ابھی نہیں تو کبھی نہیں؟ ۔۔۔





ابھی نہیں تو کبھی نہیں؟ ۔۔۔

تحریر شاہد لطیف

فلائی اوورز کے نیچے چارجڈ پارکنگ ختم نہ کرائی جا سکی ۔یہ ہوتی ہے رحمت کے نیچے زحمت ۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی، فلائی اوورز کے نیچے غیر قانونی چارجڈ پارکنگ اور قبضہ کو ختم نہیں کروا سکی۔عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے باوجود حکام پراسرار طور پر خاموش ہیں۔ذرائع کے مطابق محکمہ انسدادِ تجاوزات کے افسران نے بھی مذکورہ قائم کردہ پارکنگ سے ماہانہ رقم کی وصولی کے معاملات طے کر لئے۔ عدالتِ عالیہ کے احکامات کو ہوا میں اُڑا دیا گیا ہے۔ یہ عدالتِ عالیہ کا مذاق اور میئر کراچی کی رِٹ پر سوالیہ نشان ہے ۔تفصیلات کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی چارجڈ پارکنگ کے افسران کی مبینہ سرپرستی کے باعث پُل اور فلائی اوورز کے نیچے قائم غیر قانونی چارجڈ پارکنگ کا تاحال خاتمہ نہ ہو سکا۔ذرائع کے مطابق ضلع وسطی میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ نے لیاقت آباد 10نمبر، ڈاک خانہ، کریم آباد سمیت دیگر پُلوں کے نیچے قائم شدہ قبضوں کو خالی کرانے کے بجائے محکمہ انسدادِ تجاوزات کے افسران سے بھی مُک مُکا کرا دیا۔اِس طرح کسی غیر قانونی قبضے اور چارجڈ پارکنگ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا سکی ۔متعلقہ افسران کی خاموشی بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ شاید تیل اور تیل کی دھار دیکھی جا رہی ہے۔ مئیر کراچی کی رٹ بھی ہوا میں اچھال دی گئی ۔واضح ہو کہ لیاقت آباد 10نمبراور کریم آباد فلائی اوور کے نیچے افسران کی سرپرستی میں غیر قانونی چارجڈ پارکنگ موجود ہے جب کہ ڈاک خانہ فلائی اوور کے نیچے ’ فیملی روم ‘ قائم ہے۔

سپریم کورٹ نے کراچی میں کھیل کے میدانوں اور پارکوں پر چائنا کٹنگ کر کے فروخت کیے گئے 35ہزار پلاٹوں کے خلاف کاروائی کرنے کا جو حکم دیا تھا اُس کی مہلت ختم ہونے میں صرف 5 روز باقی رہ گئے ہیں۔ادارہ ترقیات کراچی، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ضلعی بلدیاتی اداروں نے اب تک شہر بھر سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کاروائی شروع ہی نہیں کی ۔ تفصیلات کے مطابق ، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی جانب سے ماسٹر پلان کی رپورٹ کی روشنی میں حکم صادر کیا گیا تھا کہ شہر بھر سے 2 ماہ میں غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرا کر سرکاری زمین کو واگزار کروایا جائے۔عدالتِ عالیہ نے حکم دیا تھا کہ 2ماہ کے اندر کھیلوں کے میدان، پارکوں، رفاہی پلاٹوں سے غیر قانونی تعمیرات مسمار کرا دی جائیں اور متبادل پلاٹوں کے نام بڑے پیمانے پر زمینوں کی خورد بُرد ختم کر کے 30جنوری کو عدالت میں رپورٹ جمع کرائے جس پر کے ڈی اے کی جانب سے ابتدائی طور پر مختلف علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بھر پور کاروائی کی گئی جس میں 100سے زیادہ شادی ہالوں اورہزاروں کی تعداد میں پلاٹوں کوبرابر کر دیا۔ میئر کراچی وسیم اختر صاحب نے چائنا کٹنگ اور غیر قانونی شادی گھروں کے خلاف کاروائی کے لئے بشیر صدیقی کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹاسک فورس بنائی جس نے صرف بلدیہ ٹاؤن میں متعدد شادی ہالوں کو مسمار کرنے کی ایک بڑی کاروائی کی ۔اِس کے بعد؟۔۔۔اس کے بعد۔۔۔وہی ہوا جو ہمیشہ ہی یہاں ہوا کرتا ہے یعنی کچھ بھی نہیں ۔۔۔


