اُستاد سلامت حسین بانسری نواز




اُستاد سلامت حسین بانسری نواز
تحریر شاہد لطیف

اکتوبر 1980میں راقِم کو پاکستان ٹیلی وژ ن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرا م سے منسلک ہوئے چند روز ہوئے تھے کہ ایک دن صدر دروازے پر بین الاقوامی شہرت یافتہ موسیقار، بانسری نواز سلامت حسین پر نظر پڑی جو سر جھکائے جا رہے تھے۔ میں اُنہیں اچھی طرح سے پہچانتا تھا ۔ میں بہت شوق سے اِن کو سننے پاک امریکن کلچرل سینٹر، آرٹس کونسل وغیرہ جایا کرتا تھا۔ آج وہ میرے سامنے تھے، میری دلی خواہش تھی اِن کی بانسری پر کلاسیکی راگوں پر مبنی پروگرام پیش کروں۔جلد ہی ایسے کئی ایک مواقع آئے اور پروڈیوسر مرغوب احمد صدیقی صاحب کے ساتھ اُن کے کلاسیکی موسیقی کے پروگرام راگ رنگ کیے ۔ طویل عرصہ بعد پچھلے دنوں سلامت صاحب سے ایک نشست رہی ۔ اُس میں کی گئی گفتگو اور سوال جواب پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے پیش کیے جا رہے ہیں: 

’’ میں 1937میں ریاست رام پور میں پیدا ہو ا۔ میرے خالو،ریاست کے سرکاری بینڈ میں تھے اور مُشتاق حُسین خان اور اِشتیاق حُسین خان سے کلاسیکل موسیقی کا درس لیا کرتے تھے۔یہیں موسیقار نوشاد علی بھی اِن سے سیکھنے آتے تھے۔میں کم عمری سے ہی خالو کے ساتھ جاتا تھا اور غور سے ان کے درس و تدریس کو سُنا کرتا ۔ میرے خالو جب بینڈ میں مشق کرتے میں تب بھی وہاں موجود ہوتا تھا۔پھر خالو نے ایک سرکس میں شمولیت کر لی، میں تب بھی ان کے ساتھ ساتھ تھا۔اِس کے بعد ، بِہار میں خالو نے بینڈ کی دُکان کھول لی،میں اب بھی خالو کے ساتھ تھا۔میرے سامنے ہی گاندھی کو گولی لگی جِس کے فوراََ بعد کشیدگی ہو گئی جس کے باعث ہم لوگ واپس رام پور آ گئے۔اُن دِنوں ریاست میں ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی اور آدھا رام پور خالی ہو گیا۔ والدین نے فیصلہ کیا کہ اب پاکستان ہجرت کر جائیں۔ہم لوگ اپنے چچا کے ہاں سکھر آ گئے۔ وہاں غالباََ بات نہ بنی اس لئے کراچی میں جوبلی سینما کے قریب اپنے چچا زاد کے ہاں نقلِ مکانی کر گئے۔پھر کچھ عرصہ بعد جیکب لائن، مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کی مسجد کے پاس اپنا گھر لے لیا ۔یہاں میرا اُٹھنا بیٹھنا ’ گواَن ‘ Goan نوجوانوں میں ہونے لگا۔یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے بانسری پر مشق کرنا شروع کر دی تھی۔ میں اپنے دوست احباب کی فرمائش پر ’’ جائیں تو جائیں کہاں ‘‘، ’’ تو نے ہائے میرے زخمِ جگر کو چھو لیا‘‘وغیرہ بجایا کرتا تھا۔کسی نے میری والدہ سے شکایت کر دی کہ تمہارا بیٹا گواَن لڑکیوں میں بیٹھا بانسری پر فِلمی گانوں کی دھنیں بجا تا ہے جِس پر والدہ نے میری پِٹائی کر دی اور میری بانسری بجانے پر پابندی لگا دی۔

