امریکی بِپتا





امریکی   بِپتا

تحریر شاہد لطیف

چرکی ریڈ انڈین نَورا :
 2000 کے شروع کا ذکر ہے، راقم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیا کے ایک چھوٹے سے قصبے ’ اُوک ہِل ‘ میں رہتا تھا۔او ر کام کے سلسلے میں یہاں سے 52 میل کے فاصلہ پر ساؤتھ چارلسٹن چند روز کے اندر اندر منتقل ہونے کے انتظامات کا سوچ رہا تھا ۔ میری عادت تھی کہ فرصت کے اوقات یا کبھی چھٹی والے روز ،کسی ویران اور متروک قبرستان میں اپنی 1989 ماڈل کی ٹویوٹا ٹرسل میں جا کر گھومتا پھرتا۔ اِن ہی ایام میں ایک چرکی ( جِس کو ہم لوگ چیروکی کہتے ہیں) خاتون، نَورا Nora سے مُلاقات ہوئی جو اپنے آپ کو خالص چرکی کہلواتی تھی اور اس کی آنکھیں اور چہرہ مہرہ سب ہی ریڈ انڈین لگتا تھا۔میرے شوق کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے ایک خاندانی لیکن متروک اور غیر آباد قبرستان میں لے آئی۔واقعی ٹوٹے اور جھولتے ہوئے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہاں تو زمانے سے کوئی زندہ یا مردہ نہیں آیا ۔ میر ے کہنے پر وہ مجھے قبرستان کے ایک قدیم مقبرے میں لے آئی جس کا آدھا دروازہ کب کا گر چکا تھا ۔ بظاہر تو سورج کی روشنی کافی تھی لیکن اس مقبرہ میں کچھ کم محسوس ہوئی۔اندر اوپر تلے کئی ایک تابوت رکھے نظر آئے۔میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ سب دیکھتے ہیں جِس پر اُس نے پوچھا کہ کہ میں یہ تابوت اور صاحبِِ تابوت کیوں دیکھتا ہوں؟ میں نے جواب میں کہا کہ ’’ معلوم نہیں ‘‘ ۔اِس پر نورا نے حیرانی سے مجھے دیکھا ۔ہم نے اُس کمرے میں اوپر تلے رکھے9 تابوت کھول کر دیکھے۔کافی دیر بعد جب شام ڈھلے ہم اُس مقبرے سے واپس ہونے والے تھے، نورا نے کہا اگر مجھے یہاں سے کوئی چیز بطور یادگار لے جانی ہے تو وہ میں لے جا سکتا ہوں۔ میرے انکار پر وہ بہت خوش ہوئی۔شام کو وہ میری فارمیسی میں آئی ۔میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے فارماسسٹ کی اجازت سے دفتر میں خاتون کے ساتھ آ گیا۔ نورا نے پوچھاکہ قبرستان میں کیا پریشانی تھی ؟ میں نے کہا کہ مجھے جلد ایک حکومتی ملکیت کا تخفیف شدہ کرایہ پر اپارٹمنٹ درکار ہے جو ریاستتی ادارے Urban Development Housing and کے تحت آتا ہو۔


عجیب معاملہ :
نورا مسکرائی اور کہا کہ فون بُک یعنی ٹیلی فون ڈائرکٹری لاؤ۔وہ لائی گئی، تب اُس نے اپنے پرس سے کچھ رنگین کپڑوں کے ٹکڑے نکال کر ڈائرکٹری کے دائیں طرف رکھ دئیے پھر آنکھیں بند کر کے تاش کے پتوں کی طرح ڈائرکٹری کے صفحات کو چھیڑا۔اُس کے بعد دو تین دفعہ کھولا بند کیا ۔ پھر بالآخر ڈائرکٹری کو کھو ل کر بند آنکھوں سے دائیں جانب کے صفحے پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیریں ایک جگہ اُنگلی رکھ کر اپنی آنکھیں کھول دیں اور بغیر دیکھے کہا کہ اِس نمبر پر فون کر لو۔اب جو میں نے وہ صفحہ دیکھا تو دانتوں تلے انگلیاں آ گئیں۔یہ صفحہ اور اس سے ملحق کچھ اور صفحات ’ رئیل اسٹیٹ ‘ کے تھے اور خاص وہ صفحہ جہاں اُس نے انگلی رکھی تھی ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈیویلپمنٹ والوں کی پراپرٹی کا تھا۔

میری حالت غیر دیکھتے ہوئے وہ بولی ’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔تم اب ہمارے ہو‘‘۔یہ کہا اور اُس نمبر پر فون گھما دیا۔اُن سے کیا بات ہوئی وہ الگ ہے مگرکمال یہ ہواکہ مخاطب بھی چرکی تھا۔نورا نے کہا کہ وہ مجھے گھر دلانے میرے ساتھ 100میل سے زیادہ کا آنا جانا بخوشی کرے گی۔ یوں ہم دونوں متعلقہ پتہ پر پہنچ گئے ۔ یہ جگہ انٹر اسٹیٹ 64 ( جیسے ہماری موٹر وے ایم ۔ٹو)سے خاصی قریب تھی۔ ایک وسیع قطع میں قدرے نئے بنے ہوئے ایک منزلہ مکانات اور ٹاؤن ہاؤس نظر آئے۔راہنمائی کے اشارات کی مدد سے ہم اِس کمپلیکس کے دفتر پہنچ گئے۔یہاں کے انچارج اور اُن کی بیوی بھی چرکی تھے۔ نورا نے آنے کا منشاء بتایا اور آناََ فاناََ وہ سب کاغذی کاروائی ہو گئی جو سرکاری طورپر دِنوں میں ہوتی۔چونکہ میری بیوی اور تین بچوں کو بھی یہاں رہنا تھا لہٰذا مجھے3 کمروں والا ٹاؤن ہاؤس الاٹ ہوا۔ سامنے کی جانب ایک چھوٹی سی خوبصورت کیاری کے ساتھ مین گیٹ۔ نیچے کی منزل میں ایک لِونگ روم، ایک بیڈ روم، ایک غسلخانہ اور باورچی خانہ اور اوپر کی منزل میں دو بیڈ روم اور ایک غسلخانہ۔گھر کی پچھلی جانب چھوٹا سا باغ اور اسٹور روم۔ میرا گھر قطار کا آخری مکان تھا۔ اِس سے کچھ فاصلہ پر ایک خشک برساتی ندی تھی جہاں درمیان میں پانی بھی تھا۔ندیا کے پار غیر آباد علاقہ اور اُس سے آگے جنگل ۔ میرے گھر اور ندی کے درمیاں بلدیہ والوں نے ایک بڑا سا موٹے پلاسٹک کا کوڑے دان رکھا ہوا تھا۔


