روز روز کے لڑائی جھگڑوں سے جان چھوٹی، پتہ چھوڑ بھی جاتیں تو اُس نے کون سا اُسے ملنے جانا یا خط لکھنا تھا۔لقمان کے دوستوں کی طرح اُس نے بھی یہ کہانی تسلیم کر لی کیوں کہ اِس میں کوئی بھی عجیب اور مشکوک بات نہیں تھی۔
کچھ عرصے تک اُس نے رقم کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔ہاں ! مکان کا ایک کمرہ کرایہ پر دے دیا ، ساتھ ہی اپنی دُکان پر کام کرنے والے لڑکے کو فارغ کر دیاتا کہ لوگوں کو علم ہو سکے کہ وہ بچت کے موڈ میں ہے۔اِس کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے اپنے کاروبار کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے لگا۔ایک مہینہ گزر گیا ۔ اِس کے بعد وہ مزید صبر نہیں کر سکا ۔بجائے اس کے کہ وہ ماں کی رقم تھوڑی تھوڑی کر کے بینک میں جمع کراتا اُس نے رقم کا ایک بڑا حصہ یکمشت جمع کرا دیا۔اِسی پر بس نہیں بلکہ گھر کے پچھلے باغ میں ،جہاں ماں کو زمین میں دفن کر رکھا تھا اُس کا بھی پکا کام کرنے کا سوچااور مٹی پتھر اور مزدور بلوا کر اُس جگہ ایک مصنوعی پہاڑی بنا ڈالی۔
کچھ ہی عرصہ گزرا کہ ’ کنگ کراس‘ کے اسٹیشن کے لاوارث اور گم شدہ سامان والے گودام میں آگ لگ گئی ۔یہیں تک کے لئے اُس نے اپنی ماں کا سامان بُک کروایا تھا ۔ ریلوے کی انتظامیہ نے بچے کھچے سامان کی جانچ پڑتال کی۔جہاں کہیں کسی کا کوئی نام ، نشان یا پتا ملتا وہ اپنا نمائندہ وہاں بھیجتے۔ ایک نمائندہ لقمان کے گھر بھی آیا۔دروازہ اُس کی بیوی نے کھولا ، نمائندے نے اپنا تعارف کروایا او ر لقمان کی ماں کا نام لے کر ریلوے کی جانب سے ایک دستاویز دکھائی اور زبانی بھی کنگ کراس اسٹیشن میں لاوارث سامان میں آتش زدگی کا بتلایا ۔ اُس نے جب لقمان کی ماں کا پوچھا تو لقمان کی بیوی نے بتایا کہ وہ تو عرصہ ہوا کہیں جا چکیں۔ ریلوے کے نمائندے نے کہا کہ ایک ادھ جلے صندوق میں سے ایک خط برامد ہوا جس پر شیفیلڈ کے اِس مکان کا پتہ درج تھا ۔مجھے یہاں اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو آگ میں جلنے والے سامان کے نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے کیوں کہ یہ صندوق کافی عرصہ سے اسٹیشن کے گودام میں لاوارث پڑے تھے لہٰذا کلیم داخل کر کے ہرجانہ لیا جا سکتا ہے۔وہ جو کہاوت ہے کہ مصیبت اکیلے نہیں آتی یہاں صادر آ تی ہے۔اِس گفتگو کے دوران اُن کا کرایہ دار بھی دروازے پر آ گیا۔
بظاہر ایک بے ضرر سی دستاویز لقمان کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہو گئی۔ لقمان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ ماں کو گئے ہوئے عرصہ ہو گیا لیکن اُس کا سامان ابھی تک کنگ کراس اسٹیشن پر کیوں پڑا ہے؟کیا کہیں اُس کی ماں کو کوئی حادثہ تو پیش نہیں آ گیا؟ وہ اپنی بیوی کو مطمئن نہیں کر سکا اور نہ چاہتے ہوئے بھی پولیس کو شاملِ تفتیش کرنا پڑا۔ لقمان رہ رہ کر اپنی قسمت پر آنسو بہا رہا تھا، کیوں کہ اگر ریلوے کا نمائندہ اُس سے اکیلے میں ملتا تو بات کچھ اور ہوتی ۔اسے کلیم داخل کرنے کی کیا ضرورت تھی !! اب تو بات پولیس تک پہنچ گئی۔ اُس کو پھانسی کا پھندہ نظر آ نے لگا ۔برطانوی پولیس کے سراغ رسانوں نے لقمان کے گڑے مُردے اُکھاڑ ڈالے ۔
بینک اکاؤنٹ، پچھلے باغ میں نئی مصنوعی پہاڑی کا بننا وغیرہ۔اور اس کے بعد باقاعدہ لقمان کی گرفتاری اور پھر عدالتی کاروائی جو بہت زیادہ لمبی نہیں چلی۔پھر ایک روز فیصلہ بھی سُنا دیا گیا۔پُر ہجوم کمرہء عدالت میں اِس فیصلہ پر ایک بھی شخص کی ہمدردی لقمان کے ساتھ نہیں تھی۔کمرہء عدالت میں زیادہ تر معمر خواتین تھیں جو ایک ماں کو قتل کرنے والے کا عدالتی فیصلہ سننے آئی تھیں۔جج صاحب کے پھانسی کے فیصلے سے وہ سب مطمئن ہو گئیں۔
