شاباش چیئرمین نادرا۔۔۔




شاباش چیئرمین نادرا۔۔۔

تحریر شاہد لطیف

ایک عرصہ سے قومی اخبارات میں عوام کے ساتھ نادرا کے عملے کے ناروا سلوک کے بارے میں عوامی شکایات شائع ہو رہی تھیں۔ سیاسی پارٹیوں میں سے جماعتِ اسلامی پاکستان واحد سیاسی پارٹی ہے جِس نے ہر میسر پلیٹ فارم پر اِن کے خلاف آواز اُٹھائی۔بہر حا ل جمعہ23 فروری اِس سلسلہ میں عوام کے لئے ایک یادگار دِن ثابت رہا۔کیسے؟ ؟۔۔۔ شکر ہے کہ اِن شکایات کی چھان بین کے واسطے نادرا کے چیئرمین عثمان مبین صاحب خود کراچی گئے اور نادرا کے مختلف مراکز میں عام سائل کی حیثیت سے دورے کئے جِن کے نتیجے میں بعض اہلکار برطرف اور کچھ معطل ہو گئے۔

چیئرمین صاحب نے سائٹ ایریا کے میگا سینٹر میں ایک عام شہری کی حیثیت سے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ اَس طرح انہیں لوگوں کی باتوں سے ان کے مسائل کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا۔چیئرمین صاحب کو یہاں کے عملے میں کوئی پہچان نہ سکا۔وہاں ویٹنگ روم میں جب تک چیئرمیں صاحب بیٹھے رہے اُس وقت تک دو کاؤنٹروں پر اہلکار مسلسل غیر حاضر رہے۔جب عثمان صاحب کی باری آئی تو ایک کاؤنٹر سے نادرا کے اہلکار نے اُن کی درخواست بغیر کوئی وجہ بتائے مسترد کر دی۔ چیئرمین نادر ا نے وہیں کھڑے کھڑے اس مرکز کے انچارج اور دو ا فراد کو معطل کر دیا۔ اِس کے بعد وہ لیاقت آباد کے ایک عام مرکز میں گئے۔وہاں ایک اہلکار نے لاڑکانہ کے شہری کو شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کر دیا اور وہی گھسی پٹی کہانی سنا ڈالی کہ یہ تو لاڑکانہ سے بنایا گیا تھا لہٰذا آپ اب وہیں جائیں۔یہ ساری گفتگو چیئرمین نادرا نے سُنی اوراُنہوں نے فی الفور اُس اہلکار کو معطل کر دیا۔اِس موقع پر نادرا کے چیئرمین نے وضاحت کی کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری پورے ملک میں کسی بھی مرکز سے اپنا شناختی کارڈ بنوا سکتا ہے۔نیز یہ کہ عوام کو تنگ کرنے والے اسٹاف کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔اُدھر جماعتِ اسلامی کی مقامی قیادت نے نادرا کے چیئرمین کے اِن مراکز میں چھاپے ، متعدد افسران کی معطلی اور عام آدمی کی طرح قطار میں کھڑے رہنے کے عمل کی تعریف کی اور اُسے خوش آئند اقدام قرار دیا اور کہا کہ اِس سے چیئرمین کو نادرا کی اصل کارکردگی کا صحیح اندازہ ہو گیا ہے اور عوامی شکایات کی تصدیق بھی۔ہم چیئر مین صاحب سے درخواست کریں گے کہ وہ اِن عوامی شکایات کے ازالے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کریں ۔ 

ہمارے نزدیک سرکاری اداروں میں متعلقہ اہلکاروں کے عوام کے ساتھ سلوک کا اسی طرح علم ہو سکتا ہے جب اعلیٰ افسران بغیر ’ پروٹوکول‘ اور ’ ہٹو بچو‘ کے اِن مراکز میں سائل کی حیثیت سے جائیں ۔یہ تو سرکاری اہلکاروں اور عوام کی بات ہوئی بعض معاملات ، آرڈیننس اور قوانین بھی بظاہر ’ مناسب‘ نظر آتے ہیں لیکن عوام اور اِن قوانین کے متاثرین میں جا کر ہی اصل حقیقت کا علم ہو سکتا ہے۔یہاں اسلاف کی زرین تا ریخ کا ایک بر محل واقع کا ذکر کرتا ہوں۔ 

