خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ




ٹیلی وژن اداکارہ خالدہ ریاست
( یکم جنوری 1953 سے 26 اگست 1996 )
تحریر شاہد لطیف

خالدہ ریاست ۔۔۔70 اور80 کی دہائی کا ایک چمکتا ہوا تارہ جو اپنی ہم عصرخاتون فنکاروں، روحی بانو اور عظمیٰ گیلانی سے کسی طور بھی کم نہیں۔پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کی نامور اداکارہ عائشہ خان، خالدہ کی بڑی بہن ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اپنی ہم عصر ساتھی فنکاراؤں کے مقابلے میں انہوں نے کم کام کیا لیکن جو کردار ادا کیا، ایسا کیا گویا کہ یہ خالدہ ریاست نہیں بلکہ وہ کردار خود چیخ چیخ کر اپنی موجودگی ثابت کر رہا ہو۔ جید اور تجربہ کار فنکاروں کا اپنا ایک معیار ہوا کرتا ہے لیکن خالدہ کے ہاں معیار کا بھی ایک اپنا ہی معیار ہے۔وہ ایسے کہ انہوں نے اپنی اداکاری کا کوئی ایک معیار مقرر ہی نہیں کیا ۔ اُن کے ہاں تو ہر ایک ڈرامے اور ہر ایک کردار کا اپنا ہی علیحدہ معیار ہوا کرتا تھا۔ اداکاری میں کردار کواپنے اوپر حاوی کر کے سامنے لے آنا کوئی مذاق نہیں۔ دیوانگی کی حد تک کردار میں ڈوب کر اپنی روح کے کرب کو سامنے لانے کی شدید ترین تکلیف اور کسی کے بس کا روگ نہیں ۔

خالدہ ریاست سلسلے وار ڈرامہ سیریل ’ نامدار ‘ سے ٹیلی وژن اسکرین پر آنا شروع ہوئیں البتہ 1970 کے اواخر میں نشر ہونے والے ،حسینہ معین کے لکھے اور میرے اُستادِ محترم جناب محسن علی صاحب کے پیش کئے گئے سلسلے وار کھیل ’ بندش ‘ سے اُن کی پہچان بنی۔میرے خیال میں 70 کی دہائی اور 80 کے اوائل کا زمانہ خالدہ کی فنی زندگی کا بہترین زمانہ ہے۔اِن کے مشہور ڈراموں میں شاہد کاظمی صاحب کا لکھا ہوا ’پناہ ‘، حسینہ معین کا لکھا ہوا ’بندش‘، انور مقصود کا لکھا ہوا ’ہاف پلیٹ ‘، سلیم احمد صاحب کا لکھا ’ تعبیر ‘، وغیرہ شامل ہیں۔ 1976 میں جب پی ٹی وی کی نشریات بلیک اینڈ وائٹ کی جگہ رنگین ہونا شروع ہوئیں تو خالدہ ریاست کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ و ہ پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے پہلا رنگین ڈرامہ ’ پھول والوں کی سیر ‘ میں آصف رضا میر کے مقابل اداکارہ تھیں ۔ مذکورہ ڈرامے کو اشفاق احمد نے لکھا اور محمد نثار حسین نے پیش کیا۔اِسی دور میں قومی اخبارات میں فن و ثقافت پر لکھنے والے خالدہ ریاست کو روحی بانو اور عظمیٰ گیلانی کی صف کی اداکارہ شمار کرتے تھے۔

خالدہ جتنی اچھی سنجیدہ اداکاری کیا کرتی تھیں، ان کی ویسی ہی عمدہ اداکاری مزاحیہ کرداروں میں بھی تھی۔اُس کا ڈرامہ سیریل ’ پڑوسی ‘ میں مزاحیہ کردار ہی تھا جو ٹیلی وژن کے لئے خالدہ کا آخری کام ثابت ہوا۔

