نگار ایوارڈ






نگار ایوارڈ

تحریر شاہد لطیف
34ویں نگار ایوارڈ کی تقریب کے دوران الیاس رشیدی صاحب نے ایوارڈ کے اس سلسلہ کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔یہ فلمی صنعت کی زبوں حالی کی وجہ سے کرنا پڑا۔ اِس نگار ایوارڈ میں میڈم نورجہاں نے اسٹیج پر آ کر کہا کہ جب تک الیاس صاحب نگار ایوارڈ کے ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لیتے ہم لوگ ہال سے واپس نہیں جائیں گے۔اِس پر رشیدی صاحب کو کہنا پڑا کہ جب تک وہ زندہ ہیں آپ لوگوں کی خاطر نگار ایوارڈ قائم رہے گا۔

نگار ایوارڈ کو پاکستان کے سب سے بڑے اور مستند ایوارڈ کی حیثیت حاصل ہے۔ملکی فلمی صنعت کی ترقی میں اس ایوارڈ کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔الیاس رشیدی صاحب نے پاکستانی فلمی صنعت کی حوصلہ افزائی کے لئے اس ایوارڈ کا آغاز کیا تھا۔1997میں الیاس رشیدی صاحب کے انتقال کے بعد بھی باقاعدگی سے 2004 تک یہ ایوارڈ ہوتا رہا۔ لیکن فلمی صنعت کے تلے اوپر بحرانوں کی وجہ سے جب کہ فلمیں نہیں بن رہی تھیں ایک مرتبہ جو نگار ایوارڈ کا سلسلہ منقطع ہوا تو پھر ہوتا ہی چلا گیا۔ایسے میں ایوارڈ کی تقریب کا بھی کوئی جواز نہ تھا۔46سال باقاعدگی سے دیے جانے والا قابلِ ذکر ایوارڈ 2008 کے بعد چار سال تک تعطل کا شکار رہا۔2013 میں ایک دفعہ اور نگار ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔47واں نگار ایوارڈ اب تک کا آخری ایوارڈ ہے جو 16مارچ 2017 کو منعقدہوا۔

2000میں ٹی وی چینلوں کی ایک بڑی تعداد منظر پر آ ئی۔فلمی صنعت جو پہلے ہی خراب حالت میں تھی اس کے حالات مزید ابتر ہو گئے ۔کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں سالانا 120فلمیں بنا کرتی تھیں جو اب گھٹ کر صرف 25رہ گئیں۔سندھی فلمیں تو بننا بالکل ہی بند ہو گئیں۔اِن پچیس فلموں میں پنجابی، پشتو اور اُردو سب شامِل ہیں۔اب گنتی کی چند اُردو فلموں میں ایوارڈ کیسے ہو؟سال میں برائے نام فلمیں بن رہی ہوں تو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے اِس ایوارڈ کو بھلا کس جواز کے تحت اسپانسر کیا جا سکتا تھا۔ عوام تو نگار ایوارڈ کے نہ ہونے پر فکر مند ہیں،یہاں حقیقت یہ ہے اِس خراب فلمی صورتِ حال پر بھی نگار ویکلی کسی نہ کسی طرح بغیر رکے مسلسل ماشاء اللہ شائع ہو رہا ہے۔یہ بلا شبہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ پاکستان بننے کے بعد نگار ویکلی سب سے قدیم ہفت روزہ ہے۔

