تُم ہو پاسبان اِس کے
تُم ہو پاسبان اِس کے
تحریر شاہد لطیف
آجکل میاں نواز شریف کے ایک بیان کا بہت چرچا ہے جِس میں انہوں نے قادیانیوں پر مبیّنہ زیادتیوں کے بعد ایک بیان میں اُنہیں اپنا بھائی قرار دیا ۔۔۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم رِشتوں کو بھی اِصطلاحاََ بیان کرنے لگے ہیں اور اُس کے حقیقی معنوں کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں۔لفظ ’’بھائی ‘‘ کو ہم بس ایسے ہی بیان کر دیتے ہیں اور اِس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔مثلاََ بھائی لوگ عموماََ بد معاشوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اِس طرح جب کسی سے ہمدردی جتائی جاتی ہے تو اُسے بھائی کہہ کر تسلی دی جاتی ہے۔یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر آج تک کبھی کسی نے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو ’’بھائی ‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔کسی نے انفرادی فعل کیا بھی ہو تو اُسے بھی اِس لفظ کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے کُجا کہ قومی سطح کے ایک راہنما جو پاکستانی عوام کی کثیر تعداد کے پسندیدہ ہیں، وہ برسرِ عام ایک اقلیت کے لئے، اسے استعمال کریں۔
’’بھائی ‘‘ کا رِشتہ کسی شخص (مرد یا عورت) سے ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے بنتا ہے اور یہ ایک برابری کا رِشتہ ہے۔یا پھر ہمارے پیغمبرِ پاک ؑ نے ایک قول کے ذریعے بتایا کہ مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ ’’ ا لمسلم اَخو المسلِم‘‘۔اِس لئے بھائی کو ہم خواہ اِصطلاحاََ کیسے ہی استعمال کریں لیکن جب۔۔۔ اِسے ’’ ہمارے بھائی ‘‘ کے طور استعمال کرنا ہے تو نبیء پاک ؑ کے قول کے مطابق صرف کسی مسلمان کے لئے استعمال کرنا چاہیے جبکہ اقلیت کو قُرآن میں ’’ صٰغِرون‘‘ کہہ کر پُکارا گیا ہے۔( التوبہ: 29)۔یہ ایک اہم آیت ہے اور اِس کی اہمیت کے پیشِ نظر راقِم کی قارئین سے گُذارِش ہے کہ وہ خود ایک مرتبہ اِس آیت کو قُرآن مجید میں پڑھیں ۔ اِسی طرح حدیث میں اقلیت کو ’’ ذِمّی ‘‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی وہ لوگ جو جزیہ دیں اور بدلے میں اِسلامی حکومت اِن کی عزت،جان اور مال کی حفاظت کی ذمّہ دار ہو۔چونکہ صاغرون کا مطلب چھوٹا ہے تو مفہوم یہ ہوا کہ اقلیت،ایک اسلامی ملک میں’’ چھوٹا‘‘ بن کر رہے گی ا ور وہ مسلمانوں کی برابری نہیں کرے گی۔یہ برابری اِسلامی حقوق کے لئے ہے مثلاََ زکوٰۃ کا حق صرف مُسلم کا ہے، اقلیت کو دینا جائز نہیں۔جیسا کہ پیچھے لکھا جا چکا کہ عزت، جان و مال کی حفاظت میں وہ مُسلم رعایا کے برابر ہے کہ اِس کے لئے وہ جزیہ ادا کرتے ہیں گویا اِس حفاظت کے لئے حکومت کو ادائیگی کرتے ہیں جبکہ مُسلم رعایا کو یہ سہولت مُفت حاصل ہے۔
اِس تمام تفصیل کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ہمارے راہنما جب میڈیا پر کوئی بیان جاری کریں تو اِس سے پہلے اپنا ہوم ورک ضرور کریں۔الفاظ کا چُناؤ واضح، دو ٹوک اور بر محل ہو۔یقیناََ تمام راہنماؤں کی حمایت عوام کی بڑی اکثریت کرتی ہے۔وہ اپنی سیاست کے ساتھ کچھ دین کا علم بھی حاصل کریں تو بہتر ہو گا۔خصوصاََ اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی جتانے یا مخالف پارٹیوں کے راہنماؤں پر الزام تراشی کرنے سے پہلے نبی ء پاک ؑ کے اسوہ کو ضرور سامنے رکھیں۔آپٖؑ نے تو کبھی دشمنوں کے ساتھ بھی ایسا معاملہ/گفتگو/الزامات کی بوچھاڑ نہیں کی جِس طرح مخالف راہنما ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے ہیں ۔ پھر عدالتوں کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں (عوام/راہنما) کی شکایت کا ازالہ کریں اور اس کے لئے اہل اور با صلاحیت منصف منتخب کیے جاتے ہیں۔یہ سیاسی راہنما بھی ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں درخواستیں دائر کرتے رہتے ہیں۔کیا یہ توہینِ عدالت نہیں کہ عدالت میں جاری مقدمات کے متعلق میڈیا میں کھلے عام تبصرے کیے جاتے ہیں؟کیا وہ عدالت کے فیصلے کا انتظار نہیں کر سکتے؟اور جب فیصلہ آئے تو احترام نہیں کر سکتے؟