راقم اکتوبر 1980 میں جب پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز میں اپنی جا ئننگ دینے اُس وقت کے پروگرامز منیجر جناب محسن علی صاحب (م) کے دفتر گیا تووہاں چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے جِن میں ایک خالدہ ریاست بھی تھیں۔ مُحسن صاحب نے خوش ہو کر چند جملے کہے ۔مجھے آج تک یاد ہے کہ اِس کے فوراََ بعد خالدہ ریاست نے بھی مسکرا کے مبارکباد دی جِس پر میں نے مذاقاََ حیرت کا اظہار کیا کہ آپ تو روزمرہ بول چال میں ایک عام انسان ہی دِکھتی ہیں۔اِس بات پر وہاں بیٹھے ہوئے لوگ ہنس پڑے۔ اِس ہنسی میں ایک آواز خود خالدہ کی بھی تھی۔ مجھے یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ وہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز میں میرا پہلا پہلا دِن تھا ۔اور ایک نامور اداکارہ نے خلوص کے ساتھ مجھے مبارکباد دی اور حوصلہ بڑھایا۔ 

میں نے پی ٹی وی سے ڈرامہ سیریل، انفرادی ڈرامے، طویل دورانیہ کے کھیل کراچی مرکز کے نامور پروڈیوسروں کے ساتھ کیے لیکن اتفاق ہے کہ کسی ایک میں بھی براہِ راست خالدہ ریاست کا ساتھ نہ ہوا۔البتہ پناہ کی تیاری اور ریکارڈنگ کے دوران ،میں اکثر اوقات سیکھنے کی غرض سے اسٹوڈیو چلا جا تا تھا۔وہیں عظمیٰ گیلانی سے بھی پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔یہاں خالدہ کو قریب سے اداکاری کرتے ہوئے دیکھا۔یہاں ایک نہیں بلکہ 2 عدد خالدائیں نظر آئیں۔ایک وہ جو وہ تھیں اور دوسری وہ جو شہزاد خلیل (م) کی ریکارڈنگ شروع کرنے کی آواز پر وجود میں آتی تھیں۔یہ وہ خالدہ تھی جو سیکنڈوں میں خالدہ ریاست کے بجائے وہ کردار بن جاتی تھی۔بالکل ایسے جیسے کوئی سحر زدہ شخص ، سحر کے دوران کسی عامل سے بات کرے۔ یہ بہت ہی حیران کُن بات ہے لیکن شاید یہی اداکاری کی معراج بھی ہو !

1979میں میرے بڑے بھائی کی شادی ہوئی۔اُس وقت مجھے علم ہوا کہ خالدہ ریاست میری بھابی کی چھوٹی بہن نصرت کی بہت اچھی سہیلی تھیں اور اُس کے گھر بہت آتی جاتی تھی۔ بیماری کے دوران وہ میری بھابی کے گھر آ جایا کرتی کیوں کہ اُن دنوں نصرت دبئی میں تھی۔ میری بھتیجی سارہ اکثر اُس کا ذکر کرتی تھی ۔خالدہ ریاست کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے میں نے اپنی بھتیجی اور بھابھی کی بہن نصرت سے بات کی۔سارہ نے اُس کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا : ’’ وہ زندگی سے بھرپور اور بہت ہنس مکھ تھیں۔اُن کی زندگی میں بہت دُکھ تھے لیکن اُنہوں نے کبھی مجھ سے گفتگو میں غم یا اداسی کا عنصر نہیں آنے دیا۔اُنہیں بریسٹ کینسر تھا لیکن کبھی سرجری نہیں کروائی ۔ اُن کا ہمارے ہاں بہت آنا جانا تھا ۔کبھی اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے آتی تھیں۔ یہ اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلی رہا کرتی تھیں۔ اُن کا بیٹا اُس وقت بہت چھوٹا تھا۔اکثر میری امی اُنہیں کیموتھراپی کے لئے اسپتال لے جاتیں اور پھر اپنے گھر لے آتیں۔وہ اُس وقت بھی ہم سے پہلے ہی کی طرح بات چیت کیا کرتیں ۔۔۔ اُنہوں نے بڑی بہادری اور حوصلے کے ساتھ اپنی بیماری کا مقابلہ کیا۔۔۔بیماری کے باوجود اُن کے آنے سے ہمارے گھر میں رونق ہو جاتی۔اللہ اُن کی مغفرت کرے ۔۔۔میری امّی نے اُن کی تدفین کروائی ‘‘۔