اسلم الیاس رشیدی صاحب کا کہنا ہے کہ فلمی صنعت کے بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اِسے بحیثیت صنعت چلایا نا حکومت سے تسلیم کرایا۔ماضی میں لوگ اِ س شعبہ سے پُر خلوص تھے لیکن فلمی صنعت کے عروج میں نامور فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے چربہ فلمیں بنائیں۔آج بھی یہی ہو رہا ہے۔
اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ 1965میں بھارتی فلمیں بند نہیں ہونا چاہیے تھیں مٹھی بھر مفاد پرست لو گ محبِ وطن بننے کی آڑلے کر فلمی صنعت کو نقصان پہنچا گئے۔ہمارے ملک میں ہنر کی کوئی کمی نہیں ، اِن سے کام لینا ہی تو اصل کام ہے جو اکثریت کو نہیں آتا۔پہلے کسی فلم کے ہِٹ ہونے کے بعد اداکار مونہہ پھاڑکر پیسہ نہیں بڑھاتے تھے ۔اب تو ایک فلم معمولی مقبول ہوئی نہیں اور فنکاروں نے معاوضے بڑھائے نہیں۔ فلمیں اب بھی بن رہی ہیں لیکن ’’ فلم ‘‘ نہیں۔فلمی صنعت کا وجود نہیں اورکوئی ایسوسی ایشن بھی نہیں۔پرانی کلاسیکی قیمتی فلموں کے نیگیٹیو اچھی حالت میں نہیں۔یہ ہر قیمت پر کنٹرول ٹمپریچر پر ہونا چاہئیں جبکہ ایسابالکل بھی نہیں ہو رہا۔ خاکسار کی تحقیق کے مطابق بھارت میں اس پر عمل بہت سختی کے ساتھ ہوتا ہے۔

اسلم الیاس نے کہا: ’’ اسٹوڈیو مالکان سے لے کر نمائش کنندگان تک کوئی ایک دوسرے سے مُخلص نہیں بلکہ جہاں داؤ لگتا ہے ہاتھ دکھا ڈالتے ہیں۔پہلے فلمیں 100222مار کیٹ کے پیسے سے بنتی تھیں اب تمام تر بار فلمساز پر آ گیا ہے۔ ہمارے ہاں کی فلمی صنعت کا پورا سسٹم اوورہال ہونے والا ہے۔ سنیما مالکان نے سنیما کی جگہ کثیر المنزلہ عمارات بنا ڈالیں۔اب تو نئے نقشوں میں سنیما کی کوئی جگہ نہیں رکھی جاتی ۔ آج کل تو فلم بنانے سے لے کر تقسیم کاری تک سب پیسے والے کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

’’فلم غریب آدمی کے لئے ایک واحد تفریح کا ذریعہ تھا ۔جِس فلم میں عورتیں آ گئیں وہ کامیاب سمجھ لی جاتی تھی۔بعض مارننگ شو صرف خواتین کے لئے ہوا کرتے تھے۔ایک مرتبہ نگار ایوارڈ کا ٹکٹ بھی 1000روپے لگایا گیا تھا۔یہ فلمی صحافی اقبال احمد خان /کشور اقبال اور ان کی فیملی کی بہبود کے لئے کیا گیا تھا۔اُس زمانے تک فلمی صنعت ایک خاندان کی طرح تھی‘‘۔

’’شباب کیرانوی صاحب نے پاکستانی فلمی صنعت سے جو کمایا وہ واپس اسی صنعت میں لگایا۔ شباب اسٹوڈیوز صحیح معنوں میں پروڈکشن ہاؤس تھا۔ستیش آنند نے شباب پروڈکشن کی 95222 فلمیں تقسیم کیں۔شباب صاحب کے انتقال کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا‘‘۔

اسلم الیاس رشیدی صاحب نے اپنے متعلق بتایا : ’’ میرے اندر فلم کا شوق تھا۔ھفتہ کے روز نگار شائع ہو کر آتا تھا جسکا مجھے شدت سے انتظار رہتا تھا(آج کل جمعرات کو شائع ہوتا ہے)۔1972/1973میں والد صاحب بیمار ہوئے۔السر کی شکایت تھی۔ہلال اسپتال میں نصیر شیخ صاحب کے زیرِ علاج داخل ہوئے۔وہاں ابراہیم جلیس اور دیگر افراد کی موجودگی میں مجھے والد صاحب نے کمرے سے باہر بھجوا دیا۔میں نے باہر آ کر سوچا کہ والد صاحب کو دفتر کی فکر ہے۔میں نے اُن سے کہا کہ میں بھی کچھ وقت دفتر میں کام کرنا چاہتا ہوں ۔ اُنہوں نے اجازت دے دی۔کچھ عرصہ بعد وہ ماشاء اللہ صحتیاب ہو کر دوبارہ نگار آنے لگے اور میں نے وہاں جانا بتدریج کم کر دیا۔‘‘