تمام واقعات اور ثبوت اُس کو مجرم ثابت کر رہے تھے، اُس کے گھر کے باغ میں مصنوعی پہاڑی کے نیچے سے ماں کی لاش برامد ہوگئی ،مقامی ریلوے اسٹیشن کے پرانے ریکارڈ سے ثابت ہو گیا کہ اپنی ماں کے صندوق لقمان نے ہی بُک کرائے تھے مگر اِس کے بعد بھی طوطے کی ایک ہی رَٹ میں نہ مانوں ! ’’ یہ قتل میں نے نہیں کیا‘‘۔
برطانوی جیلوں کے دستور کے مطابق پادری مجرم کے پاس آتے ہیں ۔لقمان کے لئے بھی جیل میں ا یک پادری صاحب آتے تھے ۔اُنہوں نے اپنی سی کوشش کی کہ لقمان اپنے جرم کا اعتراف کر لے لیکن وہ چکنا گھڑا ثابت ہوا ۔مستقل یہی کہتا رہا کہ وہ بے قصور ہے۔ ستمبر کی ایک خوشگوار صبح چند لوگوں کا ایک چھوٹا سا جلوس قیدخانے کے صحن کو عبور کرتا ہوا پھانسی گھاٹ کی جانب رواں دواں تھا۔ڈاکٹر طلعت کی تو یہ ڈیوٹی تھی کہ اُن کی موجودگی اور نگرانی میں پھانسی دینے کا عمل مکمل کیا جائے۔وہ اِسی پھانسی گھاٹ پر ایسے کئی قیدی دیکھ چکے تھے جو آتے تو خود چل کر تھے لیکن جاتے ۔۔۔
اِس مجرم کی پھانسی کا عمل بھی ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں مکمل ہو گیا۔ موت فی الفور واقع ہوئی تھی ۔قاعدے کے مطابق اُس کی لاش مردہ خانے لائی گئی تا کہ ڈاکٹر اُس کا معائنہ کر کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ دے سکے۔ معائنے کے دوران اُنہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اس مردہ شخص کی روح اُن کے آس پاس ہے۔ اِس کے بعد اسی پس منظر میں ایک اور غیر اہم لیکن پراسرار واقعہ پیش آ گیا۔جیل کا ایک گارڈ مردہ خانے میں آیا اور کہا کہ پھانسی گھاٹ کی وہ رسی جِس سے گھنٹہ بھر پہلے پھانسی دی گئی ہے وہ وہاں سے غائب ہے، کہیں غلطی سے پھانسی پانے والے کے ساتھ تو نہیں آ گئی؟ وہ رسی پھانسی گھاٹ سے لے کر یہاں مردہ خانے تک کہیں نہیں ملی۔ بظاہر اس کی گمشدگی اہم نہیں تھی لیکن نا قابلِ فہم ضرور تھی۔
ڈاکٹر طلعت یہیں پیدا ہوئے ، پلے بڑھے اور غیر شادی شدہ تھے۔وہ ’ بیڈ فورڈ اسکوائر‘ کے ایک مکان میں رہتے تھے۔ انہیں نجی پریکٹس کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ وہ مجرموں کی ذہنی کیفیات پر تحقیق کر رہے تھے اور اسی لئے انہوں نے جیل میں ڈاکٹر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ اُن کے مطابق سنگین جرم کرنے والوں کے دماغ خلافِ معمول کام کرتے ہیں ۔اسی نظریہ کے تحت آج پھانسی پانے والے مجرم کی ذہنی کیفیتوں کے اتار چڑھاؤ پر غور کرتے ہوئے وہ گھر پہنچ گئے۔ یہ جُرم بہت گھناؤنا تھا ۔ایسے کام ہوشمند نہیں، دیوانے کرتے ہیں۔ لقمان الگ تھلگ رہنے والا اور خاموش طبع شخص ، ایک اچھا شوہر اور پڑوسی تھا لیکن اچھا بیٹا ثابت نہ ہوا۔ اتنا بڑا جرم !! ۔۔۔نا قابلِ برداشت ! ایسے شخص کا اِس دنیا میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ڈاکٹر طلعت کی بھی خواہش تھی کہ پھانسی چڑھنے سے پہلے لقمان اپنے جرم کا اعتراف کر لیتا۔۔۔
ڈاکٹر طلعت رات کاکھانا کھا کر ، اپنے لکھنے پڑھنے والے کمرے میں، آتش دان کے مقابل آرام کُرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُ نہیں بیٹھے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی ہو گی کہ وہی مردہ خانے والااحساس ہونے لگا جیسے لقمان کی روح اُس کے قریب ہو۔ ڈاکٹر طلعت کے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا لیکن اب کی مرتبہ یہ احساس بہت قوی تھا ۔
فرصت کے اوقات میں ڈاکٹر طلعت مخفی علوم کا مطالعہ اور اں کی کھوج میں رہتے۔ وہ اِس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ جسم اور روح کے درمیان کس قدر باریک حدِ فاضل ہے اور ’ غیر محسوس ‘ وجود کا مادی اشیا ء پر کتنا زبردست اثر ہوتا ہے نیز مخصوس حالات میں یہِ ارواح (بظاہر بد بخت ہی سہی) براہِ راست پیغام رسانی کر سکتی ہیں۔
