پاکستان کا قومی ترانہ دوبارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟
پاکستان کا قومی ترانہ
دوبارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟
تحریر شاہد لطیف
وزارتِ اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ، حکومتِ پاکستان کی جانب سے ۲۰ اگست کے قومی اخبارات میں آدھے صفحہ کا اشتہار شائع ہوا۔ جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ اب دوبارہ نئے سازوں اور آوازوں کے ساتھ صدا بند کیا جانے والا ہے۔ اِس میں کیا ساز ہوں ؟ ان کی تفصیل بھی درج ہے۔یہ بھی واضح درج ہے کہ اب آوازوں کے ’ کاؤنٹر ‘ کا استعمال کروا کر اس کو مغربی رنگ دیا جانے والا ہے۔ موسیقاروں اور فلمسازوں سے تکنیکی اور مالی بنیاد پر پیشکشیں مانگی گئی ہیں۔ اِس ترانے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی تفصیل اس کے علاوہ ہے۔
اس اشتہار سے بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں :
سب سے پہلا سوال جو یہ اشتہار پڑھ کر ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ کہ اِس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اِس سلسلے میں ، میں نے بھی تحقیق کی۔ ہمارے ذرائع کے مطابق 70 ویں یومِ آزادی شایانِ شان منانے کے سلسلے میں مذکورہ وزارت میں ایک اعلی سطح کی میٹنگ ہوئی ۔ سیکریٹری انفارمیشن کی موجودگی میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی طے ہوا کہ پاکستان کا قومی ترانہ اور اُس کا سازینہ نئے زمانے اور نئے تقاضوں کے تحت دوبارہ نئی آوازوں اور نئے سازوں سے ریکارڈ کیا جائے۔ پھر اس کے بعد ایک نہایت خوبصورت ویڈیو بنائی جائے۔
14 اگست ، 2017 کے پس منظر میں باقی تمام پروگراموں پر عمل کروا لیا گیا لیکن ’ کسی ‘ وجہ سے اِس منطور شدہ کام کو ’ مناسب وقت ‘ کے لئے اُٹھا رکھا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۱۴ اگست کی تقریبات کے لئے ایک پروگرام ’’ نئے ساز و آواز کے ساتھ قومی ترانہ ‘‘ ۔۔۔ اگر اُن تقریبات میں پیش نہیں ہو سکا تو اب کس بنیاد پر اس کا شوشا چھوڑا گیا ہے؟ اگر قومی ترانے کو 70 ویں یومِ آزادی کے سلسلے میں دوبارہ سرکاری طور پر ریکارڈ کروانا بہت ضروری تھا تو یہ کام سرکاری اداروں جو وزارتِ اطلاعات و نشریات کے تحت ہیں یعنی پاکستان ٹیلی وژن، پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن، شالیمار ریکارڈنگ کمپنی، ڈیپاٹمنٹ آف فلم اینڈ پبلیکیشنز ، ٹوارزم اور کلچرل ڈپارٹمنٹ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ تو اِن کے ہوتے ہوئے یہ کام باہر سے کیوں کروایا جا ئے؟
کیا یہ سرکاری ادارے سفید ہاتھی ہیں؟ اگر ان میں قابل لوگ موجود نہیں تو ان اداروں کا فائدہ کیا؟اِن اداروں کی موجودگی میں بھی اگر ٹینڈر مانگے جا رہے ہیں تو پھر ان اداروں کو بھی نجی شعبہ کے سپرد کر دیں۔
ہے تو یہ ایک اشتہار لیکن اس کے پیچھے اصل محرکات کچھ اور ہیں۔
بات اپنے مونہہ میاں مٹھو بننے کی ہے لیکن مثال دینا مجبوری ہے ۔
