کراچی میں ٹریفک کے مسائل و حادثات میں موٹر سائیکل کا کردار
کراچی میں ٹریفک کے مسائل و حادثات میں موٹر سائیکل کا کردار
تحریر شاہد لطیف
پچھلے دِنوں جامعہ کراچی کے شعبہ جغرافیہ کے زیرِ اہتمام ایک سمینار کا انعقاد ہوا جس کا عنوان ’ روڈ اوئیرنیس‘ تھا۔اس میں بعض چونکا دینے والے اعداد و شمار اور انکشافات کیے گئے۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس عمران یعقوب نے کہا : ’’ 75 فی صدحادثات موٹرسائیکل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اِس کا شکا ر 16 تا22 سال تک کے نوجوان بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں۔اِن حادثات کی ایک بڑی وجہ ہیلمٹ کا عدم استعمال ہے‘‘۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔آپ کراچی کے کسی بھی مصروف اشارے، کراسنگ، یو ٹرن حتیٰ کہ ریلواے پھاٹک پر چلے جائیں ۔آپ کو ایک ہی نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔وہ یہ کہ تقریباََ تمام ہی موٹر سائیکل سوار (بشمول فیملی) ٹریفک قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سے آگے جمع نظر آتے ہیں ۔ابھی اُن کے جانے کا اشارہ بھی نہیں کھلتا کہ پانچ دس موٹر سائیکل والے اکٹھے اپنی راہ لیتے نظر آئیں گے۔یہ لوگ فرض کر لیتے ہیں کہ ان کو یہ سب کرنے کا حق ہے، اِن کا وقت دوسروں سے زیادہ قیمتی ہے (اور جان سستی) اور سب سے بڑھ کر کوئی اِن کی موٹر سائیکل کو ٹچ بھی کر دے تو ۔۔۔۔ یہاں پر پولیس بھی ناکام ہے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ جغرافیہ کے چیئرمین ڈاکٹر جمیل کاظمی نے کہا : ’’ روڈ سیفٹی عصرِ حاضر کا ایک بڑا مسئلہ ہے جِس سے ترقی پذیر ممالک کے لوگ بڑی تعداد میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔کراچی بھی اِس مسئلہ سے دو چار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد بھی ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے انہیں قوانین سے آگاہی نہیں ہوتی‘‘۔اب یہ آگاہی کون دے گا؟اور جب اس کے بغیر ہی کام چل رہا ہے تو یہ آگاہی لی ہی کیوں جائے؟ کوئی کیا بگاڑ لے گا؟ اِس قِسم کی سوچ ہمارے معاشرے ہی میں پروان چڑھی ۔ کیسی آگاہی؟ یہاں تو موٹر سائیکل چلانے کا لائیسنس ہی نہیں ہوتا۔کہیں پوچھ گچھ ہوتی بھی ہے تو آج کل قومی شناختی کارڈ پر چالان ہو جاتا ہے۔ٹریفک کے قوانین کی پاسداری تو وہ کرے نا جس کو وہ پتہ بھی ہوں! اگر شروع ہی میں ڈرائیونگ لائیسنس کے حصول کے لئے تحریری اور عملی امتحان لازمی ہوتے تو یہ دِن نہیں دیکھنا پڑتے۔مشرف دور میں موٹر سائیکلیں بینکوں کی آسان اقساط اسکیموں کی وجہ سے بہت زیادہ تعداد میں عوام نے حاصل کر لیں۔ جس نے سائیکل چلا لی بس سمجھئے وہ موٹر سائیکل چلانے کا اہل ہوا۔
جب موٹر سائیکل، کاریں، جیپیں، ڈمپر، بسیں اور بھاری گاڑیاں چلانے والوں کو ٹریفک قوانین کی الف ب ہی نہیں پتہ تو یہی کچھ تو ہو گا۔عوام یہ سوال اِن متعلقہ ا فسران سے کر سکتے ہیں کہ صاحب آپ نے آج تک ٹریفک قوانیں کی سنگین خلاف ورزیوں کی بنا پر کتنے ڈرائیونگ لائیسنس منسوخ کیے؟ کتنے افراد کو جیل بھیجا؟۔۔۔
اِسی نشست میں دیگر کئی اہم باتیں بھی سامنے آئیں مثلاََ یہ کہ کراچی میں ہونے والے ان حادثات کے تیس فی صد سے زائد حادثات، سڑکوں کے ڈیزائن میں نقائص اور یو ٹرن کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ بیشک یہ بات درست ہو گی اور ایسا ہوتا بھی ہو گا لیکن اکثر موٹر سائیکل سوار تو اِس سے بھی آگے چلے جاتے ہیں۔یعنی غلط سمت میں ڈنکے کی چوٹ چلتے ہیں اور کبھی کوئی ہلکی پھلکی سائڈ لگ جائے تو اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ کرتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریفک قوانین پر نہ صرف شاہراؤں بلکہ چھوٹی سڑکوں اور گلی محلوں میں بھی عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
