بھارتی اور پاکستانی فلمی صنعت کے نامو ر گیت نگار تنویر نقوی





بھارتی اور پاکستانی فلمی صنعت کے نامو ر گیت نگار تنویر نقوی

تحریر شاہد لطیف

سید خورشید علی المعروف تنویر ؔ نقوی ( 6 فروری 1919 سے یکم نومبر 1972):

تنویر ؔ نقوی برِ صغیر پاک و ہند کے ایک نامور گیت نگار ہیں۔19سال کی عمرہی میں اُنہوں نے فلم ’’ شاعر‘‘ ( 1938) کے لئے گیت لکھے۔اِن کے فلمی گیت پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے ہی عوام میں بے حد مقبول ہو گئے تھے۔ نومبر 1946میں بننے والی ہدایت کار محبوب کی فلم ’’ انمول گھڑی‘‘نے اُن کی شہرت میں اضافہ کیا ۔اِس فلم کے گیت: ’’ آواز دے کہاں ہے۔۔۔‘‘، ’’ آ جا میری برباد محبت کے سہارے۔۔۔‘‘، ’’جواں ہے محبت حسین ہے زمانہ۔۔۔‘‘ بے انتہا مقبول ہوئے ۔نوشاد علی مذکورہ فلم کے موسیقار تھے۔ اِس کے بعد 23 مئی 1947 کو نمائش کے لئے پیش ہونے والی ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی کی فلم ’’ جگنو‘‘ کے گیت مقبول ہوئے ۔مثلاََ فیروز نظامی کی موسیقی میں نورجہاں اور محمد رفیع کی آواز میں : ’ ’ یہاں بدلا وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے۔۔۔‘‘ ۔ آزادی کے بعد یہ پاکستان آ گئے اور یہاں اُردو اور پنجابی فلموں کے گیت تخلیق کئے۔ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ’’ تیری یاد‘‘ کی گیت نگار ی میں قتیلؔ شفائی کے ساتھ اِن کا بھی نام آتا ہے ۔افسوس ہے کہ یہ فلم کہیں بھی دستیاب نہیں نہ اِس کے گراموفون ریکارڈ ہی کہ یہ علم ہو سکے کہ کون سے گیت کِس نے لکھے۔


بھارتی ہدایتکار کے۔ آصف نے انہیں اپنی نئی فلم ’’ مغلِ اعظم‘‘ کے گیت لکھنے کے لئے بھارت آنے کی دعوت دی۔اُس وقت پاک و ہند کے درمیان سفر مشکل نہیں تھا۔تنویرؔ نقوی نے دعوت قبول کی اور بھارت جانے کی تیاری شروع کر دی۔ مشہور فلمی شخصیت اور تنویر نقوی کے دوست ’سکے دار‘ اپنی کتاب ’’ دل کا دیا جلایا ‘‘ کے صفحہ نمبر 265 میں لکھتے ہیں ’’ پاکستان میں شاہ صاحب کو اپنی زیرِ تکمیل فلموں کے گیت مکمل کرنے میں زیادہ وقت لگ جانے کی وجہ سے کے۔آصف نے دوعدد گانے شکیل بدایونی سے لکھوا ئے ۔۔۔ ریکارڈ ہو چکے تھے۔ہمارے جانے پر کے آصف نے 2گیتوں کی situation پر شاہ جی کو گیت لکھنے کا کہہ دیا۔گیت لکھنے کے دوران شاہ جی کو علم ہوا کہ ’’ مغلِ اعظم ‘‘ کی تو ریکارڈنگ شروع ہو چکی ہے۔یہ سُن کر شاہ جی نے اپنے لکھے ہوئے گیت انہیں سنا تو دیے لیکن مگر ریکارڈ کرنے کی اجازت نہ دی۔۔۔اُن کے اصرار پر بھی یہ گیت اُن کو  نہ دیے‘‘۔