عموماََ قوانین بہت سوچ سمجھ کر بنائے جاتے ہیں لیکن ان کے مُضر اثرات side effects کا علم اُن کے نفاذ کے بعد ہی ہوتا ہے ۔ قوانین انسانیت کی فلاح کے لئے بنائے جاتے ہیں تا کہ نظامِ زندگی بہتر طریقے سے چلایا جا ئے۔اب یہ کیسے پتہ چلے کہ اِن کا نفاذ کیسے ہو رہا ہے ؟ اِن قوانین کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ؟ اِس کا علم قانون بنانے والے کو اُسی وقت ہو گا جب وہ عوام کے اندر جا کر خود مشاہدہ کرے ۔اِس موقع پر خلیفہء راشد دوئم حضرت عُمرؓ فاروق کا واقعہ یاد آ گیا۔فاروقِ اعظمؓ نے اپنے دورِ حکومت میں عوامی فلاح کے بہت سے قوانین مرتب کئے۔اِن میں ایک قانون یہ تھا کہ جب نومولود بچہ، ماں کا دودھ پینا چھوڑ دے تو اُس کو ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔امیر المومینین عُمرؓ فاروق ہر ایک رات مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا کرتے تھے۔کبھی کبھی اس کے مضافات کی طرف بھی نکل جاتے۔ایک رات اسی طرح مدینہ منورہ سے ذرا دور نکل آئے۔رات کی خاموشی میں انہیں دور سے ایک بچے کے رونے کی آواز سُنائی دی۔وہ آواز کی سمت بڑھ گئے۔قریب گئے تو ایک خیمہ نظر آیا۔اسی میں سے رونے کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔حضرت عمرؓ نے بلند آواز میں سلام کیا ۔اندر سے ایک عورت نے جواب دیا۔اب انہوں نے بچے کے رونے کی وجہ دریافت کی ۔عورت کہنے لگی کہ امیر المومینین نے ہر اُس بچے کا وظیفہ مقرر کیا ہے جِس کا دودھ چھڑوا دیا گیا ہو۔یہ ابھی چھوٹا ہے لیکن میں اِس کا دودھ چھڑوانا چاہتی ہوں تا کہ میرے بچے کو وظیفہ مِل سکے۔یہ سُن کر خلیفہء وقت کانپ اُٹھے اور روتے ہوئے واپس پلٹے۔وہ اپنے آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ اِس قانون کی وجہ سے ایک دودھ پیتے بچے پر ظلم ہوا۔وہ خود کو اس ظلم کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔بہت مشکل سے رات کاٹی ۔صبح فجر کی نماز کے بعد جو سب سے پہلا حکم جاری کیا وہ یہ تھا کہ ’’ ہر نومولود کا وظیفہ اُس کی پیدائش کے ساتھ ہی جاری کر دیا جائے گا‘‘۔یہ ہمارے سلف کی روایات تھیں جو قانون میں عوامی فلاح کی خاطر فوراََ ترمیم کیا کرتے تھے کیوں کہ بہر حال قانون کے اثرات کا نتیجہ اس کے نفاذکے بعد ہی سامنے آتا ہے۔ 
نادرا کے چیئرمین نے ہمارے سلف کی روایات کو زندہ کیا ! اس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔یقیناََ یہ مثال باقی تمام سرکاری اداروں کے لئے باعثِ تقلید ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اداروں کی کارکردگی کا انحصار اس کے سربراہ کی صلاحیت اور اہلیت پر ہے۔ہمیں کسی کی نیت اور خلوص پر کوئی شک نہیں لیکن نیت اور خلوص کا صرف دِل کی حد تک رہنا کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ عملی اقدام کے ساتھ ان کا ثبوت نہ دیا جائے۔

قانون بنانا آسان ہے۔اِس پر عمل درآمد کرانا مشکل ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہی قانون پر عمل داری ہے خواہ وہ صدر کی بھتیجی ہی کیوں نہ ہو اور یہاں ۔۔۔؟؟

ہم امید رکھتے ہیں کہ باقی سرکاری اداروں کے سربراہ بھی اس روایت کو اپناتے ہوئے پاکستان کو مضبوط تر بنائیں گے۔بہت خوب چیئرمین نادرا۔۔۔بہت خوب !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 3 مارچ، 2018،بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔












 

Comments

Popular posts from this blog