این ای ڈی یونیورسٹی کے سول ا نجینئرنگ اینڈ آرکیٹیکچر ڈاکٹر شبر علی نے کہا : ’’ دنیا بھر کے ٹریفک حادثات میں سالانہ 13 لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ دو سے پانچ کروڑ افراد زخمی۔ 2017 میں کراچی میں 182 ٹریفک حادثات پیش آئے۔جِن میں 163 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں‘‘۔
حادثات تو حادثات ہوتے ہیں ۔ اس کا موجب کبھی معمولی غفلت ، کبھی تھکن،کبھی غصہ کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا ہوتا ہے اور پھر دورانِ ڈرائیونگ موسیقی اور موبائل فون سُننا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ ۔۔۔اور۔۔۔ کبھی خود آگے بڑھ کر موت کو گلے لگانا جیسا کہ آجکل ایک پہیے پر موٹر سائیکل چلانا ’ ون وہیلنگ ‘ یا اُس کی سیٹ پر لیٹ کر مصروف شاہراؤں پر تیز دوڑانا وغیرہ۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ممبران سے درخوست ہے کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائیں جس کی رو سے ایسا کام کرنے والا (اگر زندہ بچ گیا ہو تو) اتنی سخت سزا پائے کہ دوسرے ون وہلینگ کرنے والے عبرت پکڑیں ۔ ون وہلینگ کرنے والا اکثر جان سے جاتا ہے۔بچ جائے تو ایک طویل عرصہ وہ پہلی والی چستی نہیں رہتی اور کبھی یہ کم بخت ون وہلینگ عمر بھر کی محتاجی بخش جاتی ہے۔اُس بد قسمت نوجوان کے گھر والے الگ پریشان اور اُس کی لپیٹ میں آنے والے دوسرے بے قصور الگ پریشان ہو جاتے ہیں۔
بات ہو رہی ہے موٹر سائیکل سواروں کے غیر قانونی رویوں اور لاپرواہیوں کی ۔ اِس ضمن میں دو مشاہدات بہت عام ہیں۔ایک ریلوے پھاٹک اور دوسرا اسکول کالج کے چھٹی کے اوقات۔اِن دونوں موقعوں پر موٹر سائیکل سواروں کی بازی گری دیکھنے کے قابل ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ یہ سواری تنگ گلیوں اور رش والے علاقوں کے لئے بہت مفید ہے لیکن اس کا نا جائز فائدہ اٹھانا ، خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادِف ہے؛ جب کہ اسکول کے بچے اور گھر کی خواتین بھی اس پر بیٹھی ہوتی ہیں۔خصوصاََ وہ نوجوان جو اپنے چھوٹے بہن بھائی اسکول سے لاتے ہیں یا کالج سے بہنوں کی واپسی کے لئے سڑک پر ہوتے ہیں وہ ٹریفک کے کسی ضابطے کی پرواہ نہیں کرتے۔اسکول کالج کے سامنے رش ہے تو وہ دوسری طرف والی غلط سمت میں جانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔اسکول کالج والی سڑک پر آنا ضروری ہو تو بڑے آرام سے موٹر سائیکل فُٹ پاتھ پر چڑھا کر عازم سفر ہوتے ہیں اور جو پیدل خواتین و حضرات ٹریفک سے حفاظت کی خاطر یہاں چلتے ہیں ، بے چارے مونہہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔بد قسمتی سے یہ تمام تفصیلات پورا کراچی جانتا ہے۔اِن کی اصلاح کے لئے سیمینار اور اجلاس بھی ہوتے ہیں پھر یہ سب کیوں درست نہیں ہوتا؟ صرف اِس لئے کہ ہم بطور شہری تو بہت باتیں کرتے ہیں لیکن بطور والدین، اُستاد اور ناصح ہم انفرادی طور پر اپنی اولاد، شاگردوں اور عزیزوں کی تربیت نہیں کرتے یا ۔۔۔ پھر ڈنڈا ہی اِسے درست کر سکتا ہے!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
کالم اُلٹ پھیر ' میں یہ تحریر 28 اکتوبر 2017 بروز سنیچر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہوئی۔
Comments