اس واقعہ کے بارے میں علی سفیان آفاقی صاحب نے خاکسار کو تفصیل سے بتایا کہ اس کا علم ہوتے ہی تنویرؔ نقوی جلال میں آ گئے اور انہوں نے کے۔آصف اور موسیقار نوشاد علی کے لئے کبھی بھی کام کرنے سے انکار کر دیا نیز انہوں نے کہا کہ اب وہ بھارت میں ہی رہ کر انہیں بتائیں گے کہ وہ کیا کیا کر سکتے ہیں۔پھر ایسا ہی ہوا اور تنویرؔ نقوی بھارتی فلمی صنعت پر چھا گئے۔ 


یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ فلم ’’ مغلِ اعظم‘‘ پر ،کے آصف 1944سے کام کر رہے تھے ۔ جب 50 کی دہائی میں صدا بندی اور عکس بندی کا کام شروع ہوا توفنانسر پیچھے ہٹ گیا۔پھر غیر یقینی کی وجہ سے تقریباََ تمام کاسٹ بدلنا پڑی۔یہ وجہ تھی کہ کہیں جا کر 1960میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔


میری تحقیق کے مطابق تنویرؔ نقوی پا ک و ہند کے وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے بھارت جا کر ایک دفعہ پھر آزادی سے پہلی والی شہرت، توقیر اور پیسہ کمایا ۔ یہی زمانہ تھا جب ان کا لکھا ہوافلم ’’ شیریں فرہاد ‘‘ (1956 )کا گیت: ؂
گزرا ہوا زمانہ
آتا نہیں دوبارہ
حافظ خدا تمہارا
لتا منگیشکر کی آواز اور ایس۔مہندر کی موسیقی میں پاک و ہند میں بے حدمقبول  ہوا۔  اسی فلم میں طلعت محمود کی آواز میں اِن کا لکھا گیت:
؂      دو   ہی لفظوں کا تھا فسانہ جو سنا کر خاموش ہو بیٹھے
      ابتدا یہ کہ تم کو پایا تھا انتہا یہ کہ خود کو کھو بیٹھے

نورجہاں کی وجہ سے تنویر نقوی اور اِن کی بیگم عیدن کے درمیان جو مسائل پیدا ہوئے یہ شعر ان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت میڈم نورجہاں کی بڑی بہن عیدن تنویر ؔ نقوی صاحب کے نکاح میں تھیں ۔ بمبئی میں اداکارہ نرگس نے اپنے ایک گھر کواِن کے لئے مختص کر دیا۔کچھ ہی دنوں میں شاہ جی نے اپنی بیگم عیدن کو بھی بلوا لیا ۔فلمی دنیا کی مشہور شخصیت علی سفیان آفاقی نے خاکسار کو بتایا کہ اللہ نے تنویر نقوی کو چھپر پھاڑ کر دینا شروع کر دیا۔۔۔لیکن۔۔۔گھریلو اورذاتی وجوہ کی بنا پر یہ دوبارہ اپنے بنے بنائے مقام کو چھوڑ کر پاکستان واپس آ گئے حالاں کہ اُس وقت بھارت میں انہیں ایک گیت کے جتنے پیسے ملتے تھے ، پاکستان آ کر اتنے پیسے انہیں 6ماہ میں کہیں جا کر ملتے تھے۔