واپسی کے سفر میں شدید برف باری ہو رہی تھی۔ مجھ سے زیادہ تو نورا خوش تھی۔اُس کو اُس کے ٹریلر ہاؤس میں چھوڑا تو نورا نے کافی کی پیشکش کی۔
’’ تم کب شفٹ ہو رہے ہو؟‘‘۔کافی پیتے ہوئے بغیر تمہید کے اُس نے سوال کیا۔
’’ کل دوپہر تک ‘‘۔میں نے جواب دیا۔
کچھ سوچ کر بولی ’’کل رات تمہارے گھر مہمان آئیں گے اُن کی خدمت کرنا‘‘۔اِس پر میں نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔اوربائی بائی کر کے چلا آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری کیا تیاری ہونا تھی اُس وقت تو صرف مسافری سامان ہی تھا جو کار میں آسانی سے سما گیا اور یوں میں دوپہر سے قبل ہی ٹاؤن ہاؤس میں منتقل ہو گیا۔ ہم وطن فارمیسی کے مالک کی بیوی بھی میری مدد کرنے آئی اور میر ے’ سازوسامان ‘ کو دیکھتے ہوئے از راہِ ہمدردی اپنے ہاں سے کچن کی روز مرہ استعمال کی اشیاء اورکچھ برتن وغیرہ بھجوا دئیے۔ میں ایک قصبہ سے آیا تھا یہ شہر تھا لہٰذا گھومنے پھرنے اور نئی کھُلنے والی فارمیسی دیکھنے چلا گیا جہاں میں نے انشاء اللہ کل سے کام کرنا تھا۔یہاں کی فارمسسٹ لبنانی تھیں وہ مجھے شہر کے دو انڈین اسٹوروں میں لے گئیں جہاں سے میں رات گئے نئے گھر لوٹا۔گاڑی سے باہر نکلا، اس وقت بھی ہلکی برفباری ہو رہی تھی۔میں نے دروازے میں چابی گھمائی ہی تھی کہ میاؤں کی آواز کے ساتھ دو عدد بلّی کے بڑے سائز کے بچے نظر آئے۔ بے اختیار میں نے اُن کو پچکارا تو وہ دونوں میرے پیروں سے لپٹنے لگے۔دیکھنے میں تو عام سے تھے لیکن جو خاص چیز اِن میں بالکل واضح نظر آ رہی تھی وہ یہ کہ اُن پر برف کا کوئی نام و نشان نہیں تھا نہ ہی نرم برف پر اُن کے چلنے سے پاؤں کے نشان پڑ رہے تھے جو کہ دونوں ہی چیزیں نا ممکن تھیں لہٰذایہ طے ہو گیا کہ وہ بلیاں نہیں کوئی اور مخلوق تھی لیکن یقین مانئیے قطعاََ کوئی خوف محسوس نہیں ہوا ۔شاید وہ ضرر پہنچانے والے نہیں ہوں گے۔میں اِنہیں پچکار کر اندر لے آیا۔پلیٹ میں کچھ دودھ ڈال کر اُن کے آگے رکھا ۔اور تھوڑی دیر اُن کو پیار کرنے کے بعد فرش پر بستر بنا کر لیٹ گیا۔دونوں بِلّیاں میرے اوپر اُچھل کود کرنے لگیں۔رات کو سونے کے اعمال پڑھ کر بلند آواز سے اُن سے کہا کہ میں سونے لگا ہوں اپنا گھر سمجھ کر رہیں اور برائے مہربانی گندگی سے پرہیز کریں ۔ اب وہ اُردو سمجھتے تھے یا نہیں علم نہیں ۔ رات آرام سے گُزری۔ صبح اُن میں سے ایک میرے بازو پر دوسرا میرے پیٹ پر استراحت فرما رہا تھا۔ اُن کی پلیٹ دیکھی جو ویسی ہی بھری ہوئی تھی۔پھر بھی میں نے وہ دودھ گرا کر پلیٹ کو اچھی طرح سے دھو کر دو بارہ دودھ ڈال کر اُن کے سامنے رکھا۔جو کہ اُنہوں نے سونگھ کر چھوڑ دیا۔میں ناشتہ سے فارغ ہو کر فارمیسی جانے کی تیاری کرنے لگا ۔جبکہ وہ میرے ساتھ ساتھ نتھی رہے۔دروازے سے باہر نکلا تو یہ بھی نکل کر کیاری میں بیٹھ گئے۔ گھر کے اندر ان کو چاہتے ہوئے بھی نہیں رکھا جا سکتا تھا کیوں کہ معاہدے کے تحت میں اپنے گھر میں پالتو جانور نہیں رکھ سکتا تھا۔ ایک مرتبہ اور، دِن کی روشنی میں اِن کے برف پر چلنے کے تازہ نشان دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہیں دئیے۔یوں میں نے اِن کو خدا حافظ کہا۔

