دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو !




دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو ! 

راوی سیّد سلیم حیدر کاظمی    تحریر شاہد لطیف

1982-1983 کی بات ہے 22نمبر چنگی، ٹینچ بھاٹا، راولپنڈی کے رہنے والے (فرضی نام) شاہد کاظم صاحب جی ایچ کیو برانچ میں واقع ایک معروف بینک کے منیجر تھے پھر ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ اور اُس کے بعد سرکل ایگزیکیٹیو ہو گئے۔

مجھے ایف آئی اے کی تربیت مکمل کیے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ایک معاملے کی تحقیق کے لئے مجھے راولپنڈی کینٹ میں واقع ایک معروف بینک میں تعینات کیا گیا۔و ہیں پر یہ کاظم صاحب تھے جو ایک چلتا پرزہ شخصیت تھے۔اُن کے بیگم شفیقہ ضیاء الحق سے قریبی مراسم تھے اورانہیں بہن کہتے تھے۔ ہماری اطلاع کے مطابق شاہد کاظم صاحب کی بینک ملازمت اور ترقیوں میں یہ تعلقات اہمیت کے حامِل تھے۔ اسی طرح صدر ضیاء الحق کی صاحبزادی زین بھی اُن سے بہت مانوس تھی۔ میرے ذمہ ایک تفتیش لگائی گئی جِس کا تعلق مطلوبہ برانچ سے تھا ۔ معلومات کے مطابق اعلیٰ درجہ کی منشّیات /نارکوٹکس یہاں سے مستقل بنیادوں پر ناروے بھیجی جا تی تھیں اور اس کا تعلق انہی کاظم صاحب سے جوڑا جا رہا تھا۔ یہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے مجھے ایف آئی کی Economic Investigation Wing نے اُس بینک کی اِس برانچ میں ’ بینکر ‘ کی حیثیت سے متعین کیا ۔ میرا کام کاظم صاحب اور اُن سے جُڑے اس سلسلے کے زیادہ سے زیادہ افراد اور اُن کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنی تھی۔

کچھ عرصہ میں خاموشی سے جائزہ لیتا رہا۔واقعی صدر صاحب کی صاحبزادی زین اکثراِس برانچ میں آتی ، عموماََ وہ اکیلی ہوتی تھی البتہ کپتان کے عہدے کا ایک فوجی افسر بطور حفاظت اُس کے ساتھ ہوتا ۔اس کے علاوہ کچھ نئے نئے چہرے والے ایسے بھی خوش لباس نوجوان ہاتھوں میں بریف کیس لئے اُن کے پاس ملنے آتے تھے جِن کا تعلق بینک سے نہیں ہوا کرتا تھالیکن وہ سیدھا کاظم صاحب کے پاس ہی جاتے ؛ بے تکلفی سے گفتگو کرتے، چائے شائے پیتے اور چلے جاتے۔علاوہ ازیں تقریباََ ہر ایک بدھ کو اِن جیسے کسی نہ کسی نوجوا ن کو کاظم صاحب خود ہوائی اڈہ الوداع کرنے جایا کرتے تھے جو پی آئی اے کی ناروے جانے والی پرواز کا مسافر ہوتا۔ایسے میں عموماََ بیٹی زین ان کے ساتھ ہوتی تھی۔کاظم صاحب اور وہ مسافر، دونوں کے ہاتھ میں ایک جیسا کالا بریف کیس ہوتا تھا۔ کاظم صاحب بورڈنگ تک اس کے ساتھ رہتے۔بیٹی زین بھی ساتھ ہی ہوتی، اب بیٹی کی موجودگی میں کِس مائی کے لال کی جُرات تھی کہ وہ ان کو روکتا یا تلاشی لیتا ! پھر میں نے کچھ ہی عرصے میں نوٹ کر لیا کہ ناروے کے سفارت خانے میں بھی اِن کی بڑی اہمیت ہے۔میری اسی تفتیش کے دوران خوش قسمتی سے سفارت خانے میں ان کا کوئی بڑا قومی تہوار منایا گیا جِس میں کاظم صاحب کو بطور مہمان دعوت ملی اور موصوف نے اس میں شرکت بھی کی۔

جیسے جیسے میری تفتیش آگے بڑھی کا ظم صاحب کی ’’شخصیت‘‘ کے نئے نئے پہلو سامنے آنے لگے ۔اُن کی ایک اور سرگرمی نظروں میں آئی۔وہ ہفتے میں ایک آدھ دفعہ پرل کانٹی نینٹل ضرور جاتے تھے۔