اسی بات کوسکے دار اپنی کتاب میںیوں لکھتے ہیں : ’’ ۔۔۔اندازِ بیان کے نرالے پن اور محنتِ شاقہ پر ایمان کی قوت نے تیسری مرتبہ شاہ جی کو اُسی ممتاز مقام پر لا کھڑا کیاجس پر وہ مشترکہ ہندوستان اور پھر پاکستان میں فائز رہ چکے تھے۔ادھر نورجہاں نے مستقل پاکستان رہنے کا فیصلہ کر لیا۔بھابھی عیدن سے نورجہاں کواتنا پیار تھا کہ ان کے بغیر رہنا مشکل تھا۔ بھابھی عیدن بھی ان کے قریب رہنے کو ہر چیز پر ترجیح دیا کرتی تھیں۔۔۔جبکہ شاہ جی ا س دفعہ پاکستان آنے کے لئے دل سے رضا مند نہ تھے اور نہ ہی بمبئی فلمی صنعت کا کوئی فرد یہ چاہتا تھا۔اَس لئے اُن لوگوں نے ہر طرح سے کوشش کی مگر بھابھی عیدن کی محبت اور نورجہاں کے اندازِ گفتگو کا جادو شاہ جی کو یہاں کھینچ لایا۔پاکستان آ کر شاہ جی نے نئے سرے سے گیت نگاری کا آغاز کیا۔گیت نگاری کا یہ چوتھا اور آخری دور فلمی نغمات کا سنہرا دور تھا۔ شاہ جی کے اِس عہد کی تکمیل کا دور جِس کے لئے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ گیت نگاری کی طرف مبذول کی تھی اور کہا تھا کہ فلم میں اُردو ادب کی ترویج کا سب سے موثر ذریعہ گیت ہو سکتے ہیں‘‘۔اور پھرہوا بھی یہی۔اُن کی دن رات کی محنت نے کہی ہوئی بات کو سچ ثابت کر دکھایا اور فلم ا ور ادب کی تفریق ختم ہو گئی۔علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری، جاں نثار اختر، خُمار بارہ بنکوی،بہزاد لکھنوی، اختر الا یمان، نخشب چارچوی ، فیاض ہاشمی، جوش ملیح آبادی (صرف فلم ’’آگ کا دریا‘‘ 1966) قتیل شفائی، منیر نیازی، سیف الدین سیف، حبیب جالب، اور فیض احمد فیض جیسے نامور شعراء کی آمد سے گیت کی فلمی اور ادبی تفریق یکسر ختم ہو گئی اور مکالمہ نگاری میں بھی ادب کا لحاظ رکھا جانے لگا۔ 


سکے دار کی کتاب ’’ دل کا دیا جلایا‘‘ میں مذکور ہے کہ بھارت کی 1954میں بننے والی فلم ’’ براتی‘‘ میں موسیقار روشن کی موسیقی میں گیت’’ کس نام سے پکاروں ۔۔۔‘‘ کو تنویر نقوی نے دوبارہ پاکستانی فلم ’’ غرناطہ‘‘ (1971) میں اے ۔ حمید کی موسیقی میں نورجہاں کے لئے لکھا ۔اِسی طرح 1955میں بھارت میں بننے والی فلم ’’ رُخسانہ‘‘ میں آشا بھونسلے کی آواز میں سجاد حسین کی موسیقی میں یہ گیت ’’ تمہیں ہم یاد کرتے ہیں۔۔۔‘‘بھی شاہ صاحب نے لکھا۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کے آصف کے بلانے پرجب بھارت گئے تو وہاں تین سے چار سال قیام کیا ۔

دوبارہ پاکستان آمد پر بھی اُن کی پذیرائی ہوئی ۔ 1958 میں بننے والی انور کمال پاشاصاحب کی فلم ’’ انار کلی‘‘ سے انہیں بامِ عروج ملا۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں نورجہاں کی آواز میں تنویر نقوی کا یہ گیت : ’’ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔۔۔‘‘بے انتہا مقبول ہوا ۔اگلے ہی سال نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ کوئل‘‘کے گیتوں نے تو دھومیں مچا دیں۔اس کے موسیقار خواجہ خو رشید انور تھے۔ مذکورہ فلم کے تمام ہی گیت مقبول ہوئے جیسے: ’’دل کا دیا جلایامیں نے دل کا دل کا دیا جلایا۔۔۔‘‘، ’’ او بے وفا میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا۔۔۔‘‘، ’’رِم جھِم رِم جھِم پڑے پھوار۔۔۔‘‘، ’’ساگر روئے لہریں شور مچائیں۔۔۔‘‘، ’’تیرے بنا سونی سونی لاگے رے چاندنی رات۔۔۔‘‘، ’’مہکی فضائیں گاتی ہوائیں۔۔۔‘‘۔
تنویر ؔ نقوی صاحب نے حضرت شیخ سعدیؒ کی مشورِ عالم نعت:
بلغ العلی بکمالہ
حسنت جمیع خصالہ
کی تضمین کر کے اور اس پر اپنے مصرعے لگا کر خواجہ خورشید انور کی طرز پر زبیدہ خانم اور ساتھیوں کی آواز میں1960 میں بننے والی ہدایت کار لقمان کی فلم ’’ ایاز‘‘ میں لا زوال بنا دیا: ؂
جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی
یہ جہاں تھا خواب و خیال ہی
صلو علیہ و آ لہ