فارمیسی سے چھٹی کے بعد اسلامک سینٹر چلا گیا وہاں سے انڈین اسٹور کے ٹھاکر پٹیل اور اُن کی بیوی کرن سے گپ شپ کی اور پھر گھر آ گیا۔ حسبِ معمول دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ وہی بلّے دوبارہ نمو دار ہو گئے۔وہی کل والی کہانی ہوئی فرق صرف اتنا تھا کہ میں نے آج کچھ لکھنے پڑھنے کا کام کیا اور وہ گھر کا معائنہ کر کے میرے سامنے ہی بیٹھ گئے۔ اِسی طرح دو دِن اور گزر گئے۔ اِنہوں نے اس دوران گھر میں کوئی گندگی نہیں کی نہ ہی کوئی خاص دودھ ہی پیا۔یوں سنیچر کا دِن ہو گیا۔اب دو دن میری چھٹی تھی میں دوپہر کو نورا سے ملنے اُس کے ٹریلر ہاؤس اوک ہِل آیا۔وہ تپا ک سے مِلی۔


’’ کہو ! پھرمہمان آئے؟‘‘۔ اُس نے مسکراتے ہوئے پہلا سوال یہی کیا ۔

’’ آئے تو تھے! لیکن بات چیت نہیں ہو سکی‘‘۔میں نے جواب دیا۔ 
’’ اچھا؟‘‘۔اُس نے پوچھا۔
’’ میں اُن کی زبان سمجھنے سے قاصر رہا ، ‘‘۔میں نے جواباََ کہا۔ ’’ لیکن وہ میرے پاس خوش تھے ‘‘ ۔ ’’ وہ تھے کون؟‘‘۔ لوہا گرم دیکھتے ہوئے میں نے سوال کیا ۔
’’ تُم سے اور تمہاری اشیاء سے مانوس ہونے کے لئے بھیجے گئے تھے۔تم نے ہمارے پُر کھوں کو پسند کیا اُنہوں نے تُم کو‘‘...... اَس کے بعد..... ایسا لگا جیسے کسی نے اُس کو بات کرنے سے منع کر دیا ۔ اِس کے بعد کسی سوال جواب کی ضرورت نہ رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایف۔بی۔آئی۔ والوں کے سوال جواب:
اس کے فوراََ بعد راقم نے اپنا میوزک کا کام بھی شروع کر دیا۔گھر، فارمیسی، میوزک، اور گھومنا پھرنا۔یوں2001 آ یا اور وقت پر لگا کر اُڑنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ستمبر کا مہینہ آیا اور 11 تاریخ کو نیو یارک ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں دہشت گردی کے واقعات ہو گئے۔ابھی کرسمس اور نئے سال کی چھٹیاں شروع نہیں ہوئیں تھیں جب مجھے میوزک پروگرام کے سلسلے میں ہفتہ اتوار کی چھٹی کے ساتھ ایک چھٹی مِلا کر جرمن ٹاؤن،میری لینڈ جانا پڑا۔ واپس آیا تو لبنانی فارماسسٹ کہنے لگی کی ایف۔بی۔آئی۔والے تمہارا پوچھتے ہوئے آئے تھے۔ کم و بیش یہی بات میرے محلہ والوں نے کہی کہ ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈیویلپمنٹ والے تمہارے بارے میں پوچھ گچھ کرتے پھر رہے تھے۔میں اسِ پس منظر میں گھر میں گیا تو ایک نظر میں علم ہو گیا کی گھر کی تلاشی لی گئی ہے۔


اگلے روز دِن کے دس بجے میڈیکل ریپ کی طرح کے لمبے اور چھوٹے قد کے دو افراد فارمیسی میں آئے۔میں نے اُن سے کہا کہ انتظار فرمائیں فارمسسٹ ابھی آتی ہیں۔
’’ ہم تم سے ملنے آئے ہیں! ‘‘۔ اور اپنے ایف۔بی۔آئی کے بیج دکھائے۔
’’ ادہر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ‘‘۔میں اُن دونوں کو لے کر سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔
اُنہوں نے اپنے تعارف کروائے اور کہا کہ وہ کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔میں نے کہا ضرور کیجئے۔
’’ ہمارا پہلا سوال تو یہ ہے کہ آپ ہمیں دیکھ کر ڈرے کیوں نہیں؟‘‘۔
مجھے ہنسی آ گئی۔’’ جناب یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔آپ دونوں یہاں کی ایف۔ بی ۔ آئی سے متعلق ہیں تو ڈرنا کیسا؟ ہاں! اگریہ پاکستان ہوتا اور آپ پاکستانی پولیس والے ہوتے تو میں آپ لوگوں کو دیکھ کر بیساختہ کھڑکی سے چھلانگ لگا دیتا چاہے ہڈی ٹوٹ جاتی۔کیوں کہ ہماری پولیس ہم جیسے عام آدمی کو پہلے مارتی ہے پھر سوال کرتی ہے۔کم از کم آپ لوگ مجھے مار پیٹ کے بغیر پوچھ رہے ہیں تو کیسا ڈرنا؟‘‘۔


میری اس بات پر لمبے قد والا ایجنٹ کہنے لگا کہ یہ صرف تمہارے ملک کا معاملہ نہیں بلکہ تمام تیسری دنیا کا یکسا ں مسئلہ ہے۔اُس نے بہت سے سوالات کیئے، ان میں بعض ذاتی اور نجی نوعیت کے بھی تھے۔پھر جاتے جاتے یہ کہہ گیا : ’’ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تمہارے پاس اسلامک سینٹر کی چابی ہوتی ہے، اور میوزک تمہاری روزی کا بڑاذریعہ ہے۔قبرستانوں ویرانوں میں گھومنا پھرنا تمہارا شوق۔ ہم دونوں ایک مرتبہ اور آئیں گے ‘‘۔یہ کہہ کر دونوں یہ جا اور وہ جا۔


شاید یہ سوال جواب کرنا ، لبنانی فارمسسٹ کے لئے پریشانی کا باعث تھے حالاں کہ وہ تو مسلمان بھی نہیں تھی۔کہنے لگی کہ اُس کا تجربہ ہے کہ خفیہ والے اتنی آسانی کے ساتھ پیچھا نہیں چھوڑتے لہٰذا اب آئیں تو انہیں کہیں باہر ملنا ۔فارمیسی میں کاروبار متاثر ہو جاتا ہے۔میں نے کہا بہتر! اب آئے، تو اُن سے درخواست کروں گا کہ کہیں اور چل کر بات کرتے ہیں۔