نصرت نے اُس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا :
’’ میری اُس کے ساتھ 1970 سے ملاقات ہے جب ہم دونوں بجیا کے ڈرامہ سیریل ’ آبگینے ‘ میں اکٹھے کام کر رہے تھے۔۔۔وہ باتیں کرتے کرتے اچانک خاموش ہو جایا کرتی تھی ۔ اپنے دل کی باتیں مجھے بتاتی تھی۔وہ ایک باغی لڑکی تھی۔ جھکنا تو اُس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ اس نے کبھی اپنی مرضی کے خلاف سمجھوتانہیں کیا اور وہ ذہنی طور پر غیر متوازن تھی۔۔۔ یہ اکثرہمارے گھر آ کر رہتی ۔خود اُس کے گھر والے، اُس کی والدہ، بڑی بہنیں مجھے ذریعہ بنا کر اُسے پیغام پہنچاتی تھیں کیوں کہ اُس کی کبھی بھی اپنے گھر والوں سے نہیں بنی۔ لاہور میں اپنی مرضی سے پی ٹی وی کے سرمد صہبائی سے شادی کی لیکن نباہ نہ ہو سکا اور اپنے بیٹے کو لے کر کراچی آ گئیں۔ جب اُس نے مجھے اپنی گلٹیوں کا بتایا تو میں ہی اُس کو آغا خان اسپتال لے کر گئی تھی ۔ کچھ عرصہ بعد میں دبئی چلی گئی۔وہاں سے بھی میں نے اُس سے فون پر رابطہ ر کھا۔ شدید بیماری یا آخری وقت سے کچھ پہلے اُس نے اپنی خواہش کااظہار کیا کہ میرے گھر والوں کو تدفین میں شریک نہ کیا جائے ۔ اس وقت میں ملک میں نہیں تھی لیکن میری بڑی بہن ( راقم کی بھابی) نے اُس کی خواہش کا احترام کیا اور خالدہ کی تدفین کا سارا انتظام کروایا۔

ڈرامہ سیریل پڑوسی میں اُس کا کردار جیسا کہانی میں تھا ، اصل میں بھی خالدہ ویسے ہی تھی۔میں نے اس سے پوچھا بھی تھا کہ تم نے کہیں اپنی کہانی حسینہ معین سے تو نہیں لکھوا لی؟ ۔۔۔

وہ زیادہ گھلتی ملتی نہیں تھی۔گھر میں سادا تھی۔ٹیلی وژن میں اپنے کام میں بھر پور طریقے سے حصہ لیا کرتی تھی اور دوسروں سے تعاون بھی ۔۔۔ وہ مجھے اپنی بہن کی طرح سمجھتی تھی۔۔۔بہت زیادہ حسّاس لیکن مستقل مزاج نہیں تھی۔۔۔پی آئی اے میں میرے ساتھ فضائی میزبان کی تربیت لی لیکن پھر چھوڑ دیا۔ اسی طرح پھر سعودیہ (سعودی عرب کی ائر لائن) کی بھی ٹریننگ لی وہ بھی لے کر چھوڑ دی۔۔۔ کسی بھی طرح ، کسی بھی حالت میں وہ پابند ہونا نہیں چاہتی تھی اِسی لئے اُسے ہر وقت معاشی پریشانی رہتی تھی۔ میں پابندی کے ساتھ اُسے دبئی سے ہر ماہ ایک رقم بھیجا کرتی تھی۔۔۔جب تک میں کراچی میں رہی ، باقاعدگی سے خود اُسے اسپتال لے جاتی رہی ۔۔۔ جب دبئی چلی گئی تب خالدہ نے اپنا علاج صحیح طور پر نہیں کرایا ۔اسے لاہور شہر تو پسند تھا لیکن لاہور سے اُس کو بہت تلخ تجربے ہوئے تھے لہٰذا وہ وہاں پھر واپس نہیں گئی ۔

اُس کا بیٹا رضا اُسی کے ساتھ رہا کرتا تھا۔میرا بیٹا شیری،اُس کا رضا، جاوید شیخ کی پہلی بیوی زینت منگھی سے اُس کا بیٹا ( جو آج کل ڈراموں میں آ رہا ہے) ، خالدہ کی بڑی بہن عذرا آپا کا بیٹا سب ایک ہی عمر کے ہیں۔۔۔ جب سے میرا بیٹا شیری باہر گیا سب بچوں سے رابطے منقطع ہو گئے ہیں ‘‘۔

کرداروں میں جان ڈالنے والی خالدہ ریاست محض 43 سال کی عمر میں، اس دنیا میں اپنا کردار ادا کر کے چل بسی !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 24 اکتوبر 2017 بروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔























 

Comments

Popular posts from this blog