ڈاکٹر طلعت مراقبے کی حالت میں تھے کہ سامنے میز پر رکھے ہوئے ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ عجیب سی گھنٹی تھی۔۔۔بہت ہلکی جیسے ٹیلی فون سیٹ میں کوئی خرابی ہوگئی ہو۔ بہرحال گھنٹی بج رہی تھی۔ اُنہوں نے ریسیور کان سے لگایا ۔ ایک ہلکی سی سرگوشی سنائی دی جس کے الفاظ سمجھ نہیں آ سکے۔
’’ جی ! آ پ کون؟‘‘
جواب میں وہی سمجھ میں نہ آنے والی سرگوشی سُنائی دی۔
’’ آواز نہیں آ رہی۔زور سے بولیں ! ‘‘۔ڈاکٹر طلعت نے کہا۔
جواب میں پھر وہی سرگوشی اور وہ بھی جاتی رہی۔
اُ نہوں نے چند سیکنڈ ا نتظار کیا کہ شاید دوبارہ رابطہ بحال ہو۔ ریسیور دوبارہ کان سے لگایا تو کھڑ بڑ کھڑ بڑ کی آواز سنائی دی پھر خاموشی چھا گئی۔ یہ ضرور ثابت ہوا کہ کوئی اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اِسی خیال کے تحت اُنہوں نے جیل ایکسچینج فون کیا ۔
’’ آواز نہیں آ رہی۔زور سے بولیں ! ‘‘۔ڈاکٹر طلعت نے کہا۔
جواب میں پھر وہی سرگوشی اور وہ بھی جاتی رہی۔
اُ نہوں نے چند سیکنڈ ا نتظار کیا کہ شاید دوبارہ رابطہ بحال ہو۔ ریسیور دوبارہ کان سے لگایا تو کھڑ بڑ کھڑ بڑ کی آواز سنائی دی پھر خاموشی چھا گئی۔ یہ ضرور ثابت ہوا کہ کوئی اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اِسی خیال کے تحت اُنہوں نے جیل ایکسچینج فون کیا ۔
’’ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ابھی مجھے کِس نمبر سے فون کیا گیا ہے؟ ‘‘۔
چند سیکنڈ کے بعد اُن کو نمبر دے دیا گیا۔یہ جیل خانے کے نگران کا نمبر تھا۔
’’ میری وہاں بات کروا دیں‘‘۔اُنہوں نے کہا۔جو آپریٹر نے فوراََ کروا دی۔
’’میں ڈاکٹر طلعت بول رہا ہوں ۔کیا آپ نے تھوڑی دیر پہلے مجھے فون کیا تھا؟ خیریت تو ہے؟ شاید لائین میں کوئی گڑ بڑ تھی کیوں کہ ایک لفظ سمجھ نہیں آیا‘‘۔
بالکل واضح اور صاف آواز میں جواب دیا گیا: ’’ جناب کوئی غلطی لگی ہو گی۔میں نگران جانسن بات کر رہا ہوں۔میرے ٹیلی فون پر تو کافی دیر سے نہ کوئی کال آئی نہ گئی ‘‘۔
’’ لیکن مجھے تو ایکسچینج والوں نے بتایا ہے کہ تین منٹ پہلے آپ کے نمبر سے مجھے فون کیا گیا تھا‘‘۔
’’ یہ پھر ایکسچینج ہی میں کوئی خرابی ہے‘‘۔جواب میں کہا گیا۔
’’ عجیب بات ہے! چلو کوئی بات نہیں‘‘۔
’’ یہ پھر ایکسچینج ہی میں کوئی خرابی ہے‘‘۔جواب میں کہا گیا۔
’’ عجیب بات ہے! چلو کوئی بات نہیں‘‘۔
ڈاکٹر طلعت سر جھکائے آرام کرسی پر بظاہر کوئی رسالہ دیکھ رہے تھے لیکن ان کے خیالات منتشر تھے۔پہلے بھی اِ ن کو رانگ نمبر مل جاتے تھے لیکن جو ابھی ہوا ویسا اُن کے ساتھ کبھی نہیں ہوا۔فون کی گھنٹی کا بہت مدھم بجنا، فون کرنے والے کی الفاظ کے بجائے نا قابلِ فہم سرگوشیاں۔۔۔وہ آرام کرسی سے اُٹھے اور کمرے میں ٹہلنے لگے۔ وہ جو بات سوچ رہے تھے وہ بادی النظر میں ناممکن دکھائی دیتی تھی۔
’’ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘۔اُنہوں نے بہ آوازِ بلند خود سے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز حسبِ معمول وہ جیل خانے گئے ۔ ایک دفعہ پھر اپنے قریب کسی ان دیکھے وجود کی موجودگی کا احساس ہونے لگا۔یہ بات ڈاکٹر صاحب بھی جانتے تھے کہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اِنہیں ایسے احساسات ہوتے رہے تھے۔ یعنی وہ اپنی حساسیت کی بنا پر ان دیکھی دنیا کی پیغام رسانی سمجھ لیا کرتے تھے۔آج وہ اس نتیجے پر فوراََ پہنچ گئے کہ یہ احساس اُس شخص کی موجودگی کا ہے جِس کو کل صبح پھانسی دی گئی تھی۔