ایف۔ بی۔ آئی۔ والوں کا مشورہ:
چند روز بعد وہ دونوں پھر صبح صبح وارِد ہو گئے۔میں نے طریقے سے کہا کہ مجھے تو آپ لوگوں کے یہاں آنے پر کوئی اعتراض نہیں البتہ میری فارمسسٹ کو الجھن ہوتی ہے۔وہی لمبے قد والا شخص کہنے لگا کہ ہم زیادہ وقت نہیں لیں گے ۔ میرے گرین کارڈ سے متعلق کچھ بات چیت کی اور کہا کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جو ہوم ورک ہم کر کے لائیں اور سامنے والے کے جوابات اُس سے ٪ 100میل کھا جائیں۔تم خوش قسمت ہو۔نیز سنجیدگی سے کہنے لگا کہ اپنے قریبی ساتھیوں (ہم وطنوں) سے بہت ہوشیار رہنا ۔ ہمیں اُن ہی کی اطلاع پر بھیجا گیا ہے۔اور اپنی جیب سے ایک مُڑا تڑا کاغذ کا پُرزا نکالا ۔اِس پر کچی پنسل سے ایک ٹیلیفون نمبر لکھا ہوا تھا۔اور اُس لمبے قد والے ایجنٹ کا نام۔کہنے لگا کہ خبردار رہنا، تمہارے قریبی لوگ ، اوچھا وار کریں گے۔جب کبھی ایسا ہوا تو اِس نمبر پر پیغام چھوڑ دینا۔میں خود تم سے رابطہ کروں گا۔اور کہا کہ یہی کاغذ کا پُرزا ایف۔بی۔آئی۔ سے تمہارا صداقت نامہ ہے۔


7 ماہ میں30,000 ہزار میل:
اِسی دوران پاکستان سے میرے والد صاحب ، میری ہمشیرہ کے ہاں آگسٹا، جارجیا رہنے کے لئے آئے۔اِن کی طرف بھی آنا جانا لگا رہا۔پھر وہ میرے خالہ زاد بھائی کے پاس کلینٹن، ریاست ایلاباما بھی گئے۔ اُن ۷ ماہ میں میری ٹویوٹا ٹرسل نے 30,000 میل کا سفر طے کیا۔ہر ایک مرتبہ لمبے سفر پر جانے سے قبل میں اپنی وفا دار ٹویوٹا ٹرسل ماڈل1989 کو فارمیسی کے پڑوس میں واقع بریک اور مینٹینینس کی ورک شاپ میں لے جا کر اُس کو سفر کے قابل کرواتا ۔گورے میاں بیوی، آئرا اور باربرا یہ کاروبار چلاتے تھے۔واضح ہو کہ 1500ڈالر کی خریدی ہوئی اِس کار پر بتدریج اس سے کہیں زیادہ خرچ ہو چکے تھے۔جیسے ورک شاپ والے کہتے میں ویسے ہی کرتا۔ نتیجہ؟...... آخر وقت تک یہ چلتی رہی جب تک اِس بے چاری کی جنگلی کتوں کے غول سے ٹکر نہیں ہوئی ۔ باربرا اور آئرا کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے میری اور کار دونوں کی مثال اپنے ریکارڈ میں رکھی ہوئی ہے کہ پرانی کار میں بھی 7 ماہ میں30,000 ہزار میل ہو سکتے ہیں اگر موٹر ورک شاپ والوں کے مشوروں پر عمل کیا جائے۔

پانٹییگ، میری دوسری خریدی گئی کار:
کتوں کا واقعہ پھر سہی۔میری کار کے بارے میں باربرا نے کہہ دیا کہ اب اسے شہر سے باہر نہ لے جایا جائے۔اور مجھے اُس نے اپنی والدہ کی 1992 کی پانٹییک کار 2,500 ڈالر میں دِلوا دی۔نورا اِس کار سے بہت خوش تھی کہا کرتی تھی اِس کی قدر کرو یہ تمہاری خدمت اپنے آخری دم تک کرنے والی ہے۔راقم کے ساتھ ماضی میں بارہا ایسے واقعات پیش آئے تھے جِن کا ’’16 ‘‘ کے عدد سے کوئی خوشگوار تعلق نہیں ہوا کرتا تھا۔ میں توہم پرست نہیں لیکن ایمان داری کی بات ہے اِس کار کا بھی سہلواں دِن بری طرح سے تجسس میں گزرا کہ اب کچھ ہوا کہ جب۔اِس کار کی عظمت یہ ہے کہ اِس کاپہلا ہی دِن تھا سنیچر کی چھٹی تھی، میں اپنی ہمشیرہ کے ہاں اگسٹا ، جارجیا جانے کی نیت سے نکلا۔ راستہ میں نورا کے گھر ہیلو ہائے کرنے کے لئے رُکا ہی تھا کہ ایک بنگلہ دیشی طالبِ علم ،شفقت کا بیکلی، ( اوک ہِل کے پاس ) شہر سے فون آیا کہ اُس کا چھوٹا بھائی فہیم ، جو ڈھاکہ سے آ رہا تھا وہ چارلسٹن ویسٹ ورجینیا کے بجائے چارلسٹن ساؤتھ کیرو لینا جا اُترا ہے۔ ظاہر ہے بے چارے اسٹوڈنٹ کے اتنے وسائل کہاں کہ ٹیکسی میں تقریباََ 400 میل ایک طرف ، جا کر بھائی کو لے کر آئے۔ماشاللہ میری اِس کار کی یہ پہلی خدمتِ خلق تھی۔ 