اِس کا میں نے یہ حل نکالا کہ کمبل لپیٹ کر اب تک جو راگ راگنیاں ، بندشیں، ترانہ، بول کے بناؤوغیرہ سُنا تھا اُس کی خوب خوب مشق کرتا ۔یہ سلسلہ دو مہینے چلا۔پھر ایک دِن خیال آیا کہ اب شاید میں تھوڑا بہت بانسری بجانے کے قابِل ہو گیا ہوں لہٰذا میں نے بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے سامنے کھڑا ہونا شروع کر دیا۔میرے جیسے اور بھی بہت لوگ کام حاصل کرنے کی تلاش میں موجود ہوتے تھے۔ وہاں موسیقار نذیر شیلے سے ملاقات ہوئی وہ بہت اچھے ہارمونیم نواز تھے اور فلمی گانوں کی صدابندی میں حصہ لیتے تھے۔ میں بھی اُن کے ساتھ مختلف گھریلو تقریبات میں جانے لگا ۔ یہ ایک دِن مجھ کو ریڈیو پاکستان کی عمارت کے اندرلے گئے اور زیڈ اے بخاری صاحب سے ملاقات کروائی۔وہاں امراؤ بندو خان بھی موجود تھے۔ امراؤ بندو نے مشورہ دیا کہ حیدر آباد میں نیا ریڈیو اسٹیشن قائم ہو رہا ہے میں وہاں چلاجاؤں لہٰذا میں 150/ روپے ماہانہ پریہاں آ گیا۔یہاں میرا قیام چند مہینے ہی رہا۔اُس وقت میرے ساتھ بانسری نواز محمد جُمّن بھی تھا پھر وہ گلوکار ی کرنے لگا ۔مجھ سے بھی کہتا کہ گلوکار ہو جاؤں۔میں نے سوچا کہ گانے والے تو کئی ہیں، کئی اور ہوں گے لیکن بانسری میں ایسا نام اور کام کرو کہ بانسری بجانے میں ’ سلامت ‘ ایک ہی ہو۔ہم لوگ رات کو رانی باغ میں جاتے جہاں ریڈیو کے اناؤ نسر حمایت علی شاعر اور ابراھیم جلیس بھی بیٹھا کرتے تھے۔ وہاں مجھے علم ہوا کہ ریڈیو پاکستان کراچی میں اسٹاف آرٹسٹوں کے آڈیشن ہو رہے ہیں لہٰذامیں بھی چلا گیا۔ میرا اور احمد رُشدی کا ایک ساتھ ہی آڈیشن ہوا۔یہ 1952 کا ذکر ہے۔

کراچی میں فلمی گیتوں کی ریکارڈنگ میں بانسری نوازلال محمد نے اچھا کام کیا تھا اب میری کراچی واپسی پر موسیقار جوڑی غلام نبی اور عبداللطیف اور دوسروں نے فلموں کی ریکارڈنگ میں مجھ سے کام لینا شروع کر دیا۔ 23 مئی 1957 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ بڑاآ دمی ‘‘ کے گیت کی ریکار ڈنگ کے لئے بھارت سے مُبارک بیگم آئی تھیں۔غلام نبی عبد اللطیف کی موسیقی میں، میں نے اُس گیت  میں بانسری بجائی۔

1958 میں لاہور سے موسیقار اے حمید کراچی میں اقبال یوسف کی فلم ’’ رات کے راہی ‘‘ کے گانے ریکارڈ کرنے آئے تھے۔اُنہوں نے بھی مجھے بلوا کر زبیدہ خانم کی آواز میں فیاض ہاشمی کا یہ سُپر ہٹ گیت ریکارڈ کرایا :
        ؎      کیا   ہو ا دِل پہ سِتم تُم نہ سمجھو گے بلم  
            بے وفا نہیں ہیں ہم ، اِس محبت کی قسم 

1959میں فلم ’’ سویرا ‘‘ میں ماسٹر منظور شاہ عالمی والے کی موسیقی میں ایس بی جون کی آواز میں فیاض ہاشمی کے اِس گیت میں، میں نے بانسری بجائی:
      ؂        تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
             یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

کراچی کی پہلی سندھی فلم ’’ عُمر ماروِی ‘‘ کے ہیرو اور فلم ساز حسن شیخ تھے ، یہ مجھے چچا کہا کرتے تھے۔ اس فلم کی موسیقار جوڑی غلام نبی اورعبداللطیف کے گیت میں نے بجائے۔ اِن کے علاوہ اور بہت سے موسیقاروں کی سندھی فلمیں کیں ہیں۔