ریڈیو ، فلم اور ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیت سہیل رعنا کو کون نہیں جانتا۔موسیقی وجہ شہرت بنی لیکن قسمت اور بخت کے لحاظ سے، ہمارے ملک میں ان جیسا کوئی اور نہیں۔ میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرامز سے مُنسلک تھا جب 1980 کے اوائل میں ایک دِن اچانک اُس وقت کے پروگرامز منیجر صاحب نے ایک انوکھا حکم سُنایا کہ پی،ٹی وی کے منیجنگ ڈائرکٹر ضیاء نثار جالندھری صاحب کے لکھے ایک قومی نغمے کو فوراََ ریکارڈ کروا کر نشر بھی کروانا ہے۔میرے ذہن میں فوراََ مہدی ظہیر ، سہیل رعنا اور عالیؔ صاحب والا نغمہ ’ اللہ اکبر ‘ آئے۔سُہیل رعنا سے اس نغمہ کی دھن بنانے کی تجویز پیش کی جو فوراََ منظور ہو گئی۔ میں نے تمام ماجرا سُنا کر نغمہ کے بول بتائے جِس پر اُنہوں نے کسی تبصرے کے بغیر کہا کہ نمایاں گلوکار حبیب ولی محمد کو رکھ لو باقی30 سے 40 لڑکے لڑکیاں اور کراچی مرکز پر جو بھی گلوکار/ گلوکارائیں ہیں سب کو اگر آج رہرسل پر بُلوا لو تو دو تین دِن میں نغمہ ریکارڈ ہو سکتا ہے۔میں نے کہا کہ سب کچھ 7 گھنٹوں کے اندر ہو سکتا ہے لیکن 30-40لڑکیاں اور لڑکوں کے سُر تال میں پورے ہونے کا امتحان کون لے گا؟ اِس جواب سے وہ بہت خوش ہوئے ،پھر مشورہ ہوا کہ تعداد یہی ہو اور مجھ کو اختیار دیا کہ یہ امتحان میں خود لوں۔یہ انتظام کیسے ہوا ؟ اِس پر پھر کبھی بات ہو گی۔وہ نغمہ صدا بند ہوا پھر ویڈیو ریکارڈنگ اور تدوین ( جو چند گھنٹوں میں کی گئی ) کے بعد مقررہ وقت سے کہیں پہلے نشر بھی ہو گیا: ؎
روشن و رخشان نےئر و تاباں پاکستان رہے .....
جب خاکسار نے معاون پروڈیوسر کی حیثیت سے ایک نغمہ دِنوں میں واجبی بجٹ میں کروا لیا تو وزارت اتنی بڑی فوج کو استعمال میں کیوں نہیں لائی۔یہ اُس کی نا اہلی کا مونہہ بولتا ثبوت ہے۔
اشتہار میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ کون پیشکش دینے کا اہل ہے ؟ تا کہ علم ہو سکے کہ کون نا اہل؟ اب اگر بھارت سے کوئی نامور فلمساز یا موسیقار نہایت مناسب بجٹ میں یہ کام کرنے کی پیشکش کریں تو اُن سے کام نہ لینے کا اِس اشتہار میں کوئی ذکر نہیں۔
اس قدر اہم قدم اٹھانے سے پہلے کیا وزارتِ اطلاعات نے قومی پریس کو اپنے اعتماد میں لیا؟ کیا کوئی پریس کانفرنس کی کہ ہم یہ کرنے جا رہے ہیں؟۔ کیا اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کا موقف جاننے کی کوئی کوشش ہوئی؟ کیا متعلقہ وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی یا سینٹ میں ایسے کسی کیے جانے والے اقدام کی بات کی ؟
اتنے اہم معاملے پر تو ایک عام پاکستانی کی بھی رائے معلوم کرنا ضروری ہے۔ریفرنڈم ہونا چاہیے ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک میٹنگ ہوئی اور طے کر لیا ۔۔۔ نہیں نہیں یہ بہت غلط ہو رہا ہے۔ قومی اہمیت کی چیزوں کو اتنی آسانی سے نہیں چھیڑا جا سکتا۔یہ توایک بری مثال قائم ہو جائے گی اور اس کو کھیل بنا لیا جائے گا۔کل کسی میٹنگ میں یہ بھی طے کیا جا سکتا ہے کہ قائدِ اعظم ؒ کا مزارگرا کر دوبارہ نئے دور اور نئے تقاضوں کے تحت اوپن ٹینڈر دے کر بنوایاجائے ! ہر آنے والی حکومت کے لئے راہ ہموار ہو جائے گی کہ وہ قومی اہمیت کی چیزوں کو حسبِ منشاء تبدیل کرتے رہیں۔