موجودگی کا یہ احساس قیدیوں کی کوٹھڑیوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہوا ۔جب وہ لقمان کی کوٹھڑی کے سامنے سے گزرے تو یہ احساس اتنا بڑھا کہ جیسے وہ اب سراپا بن کر سامنے ہی آ جائے گا۔ اِن کو ایسا لگا جیسے لقمان کی روح کسی قسم کو کوئی پیغام دینا چاہتی ہے ۔ ایک لمحہ کو بھی اُنہیں شک نہیں ہوا کہ یہ کوئی وہم ہے۔ اُس کو یقین تھا کہ یہ لقمان ہی کی روح تھی۔وہ اپنی ڈسپنسری میں چند گھنٹے مصروف رہے ۔ اس تمام عرصے اُ نہیں اپنے قریب اَن دیکھے وجود کا احساس ہوتا رہا۔ گھر جانے سے پہلے کسی خیال کے تحت وہ پھانسی گھاٹ کی طرف چل دیے۔یہاں کے شیڈ کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ تیزی کے ساتھ بند کر دیا۔ پھانسی گھاٹ کی سیڑھیوں پر سر جھکائے ایک شبیہہ دکھائی دی۔ فطری خوف جس طرح آیا اُسی طرح سے چلا گیا ۔وہ دل ہی دل میں اپنی گھبراہٹ پر شرمندہ ہو ئے ساتھ ہی روح سے دو بدو نہ ہونے اور پیغام رسانی میں فاصلہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ آج اُنہیں یہ بھی پتا چلا کہ روحیں محدود دائرے میں رہتی ہیں۔کہیں ان کی موجودگی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے اور کہیں احساس کم ہوتا ہے۔مثلاََ اِن کو ڈسپنسری میں لقمان کی روح کی موجودگی کا خفیف احساس ہوا تھاجب کہ پھانسی گھاٹ کے شیڈ میں سب سے زیادہ۔اچانک انہیں ایک خیال آیا اور وہ جیل خانے کے نگراں کے دفتر میں آ گئے جِن کے کمرے سے رات ڈاکٹر طلعت کو فون کیا گیا تھا۔
’’ کیا آپ کو یقین ہے کہ کل رات آپ کے کمرے سے مجھے کوئی فون نہیں کیا گیا؟‘‘
اُس نے جواب دینے میں قدرے ہچکچاہٹ کی جو ڈاکٹر طلعت سے چُھپ نہ سکی۔’’ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ آپ کی فون کال موصول ہونے سے آدھ گھنٹے پہلے سے میں اسی کمرے میں ، اسی میز کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ٹیلی فون استعمال کرنے والا مجھے نظر آنا چاہیے تھا‘‘۔
’’ اور آپ نے کسی کو نہیں دیکھا‘‘۔ڈاکٹر طلعت نے کہا۔
جانسن تذبذب کا شکار نظر آتا تھا۔
’’ نہیں جناب ! میں نے کسی کو نہیں دیکھا‘‘۔
ڈاکٹر طلعت نے اُس کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے سوال کیا: ’’ لیکن آپ کو ایسا لگا کہ جیسے یہاں کوئی ہے‘‘ ۔
یقیناََ اِس سوال سے وہ پریشان ہو گیا اور کچھ توقف کے بعد اُس نے کہنا شروع کیا: ’’ عجیب سی بات ہے ۔۔۔پتا نہیں آپ کو بتانا چاہیے یا نہیں۔۔۔میرے بارے میں آپ کیا سوچیں؟‘‘۔
’’ ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔میں نے بھی تو کل فون پر سرگوشیاں سُنیں تھیں۔۔۔لیکن جب آپ کو فون کیا تو آواز بالکل صاف آ رہی تھی۔ اُس وقت آپ نے کسی کو نہیں دیکھا لیکن کسی کو محسوس ضرور کیا‘‘۔
جانسن نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ ڈاکٹر صاحب! میں پریشان ہونے والوں میں سے نہیں ہوں ! نہ ہی خیالی دنیا میں رہتا ہوں لیکن کل کوئی چیز ضرور موجود تھی جو فون سیٹ کے اوپر منڈلا رہی تھی۔وہ ہوا کا جھونکا نہیں تھا کیوں کہ کھڑکی کے باہر ایک پتا بھی نہیں ہِل رہا تھا۔رات ویسے تو گرم تھی لیکن اُس خاص وقت پر ٹھنڈک محسوس ہونے لگی جِِس پر میں نے اُٹھ کر کھڑکی بند کر دی۔اِس کے باوجود ٹھنڈک کا احساس برقرار رہا۔ یہ احساس ایک گھنٹے کے لگ بھگ رہا ۔ کسی کسی وقت ٹیلی فون ڈائریکٹری کے صفحات تیزی سے بکھرنے لگتے گویا ہوا چل رہی ہو۔اور تو اور۔۔۔ایک مرتبہ ایسا لگا کہ ایک ہوا کا تیز بگولا میرے سر پر سے گز راہے ‘‘۔
ڈاکٹر طلعت نے جانسن کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے غیر متوقع سوال کر دیا : ’’ کیا اِس سے آپ کو کل صبح پھانسی چڑھنے والا تو یاد نہیں آیا؟ ‘‘۔
تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد اُس نے جواب دیا: ’’ جی ہاں ! مجرم لقمان! ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے ! کیا آج رات بھی آپ کی ڈیوٹی ہے؟ ‘‘
’’ جی جناب ! ویسے نہ ہوتی تو اچھا تھا‘‘۔
’’ میں تمہارے احساسات جانتا ہوں۔۔۔میں نے بھی ایسے ہی محسوس کیا تھا۔اب یہ جو کچھ بھی ہے وہ مجھ سے ہی رابطہ کرنا چاہتا ہے۔ ہاں ایک بات اور ! کیا کل رات قیدی بے چین تھے ؟‘‘ ۔
’’ جی ہاں ! سات آ ٹھ قیدی مسلسل چیخیں مار رہے تھے پوچھنے پر بتایا کہ خواب میں ڈر گئے تھے ۔ عجیب بات ہے اتنے سار ے لو گوں نے ایک ساتھ ڈراؤنا خواب دیکھا ۔پھانسی پانے والے کی کوٹھڑی کے پڑوسی قیدی کبھی کبھار پھانسی کے بعد والی رات ایسا کرتے ہیں ۔مگر جو کل رات ہوا ایسا میں نے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔
’’ اچھا ! اگر یہ ان دیکھا وجود آج رات تمہارے ٹیلی فون کے پاس منڈلایا تو اُس کو فون کرنے کا پورا موقع فراہم کرنا۔میرے حساب سے یہ کل والے وقت پر ہی آئے گا۔ایسا کیوں ہوتا ہے یہ میں نہیں بتا سکتا لیکن عام طور پر روحیں ایک مخصوص وقت پر ہی مخصوص جگہ پر محسوس ہوتی ہیں۔ کوشش کرنا کہ فون والے کمرے سے رات ساڑھے نو سے ساڑھے دس تک باہر رہنا۔دوسری طرف میں بھی تیار رہوں گا اور ساڑھے دس کے بعد آپ کو فون کروں گا۔اور ہاں ! آپ اِس گھنٹے کے دوران مجھے فو ن نہیں کرنا ‘‘۔
’’ کوئی ایسی ویسی بات تو نہیں ہو گی نا؟‘‘۔جیل نگران نے سوال کیا۔
’’مجھے یقین ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ڈرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ڈاکٹر طلعت بولے۔
رات کو ڈاکٹر طلعت کی کوئی مصروفیت تھی لیکن اِس اہم معاملے کے پیشِ نظر وہ ملتوی کر دی۔وہ ساڑھے نو بجے کا انتظار کرنے لگے۔اُن کا مطالعہ اور کسی حد تک تجربہ اور مشاہدہ تھا کہ دن ہو یا رات، روحیں اکثر اوقات ایک مخصوص وقت میں ظاہر ہوتی ہیں ۔یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ روحوں کے دیکھے جانے یا اپنا آپ محسوس کروانے کی طاقت موت کے فوراََ بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جاتی ہے۔۔۔اچانک اُن کی سوچوں کا تانا بانا ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے سے ٹوٹ گیا۔ گھنٹی کی آواز کل رات کی طرح کمزور نہیں تھی لیکن عام گھنٹی سے بہرحال کم تھی۔
ڈاکٹر طلعت نے فوراََ رسیور کان سے لگایا۔ دوسری طرف سے کوئی سسکیوں کے ساتھ ہلکے ہلکے رو رہا تھا۔آواز میں باقاعدہ جھٹکے محسوس ہو رہے تھے۔ جب کچھ وقت گزر گیا اور دوسری طرف سے کسی نے بات نہیں کی تب انہوں نے گفتگو میں پہل کی:
’’ تُم کون ہو؟ میں ڈاکٹر طلعت بات کر رہا ہوں ۔بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘۔
سسکیاں ختم ہوئیں اور اُن کی جگہ سرگوشیوں نے لے لی۔
’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں ! کہو ! میں سُن رہا ہوں ‘‘۔ڈاکٹر نے کہا۔
’’ آپ کو نہیں ۔۔۔اُن دوسرے صاحب سے بات کروں گا جو میرے پاس آیا کرتے تھے۔میں نے کوشش کی لیکن وہ نہ مجھے سُن سکتے ہیں نہ دیکھ ہی سکتے ہیں‘‘۔
’’ تم پھانسی پا نے والے لقمان ہو نا؟‘‘۔ڈاکٹر طلعت نے سوال کر دیا۔
’’ جی ہاں ! بہت عذاب میں مبتلا ہوں اور قید خانے سے باہر نہیں جا کتا۔۔۔بہت ٹھنڈ ہے۔۔۔کیا آپ میری خاطر اُن صاحب کو یہاں اپنے پاس بلوا سکتے ہیں؟‘‘۔
’’ تمہارا مطلب پادری صاحب کو ؟ ‘‘۔ڈاکٹر نے کہا۔
’’ جی ہاں۔۔۔وہی‘‘۔