ابھی پچھلے دِنوں میں نے آرکسٹرا کے ساتھ بانسری میں اپنی سندھی فِلموں کے گیتوں کی 45 منٹ کی ریکاڈنگ کی ہے۔ اتنے ہی دورانیہ کا میرا انٹرویو بھی شامِل ہے۔ اِس پراجیکٹ کے روح، رواں غلام محمد سولنگی ہیں‘‘۔

یہ سُن کر راقِم کو سندھی فلم ’’ گھونگھٹ لاہے کنوار ‘‘ یاد آ گئی جِس کا ایک گیت ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں بہت مقبول ہوا تھا: 
      ؎      اے ہوا آؤں چھو نہ نچاں مُکھے پیار ملیو۔۔۔ 
جب میں نے اِس گیت میں بجنے والی بانسری کا پوچھا تو سلامت صاحب نے مسکرا کر جواب دیا:’’ امداد کی موسیقی میں فلم ’’ گھونگھٹ لاہے کنوار ‘‘ کا یہ گیت بھی میرا بجایا ہوا ہے‘‘۔

میں نے موسیقار فیروز گُل کا پوچھا توکہا: ’’ اِن کے ساتھ میں نے بہت کام کیا ‘‘۔

جمعہ 5 اپریل 1963 کو فلمساز اور ہدایتکار حسن طارق کی فلم ’’ شکوہ ‘‘ نمائش کے لئے پیش ہوئی ۔فلم کے مصنف ریاض شاہد تھے جب کہ مکالمے علی سفیان آفاقی کے لکھے ہوئے تھے۔ حسن لطیف مذکورہ فلم کے موسیقار تھے۔ موصوف نے فلموں میں کم موسیقی دی مگر جو کام کیا خوب کیا۔اِس فلم میں تنویر نقوی کا لکھا ہوا یہ گیت حسن لطیف کے لئے سلامت صاحب کاپہلا کام ہے :
     ؂         آج محفل سجانے کو آئی

سلامت صاحب نے اپنے لاہور جانے کے بارے میں بتلایا:’’ پھر میں موسیقار خلیل احمد کے ساتھ لاہور آ گیا ۔ 17 جولائی 1964 کو نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ خاموش رہو ‘‘ کے موسیقار خلیل احمد تھے۔ اِس فلم میں حبیب جالب کا لکھا، گلوکارہ نسیم نازلی المعروف مالا کی آواز میں ریکارڈ ہونے والا یہ گیت:
      ؂       میں نے تو پریت نبھائی
           سانوریا رے نکلا تو ہرجائی
لاہور میں میرا پہلا فلمی گیت ہے ‘‘۔

نخشب جارچوی کی فلم ’’ میخانہ‘‘ جسے آغا ناصر نے لکھا۔ستمبر 1964میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اِس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اداکارہ فردوس کی اولین فلم ہے۔سلیم رضا کی آواز میں موسیقار ناشاد کی موسیقی میں خود نخشب صاحب کے لکھے اِس گیت میں سلامت صاحب نے بانسری بجا ئی:
؂           جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے
          آ ئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے

12نومبر 1964کو نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ ہیرا اور پتھر ‘‘ بطورفلمساز ، اداکار وحیدمراد اور ہدایتکار پرویز ملک کی یہ پہلی فلم تھی ۔اِس فلم کی ایک خاص بات فلم ایڈیٹر عقیل تھے جنہوں نے اپنی پہلی ہی فلم میں بہترین ایڈیٹر کا نگار ایوارڈ (1964)حاصل کیا۔ اِس فلم کاسہیل رعنا کی موسیقی میں موج لکھنوی کا گیت جو سلیم شہزاد اور طلعت صدیقی کی آواز میں ریکارڈ ہوکر بہت مقبول ہوا۔
   ؂       مجھے اک لڑکی سے پیار ہو گیا۔۔۔
اس گیت کی ریکارڈنگ میں سہیل رعنا صاحب نے سلامت حسین صاحب سے بانسری بجوائی۔