’’ ایک روز جب میں نگار میں پہنچا تو والد صاحب نے عجیب سا سوال کر دیا: ’’ بس اتنا ہی آنا جانا تھا؟‘‘۔’’ میں نے فوراََ محسوس کر لیا کہ اُن کو میری ضرورت ہے۔اب میں باقاعدگی سے کالج سے یہاں دفتر میں بھی آنے لگا۔1978تک پہلے نگار ویکلی صرف لال اور نیلے رنگوں میں شائع ہوا کرتا تھا۔ میں نے تجویز پیش کی کہ پرچے کو تین یا چار رنگوں کا کر لیں۔کچھ عرصہ ایک ہفتہ 4کلر اور دوسرے ہفتہ 2کلر میں شائع ہوا پھر بالآخر پورا ہی 4کلر کا کر دیا گیا۔صلاح الدین پراچہ ایڈورٹائزنگ منیجر تھے۔ فلموں کے اشتہارات بلیک اینڈ وائٹ ہی شائع ہوا کرتے تھے۔ میں نے پہلی دفعہ فلمساز اطہر شاہ خان کی فلم ’’ آس پاس ‘‘ کا اشتہار ،فلمی کتابچہ سے پازیٹیو لے کر رنگین شائع کیا۔ شروع میں مجھے پرنٹنگ کی طرف سے کچھ لا پروائی محسوس ہوئی لہٰذا وہاں خود جانا شروع کر دیا۔‘‘

’’ ایک مرتبہ بہت بارش ہوئی۔دوپہر 2بجے کاپی ڈاؤن ہونا تھی۔حقانی چوک پر پریس تھاجہاں کمر کمر تک پانی کھڑا تھا۔کاپیاں لپیٹ کر سر پر رکھ کر 3منٹ پیدل کمر کمر پانی میں سے گزر کر پریس تک پہنچا۔‘‘

’’ نگار انعامی مقابلہ میرا اور صلاح الدین پراچہ صاحب دونوں کا آ ئیڈیا تھاجو6سال تک چلا ۔ نگار پہلے صرف رائٹ اپ پر فوکس تھا پھر میں نے انٹرویو اور ٹی وی ڈلوایا۔میرے آنے کے بعد پرچہ کی اشاعت 200222 بڑھ گئی۔7500سے بڑھ کر18000 تک چلی گئی۔خاص ایڈیشن تو 28000 تک جا پہنچے، جیسے عیدین اور 14 اگست۔‘‘

’’ والد صاحب کے حوصلہ افزائی کا طریقہ الگ تھا۔وہ کہا کرتے: ’’ لوگوں نے پرچہ پسند کیا ‘‘ ۔ والد صاحب بہت ہی مصروف رہا کرتے تھے۔تقریبات، لوگوں کو لینے اور چھوڑنے ہوائی اڈے جا رہے ہیں، لوگوں سے ملاقاتیں الگ۔۔۔اُنہیں کبھی کبھار ہی شام کو گھر آتے دیکھا۔عام طور پر رات کے11 یا12آتے تھے‘‘۔
’’کولمبو پلان کے تحت کراچی میں ایسٹرن فلم اسٹوڈیوز کا قیام عمل میں لایا گیا۔اُسے ہارون فیملی چلا رہی تھی۔تھوڑے عرصہ بعد اُس کاماڈرن فلم اسٹوڈیوز کے ساتھ مقابلہ ہونے لگا۔ اپنے زمانے میں اسے جدید ترین سازو سامان سے آراستہ کیا گیا۔کیمرے، ساؤنڈ اور لائٹ سب نیا تھا۔سعید ہارون اس کے چیرمین تھے۔کوئی تکبر نہیں تھا،یہی عادت اب ان کے دونوں بیٹوں میں ہے‘‘۔

