دنیائے گائیکی کا ایک بڑا نام، احمد رشدی
احمد رُشدی ( 1938سے 11 اپریل 1983)
تحریر شاہد لطیف
80 کی دہائی میں، پاکستان ٹیلیوژن کراچی مرکزکے شعبہ پروگرام میں خاکسار کو ملک کی نامور شخصیات کوقریب سے دیکھنے ، اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ۔ ان کے ساتھ کام کرنے کا تجر بہ اور ان کی فنکارانہ زندگی کی باتیں شاید پڑھنے والوں کو دلچسپ لگیں ۔جیسے احمد رشدی جو پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ فلمی دنیا میں ان کی آمد ریڈیو پاکستان کراچی مرکز کے ذریعہ ہوئی۔ جہاں 50 کی دہائی کے اوائل میں ریڈیو سے ان کی آواز میں بچوں کے پروگرام کا یہ گیت نشر ہوا :’’ بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی۔۔۔‘‘ یہ آج بھی دلچسپی سے سنا جاتا ہے ۔احمد رشدی کی اس کامیابی کا سہرا مہدی ظہیر صاحب کے سر ہے جو اس گیت کے شاعر اور موسیقار تھے ۔ کُچھ ہی عرصہ بعد احمدرُشدی ملکی فلمی صنعت کے سنہری دور کا ایسا ستارہ ثابت ہوا جس کی تابندگی کم و بیش30 سال جاری رہی۔ رُشدی صاحب کے مشہور فلمی گیتوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اداکار وحید مراد کی فلموں کی اوپر تلے کامیابی کا ایک اہم سبب احمدرُرشدی کے پلے بیک گانے بھی تھے۔
80 کی دہائی، صحت کے حوالے سے ان کے موافق نہ رہی۔ دورہ قلب کی وجہ سے ڈاکٹر وں نے ان کو آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ اُس وقت وہ کراچی میں قیام پذیر تھے۔ سوچا اُن سے پروگرام ’’ آواز و انداز‘‘ کروا یا جائے۔ اُسی وقت میں اپنے اول اساتذہ، ریڈیو اور فلموں کی مشہور موسیقار جوڑی، لال محمد اور بلند اقبال ( لال محمد اقبال) کے پاس گیا کیوں کہ احمد رشدی کے وہ گیت جنہوں نے انہیں شہرت دلائی ، اُن کی طرزیں اِنہوں نے ہی بنائی تھیں ۔۔۔۔فلم ’’ نصیب اپنا اپنا‘‘ کا مشہور گیت ’ اے ابرِ کرم آج اتنا برس ۔۔۔‘، فلم ’ ’نادان‘ ‘کا گیت ’ بھولا بھولا میرا نام ۔۔۔ ‘ ، فلم ’’ لاڈلا‘‘ کا یہ نغمہ ’ دنیا کے غموں کو ٹھکرا دو۔۔۔‘ ، فلم ’’ جین بانڈ آپریشن008 کراچی‘‘ کا لازوال گیت ’اک اڑن کھٹولا آئے گا اک لال پری کو لائے گا ۔۔۔ ‘ ۔ اِس لئے میں نے اُن سے درخواست کی کہ رشدی صاحب کو 4 گیت ریکارڈ کروانے کے لئے منوائیں۔ موسیقارلا ل محمد اقبال کے ہمراہ احمد بھائی سے ملاقات سودمند رہی ۔راقم کو اس وقت بہت حیرت ہوئی جب احمد بھائی نے کہا کہ 3 انتروں کے ایک گیت میں وہ اپنے عروج و زوال کو لکھوانا چاہتے ہیں۔۔۔ یہ خود ان کی اپنی کہانی تھی کہ کس طرح فٹ پاتھ کے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا کہ شہرت اور دولت کی بلندیوں کو چھو لے۔پھر کس طرح سے وہ شخص ( احمد رشدی) اللہ کا ناشکرا بنا، وہ لوگ جن کے پیسے سے فلموں کا کاروبار چلتا تھا، ان ہی سے سیدھے مونہہ بات نہیں کرتا تھا۔ پھر کس طرح اوپروالے نے جھٹکا دیا۔اور اب سارا دن ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار رہتا ہے کہ شاید۔۔۔بہت عمدہ گیت لکھا گیا۔