19 دسمبر 1965کو ہدایتکار شریف نیّر کی لاہور میں بننے والی پاکستان کی پہلی رنگین فلم ’’نائلہ ‘‘ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔موسیقار ماسٹر عنایت حسین اِس فلم کے موسیقار تھے۔اِس فلم کے سارے گانے سلامت صاحب کے بجائے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے ماسٹر عنایت حسین کے ساتھ اور بہت سی فلمیں بھی کیں۔

2 ستمبر 1966 کو نمائش کے لئے پیش کی جانے فلم ’’ بدنام ‘‘ کی دو خاص باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ سعادت حسن منٹو کے افسانے ’’ جھمکے ‘‘سے متاثر ہو کر یہ فلم بنائی گئی۔ دوسرے ثریا ملتانیکر کا پہلا گیت ہے،جو مسرور انور نے لکھا اور دیبو بھٹہ چاریہ کی موسیقی میں سلامت صاحب نے بانسری بجائی ۔یہ سُپر ہٹ ثابت ہوا:
؂         بڑے بے مرّوّت ہیں یہ حُسن والے
           کہیں دِل لگانے کی کوشش    نہ کرنا

1966 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی ، علی سفیان آفاقی کی کہانی پر مبنی فلم ’’ سوال ‘‘ میں نورجہاں کی آواز، فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا اور رشید عطرے کی موسیقی میں یہ لازوال گیت بھی سلامت صاحب کا ہی بجایا ہوا ہے:
  ؂       ارے او بے مروت ارے او بے وفا
         بتا    دے کیا    یہی ہے    وفاؤں کا صلہ

کہنے لگے : ’’ ایک دِلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں: ایک روز ایک وجیہہ قد کاٹھ اور گورے چٹے شخص نے میرا نام لے کر کہا: ’’ سلامت کیا تو نے خلیل احمد کے پیسے دینے ہیں جو اُسی کا ہی کام کرتا ہے؟ ‘‘ ۔ اور ساتھ ہی اپنا تعارف کروایا ۔ یہ مشہور موسیقار خواجہ خورشید انور تھے۔پھر اُس دِن کے بعد وہ مجھ سے ہی فلمی گیتوں میں بانسری بجوایا کرتے تھے۔میں نے اُن کے لئے جو پہلا گیت ریکارڈ کروایا وہ 1966 میں بننے والی فلم ’’ سرحد ‘‘ میں نورجہاں کی آواز میں تنویر نقوی کا لکھا ہوا یہ گیت تھا:
   ؂       چاند تو جب بھی مُسکراتا ہے
        دل میرا   ٹوٹ ٹوٹ جاتا   ہے

اُن کی موسیقی میں فلم ’’ ہیر رانجھا ‘‘ 19 جون 1970 کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ فلم ’’ انتظار ‘‘ اور ’’ کوئل ‘‘ کے ہدایت کار مسعود پرویز نے اِس فلم پر بہت محنت کی تھی ۔فلم کے مکالمے، اسکرین پلے اور تمام گیت احمد راہی نے لکھے اور میں نے بانسری بجائی۔مذکورہ فلم کے گیت مشہورِ زمانہ نگار ایوارڈ یافتہ ساؤنڈ ریکارڈسٹ سی۔منڈوڈی C. Mandodi او ر واجد علی شاہ نے ریکارڈ کیے۔ اِس فلم کے گیتوں نے ملک سے نکل کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی مثلاََ:
              ونجلی    والڑیا    وے    تُوں    تاں موہ   لئی    او    مُٹیار
              کَدے نہ مَنّی سِی جِنّے ہار، تینوں کر بیٹھی اوں پیار

اِس فلم کی ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ عام طور پر موسیقار خواجہ خورشید انور پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب نہیں دیتے تھے لیکن اِس فلم کو چیلینج سمجھ کر کام کیا۔ویسے بھی فلم کے ہدایتکار سے ان کی ذہنی ہم آہنگی تھی‘‘۔