ڈاکٹر ایک ثانیہ کو ہچکچائے۔پھر سوچنے لگے کہ جانسن اور پادری صاحب کو سنانے کے لئے یہ ایک زبردست خبر ہو گی کہ لقمان کی روح نے ٹیلی فون کو ذریعہ بنا کر بات کی جو کل صبح پھانسی چڑھا تھا۔لیکن یہ بد نصیب روح بقول خود اُس کے ، سخت عذاب میں گرفتار ہے اور جیل میں آنے والے پادری صاحب کو کچھ کہنا چاہتی ہے۔یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اِن کو بلوا کر کیا کہنا چاہتی ہے ۔
’’ ہاں میں اُن کو یہاں آنے کا کہوں گا‘‘۔ڈاکٹر نے کہا۔
’’ بہت شکریہ۔یہ مجھ پر آپ کا احسان ہو گا۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے آواز ہلکی ہو نے لگی۔’’ مجھے اب جانا ہو گا۔۔۔کل رات ۔۔۔اوہ میرے اللہ۔۔۔‘‘پھر سسکیاں شروع ہو گئیں ۔
’’ تمہیں کہاں جانا ہو گا؟ تم اس وقت کہاں ہو اور یہ ہو کیا رہا ہے؟کچھ بتاؤ تو سہی !‘‘۔ڈاکٹر طلعت بولے۔
’’ یہ میں نہیں بتاؤں گا؛ میں بتا بھی نہیں سکتا کہ۔۔۔‘‘۔بس اِس جملہ پر گفتگو ختم ہو گئی۔
’’ کوئی ایسی ویسی بات تو نہیں ہو گی نا؟‘‘۔جیل نگران نے سوال کیا۔
’’مجھے یقین ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ڈرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ڈاکٹر طلعت بولے۔
رات کو ڈاکٹر طلعت کی کوئی مصروفیت تھی لیکن اِس اہم معاملے کے پیشِ نظر وہ ملتوی کر دی۔وہ ساڑھے نو بجے کا انتظار کرنے لگے۔اُن کا مطالعہ اور کسی حد تک تجربہ اور مشاہدہ تھا کہ دن ہو یا رات، روحیں اکثر اوقات ایک مخصوص وقت میں ظاہر ہوتی ہیں ۔یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ روحوں کے دیکھے جانے یا اپنا آپ محسوس کروانے کی طاقت موت کے فوراََ بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جاتی ہے۔۔۔اچانک اُن کی سوچوں کا تانا بانا ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے سے ٹوٹ گیا۔ گھنٹی کی آواز کل رات کی طرح کمزور نہیں تھی لیکن عام گھنٹی سے بہرحال کم تھی۔
ڈاکٹر طلعت نے فوراََ رسیور کان سے لگایا۔ دوسری طرف سے کوئی سسکیوں کے ساتھ ہلکے ہلکے رو رہا تھا۔آواز میں باقاعدہ جھٹکے محسوس ہو رہے تھے۔ جب کچھ وقت گزر گیا اور دوسری طرف سے کسی نے بات نہیں کی تب انہوں نے گفتگو میں پہل کی:
’’ تُم کون ہو؟ میں ڈاکٹر طلعت بات کر رہا ہوں ۔بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘۔
سسکیاں ختم ہوئیں اور اُن کی جگہ سرگوشیوں نے لے لی۔
’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں ! کہو ! میں سُن رہا ہوں ‘‘۔ڈاکٹر نے کہا۔
’’ آپ کو نہیں ۔۔۔اُن دوسرے صاحب سے بات کروں گا جو میرے پاس آیا کرتے تھے۔میں نے کوشش کی لیکن وہ نہ مجھے سُن سکتے ہیں نہ دیکھ ہی سکتے ہیں‘‘۔
’’ تم پھانسی پا نے والے لقمان ہو نا؟‘‘۔ڈاکٹر طلعت نے سوال کر دیا۔
’’ جی ہاں ! بہت عذاب میں مبتلا ہوں اور قید خانے سے باہر نہیں جا کتا۔۔۔بہت ٹھنڈ ہے۔۔۔کیا آپ میری خاطر اُن صاحب کو یہاں اپنے پاس بلوا سکتے ہیں؟‘‘۔
’’ تمہارا مطلب پادری صاحب کو ؟ ‘‘۔ڈاکٹر نے کہا۔
’’ جی ہاں۔۔۔وہی‘‘۔
ڈاکٹر ایک ثانیہ کو ہچکچائے۔پھر سوچنے لگے کہ جانسن اور پادری صاحب کو سنانے کے لئے یہ ایک زبردست خبر ہو گی کہ لقمان کی روح نے ٹیلی فون کو ذریعہ بنا کر بات کی جو کل صبح پھانسی چڑھا تھا۔لیکن یہ بد نصیب روح بقول خود اُس کے ، سخت عذاب میں گرفتار ہے اور جیل میں آنے والے پادری صاحب کو کچھ کہنا چاہتی ہے۔یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اِن کو بلوا کر کیا کہنا چاہتی ہے ۔
’’ ہاں میں اُن کو یہاں آنے کا کہوں گا‘‘۔ڈاکٹر نے کہا۔
’’ بہت شکریہ۔یہ مجھ پر آپ کا احسان ہو گا۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے آواز ہلکی ہو نے لگی۔’’ مجھے اب جانا ہو گا۔۔۔کل رات ۔۔۔اوہ میرے اللہ۔۔۔‘‘پھر سسکیاں شروع ہو گئیں ۔
’’ تمہیں کہاں جانا ہو گا؟ تم اس وقت کہاں ہو اور یہ ہو کیا رہا ہے؟کچھ بتاؤ تو سہی !‘‘۔ڈاکٹر طلعت بولے۔