اکثر قومی معاملات عدالتوں میں لے جائے جاتے ہیں اور بعض کا عدالتیں از خود نوٹس لیتی ہیں۔ حیرت ہے اتنے اہم معاملہ پر کوئی سیاسی قائد نہیں بولا۔دینی پارٹیاں بھی خاموش ہیں یہاں تو سرے سے موسیقی ہی حرام ہے تو کروڑوں روپے اِس مد میں حکومتِ پاکستان کیوں لگا رہی ہے۔ ہے کوئی پوچھنے والا؟
وزارتِ اطلاعات کا کام عوام کو اطلاعات دینا ہوتا ہے۔بڑے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ مذکورہ اشتہار میں خود ایک غلط اطلاع موجود ہے: ’ آ ڈیو ‘ کے عنوان کے نیچے بارہویں سطر میں تحریر ہے:
’’ نسوانی آوازیں جو کہ موجودہ قومی ترانے میں مفقود ہیں انہیں بھی شامل کیا جائے گا ‘‘۔
پڑھنے والوں اور حکومت کی ’’ اطلاع ‘‘ کے لئے عرض ہے کہ 1954میں محترمہ کوکب جہاں، محترمہ رشیدہ بیگم، محترمہ نجم آراء اور محترمہ نسیمہ شاہین اُن خوش نصیبوں میں شامل تھیں جن کو ریڈیو پاکستان کراچی میں قومی ترانہ صدا بند کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ قارئین ! میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کیوں کہ خاکسار نے، محترمہ کوکب جہاں، ، محترمہ رشیدہ بیگم اور محترمہ نسیمہ شاہین ، اِن سب سے اِس بارے میں خود پوچھا تھا۔اِس کے علاوہ جناب مہدی ظہیر ، احمد بھائی المعروف احمد رشدی اور جناب اختر وصی علی (گلوکارہ مہناز کے والد ) بھی اُس صدابندی میں شامل تھے اور وہ بھی اِن خواتین کا نام احترامسے لیا کرتے تھے۔
نئے قومی ترانے کی ویڈیو کے حوالے سے آخری گزارش ہے کہ وزارتِ سیاحت، ڈیپارٹمنٹ آف فلم اینڈ پنلیکیشنز کے ہوتے ہوئے دوسروں سے کام کروانا کیا معنی رکھتا ہے؟ شمالی علاقہ جات، کوئٹہ زیارت اور دیگر خوبصورت اور تاریخی علاقوں میں ان اداروں کے ریسٹ ہاؤسس موجود ہیں۔نیز ہر طرح کے ذرائع آمد و رفت اور سہولیات میسر ہیں بشمول قومی ائر لائن۔بر سبیلِ تذکرہ بتاتا چلوں کہ دوسرے پی ٹی وی ایوارڈ (غالباََ 1982) میں پورے پاکستان سے تمام فنکار، تکنیکی ماہرین اور پروڈیوسرز اسلام آباد میں تین روز تک ٹہرے۔یہ سب حکومتی خرچے پر ہوا۔کیا حکومت اب اتنی کنگال ہو گئی ہے کہ اپنے سرکاری کام ٹینڈر پر کروانے لگی؟
پی ٹی وی کے تکنیکی ماہرین جیسے کیمرہ، آڈیو، ایڈیٹنگ اور پروڈیوسر۔۔۔محکمہء سیاحت کی راہنمائی اور ریسٹ ہاؤس اور ان دونوں اداروں کے ذرائع نقل و حمل۔۔۔ حکومت اگر چاہے تو اُس کا ایک حکم بغیر کسی اضافی خرچے کے ان سے بہترین پروڈکشن لے سکتا ہے۔ سرکاری اداروں میں پہلے بھی جوہرِ قابل موجود تھے اور اب بھی ہیں۔آزمائش شرط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر اکتوبر 2017 کے ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئی ہے۔
Comments