’’ لاہور کے اسٹوڈیو مالکان جیسے آغا جی اے گُل، کہا کرتے تھے کہ میرا کوئی فلور خالی نہ رہے،فلمسازوں اور ہدایتکاروں سے کہا کرتے کہ آپ فلم شروع کریں آگے کا میں ذمہ دار ہوں۔۔۔بعد میں حساب ہوتا رہے گا‘‘۔خاکسار کے حساب سے لاہور اور کراچی کے اسٹوڈیو مالکان کی سوچ میں بنیادی فرق ہے۔لاہور والے ہر قیمت پر اسٹوڈیو میں کام چاہتے تھے جبکہ یہاں کراچی میں سوچ پر جمود طاری تھا، ہر چیز اسٹوڈیو میں نقد طے تھی۔فلمسازوں کی ترغیب کا کوئی چکر ہی نہیں تھا۔جب ہی تو رفتہ رفتہ فلمساز و ہدایتکار لاہور منتقل ہو گئے اور کراچی کے اسٹوڈیو مالکان اپنے نگار خانوں کو روتے رہے۔

’’ کیا نگار ویکلی کے پلیٹ فارم سے کبھی الیاس صاحب نے کوئی فلم بنائی؟‘‘
’’جی ہاں! نگار فلم ایکسچینج کے پلیٹ فارم سے Roniپروڈکشن کے تحت فلم ’’ احساس ‘‘ بنائی۔شمیم آرا کا سیکریٹری فیض، ہمارا پروڈکشن منیجر تھا۔ابراہیم جلیس کی کہانی، نذرالاسلام کی ہدایتکاری، سرور بارہ بنکوی کے گیت اور روبن گھوش کی موسیقی۔فلم تو مقبول ہوئی لیکن۔۔۔اس کا فائدہ کم از کم ہمیں نہیں ہو ا ۔ میرے والد صاحب کمرشل مائنڈ سیٹ کے نہیں تھے ‘‘۔

’’ تقسیم کاری میں فلم ’’ جوکر ‘‘، ’’ ایندھن ‘‘، ’’ سجن دشمن ‘‘، اور سنگیتا کی فلم ’’ اجالا‘‘تقسیم کیں ۔پروڈیو سرحسن شاہ نے فلم ’’ فرنگی ‘‘ کے تقسیم کاری حقوق آج تک کراچی میں نگار ویکلی کو دے رکھے ہیں‘‘۔

’’ میرے والد صاحب انڈسٹری والوں کے چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے بھی نبٹایا کرتے تھے۔ اداکارہ شمیم آرا کی فلم ’’ کنواری بیوہ ‘‘ کے فلاپ ہونے کے بعد سوسائٹی، ارشاد منزل پر شمیم آرا کو مکان لے کر دیا‘‘۔بعد میں اس مکان میں لطیف چارلی اور معصومہ لطیف وغیرہ ایک عرصہ رہے۔خاکسار بھیایک مرتبہ لطیف چارلی سے ملنے مذکورہ مکان پر گیا تھا۔

’’ میرے والد صاحب کو پیسہ کا لالچ نہیں تھا۔جو چاہا اللہ تعالیٰ نے عطاء کیا۔
38 سال اپنے پاس سے ایوارڈ کیے۔پرچے میں سرکاری اشتہار کی روایت بھی میں نے ڈالی۔پہلے پاکستان ریلوے کے اشتہارات لگا کرتے تھے۔یہ سلسلہ اب نہیں ہے۔نگار کے لئے پرنٹنگ پریس لگانے کو کہا لیکن والد صاحب نے منع کر دیا۔وہ اپنے وقت کے حساب سے صحیح انکار کر رہے تھے۔میں نے ایک نہیں بلکہ 2 مرتبہ پریس لگایا۔دونوں دفعہ لیبر کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔15سال پہلے سوچا تھا کہ پرچہ کو بھی زندہ رکھا جائیگا اور باہر کا بھی کام کر لیا کریں گے۔لیکن جلد ہی ایک ایسا موقع آیا کہ پریس یا اخبار کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑ ا ۔یوں پریس فروخت کر دیا۔میرے خیال میں والد صاحب کی کامیابی یوں ہے کہ وہ زیادہ تر اپنے کام خود ہی کیا کرتے تھے‘‘۔