’’ یہ میں نہیں بتاؤں گا؛ میں بتا بھی نہیں سکتا کہ۔۔۔‘‘۔بس اِس جملہ پر گفتگو ختم ہو گئی۔
تھوڑے انتظار کے بعد داکٹر نے ریسیور واپس رکھ دیا۔آرام کرسی پر بیٹھ کر اپنی سانسیں درست کیں ۔ پھر اُن کو خیال آیا کہ کہیں کسی نے اُن سے کوئی بھونڈا مذاق تو نہیں کیا ! لیکن پھر یقین آ گیا کہ انہوں نے ٹیلی فون پر واقعی ایک روح کی باتیں سنیں ہیں۔جو اپنے قبیح جرم کی پاداش میں کسی عذاب میں مبتلا ہے اور پادری صاحب سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔خود ڈاکٹر صاحب کی حالت بھی غیر ہو رہی تھی۔ عالمِ ارواح سے رابطہ کرنے یا ہونے میں ایسی کیفیات تو ہوتی ہی ہیں۔
سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے جیل خانے فون کیا۔جب جانسن لائن پر آیا تو ڈاکٹر نے چھوٹتے ہی سوال کیا: ’’ خیریت رہی؟ ‘‘
’’ جی ! وہ یہاں آیا تھا۔میں نے اسے ٹیلی فون والے کمرے میں جاتا دیکھا ‘‘۔
’’ کیا آپ نے اُس سے بات کی؟‘‘
’’ نہیں ! میں تو دعائیں ہی پڑھتا رہا۔اور آج بھی آٹھ دس قیدی اپنی کوٹھڑیوں میں اُس دوران بری طرح چیخ چلا رہے تھے۔مگر اب سکون ہے۔میرا خیال ہے کہ وہ پھانسی گھاٹ کی طرف چلا گیا ہے‘‘۔
’’ ہاں ! میرا بھی یہ خیال ہے ۔ اطمینان رکھیں ، آج رات قیدیوں کی چیخ و پکار نہیں ہو گی۔ مجھے پادری نیلسن کا پتہ لکھوا دیجئے ‘‘۔
ڈاکٹر طلعت نے چند جملے پادری نیلسن کے نام لکھے : ’’ ایک انتہائی ضروری مسئلہ درپیش ہے۔کل رات نو بجے میرے گھر آ جائیں۔ معاملہ کی سنگینی کے پیشِ نظر اگر کل رات کی کوئی مصروفیات ہوں تو انہیں ملتوی کر دیا جائے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی شب پادری ڈاکٹر طلعت کے ہاں موجود تھے۔ کھانے کے بعد کافی کا دور چلا۔’’ پادری صاحب ! میں جو آپ کو بتانے والا ہوں ،اس کو سن کر آپ مجھے پاگل تو نہیں سمجھیں گے؟‘‘۔
جواب میں پادری صاحب مسکرائے : ’’ با لکل نہیں ! ‘‘۔
’’ کل اورپرسوں رات ٹیلی فون پر میری مجرم لقمان کی روح سے بات چیت ہوئی ہے جو د و روز قبل پھانسی چڑھ چکا ہے‘‘۔
اس خبر کو سُن کر پادری صاحب نے اپنی کرسی گھسیٹ کر ڈاکٹر کے قریب کر لی۔
’’ اُس کی روح آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیا بات ہو سکتی ہے‘‘۔ڈاکٹر طلعت نے کہا۔
’’ کوئی مذاق تو نہیں کر رہا؟‘‘۔پادری نیلسن بولے۔
’’مذاق؟ کون کر سکتا ہے؟ ‘‘۔ ڈاکٹر بولے۔
’’ بہر حال مذاق ہو یا نہیں ۔اگر کوئی مصیبت میں ہے تو اُس کی ضرور مدد کرنا چاہیے‘‘۔پادری صاحب بولے۔
ابھی اُن کی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
’’ پادری صاحب ! آپ نے گھنٹی سُنی؟ ‘‘۔
’’ کیسی گھنٹی؟ مجھے تو کسی گھنٹی کی کوئی آواز نہیں آئی‘‘۔
ڈاکٹر نے لپک کر ریسیور اُٹھایا: ’’ ہاں ! پادری صاحب موجود ہیں۔میں کوشش کرتا ہوں کہ تمہاری آواز سُن سکیں‘‘۔
یہ کہہ کر وہ پادری صاحب سے مخاطب ہوئے: ’’ پادری صاحب لقمان کی روح شدید ترین عذاب میں مبتلا ہے۔وہ چند جملے آپ سے کہنا چاہتا ہے کوشش کیجئے کہ اُس کی آواز آپ سُن سکیں‘‘۔
’’ میں تیار ہوں ‘‘۔پادری صاحب بولے۔اور ریسیور کان سے لگا لیا۔
’’ میں پادری نیلسن بات کر رہا ہوں ‘‘۔پادری صاحب نے چند لمحے انتظار کیا: ’’ مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ہیلو !! اوہ میرے خدا ! واقعی کوئی سسکیوں کے ساتھ رو رہا ہے‘‘۔
’’ پادری صاحب ! سننے کی کوشش کیجئے ‘‘۔ڈاکٹر بولے۔
پادری صاحب نے رنجیدہ ہو کر ریسیور ڈاکٹر کو دیتے ہوئے کہا: ’’ کوئی کہہ رہا ہے کہ میں نے ہی اُنہیں قتل کیا تھا۔ میں اُس کا اعتراف کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ معاف کر دیا جاؤں، یہ تو مذاق لگتا ہے۔ کوئی ایسا شخص ،جو جانتا ہے کہ تُم روحانی اور مخفی علوم کی شُد بُدرکھتے ہو۔ وہی ایسا کام کر سکتا ہے‘‘