مشہور اہلِ قلم جناب ناصر زیدی کا کہنا ہے : ’’ تنویرؔ نقوی کی شاعری صرف فلمی شاعری نہ تھی بلکہ تخلیقی شاعری تھی۔اگر اسے فلم سے الگ کر کے پڑھا اورچھاپا جائے توادبی رنگ میں بھر پور رنگی نظر آتی ہے ‘‘۔


پاکستان ٹیلی وژن میں خاکسار کے ساتھی اور اہلِ قلم افتخار مجاز کے بڑے بھائی، مشہور صاحبِ قلم اور محقق جناب اعزاز احمد آزرؔ اپنی کتاب’’ کلیاتِ تنویر نقوی‘‘ کے صفحہ 21 پر لکھتے ہیں : ’’ اصولی طور پر تنویر نقوی صاحب کی گیت نگاری ڈاکٹریٹ کے کسی تحقیقی مقالے کی مستحق ہے اور یہ کام، آنے والے کسی وقت کا کوئی محقق یا ریسرچ اسکالر ضرور کرے گا۔۔۔دیکھا جائے تو تنویر نقوی کی گیت نگاری بر صغیر کے بے شمار گیت نگاروں کی موجودگی کے باوجود الگ اور منفرد دکھائی دیتی ہے،ان کا اپنا ایک اسلوب ، ایک انگ، اپنی الگ خوبصورت دلکش اور اثر آفرین ڈکشن ہے اور ان کے گیتوں کے اندر لہریں لیتا اور موجیں مارتا ردھم اور جادو اثر غنایت تنویر صاحب کے حوالے سے ہی خاص ہے ‘‘۔


تنویر نقوی نے پنجابی فلموں کے لئے بھی مقبول گیت لکھے۔اِس سلسلے میں ایک بات لکھتا چلوں ۔ 1972 میں بھارت میں فلم ’’ موم کی گڑیا‘‘ بنی، جس کے گیت نگار آنند بخشی اور موسیقار لکشمی کانت پیارے لال تھے۔آنند بخشی کو گلوکاری کا شوق تھا لیکن گیت نگار بن گئے۔بہرحال مذکورہ فلم میں موصوف نے لتا منگیشکر کے ساتھ اپنا ہی لکھا یہ دوگانا ریکارڈ کیا:
؂      باغوں میں بہار آئی ہونٹوں پہ پکار آئی آ جا میری رانی
       رُت بے قرار آئی ڈولی میں سوار آئی آجا میرے راجا
اِس گیت کے پورے کے پورے انترے اور سنچائی، طرز کے لحاظ سے پاکستانی پنجابی فلم ’’ اَت خدا دا وَیر‘‘ کے گیت:’’ جدوں ہولی جئی لینا میرا ناں میں تھاں مر جانیاں۔۔۔ ‘‘کا ہو بہو چربہ ہے۔ مذکورہ گیت تنویر نقوی نے لکھا، موسیقی بخشی وزیر کی اور آواز نورجہاں کی تھی۔یہ فلم 9 اکتوبر 1970 کو نمائش کے لئے پیش ہوئی یعنی ’’موم کی گڑیا‘‘ سے دو سال پہلے۔  