پہلی نئی کار اور اُس پرفائرنگ:
یوں 2003 ہو گیا البتہ نورا سے ملنا جلنا اور اکٹھے ویرانوں،پرانے قبرستانوں اورمقابِر میں آناجانا جاری رہا۔اِس دوران میوزک کی وجہ سے جب معاشی حالات مزید اچھے ہوئے تو اپنی زندگی کی پہلی نئی کار لی ۔پچھلی کار کا آخری باوفا کام اور نئی کار کا لینا کبھی آئندہ سہی۔ میں ویک انیڈ پر ہی میوزک سے ہیسے کمایا کرتا تھا لہٰذا نورا سے ملنا جلنا اب کچھ کم ہو گیا۔گاڑی کو لئے پندھرہ روز ہوئے ہوں گے توایک ویک اینڈ پر کار دکھانے کے لئے نورا کے پاس گیا۔اُس نے ایک نظر دیکھ کر کہا کہ ’’ اشارے ٹھیک نظر نہیں آتے‘‘۔پھر خاموش ہو گئی ۔ میں نے دور کسی ویرانے میں چلنے کی خواہش کا اظہار کیا جِس پر اُس نے کہا چلو ں گی لیکن اپنی کھٹارا میں۔پورے راستے اُس نے کوئی بات نہیں کی۔میں ایسے لوگوں کے قریب رہا اور اُنہیں سمجھتا تھا لہٰذا میں بھی چپ رہا۔اُس کی موجودگی میں پتہ نہیں یہ کیوں لگتا تھا کہ جیسے ہم کسی حفاظت میں ہیں اور ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔
اب کی دفعہ وہ کسی دریا کی قدیم گزرگاہ میں لے آئی۔امریکی جِس کو دریا کہتے ہیں وہ ہمارے ہاں کے دریا ؤں کے مقابلے میں بہت کم چوڑے ہوتے ہیں۔بہر حال وہ کبھی کسی پرانے دریا کی گزرگاہ رہی ہو گی لیکن اب چار سو وحشت برس رہی تھی۔ جِس کی خاک بھی برف آلود ہو چکی تھی۔ مجھے لے کر وہ وہاں آلتی پالتی مار کے خود بیٹھ گئی اور مجھے بھی ایسے کرنے کو کہا ۔اُس نے ایسے کیوں کیا؟ معلوم نہیں البتہ ایسا کرنے سے مجھے بہت سکون ملا ۔ ایسا لگا گویا گرمی میں ٹھنڈے پانی سے غسل کیا ہو۔پھر ہم واپس اُس کے ٹریلر ہاؤس آئے اور کافی پی کرجب میں رخصت ہونے لگا تو وہ کچھ رنگین پتلے پتلے کپڑوں کے ٹکڑے لائی اور میری نئی کار کے تمام شیشوں پر پھرا کر ، بغیر کچھ بولے ،مجھے جانے کا اشارہ دیا۔وہ رات کے ایک بجے کا وقت ہوگا جب میں اُسے بائی بائی کہہ کر گھر روانہ ہوا۔

تھوڑی دیر بعد میں انٹر اسٹیٹ پر تھا۔ مجھے ا بھی چلتے ہوئی آدھ گھنٹہ ہی ہوا ہو گا کہ اپنے پیچھے کچھ گڑ بڑ محسوس ہوئی۔یہ وہ مقام تھا جہاں سے پیچ در پیچ سڑک کے موڑ شروع ہو رہے تھے۔واضح ہو کہ ریاست ویسٹ ورجینیا بالکل مری کی طرح ہے۔میری کار آٹو ڈرایؤ پر65 میل (کلو میٹر نہیں) فی گھنٹہ کی رفتار سے جا رہی تھی مجھے یوں لگا گویا کوئی میرے عقب میں بمپر ٹو بمپر چلا آتا ہے۔ میں نے پیچھے سے آنے والے ٹریفک کو دیکھتے ہوئی سڑک کے آہستہ رفتار والے حصہ کی جانب آنا چاہا تو پیچھا کرنے والے، جو میں ابھی سوچ ہی رہا تھا، وہ کر بھی گزرے یعنی وہ خود آہستہ رفتار والے حصہ میں آ کر باقاعدہ مجھے کنکریٹ کے میڈ یئنmedian (جیسے ہماری موٹر وے میں آنے اور جانے والی ٹریفک کے درمیان کنکریٹ کی رُکاوٹ ہوتی ہے) کی جانب دبانے کی کوشش کرنے لگے۔اب ایک طرف کنکریٹ کی ٹھوس رُکاوٹ اور دوسری طرف ایک کار جِس میں کئی افراد سخت سردی میں بھی کھڑکیاں نیچے کئے قہقہے لگا رہے تھے۔میں نے حتی الامکان کنکریٹ سے بچنے کو کوشش کی اور گاڑی کو سیدھا رکھنے کی سعی کرنے لگا۔تب میں نے دیکھا کہ اب تو وہ کار میری کار سے خطرناک حد تک قریب آ چکی ہے اور ڈرائیور کی پچھلی نشست سے میں نے شاٹ گن کی نالی باہر نکلتے دیکھی۔ٹھائیں ! ایک فائر ہوا۔میری کار کا ایک ٹائر گیا۔ٹھا! دوسرا فائر ہوا اور گاڑی یکدم قابو سے باہر ہو گئی۔میری کار کے دائیں جانب کا اگلا اور پچھلا ٹائر تباہ ہو گیا۔آٹو ڈرائیو پر ۶۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے راقم کی کار ایک دہماکے سے کنکریٹ سے ٹکرائی ۔ بیٹری والی کھلونا کار کی طرح مونہہ سیدھا کر کے پھر اُسی رفتار سے 2 پھٹے ٹائروں کے ساتھ بے ڈھنگے طریقے سے چل کر ایک دفعہ اور ٹکرائی پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔

جب ہوش آیا تو میں ایک اسٹیٹ ٹروپر کی کار میں لیٹا ہوا تھا، کئی ایک پولیس والے میرے پاس موجود تھے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میرے جسم میں کوئی بڑی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی تھی۔ویسے تو ایک ایمبولینس اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی موجود تھا لیکن اللہ کے فضل سے ذہنی صدمے سے محفوظ رہا ۔ اسٹیٹ پولیس والے نے جو بتایا ، مختصر، و ہ میرے ساتھ پیش آیاتھا۔


’’ اِس جگہ کچھ لوگوں نے کھیل بنا رکھا ہے کہ سینچر کی رات کوئی نئی کار، سستی، مہنگی، لوکل یا امپورٹِڈ جِس پر عارضی نمبر پلیٹ ہو، چلانے والا یا والی اکیلی ہو اور رات گئے کا وقت ہو تو یہ لوگ اُس اکیلے ڈرائیور کو ڈرا ڈرا کرمجبور کرتے ہیں کہ وہ کنکریٹ سے ٹکرائے۔یہی اِن کا کھیل ہے۔مَوت کے اِس کھیل میں اب تک ۲ سے زیادہ اموات بھی ہو چکی ہیں ۔اسٹیٹ پولیس کے لئے یہ گروہ دردِ سر بنا ہوا ہے۔اب تک تو یہ لوگ محض ڈرا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے تھے، لیکن آج پہلی مرتبہ فائرنگ بھی کی کیوں کہ تُم نے اُن کو ’ ٹفٹ ٹائم ‘ دیا ۔ ان کا کافی وقت لگ گیا اور تمہاری گاڑی کنکریٹ سے نہیں ٹکرائی۔تم خوش قسمت ہو کہ اُنہوں نے  سیدھے تمہیں گولیاں نہیں ماریں صرف ٹائروں پر گولی چلائی‘‘۔ 


میری گاڑی اتنا کچھ ہونے کے بعد صرف ایک طرف سے بری طرح گھائل ہوئی تھی باقی انجن، ٹرانسمشن، لائیٹیں، بریک سب کچھ ٹھیک تھا۔ یہ کاروائی ایک پیچھے آنے والے بھاری ٹرک والے نے ہوتے ہوئے دیکھی ۔وہ تو سمجھا کہ کار والا تو گیا۔جب اُس نے دیکھا کہ کار ٹکرا کر کھڑی ہو گئی تو اُس نے یہ اطلاع اسٹیٹ پولیس کو دی اور فوراََ روڈ پر ’ محتاط رہیں‘ کے بہت سے چمکنے والے اشارے جا بجا پیچھے سے آنے والوں کے لئے رکھ دئیے کہ کہیں کوئی پیچھے سے آنے والا مجھ سے دوبارہ نہ ٹکرا ئے۔ اسٹیٹ پولیس والے نے کہا کہ تمہاری بے ہوشی کے دوران تمام قانونی کاروائی کر لی گئی ۔ انشورنس کمپنی کو اطلاع بمع پولیس رپورٹ بھیج دی گئی۔استعمال شدہ گولیاں اور کچھ خالی شیل بھی ڈھونڈ نکالے گئے ۔ اور پولیس میکینک نے گاڑی کی تسلی کر لی کہ وہ ساؤتھ چارلسٹن تک آرام سے جا سکتی ہے ۔ 
ہم لوگ اُٹھتے بیٹھتے امریکہ مردہ باد کہتے رہتے ہیں، راقم آج جو یہ سطور لکھ رہا ہے وہ کسی انسان دوست امریکی کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ مثلاََدنیا جہان کی کاروں میں صرف ایک اسپئر ٹائر ہوتا ہے۔ میری کار کے دو ٹائر گولی مار کر پھاڑے گئے تھے۔اب اُن دونوں ٹائروں کی جگہ میری کا رمیں دو اورٹائر موجود تھے۔ ایک تو میری کار کا اسپئر ٹائر ہوا لیکن دوسرا کہاں سے آیا؟ اِس سوال کا جواب آج تک کوئی نہ دے سکا۔


چرکی بزرگ کی وارننگ:
میں نے وہ کار ٹھیک ہونے کے لئے انشورنس کمپنی کے منظور کردہ موٹر گیراج میں دے کر کمپنی کے کھاتے میں ویسی ہی ایک رینٹل کار لے لی ۔ نورا کو کار پر فائرنگ کا میں پہلے ہی بتا چکا تھا۔حاد ثے کے فوراََ بعد والے ویک اینڈ میں اُس کی طرف جانے کا یہ پروگرام بنا کہ نورا ، میرے ساتھ اوپر تلے ہونے والے واقعات کی وجہ سے اپنے ایک چرکی بزرگ کے ہاں لے کر جائے گی ۔جب میں اُس کے ہاں پہنچا تو کچھ دیر وہ بالکل خاموشی سے مجھے تکتی رہی۔پھر جب میں نے کار کے حادثے کی تفصیل بتانا چاہی تو اشارے سے منع کر دیا۔مجھے بٹھا کر تھوڑی دیر میں مکمل چرکی حلیے میں سج کر آ گئی اور ہم دونوں ا س رینٹل کار میں تقریباََ ۳۵میل کے فاصلے پر واقع پر ےَٹ Pratt روانہ ہوئے۔تقریباََ 45 منٹ کایہ سفر خوشگوار گزرا۔ یہاں نورا کے والد کے عزیز رہتے تھے۔یہ بہت ہی چھوٹا قصبہ تھا۔مکان پر ایک نگاہ پڑتے ہی بخوبی اندازہ ہو گیا کہ یہ کسی چرکی ریڈانڈین کا گھر ہے ۔ وہاں زیادہ تر اُنہی کے حلیے والے بچے بچیاں کھیل کود رہے تھے۔یوں لگا کہ نورا تمام بچوں میں کافی مقبول ہے۔گھر کے سب چھوٹے بڑے مجھ سے ملنے آئے۔گھر میں دو بزرگ بھی تھے ایک مر د اور دوسری خاتون ۔ دونوں تپاک سے ملے البتہ اُن بزرگ خاتون نے میرے بائیں کاندھے پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر کچھ کہنا شروع کیا جو میرے سر سے گزر گیا۔میں نے پہلے بزرگ صاحب پھر نورا کے چہروں کی طرف دیکھا جس پر نورا نے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔تھوڑی دیر کے بعد اُن بزرگ خاتون نے نورا سے کچھ کہا جو میں نہیں سمجھ سکا۔مجھے نورا نے بتایا کہ یہ اُن کے خاندان کی ایک بڑی روحانی شخصیت ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ میں اب تک زندہ کیسے ہوں؟ اُصولاََ تو اب تک مجھے خود اپنے تابوت میں ہونا چاہیے تھا۔ اب توبہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے عرض کرتا چلوں بعینہٖ یہی بات8سال قبل کراچی کی ایک روحانی شخصیت کہہ چکی تھیں۔اور اُن کے کہنے پر، کہ کراچی شہر سے فوراََ نکل جاؤ، پر راقم نے عمل بھی کیا تھا۔