ڈاکٹر نے ریسیور کان سے لگایا: ’’ میں ڈاکٹر طلعت بول رہا ہوں۔ کیا تم پادری نیلسن کو کوئی ایسی نشانی دے سکتے ہو کہ اُن کو یقین آ جائے کہ یہ تم ہی تھے؟‘‘۔اپنے سوال کا جواب سُن کر انہوں نے ریسیور واپس رکھ کر گفتگو ختم کر دی۔
’’ وہ کہتا ہے کہ ایسا کر سکتا ہے‘‘۔ڈاکٹر نے کہا، ’’ ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا ہو گا‘‘۔
موسم قدرے گرم ہوتا جا رہا تھا لہٰذا کمرے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔تقریباََ پانچ منٹ دونوں حضرات دم سادھے بیٹھے رہے۔ لیکن کچھ ظاہر نہ ہوا۔ پادری صاحب کچھ کہنے ہی والے تھے کہ اچانک کمرے میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا جس سے میز پر رکھے کاغذ ادھر اُدھر پھڑ پھڑانے لگے۔ڈاکٹر نے اُٹھ کر کھڑکیاں بند کیں۔
’’ کیا آپ نے محسوس کیا‘‘۔
’’ ہاں ! ایک دم بہت ٹھنڈی ہوا محسوس ہوئی ‘‘۔ابھی پادری صاحب نے بات ختم ہی کی تھی کہ کھڑکیاں بند ہونے کے با وجود ویسا ہی ٹھندی ہوا کا ایک اور جھونکا آیا۔
’’ کیا یہ تیز ہوا آپ کو محسوس ہوئی؟ ‘‘۔ڈاکٹر نے پادری صاحب سے سوال کیا۔
پادری صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔اور کتابِ مقدس سے دعایہ کلمات ادا کرنے لگے: ’’ اے خداوند ! ہمیں اِس رات کے ہر قسم کے خوف و خطر ات سے بچا‘‘۔
’’ کوئی چیز آ رہی ہے‘‘۔ڈاکٹر بولے۔
اگلے ہی لمحے انہوں نے کمرے کے وسط میں سر نیچے جھکائے ایک شخص کھڑا دیکھا جس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔پھر اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو اُٹھایاجیسے کوئی بہت زیادہ وزنی شے اُٹھائی جائے اور پھر چہرہ اُن کی طرف کر لیا۔ اُس کی آنکھیں۔۔۔لگتا تھا کہ حلقوں سے باہر آ رہی ہیں۔ یہی حال تکلیف میں لٹکتی ہوئی زبان کا تھا۔گردن پر ایک بہت واضح نیلا نشان نظر آ رہا تھا۔پھر فرش پر کسی چیز کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی۔بیک وقت پادری اور ڈاکٹر صاحبان نے دیکھا کہ آنے والا وجود تو غائب ہو گیا البتہ عین اُسی جگہ ایک بل کھاتی ہوئی نئی رسی نظر آئی۔
کچھ دیر تک تو اِن دونوں میں سے کوئی نہیں بولا۔ڈاکٹر کی پیشانی پسینے سے تر تھی جب کہ پادری نیلسن مسلسل دعاؤں کا ورد کر رہے تھے۔ڈاکٹر طلعت نے رسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’ یہ رسی پھانسی دینے کے بعد اچانک غائب ہو گئی تھی‘‘۔
اُسی لمحہ ٹیلی فون کی گھنٹی پھر بجی۔اب کی دفعہ پادری صاحب نے ایک سیکنڈ انتظار نہیں کیا ۔ لپک کرریسیور کان سے لگایا۔کچھ دیر خاموشی سے سنتے رہے ۔’’ لقمان ! ‘‘، انہوں نے کہنا شروع کیا ۔’’ خداوند کو حاضر ناظر مان کر کیا تم اپنے کیے پر سچے دل سے شرمندہ ہو؟ کیا تم اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہو؟‘‘ ۔جواب میں جو کہا گیا اُس سے پادری نیلسن کے چہرہ پر بھی اطمینان نظر آیا اور انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ’’ اب کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ڈاکٹر !‘‘۔یہ کہتے ہوئے انہوں نے ریسیور واپس رکھ دیا۔ڈاکٹر طلعت کی نظریں اب بھی کمرے میں کسی وجود کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔ پھر انہوں نے اپنے ملازم کو آواز دے کے بلوایا اور کہا:
’’ یہ رسی لے جاکر جلا ڈالو‘‘۔
ملازم نے کچھ توقف کیا اور پھر حیرانی سے بولا: ’’ کون سی رسی جناب ! ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر مئی کے ماہنامہ قومی ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔
Comments