کراچی میں 6 ضلعی بلدیاتی ادارے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ ان کے ماتحت زمین نہیں بلکہ صرف کھیلوں کے میدان اور پارک ہیں جہاں پر قبضہ گروپوں کی بے دخلی تو دور کی بات ہے اُنہیں ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ میں ایک مخصوص لابی سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن لینے کے حق میں نہیں۔اس کا تو یہ صاف مطلب ہے کہ یہ ٹاسک فورس صرف نمائشی تھی جو ’’ ٹریلر ‘‘ دکھا کر رُک گئی حالاں کہ ابھی اصل فلم چلنا باقی ہے۔تجاوزات ختم کروانے کی عدالتی مدت سر پر کھڑی ہے اور مقررہ تاریخ پر کام مکمل ہونے کے بظاہر تو کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ۔اُدھر کے ڈی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اُس نے1500 پلاٹوں پر تجاوزات کے خلاف کاروائی کی جن میں 239 مکانات، 503 اسٹرکچر، 188 احاطے، 344 دُکانیں، 163شادی ہال،8کمرشل پلاٹ، 6 گودام، 18بلاکوں کے تھلے،3فارم ہاؤس، ایک بھینسوں کا پاڑا اور 4 اسپتا ل و ڈسپنسری شامل ہیں۔جب کہ کے ایم سی کے ترجمان کے مطابق اُس کے محکمہ انسدادِ تجا وزات نے رفاہی پلاٹوں پر قائم تجاوزات کے خلاف آپریشن میں بلدیہ ٹاؤن میں 50شادی لان، کورنگی میں 4 ، آرام باغ میں 19 مکانات اور 7دُکانیں، سفاری پارک میں ڈھائی ایکڑ زمین اور بھینس کالونی میں دو مقامات پر 22اور 21 ایکڑ زمین خالی کرائی گئی۔


محکمہ بلدیات تا حال اپنے میونسپل کمشنر کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں کر سکاجس کی وجہ سے ڈاکٹر اصغر عباس میونسپل کمشنر کی اہلیت نہ رکھنے کے باوجود گزشتہ کئی ماہ سیس اِس عہدے پر فائز ہیں۔اس وقت ان کے پاس مشیرِ مالیات اور ڈائریکٹر فوڈ کا عہدہ بھی موجود ہے۔یہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے کہ وہ بیک وقت اپنے پاس تین عہدے رکھے ۔ اب میونسپل کمشنر کے عہدے کی وجہ سے وہ باقی ذ مہ داریوں سے انصاف نہیں کر پا رہے۔ذرائع کے مطابق کے ایم سی کے مختلف شعبوں سے ریکوری ہر ماہ کم سے کم ہوتی چلی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کے ایم سی کے مالی بحران میں اضافہ ہو رہا ہے۔ڈاکٹر موصوف اپنے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ کی تعیناتی کے باوجود محکمہ فوڈ کے بائی لاز بنانے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے جس کی وجہ سے فوڈ لیبارٹری فعال نہیں ہو رہی ہے۔ فی الوقت یہ محض بازار میں فروخت ہونے والے پانی کے نمونوں کی جانچ پڑتال کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی۔پورے شہر میں بھارت سے آنے والے پان، اور مضرِ صحت گٹکوں سے لے کر بچوں کے کھانے پینے کی چیزیں بلا روک ٹوک فروخت ہو رہی ہیں۔
جب دل خون کے آنسو رو رہا ہوتو پھر کے ایم سی کا نوحہ ہی لکھا جا سکتا ہے۔۔۔کوئی تو خدا کا خوف کرے ! اب تو خود منتخب بلدیاتی نمائندے بھی اپنے علاقوں کی زبوں حالی اور مسائل کے انبار کی وجہ سے احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق اسٹیل ٹاؤن یونین کونسل کے منتخب کونسلر خالد آفریدی کی راہنمائی میں بلدیاتی نمائندوں اور نشتر آباد کے مکینوں نے رزاق آباد میں ڈسٹرکٹ کونسل کے سب آفس کے سامنے مظاہر ہ کیا اور دھرنا دیا پھر علامتی بھوک ہڑتال بھی کی۔منتخب بلدیاتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ اسٹیل ٹاؤن مسائل کا گڑھ بن چکا ہے ۔ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہیں ،سیوریج کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔جگہ جگہ گندا پانی کھڑا ہے جو بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کئی سال سے نشتر آباد میں ایک روپے کا ترقیاتی کام نہیں کرایا گیا۔سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ خالدآفریدی اور دیگر کونسلروں کا کہنا تھا کہ سرکاری طور پر ایک سے زیادہ مرتبہ تحریری خط و کتابت بھی کر کے دیکھ لی مگر اعلیٰ افسران ٹس سے مس نہیں ہو ئے لہٰذا وہ اس کیمپ آفس پر دھرنادینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔اِس پر بھی اگر مسائل حل نہ کئے گئے تو پھر نیشنل ہائی وے پر احتجاجی دھرنوں کے ساتھ ساتھ استعفے بھی پیش کر دیں گے۔


مندرجہ بالا لکھی گئی صورتِ حال کے بعد عدالتِ عالیہ سے درخواست ہے کہ وہ 30جنوری کی ڈیڈ لائن کے بعد اِن مادر پدر آزاد اداروں، کے ڈی اے اور کے ایم سی کے خلاف عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر سخت ایکشن لے۔ شہر کی انتظا میہ نے اِن احکامات پر اب تک کون سا عمل کیا ہے جس کے بعد مستقبل قریب میں کوئی اور امید رکھی جا سکے ۔ زبانی جمع خرچ بہت ہو گیا ۔۔۔اِن اداروں کے کرتے دھرتے ہیں ہی ڈھیٹ ہڈی !!! یہی وقت ہے کہ اب عدالتِ عالیہ پوری قوت سے اپنے احکامات نافذ کرے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
27 جنوری 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہونے والا کالم  اُلٹ پھیرٗ۔


















 

Comments

Popular posts from this blog