وہاں اُن کے ملاقاتی عموماََ ائیر فورس کے ہواباز ہوتے ۔پھر یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ یہ سب سی 130 کے عملے کے وہ ہوا باز تھے جو پرواز لے کر رو س آیا جایا کرتے۔میں خاموشی کے ساتھ ان سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرتا رہا۔اِس دوران مجھے اِن سے مزید گھلنے ملنے کا کہا گیااور میں ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور ان کے قریب ہونے کے بہانوں سے بھی فائدہ اُٹھاتا رہا۔اس طرح مزید وقت گزر گیا ۔پھر ایک دِن جب کہ زین بیٹی بھی اُن کے پاس بیٹھی تھی ، میں نے اُن سے درخواست کی کہ آج میری سواری نہیں ہے اگر وہ چھٹی کے بعد مجھے بھی گھر تک چھوڑ دیں ! چھٹی کے بعد ہم نکلے۔زین کو بھی انہوں نے اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔فوج کے کپتان صاحب سرکاری جیپ پرپیچھے پیچھے چلے۔ راستہ خوش گپیوں میں گزرا ۔میں نے باتوں باتوں میں برسبیلِ تذکرہ اُن کے ’’ بڑے لوگوں‘‘ سے تعلقات کا ذکر کیا اور کہا : ’’ کیا ہی اچھا ہو تا اگر آپ مجھے ناروے بھجوا دیں ‘‘۔ آدمی کایاں تھے ! اگلے ہی روز مجھے ایف آئی اے کے سینئرز نے بتایا کہ کاظم صاحب نے لکھ بھیجا ہے کہ آپ کی مزید خدمات درکار نہیں لہٰذا اِن کا تبادلہ کہیں اور کر دیا جائے۔یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستانی ایف آئی اے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلتی، بلکہ ایک قدم آگے رہ کر منصوبہ بندی کرتی ہے۔ 2 روز کے اندر میرا تبادلہ اِسی بینک کی پرل کانٹی نینٹل برانچ میں ’’ پروٹوکال افسر ‘‘ کی حیثیت سے ہو گیا۔ہوٹل کے استقبالیہ کو احکامات دے دیے گئے کہ جیسے ہی شاہد کاظم صاحب ہوٹل میں داخل ہوں یا اِن کو پوچھنے یا ملنے کے لئے کوئی آئے مجھے فوراََ خبر دے دی جائے۔میں نے ہوٹل والوں کو جتلا دیا تھا کہ جس طرح خود ہوٹل میں پروٹوکال افسر کا منصب ہوتا ہے اسی طرح میں اپنے بینک کے افسران یا کلائنٹ کا پروٹوکال افسر ہوں ۔اب یہ ہوتا کہ جونہی کاظم صاحب آتے میں اُن کی میز پر حاضری دے دیتا۔ یہاں کئی مرتبہ میں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے اُن کی اور ہوائی فوج کے ہوابازوں کی گفتگو اپنے اعلیٰ افسران کو دی، جِس نے آگے چل کر اِس تفتیش میں کیس کو مضبوط کرنے میں ایف آئی اے کی بہت مدد کی۔

ایف آئی اے ٹیم کی ان تھک محنت سے یہ مشن کچھ ہی عرصہ بعد بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوا۔ایک روز مجھے اطلاع ملی ۔۔۔موصوف رنگے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفصیل اس امر کی کچھ یوں ہے کہ ناروے کے سفارت خانے میں کوئی بڑی تقریب منعقد تھی جِس میں بیگم شفیقہ ضیاء الحق بطور مہمانِ خصوصی شریک تھیں۔تقریب کی مناسبت سے بیگم صاحبہ نے ایک بہت ہی نفیس اور نہایت خوبصورت گلوبند زیب تن کیا ہوا تھا۔دورانِ طعام نارویجین سفیر اور بیگم صاحبہ کے درمیان ایک گفتگو ہوئی جو بہت سے لوگوں نے سُنی۔گفتگو کچھ یوں تھی:
سفیر: ’’ یور ہائی نس ! آپ کا یہ ہار بہت خوبصورت اور قیمتی ہے۔آپ نے یہ کہاں سے خریدا؟
بیگم شفیقہ ضیاء الحق: ’’ اچھا !!! اسے میں نے نہیں خریدا۔مجھے تو میرے بھائی نے تحفے میں دیا ہے۔وہ بیٹھا ہے‘‘۔اُنہوں نے جہاں اشارہ کیا وہاں شاہد کاظم صاحب تشریف فرما تھے۔