باتوں باتوں میں موسیقار بخشی وزیر کا ذکر آیا تو کہنے لگے : ’’ میں نے اِن کے ساتھ بھی کافی کام کیا۔لاہور میں دیگر بانسری نواز فلمی گیتوں کی ریہرسل اور ریکارڈنگ میں بانسریوں سے بھرے بڑے بڑے بکسے لے کر آتے جب کہ میں اخبار میں لپٹی دو تین بانسریاں ہی لاتا تھا جِس پر بخشی وزیر کہا کرتا کہ جِس دن سلامت بکسا لایا، میں سب کو مٹھائی کھلاؤں گا۔

روبن گھوش سمیت لاہور میں بہت سے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔موسیقار نثار بزمی میرے علاوہ کسی اور بانسری نواز کے ساتھ کام نہیں کرتے تھے۔ میں ،مسعود رانا اور مہدی حسن لاہور سے عیدیں منانے بذریعہ پی آئی اے کی نائٹ کوچ   سے 
لاہو ر سے کراچی آیا جایا کرتے تھے۔

عجب اتفاق ہے کہ لاہور میں میرا پہلا فلمی گیت موسیقار خلیل احمد کے لئے تھا اور آخری بھی اُن ہی کی فلم ’’ خاندان ‘‘ کے لئے تسلیم فاضلی کا لکھا گیت تھا جسے نورجہاں نے گایا:
   ؂        آئے    ہو ابھی    بیٹھو   تو     سہی    جانے کی    باتیں    جانے دو
          جی بھر کے تمہیں میں د یکھ تو لوں اِن باہوں میں آنے دو 
مذکورہ فلم 28مارچ 1980کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔


میں نے لاہور میں اپنے قیام کے دوران فِلموں کے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن کا بھی کافی کام کیا‘‘۔

راقِم نے جب اِن سے پوچھا کہ آپ کو کب اور کیا ایوارڈ ملے ہیں تونہایت انکساری سے بتایا : ’’ 4 عدد پی ٹی وی ایوارڈ ملے ۔یہ کب کب مِلے اب کوئی خاص یاد نہیں‘‘۔ اِس پر میں نے سلامت صاحب سے کہا : ’’ جناب میرے حساب سے تو آپ کو صدارتی ایوارڈ بھی حاصل ہے! ‘‘ تو انکساری سے کہنے لگے کہ: ’’مجھے 14 اگست 1989 کو صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی سے نوازا گیا‘‘۔یہ ہیں ایک فقیر منش انسان کی باتیں۔ 

ایک سوال کے جواب میں کہا: ’’پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کی رفعت ہمایوں نے بہت خوبصورت کلاسیکل پروگرام کیے۔ امجد شاہ آجکل کراچی مرکز سے موسیقی کے اچھے پروگرام پیش کیا کرتے ہیں۔کراچی میں ٹی وی جب جھونپڑے میں ہوا کرتا تھا، میراتب سے اُس کا ساتھ ہے۔ہمیں آٹھ آنے روزانہ ریہرسل کے ملا کرتے تھے‘‘۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’ وزیرِ اعظم سہروردی صاحب، صدرایوب،وزیرِ اعظم بھٹو، وزیرِ اعظم محمد خان جو نیجو اور صدر ضیاء الحق کے ساتھ سفر کیا۔اور غیر ممالک میں وہاں کے سربراہانِ مملکت کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ایسا ہی مظاہرہ اُن غیر ملکی سربراہانِ مملکت کے سامنے کیا جو پاکستان میں آئے‘‘۔

پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’ضیاء محی الدین کے زمانے میں یہ نتائج کے لحاظ سے بہترین دور تھا ۔80 افراد کا گروپ ہوتا تھا جِس میں 22 میوزیشن تھے۔اب NAPA میں بھی وہ بہتر کام کر رہے ہیں ۔کلچرل ڈپارٹمنٹ کے حمید اخوند کے ساتھ بھی کافی کام کیا۔کئی ممالک میں دیگر فنکاروں کے ساتھ میں نے بھی بانسری بجائی۔ ابھی چین کے صدر آئے تھے۔ مجھے بانسری پر اپنی اور چینی دھنیں بجانے کے لئے بُلوایا گیا ۔مجھ سے دو نہیں، تین نہیں بلکہ چار مرتبہ چینیوں نے فرمائش کی اور میں نے ہر ایک مرتبہ مختلف چینی دھن بجائی‘‘۔

ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے کہا: ’’ صدر ایوب کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا جب مراکش کے شاہ حسن ثانی پاکستان آئے۔میں نے اِن کے سامنے مراکشی دھن بجائی تو خوش ہو کر مجھے/ 500روپے دیے جو اُس دور میں ایک خاصی بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔جب یہ پیسے میں نے والد صاحب کو دیے تو اُنہوں نے گھبرا کر پوچھا: ’’ سچ سچ بتاؤ یہ پیسے کہاں سے آئے!‘‘۔ جب میں نے بتایا کہ مراکش کے بادشاہ نے انعام میں دیے تب 110/ روپے کی خوب موٹی تازی گائے خرید لائے اور پورے محلے میں تقسیم کی۔اِسی طرح تین مختلف مواقع پر صدر ضیاء الحق نے مجھ سے خود آ کر پوچھا : ’’ سلامت ! تمہیں کچھ چاہیے؟ ‘‘۔ہر اک دفعہ میرا ایک ہی جواب رہا: ’’ اللہ کا بڑا کرم ہے !‘‘ ۔ میرے اس جواب سے وہ بہت خوش ہوا کرتے تھے۔میں نے شاہ ایران کے سامنے بھی بانسری بجائی۔اِس وقت الائینس ڈی فرانس کے پاکستان کے تمام مراکز میں میری تصاویر لگی ہوئی ہیں‘‘۔

اپنے بچوں کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ مجھے تو وقت نہیں ملا کرتا تھا۔میرے بچوں کی تربیت میری بیوی نے کی۔ماشاء اللہ میری ایک بیٹی سمیرا سلامت ،آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ ہے اور آجکل ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں سرجن ہے۔دو بیٹے شاہد حسین اور طاہر علی کینیڈا میں ہیں۔ایک بیٹا،ڈاکٹر ذکی حسین فوج میں کرنل ہے۔یہ سی ایم ایچ راولپنڈی میں ہوتا ہے۔دو بیٹے زاہد حسین اور راشد حسین جدہ ائر پورٹ پر ہوتے ہیں۔ایک بیٹا جعفر حسین پاکستان کسٹمز میں ہے۔سب سے بڑا بیٹا ذاکرحسین پاکستان اسٹیل ملز سے انجینئر ریٹائر ہوا۔

ایک بیٹے، شہید شاکر حسین کا ذکر کرتے ہوئی بتایا کہ جِس روز حکیم محمد سعید کو کراچی میں صدر دوا خانے کے قریب شید کیا گیا اُسی شام میرے بیٹے شاکر حسین کو بھی شہید کر دیا گیا۔یہ پولیس میں تھا۔اُس نے وکالت کر رکھی تھی اور مزید پڑھ رہا تھا‘‘ ۔

میں نے اِن سے سوال کیا: ’’ آپ نے تفصیلاََ اپنی اولاد کا بتایا۔کیا اِن میں سے کسی کو بانسری کا شوق نہیں ہوا؟ ‘‘
’’ ایک بیٹے شاہد کو شوق تھا وہ اکثر میرے پیچھے بیٹھتا جب میں کہیں بانسری بجایا کرتا تھا۔ایک روز میری بیگم نے کہا کہ آپ کو علم ہے کہ شاہد خاصی بہتر بانسری بجا لیتا ہے۔میں نے اُس کو بلوا یا۔اُس کے پاس ایک معمولی سی بانسری تھی جس پر اُس نے سہیل رعنا کی موسیقی میں ’’ جیوے پاکستان ‘‘ سنایا۔وہ ابھی بچہ ہی تھا لہٰذا میں اسے سہیل رعنا کے پاس ٹی وی لے گیا۔سہیل بھی سُن کر خوش ہوا اور انعام دیا اور اپنے پروگرام میں اس سے یہ آئٹم بجوایا۔پھر کچھ دِن بعد میں نے محسوس کیا کہ شاہد گھر میں نظر نہیں آ رہا۔بیگم سے پوچھا تو اُس نے کہا کہ وہ توبانسری چھوڑ چکا، میں بہت حیران ہوا ۔ پوچھنے پر خوشگوار جواب ملا کہ اُس کا کلامِ پاک حفظ کرنے کا شوق ہو گیا وہ اب زیادہ تر مسجد میں بیٹھتا ہے۔اب ماشاء اللہ شاہد حا فظ قرآن ہے اور کینیڈا میں اُس کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی بھی حُفّاظ ہیں اور شاہد وہاں جمعہ پڑھاتا ہے ‘‘۔