ڈاج کاروان وین کا خریدنا:
6 مہینے اور گزر گئے، اب گرمیاں آ گئیں اور میرے اقتصادی حالات مزید بہتر ہو گئے ۔ میں نے میوزک اور اس سے متعلق سامان، جیسے۱۶ ٹریک کا آڈیو مکسر، بھاری سامان کے اُٹھانے کے لئے فولڈ ہو جانے والی ٹرالی، ہال میں رکھے جانے والے بڑے اسپیکر، اسٹیج کے مانیٹر اسپیکر، اسٹیج لائٹنگ کا سامان ، اسپیکر اور مائکروفون کی لیڈ کیبلز وغیرہ کے لانے لے جانے کے لئے اپنی کار واپس کر کے بالکل نئی ڈاج کاروان وین لے لی۔ اِس کی پچھلی سیٹیں نکال کر سامان برداری کی گاڑی بنا لیا۔نورا نے اپنے اعتقاد کے لحاظ سے گاڑی کے سامنے والے بمپر پر رنگین کپڑوں کے ٹکڑے باندھ دئیے۔وین کو لئے ابھی16واں دِن تھا میں دواؤں کی ڈیلیوری دے کر واپس فارمیسی آ رہا تھا کہ سامنے روڈ پر آگے جانے والے ایک فارم ٹرک نے اچانک بریک لگائی۔اُس کی بریک لائٹ خراب تھی میں نے بھی بریک لگائی لیکن میری وین کا اگلا حصہ اُس ٹرک سے جا ٹکرایا۔اسٹئرنگ وہیل اور ڈیش بورڈ کے ائیر بیگ نکل آئے۔اور انجن میں کوئی ایسی ٹوٹ پھوٹ ہوئی کہ وین اسٹارٹ نہ ہو سکی ۔ انشورنس کے منظور شدہ گیراج والوں نے کہا کہ ایک نیا مرکزی کمپیوٹر کارڈ لگے گا جو پڑوس کے ملک کولمبیا میں بنتا ہے ، یہ6 ماہ سے قبل نہیں آ سکتا لہٰذا اب یہ وین اُس مدت کے بعد ہی مِل سکے گی۔نیز یہ کہ معاہدے کے حساب سے میں اپنی وین سے ملتی جلتی ایک رینٹل وین زیادہ سے زیادہ صرف 3 ماہ کے لئے ہی استعمال کر سکتا ہوں اُس کے بعد مجھے اپنا انتظام خود کرنا ہو گا۔ وقت گزرتا رہا اور میری ڈاج وین تیار ہو گئی۔راوی چین ہی چین لِکھ رہا تھا کہ ایک دِن صبح وین کے اسٹارٹ کرنے پر ایک آواز آنے لگی جو پہلے نہیں سُنائی دی تھی۔میں کھانے کے وقفے میں وین کو فارمیسی کے پڑوس کے گیراج میں لے گیا ۔میری بات سُن کر آئرے نے خود وین چلا کر ایک راؤنڈ لیا۔


ایک اچھی خبر:
’’ مبارک ہو ! ‘‘۔ آئرا نے خوش ہو کر کہا ۔
’’ کِس چیز کی؟‘‘۔میں نے حیرانگی سے پوچھا۔کیوں کہ میں تو کوئی منفی خبر سننے کو تیار تھا۔
’’ گاڑی میں مینو فیچرنگ فالٹ ہے ۔اب تمہاری لاٹری نکل آئی سمجھو‘‘۔
میرے تاثرات سے عاری چہرے پراُس نے رحم طلب نگاہ ڈالتے ہوئے اپنی بیوی باربرا کو آواز دے کر بلوایا۔اور گاڑی میں خرابی کی تحریری رپورٹ دکھلائی۔فرطِ خوشی سے باربرا کا بھی چہرہ دمک اُٹھا۔
’’ مسٹر لطیف ! ، ‘‘ ۔باربرا نے کہنا شروع کیا۔’’ آئرا نے تحریراََ ،مینو فیچرنگ فالٹ کی رپورٹ دے دی ہے ، ۔ہم لوگ چونکہ ڈاج کمپنی کے منظور کردہ سروس اور ریپیئر شاپ والے ہیں لہٰذا اس کی بنیاد پرتمہارے حق میں کچھ بہتر ہونے والا ہے ۔ تم اسی وقت ،جہاں سے گاڑی لی ہے اُسی ڈیلر کے پاس وین لے جا ؤ ‘‘۔
راقِم تقریباََ  350میل دور پڑوس کی ریاست میری لینڈمیں وِہیٹَن ڈاج والوں کے پاس ،سوا پانچ گھنٹوں میں پہنچ گیا۔ باربرا نے وہاں فون پر میری وین کی خرابی کا پہلے ہی بتلا دیا تھا ۔ یہاں پہنچتے ہی اُن لوگوں نے رسماََ وین کو چلایا اور فوراََ ہی مجھے زبردست پیشکش کی۔یہ کہ میری پہلے والی ۴ سیلینڈر، اسٹینڈرڈ ڈاج کاروان وین،    23 فی صد سود پر ملی تھی۔ اب بغیر کسی سود کے، 6 سیلینڈر والی فُل لوڈڈ، گرانڈ کاروان اسپورٹس، جو اسٹینڈرڈ وین سے ایک فٹ لمبی اور ایک فٹ چوڑی تھی، مِل رہی تھی۔اِس کے ساتھ ایک سال کے لئے پٹرول بالکل مُفت۔ اِس لکھت پڑھت کے بعد کہ میں نے یہ پیشکش اپنی رضامندی سے ،بغیر کسی دباؤ کے قبول کی ، مجھے یہ نئی وین مِل گئی۔یوں میں تھکن وکن سب بھول کر گھر کے لئے ر وانہ ہوا۔ 