’’ نگار ویکلی 1948سے جاری ہوا۔ ہفت روزہ ’’ اسکرین بمبے ‘‘ بہت ذوق سے پڑھا جاتا تھا۔میرے والد صاحب نے سوچا کہ پاکستان میں ایسا کام کیوں نہیں ہو سکتا؟ابنِ حسن نگار ایک آرٹسٹ تھے۔بچوں کے لئے ایک پرچہ اِن کے نام کی مناسبت سے ’’ نگار ‘‘ تین ماہ نکلاپھر انہوں نے ڈی سی آفس سے اس کا ڈیکلیریشن کینسل کروا لیا۔میرے والد صاحب کو یہ نام پسند تھا لہٰذا دوبارہ انہوں نے اسی نام کا ڈیکلیریشن لے لیا۔اور پہلا پہلا پرچہ ’’ اسکرین بمبے ‘‘ کو سامنے رکھ کر نکالا۔اپنا دفتر اور ٹھکانا ایک ایرانی ہوٹل بنا لیا۔وہیں کاپیاں جوڑی جاتیں اور لوگوں سے ملتے اور یوں پرچہ چل پڑا۔نگار میں ریاض شاہد، جالبؔ ، ابراہیم جلیس، طفیل احمد جمالی، حمایت علی شاعرؔ ، علی سفیان آفاقی ؔ ، بشیر نیاز،کلیمؔ عثمانی، یاسین گوریچہ، مسرورؔ انور، حمید کاشمیریؔ ، اے۔حمید، اسد جعفرے اور یونس ہمدمؔ لکھتے رہے۔ پھر ایک زمانہ آیا کہ کسی کی تحریر کا نگار میں لگنا اعزاز کی بات سمجھی جاتی‘‘۔
’’ والد صاحب کو بھارتی فلم فئیر ایوارڈ سے خیال آیاکہ ہمارے ہاں بھی ایسے ایوارڈ ہونا چاہئیں۔ پہلے نگارفلم ایوارڈ کی تقریب1957 میں ہوئی۔فلم ’’ وعدہ ‘‘ کو پہلا ایوارڈ ملا۔ہر کام کرنے کے لئے ملکی حالات اہم ہوا کرتے ہیں۔1965 کی جنگ ہوئی، مارشل لاء لگے لیکن نگار ایوارڈ تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی اور چیز اس قدر تسلسل سے کی گئی ہو۔یہ ایوارڈ بھی ’’ سیلف کمیٹڈڈ‘‘ تھے۔یہ الیاس رشیدی صاحب کے فیصلے تھے، تنِ تنہا، کہ جب تک میں ہوں یہ جاری رہے گا‘‘۔

’’ جب 10واں ایوارڈ ہوا تو جلیسؔ صاحب نے کہا اب ختم کرو۔دس ہو گئے۔انتقال سے تین سال قبل ان کی طبیعت خراب ہوئی۔چیسٹ انفیکشن تھا۔اس دوران کام کے فیصلوں کا مجھے فری ہینڈ ملتا تھا۔ اب کی دفعہ جو نگار ایوارڈ ہوئے اُس میں، میں نے نمائندگی کی۔اب کی دفعہ وہ لوگ جو دیر سے آیا کرتے تھے وہ بھی وقت پر آئے۔جِن جِن کو فون کیا اُن میں سے 99222لوگ آئے جب کہ الیاس رشیدی صاحب تقریب میں موجود نہیں تھے۔معین اختر نے مجھے بلوایا۔ایک ماحول بنایا الفاظ کا ایسا نقشہ کھینچا کہ مجھے بھی پتا لگا کہ میں الیاس رشیدی صاحب کا بیٹا ہوں۔والد صاحب کا انتقال 1997میں ہوا۔‘‘