اُستاد سلامت حسین کے کچھ اور مشہور کام :
گلوکار سید آصف علی کا پہلا گیت ۔
            دیواروں سے    باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
            ہم بھی پاگل ہوجائیں گے ایسا لگتا ہے

1962 میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’’ چراغ جلتا رہا ‘‘ موسیقار نہال عبداللہ اور گلوکار طلعت محمودکی آواز میں   یہ گیت :
؎     خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تم

نسیم بیگم کی آواز میں کراچی میں ریکارڈ کردہ پہلا گیت ،فلم ’’ اپنا پرایا ‘‘ موسیقار سیف چغتائی اورشاعرمنیر جیلانی 1959 :
   ؎     نیناں روئے چھم چھم کیسے میں چھپاؤں غم
      سہا   نہیں    جائے پیا    دکھ    تیرے پیار    کا

ہارون رِند کے ڈرامہ سیریل ’’ جنگل ‘‘ میں بانسری بجائی۔

کریم شہاب الدین کی موسیقی میں جمال اکبر کی آواز :
   ؎     وہیں    زندگی کے حسین خواب    ٹوٹے
      میرے ہمسفر تم جہاں ہم سے چھوٹے

1956میں بننے والی جی اے چشتی کی موسیقی میں فلم ’’ انوکھی ‘‘
   ؎      گاڑی   کو    چلانا        بابو
        زر ا    ہلکے    ہلکے    ہلکے
      کہیں دل کا جام نہ چھلکے

1961 میں پیش ہونے والی فلم ’’ بارہ بجے ‘‘ موسیقار جوڑ ی لال محمد اور بُلند اِقبال کی بحیثیت موسیقار پہلی فِلم ۔ شبی فاروقی کے لکھے اور بھارت سے آئی ہوئی نِشی کُماری ، اصل نام ریشماں (یونس ہمدم نے روزنامہ ایکسپریس نیوز میں اپنے کالم ’’ شبی فاروقی ‘‘ میں یہ بات لکھی )۔
    ؎       ہار گئی ہار گئی تجھ سے دل لگا کے
          نینوں میں بسایا توہے کجرا بنا کے 
لال محمد جو خود بھی اچھے بانسری نوازتھے، اُنہوں نے اپنے اس مذکورہ گیت میں سلامت صاحب سے بانسری بجوائی۔
موسیقار لال محمد اقبال کی پہلی پشتو فلم ’’ یوسف خان شیر بانو ‘‘ کے تمام گانے۔

ایک عظیم بانسری نواز کے متعلق لکھ کر میرا دِل باغ باغ ہو گیا۔ اِن تمام معلومات میں سے کچھ استاد صاحب نے خود بتائیں اور باقی راقم نے تلاش کر کے لکھیں۔

اپنی نشست کے اختتام پر میں نے پوچھا کہ آپ خود بانسری کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اِس کے جواب میں اُنہوں نے مولانا رومی کا فارسی بند سُنایا جِس کا مطلب ہے: ’’ یہ ( بانسری) جہاں سے توڑی گئی اور اس کو کاٹ کر اِس کے جِگر میں سوراخ کئے گئے تو یہ اپنی اُسی جگہ کو یاد کر کے روتی ہے ۔ اے پروردِگار ! تو میرے جِگر میں ایسے ہی سوراخ کر دے تا کہ میں تیری ثناء کرتا رہوں‘‘۔

اُستاد سلامت حسین کاپیغام قارئین کے نام: اے اللہ ! ہمارے ملک کو قائم و دائم رکھ ! آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
مذکورہ تحریر 31  اکتوبر 2017 بروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔










 

Comments

Popular posts from this blog