سفیر: ’’ یور ہائی نس ! میرا ناروے میں ہیروں کا آبائی کاروبار ہے۔میں نہ صرف اس گلوبند کے ہیروں کو پہچانتا ہوں بلکہ یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ گلوبند کِس کمپنی نے بنایا ہے۔یہ ہمارے ہاں کے جڑاؤ زیورات بنانے والوں کے قیمتی شاہکاروں میں سے ایک ہے۔بہت خوب یور ہائی نس ! ‘‘ ،اور پھر اس نارویجین سفیر نے نارویجین کرنسی میں اس کی جو قیمت بتائی وہ کاظم صاحب کی سال بھر کی تنخواہ بمع دو
بونسوں ، سے کہیں زیادہ تھی۔

اس طرح ایف آئی کی، کی جانے والی پیش رفت کو ایک اور رُخ مِل گیا۔تفتیش میں علم ہوا کہ کاظم صاحب کے اخراجات ان کی آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہیں۔اب ان کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگااور ایک دن سب خدشات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایف آئی اے نے انہیں اِن کے دفتر کینٹ برانچ میں اِن ہی کے عملے کے سامنے رنگے ہاتھوں اعلیٰ قسم کی منشّیات کے ساتھ 1983 میں گرفتار کر لیا۔ موصوف نہایت برہم ہوئے اور ایف آئی اے کے عملے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگے ،جب دیکھا کہ اُن کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو ایک فون کرنے کی اجازت مانگی۔۔۔فون بھی کیسا۔۔۔براہِ راست صدرِ پاکستان ، جنرل ضیاء الحق صاحب کو۔اُنہوں نے شکایت کی کہ مجھے ناحق گرفتار کیا جا رہا ہے۔صدر صاحب نے ملائمت سے جواب دیا ’’ اگر آپ بے قصور ہیں تو پریشانی کی کیا بات ہے؟ آپ چُھوٹ جائیں گے‘‘۔

ایف آئی اے نے بھی زمانے کے سردو گرم دیکھ رکھے تھے ۔اُس نے اگلے ہی روز مکمل ثبوت کے ساتھ موصوف کی فائل صدر ضیاء الحق صاحب کو پیش کر دی۔صدر صاحب نے اسے پڑھااور اس پر اپنا یہ تاریخی نوٹ لکھا۔۔۔Deal with them severely .

صدر صاحب کی اجازت ملتے ہی تفتیشی افسران نے دیر نہیں کی۔جب آرام سے موصوف نے زبان نہیں کھولی تو اس عمر میں بحالتِ مجبوری تھرڈ ڈگری استعمال کی گئیں جس کا پہلا وار ہی ہوا تھا کہ موصوف نے بولنا شروع کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناروے کے لئے اعلیٰ درجے کی منشیات کالے بریف کیس میں ہوتی تھی۔وہ بریف کیس جو کاظم صاحب کے ہاتھ میں ہوتا۔ جب تمام کلئیرنس کے بعد بورڈنگ کارڈ مِل جاتا ، اُس وقت انتہائی ہوشیاری سے بریف کیس بدل جاتا تھا۔شاہد کاظم صاحب کا بریف کیس مسافر کے ہاتھ میں ہوتا اور مسافر کا بریف کیس اُن کے ہاتھ میں اور پاکستان کے اندر معاملہ صاف ! ناروے کی ائرپورٹ پر بھی کچھ ملی بھگت تھی اور یوں ’’ مسافر ‘‘ محفوظ طریقے سے ناروے کی ائر پورٹ سے باہر آ جاتا۔ تب (غالباََ) ہر بدھ کو پی آئی اے کی ایک پروازاسلام آباد سے ناروے جایا کرتی تھی۔
دوسری طرف اُس زمانے میں روسی کرنسی ’’ روبل ‘‘ کی قدر امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔موصوف سی130کے ہوابازوں کو شیشے میں اُتارتے ، ان کے ہاتھ امریکی ڈالر روس بھیجتے تھے اور وہاں سے غیر قانونی طور پر روبل منگواتے تھے۔
دونوں کیسوں میں ملوث تمام لوگ پکڑے گئے۔ہر ایک کو اُس کے جُرم کے مطابق سزا ملی۔مجھے اپنے ’’ اصل محکمہ‘‘ کی جانب سے توصیفی سند مِلی اور موصوف کو 10 سال کی قید ۔سارا مال و زر ضبط ہو گیا۔جو رہ گیا وہ دوسروں نے ہڑپ کر لیا۔سزا مکمل ہونے کے بعد جیل سے باہر آئے تو مُردوں سے بد تر ! نہ پیسہ نہ دھیلا۔۔۔نہ دوست احباب۔کچھ عرصہ بعد اسی کسمپرسی میں جان سے گئے۔
’’سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں‘‘۔دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو ! ۔۔۔اگر واقعی ہو !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر ماہنامہ حکایت ڈائجسٹ کے فروری مارچ مشترکہ  خاص نمبر میں شائع ہوئی۔













 

Comments

Popular posts from this blog