خاکسار نے سوال کیا :’’ کب سے نگار ایوارڈ نہیں ہوا؟‘‘
اسلم الیاس صاحب نے جواب دیا:’’ کوشش تھی کہ یہ مسلسل ہوتا رہے اورکوئی فرق نہ آئے۔مجھے افسوس ہے کہ فرق آ گیا۔اندازہ تھا کہ ایک دفعہ فرق آ گیا تو پھر بڑھتا ہی جائے گا۔نگار ایوارڈ 2004 تک برقرار رہا۔مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب چینل والے نہیں چاہتے کہ یہ ایوارڈ ہوں۔ہمارا یہ ایوارڈ ہمیشہ غیر جانبدار رہا۔جبکہ اُن کے ایوارڈ ہیں ہی اِن ہاؤس ایوارڈ۔جیسے لکس ایوارڈ۔فلموں کے حالات اب قدرے بہتر ہیں ۔میں نے 2016میں مارکٹنگ اور اسپانسر شپ حاصل کرنے کی بہت سخت کوشش کی ۔حکومت کے دروازے بھی کھٹکٹھائے۔لگتا تو ایسے ہے ضیاء الحق صاحب کے جانے کے بعد بھی حکومت کے اشتہارات،پی آئی ڈی اورحکومتِ سندھ کے اشتہارات فلمی پرچوں کو ارادتاََ نہیں دیے جاتے ۔اگر حکومت چاہے تو نیشنل فلم ایوارڈ جو بند پڑا ہے ،ہم یہ بھی جاری کروا سکتے ہیں۔فلمی صنعت کو تقویت ملے گی۔نگار میرا نہیں فلم کی صنعت کا ایوارڈ ہے دنیائے فلم میں ایوارڈ جاری ہونے سے چند سالوں میں نگار ایوارڈ دوبارہ اپنی پہچان بنا لے گا۔ آرٹسٹ سمجھتے ہیں کہ نگار ایوارڈ ان کا اپنا ہے۔

الیاس رشیدی نے جو عظیم الشان کام نگار ایوارڈ کی صورت میں شروع کیا تھا اُس نے پاکستان میں مکمل غیر جانبداری اور قابلیت کی کڑی شرائط کا جو نظام وضع کیا تھا مجھے اُن کے صاحب زادے اسلم الیاس رشیدی کے پاس بات چیت کر کے بہت خوشی ہوئی کہ خواہ نگار ایوارڈ مزید کچھ عرصہ نہ ہوں کوئی بات نہیں۔۔۔ایوارڈ نہ ہونے کے باوجود اسلم صاحب کا یہ اعزاز کیا کم ہے کہ اُنہوں نے اپنے والد صاحب کے کڑے پیمانوں کو سختی کے ساتھ تھام رکھا ہے۔انہیں ایک سے زیادہ مرتبہ پیشکشیں ہوئیں کہ نگار کے نام کے ساتھ کسی اور کا بھی نام لگا دیا جائے تو تمام تر اسپانسر شپ دوسرا فریق کرے گالیکن۔۔۔ایوارڈ کس کو دیے جائیں گے یہ ’’ اُن ‘‘ کا مسئلہ ہو گا۔گھر آئی لکشمی کسے پیاری نہیں ہوتی، یہاں اسلم الیاس کی تربیت کام آئی اُنہوں نے دونوں پیشکشیں ٹھکرا دیں۔ واقعی دیر آئد درست آئد۔نگار ایوارڈ کا ایک نام ہے۔ اسلم صاحب اتنے برے حالات میں بھی مایوس نہیں۔اللہ ان کی ہمت اور ارادے مضبوط رکھے۔کیا یہ کم کمال نہیں کہ 1948 سے لے آج تک باقاعدگی سے نگار ویکلی شائع ہو رہا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 6 مارچ، 2018 کے نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔















 

Comments

Popular posts from this blog