تنویر نقوی کے پاکستانی پنجابی فلموں گیتوں کی تعریف تو اُن شعراء نے بھی کی جو کسی دوسرے کی تعریف میں ہمیشہ بخل سے کام لیتے تھے۔ان میں باکمال نغمہ نگار احمد راہی بھی شامل تھے۔جب فلم ’’ اَت خدا دا وَیر‘‘ کے لئے تنویر نقوی نے یہ گیت لکھا : ’’ جدوں ہولی جئی لینا میرا ناں میں تھاں مر جانیاں۔۔۔ ‘‘تو احمد راہی نے تنویر نقوی پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا دیے۔تنویر نقوی اس لحاظ سے خوش بخت تھے کہ ان کے بہت زیادہ گیت نورجہان نے گائے۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے بہنوئی تھے۔


ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے محاذِجنگ پر جا کر یہ مشہور گیت لکھا جس کے موسیقار دو سگے بھائی، سلیم اور اقبال المعروف سلیم اقبال تھے اور یہ گیت ریڈیو پاکستان لاہور میں نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا : ’’ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔۔۔‘‘ 


تنویر نقوی کے چند مشہور فلمی گیتوں کاذکر کر نا بھی ضروری ہے:’’ زندگی ہے یا کسی کا انتظار‘‘ فلم سلمیٰ (1960) موسیقی رشیدعطرے،آواز نورجہاں ،’’ جانِ بہاراں رشکِ چمن‘‘ فلم عذرا (1962) موسیقی ماسٹر عنایت حسین، آواز سلیم رضا،’’ زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نا‘‘ فلم ہمسفر(1960) موسیقی مصلح الدین، آواز سلہم رضا اور ناہید نیازی،’’ اے دل تیری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں ہے‘‘ فلم تاج محل ( 1968) موسیقی نثار بزمی، آواز مہدی حسن،’’اج خوشیاں دے نال مینوں چڑھ گئے نے حال‘‘ فلم ماں پتر، موسیقی جی اے چشتی، آواز نورجہاں،’’ چل چلئے دنیا دی اوس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے‘‘ فلم دنیا پیسے دی ( 1971 ) موسیقی ماسٹر عبداللہ، آوازیں مہدی حسن اور نورجہاں، ’’ تم جُگ جُگ جیو مہاراج رے ہم تیری نگریا میں آئے‘‘ فلم موسیقار (1961) موسیقی رشید عطرے، آواز نورجہاں،’’ بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا‘‘ فلم لاکھوں میں ایک (1967) موسیقی نثار بزمی، آواز نورجہاں،’’ چلی رے چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے‘‘فلم جھومر (1959) موسیقی خواجہ خورشید انور، آواز ناہید نیازی،’’کبھی تم بھی ہم سے تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یادہو‘‘ فلم گھونگھٹ (1962)موسیقی خواجہ خورشید انور، آواز نورجہاں،’’دل کی دھڑکن تیری آواز ہوئی جاتی ہے‘‘ فلم فرشتہ (1961) موسیقی رشید عطرے،آواز نورجہاں۔


تنویر نقوی کو 3 مرتبہ بہتریں گیت نگار کا ’’نگار ایوارڈ ‘‘ملا:پہلا فلم ’’ کوئل ‘‘ ( 1959) میں گیت: ’’ دل کا دیا جلایا‘‘ دوسرا فلم ’’ شام ڈھلے‘‘ (1960) گیت:’’ مُرلی بجائے جا گیت سنائے جا‘‘ اور تیسرا فلم ’’ دوستی‘‘ ( 1971) گیت: ’’ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ ۔
تنویر نقوی آج بھی ہمارے درمیان اپنے گیتوں کی صورت میں موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ اِن کی مغفرت کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اختتام
یہ تحریر  27 مارچ، 2018، بروز منگل،   روزنامہ نوائے وقت کراچی کے  صفحہ فن  و ثقافت  میں شائع ہوئی۔ 










 

Comments

Popular posts from this blog