طے یہ پایا کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی میں یہ گیت صدا بندکئے جائیں گے ۔ جہاں لال محمداقبال ، شریف صاحب اور سلیم قریشی ریکارڈنگ انجینیر کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو گا۔ ایک زمانہ تھا جب احمد بھائی ایک دن میں کئی گیت ریکارڈ کروا لیا کرتے تھے اوراب 4 گانے 25 روز میں ’’ ٹریک ریکارڈ‘‘ ہوئے۔دِن تو بہت لگے لیکن اس آڈیو ریکارڈنگ کا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ بڑے بڑے موسیقی کے پنڈت بھی حیران رہ گئے کہ یہ اُسی احمد رشدی کی آواز ہے۔یہ کمال احمد بھائی کی سخت محنت، لال محمداقبال کا حوصلہ اور شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کے ہُنر مندوں کی200 فی صد پیشہ ورانہ مہارت کی مرہونِ منت ہے۔ لال محمد اور بلنداقبال صاحبان نے بھی احمد بھائی سے اپنی دیرینہ دوستی کا حق ادا کر دیا۔پھرایک روز لال محمد صاحب آڈیو اسپول پر گیت منتقل کروا کے لے آئے۔پی ٹی وی کراچی مرکز میں بلا مبالغہ جس کسی نے بھی سنا، بس سنتاہی رہ گیا۔پروڈیوسر سلطانہ صدیقی اور پروگرام منیجر شہزاد خلیل بھی سن کر بہت خوش ہوئے۔
اب اگلا مرحلہ ویڈیو ٹیپ ریکارڈنگ کا تھا۔احمدبھائی سے مشاورت کر کے ریکارڈنگ کی تاریخ 10 اپریل 1983 طے ہوئی۔ یہ کام آسان تھا لہٰذا امید تھی کہ چند گھنٹوں میں مکمل ہو جائے گا۔احمد بھائی وقتِ مقررہ پر آ گئے اور آغاز اچھا ہوا۔بچوں کے گیت پر موصوف نے بہت عمدہ Lip sinking کی ۔اگلے گیت سے پہلے ایک وقفہ تھا۔ا سی دوران قیصر مسعود جعفری آ گئے جو اخبارات میں ٹی وی اسٹیشن کی خبریں دیا کرتے تھے ۔ شہزاد خلیل صاحب اپنے دفتر سے یہ ریکارڈنگ دیکھ رہے تھے۔انہوں نے مجھے فون کیا کہ احمد رشدی کو و قفہ کے دوران کہیں کہ وہ ان کے آفس میں چائے پینے آ ئیں۔میں نے مودبانہ کہا کہ احمد بھائی آجکل بے حد حساس اور زودرنج ہیں کہیں وہ برا نہ مان جائیں ،ساتھ ہی درخواست کی کہ وہی اسٹوڈیو میں آ جائیں لیکن وہاں سے احکامات برقرار رہے۔ میں نے احمد بھائی کے سامنے پی ایم کے دفتر میں چائے پینے کی درخواست رکھی۔بس اس کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔۔احمد رشدی صاحب رنجیدہ ہو کر بولے ’’ آج یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ حکم دیا جا رہا ہے۔۔۔ چائے پی لو!!‘‘۔راقم جلدی سے ان کے پاس بیٹھ گیا۔پیار اور احترام سے ان کے کاندھے دبائے اور تسلی دی۔اسی دوران جعفری صاحب کے ساتھ دیگر ٹی وی کارکنان بھی ر شدی صاحب کے قریب بیٹھ کر چائے پینے لگے۔پھراچانک احمد بھائی اٹھ کھڑے ہوئے اور راقم کو مخاطب کر کے کہنے لگے: ’’ اپنے پی ایم سے کہنا کہ میں نے جی توڑ کر یہ ریکارڈنگ کروائی تھی۔ٹی وی سے ملنے والی رقم سے زیادہ تو میں نے آڈیو ریکارڈنگ میں آنے جانے کا ٹیکسی کا کرایہ دیا ہے۔اس ذ لت کی زندگی سے تو مر جانا بہتر ہے ‘‘۔ اتنا کہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گئے۔راقم، صحافی قیصر مسعود جعفری جو آجکل کراچی پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے رکن ہیں ، اور دیگر افراد ان کے پیچھے بھاگے مگر احمد بھائی کو نہ رکنا تھا نہ رکے ۔
اگلی صبح اخبارات سے دل کے دورہ سے ان کے انتقال کی خبریں پڑھیں۔ 11 اپریل 1983کو احمد رشدی صاحب انتقال کرگئے۔اس تمام واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اُن کے زندگی کے آخری گیت سرد خانے میں چلے گئے یہاں تک کہ ایک گیت جس کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی ہو چکی تھی وہ بھی پاکستان ٹیلی وژن سے نشر نہیں ہو سکا !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 27 مارچ کے نوائے وقت اسلام آباد اور لاہور سے شائع ہوئی۔
Comments