بات کہاں سے کہاں جا نکلی لیکن بر سبیلِ تذکرہ یہ جو ہمارے راہنما ’’ عوام کی عدالت ‘‘ کا رونا روتے رہتے ہیں ذرا بتائیے اِس ’’عدالت ‘‘ کا اہل اور با صلاحیت منصف کون ہے؟؟؟اِس صف میں نئے پرانے تمام راہنما شامِل ہیں ، وہ بھی ہیں جو ،اب خود اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پہنچ کر ملک و قوم کے لئے کیے گئے اچھے اور بُرے فیصلوں اور وعدے پورے نہ کرنے کا حساب دے رہے ہیں۔یہاں ہم برسرِ عام عد ل و انصاف کی توہین کر رہے ہیں۔اگر پاکستان کے آئین میں یہ نہیں لکھا تو کم از کم اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ ’’ عدل و انصاف ‘‘ کے قانون کو اپنی سیاست کے لئے استعمال نہ کریں۔ یہ ’’ عوم کی عدالت ‘‘ بالکل ویسی ہی اصطلاح ہے جیسے کسی اقلیت کو ’’ ہمارے بھائی ‘‘ کہہ دینا۔
ہاں! آج کے اخبارات کی ایک اچھی خبرپڑھ کر دِل خوش ہو گیا۔ آج صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے اپنے آپ کو خود عوام کا صدر ثابت کر دیا۔بنّوں میں سائنس ٹیکنالوجی یونیورسِٹی کی کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے بر ملا اعتراف کیا : ’’ پچھلے چار سال سے ڈیم بنے نہ اسپتال۔۔۔عوام پوچھتی ہے کہ 14 ہزار800ارب روپے کا قرضہ کہاں گیا؟۔۔۔کرپشن نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔۔۔ملک کو لوٹنے والوں سے اللہ بدلہ لے گا۔۔۔‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ اکیلی حکومت قصوروار نہیں۔راقِم نے پہلے بھی اِس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ترقی کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو مِل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اگر تمام عرصہء حکومت میں اپوزیشن حملہ کرنے کی حالت میں رہتی ہے تو مجبوراََ حکومت اپنی بیشتر توانائی دِفاع میں ضائع کر دیتی ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دورِ حکومت میں خواہ کچھ بھی کیا، کم از کم میاں نواز شریف کی اپوزیشن نے اُن کی ٹانگ نہیں کھینچی۔اِس کے باوجود اُن کے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوا اور اپوزیشن کو بھی ’’ فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ کا لقب مِل گیا۔حکومت اور اپوزیشن کے اعتبار سے اصولاََ یہ ایک ’’آئیڈیل ‘‘ دورِ حکومت تھا۔راقِم کو یقین ہے کہ اگر عمران خان کو اُن کے مطابق ’’ ایک باری ‘‘ مِل جاتی ہے تو وہ بھی وہی کچھ کریں گے جو اب تک باقی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔مسئلہ ’’ ایک شخص ‘‘ کی حکومت کا نہیں بلکہ پورے نظام کی تبدیلی کا ہے اور وہ کون کرے گا؟ ہماری امید پچھلی پانچ دہائیوں سے ’’ نئی نسل ‘‘ سے وابستہ ہے ،70 کی دہائی میں کلیم عثمانی نے ایک قومی نغمہ لکھا جسے موسیقار نثار بزمی کی دھن میں مہدی حسن نے ریکارڈ کرایا۔ کلیم عثمانی کہتے ہیں کہ ایک رات خواب میں قائدِ اعظمؒ آئے اور سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ تُم لوگوں نے میرے پاکستان کا کتنا برا حال کر دیا ۔اب اگر کوئی امید ہے تو وہ پاکستان کے نونہال ہیں، یہ اُن کا وطن ہے وہ ضرور اس کا خیال رکھیں گے۔اس کے بعد وہ بزمی صاحب سے ملے اور یہ خواب سنایا۔بزمی صاحب نے تائید کی اور کہا کہ واقعی خواب درست ہے! ہماری نسل نے پاکستان کو برباد کیا،ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہماری نئی نسل اس کی پاسبان ہو گی۔اس پر عثمانی صاحب نے یہ نغمہ قائدِ اعظمؒ کی زبانی لکھا (راقم کو یہ واقعہ خود بزمی صاحب نے سنایا تھا)۔70 کی دہائی میں ہماری نئی نسل ۔۔۔ بے نظیر، نواز شریف، جاوید ہاشمی وغیرہ تھے۔عمران خان اور آصف علی زرداری بعد میں سیاست میں آئے ۔لیکن کوئی بھی قائدِ اعظم ؒ کی خواہش، پاکستان ایک فلاحی مملکت ہو، کی تعبیر نہ دے سکا۔ اب ہم پھر نئی نسل سے پر امید ہیں کیوں کہ یہ وطن تمہارا ہے تُم ہو پاسبان اِس کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
21 اکتوبر 2017 بروز سنیچر،روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم خاکسار کا کالم " اُلٹ پھیر "۔
Comments