اگلی شام فارمیسی بند کر کے میں سیدھا نورا کے ہاں گیا۔وہ سب باتوں سے خوش ہوئی لیکن میری نئی وین میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔
’’ آخر تم نے مسلسل یہ تیسری نئی گاڑی سِلور رنگ ہی کی کیوں لی ہے؟‘‘۔نورا نے عجب سوال کر دیا۔
’’ پتا نہیں کیوں؟۔اُنہوں نے مجھ سے پوچھا تو تھا کہ کیا رنگ پسند ہے میں نے کہا کہ جو موجود ہو‘‘۔اِس جواب کے بعد وہ خاموش ہو گئی ۔اور میں جانے کے لئے اُٹھ بیٹھا۔ویسے بھی رات ہو رہی تھی اور میں نے اگلی صبح ۹ بجے فارمیسی کھولنا تھی۔


میں اِس نئی وین میں نیو جرسی، نیو یارک اور اٹلانٹا ، ریاست جارجیا بھی گیا یوں15 دِن ہو گئے۔اور پھر16واں دِن آ گیا۔شام کے 6 بجے ایک اور ڈاج وین والے نے میری وین کو پیچھے سے ٹکر مار دی۔ڈاج کے پچھلے اور اگلے بمپر جاپانی گاڑیوں کی طرح پلاسٹک کے نہیں بلکہ لوہے کے ہوتے تھے ۔میری گردن میں جھٹکا آیا اورگاڑی میں پیچھے خفیف سا ڈینٹ ۔ اُس کی وین کو بھی کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا تھا۔ وین چلانے والا کوئی گورا تھا۔ کہنے لگا کہ پولیس کیس نہ کرنا۔ڈیل یہ ہوئی کہ وہ اپنی جیب سے میری وین کا کام کروائے گا اور میں پولیس اور انشورنس کے چکر میں نہیں پڑوں گا۔

یہاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی 16کے چکر سے واسطہ پڑ گیا۔ مزاحیہ بات یہ ہوئی کہ ڈینٹر پنیٹر نے مجھے بڑی عزت سے اپنے سرپرست گاہک کا درجہ دے دیا ۔دوسرے الفاظ میں یہ کہ سر پرست کی حیثیت سے میں آئے دِن گاڑیاں مار کے اُس سے مرمت کروانے آؤں۔


دیوالیہ پن کا چیپٹر ۷ فائل کرنا:
حالات بتدریج بدلنے لگے۔اور بقول ثاقب لکھنوی     ؂
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن  پہ تکیہ تھا    وہی  پتے    ہوا    دینے    لگے

 قصہ مختصر یہ کہ پہلے میری سنیچر کی چھٹی ختم کی گئی پھرمیرے پیسے بھی کم کر دئیے گئے۔قانونی طور پر میں ابھی یہاں سے کام چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتاتھا کیوں کہ اِسی فارمیسی سے میرا ورک پرمٹ بنا تھا۔دوسرے الفاظ میں اب غلامی کا دور شروع ہوا ۔اوپر سے عین اُس زمانے میں ( ہم وطن کی) فارمیسی والوں کے اِس ’’عمدہ سلوک‘‘ کی وجہ سے بیوی بچے میرے پاس آنے سے رہ گئے۔اگر میرا میوزک کا ساتھ نہ ہوتا تو..... شاید .... سب ٹھیک نہ ہوتا۔میں نے اِس دوراں روزانہ 5سے 6 گھنٹے، کی۔بورڈ کی خوب مشق کی۔جب تک ممکن ہوا اِس کو کیش بھی کرایا۔میرے زیادہ تر میوزک پروگرام سنیچر کی رات اپنی ریاست سے باہر ہوا کرتے تھے۔ اب جب سنیچر کی چھٹی ختم تو ......وہ کام بھی..... ختم۔یوں مجھے مجبور ہو کردیوالیہ پن چیپٹر7 کا آٹومیٹک اسٹے Automatic Stay لینا ہی پڑا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دیوالیہ پن کے قوانین کے مطابق یہ حکمِ امتناعی فی الفور نافذ ہو جاتا ہے جِس کی رو سے آپ کو قرض دینے والے، کریڈٹ کارڈ والے، گاڑی کی اقساط والے، کسی بھی قسم کے قرض خواہ اس چیپٹر کو فائل کرنے والے سے ایک ٹیڈی پائی کا تقاضا نہیں کر سکتے۔ اِس کا فیصلہ بینک رَپسی کی عدالت میں ایک ہی نشست میں کر دیا جاتا ہے۔اللہ کا شکر کہ وہ میرے حق میں ہو گیا۔ڈاج موٹر کمپنی، کریڈٹ کارڈ، کار انشورنس کمپنی کے نمائندوں نے عدالت میں اپنے موقف کے لئے کوئی وکیل یا نمائندہ سرے سے بھیجا ہی نہیں۔شکریہ امریکہ۔
باقی واقعات انشاللہ آیندہ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر  اکتوبر 2017 کے ماہنامہ سرگزشت ڈائجسٹ  میں شائع ہوئی۔










 

Comments

Popular posts from this blog