جیل اصلاحات.... اعلانات تک محدود
جیل اصلاحات.... اعلانات تک محدود
تحریر شاہد لطیف
معاشرے میں زندگی کے تمام شعبوں میں وقت اور زمانے لے لحاظ سے اصلاحات کی ضرورت رہا کرتی ہے جیسے صحت، تعلیم،ذرائع آمدورفت وغیرہ ۔ایک بد نصیب محکمہ ایسا بھی ہے جِس کا حال خاصا برا ہے۔یہ شعبہ’’ محکمہ جیل خانہ جات‘‘ ہے۔ شازونادِر ہی کوئی جیل اصلاحات کی بات کر تا ہے۔ وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے فوراََ بعد جناب مراد علی شاہ نے پولیس اور جیل خانوں کی اصلاحات متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ دیگر مسائل کا ہونا یا پھر بدلتی ترجیحات۔۔۔ مختلف وجوہ کی بنا پر اِن پر عمل درآمد ابھی تک نہیں ہو سکا۔ سینٹرل جیل کراچی تاریخی نوعیت کی حامل ہے ۔ 1921میں برطانوی نوآبادیاتی زمانے میں خالق دینا ہال میں عدالت لگا کر مولانا محمد علی جوہرؒ کو ڈھائی سال جیل کی سزا سُنائی گئی اوراِسی سینٹرل جیل میں رکھا گیا۔ماضی بعید اور ماضی قریب کے کئی ایک معروف سیاستدان یہاں مختلف زمانوں میں آتے رہے ہیں جیسے شورش کاشمیری۔
ایک اطلاع کے مطابق یہاں سیاسی قیدیوں، ’ نیب زدہ‘ قیدی، جہادی تنظیموں والے، معمولی مقدمات میں ملوث، جعلی چیک، جعلسازی اور سنگین جرائم کے مرتکب 20 ہزار کی تعداد سے زیادہ قیدی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ معمولی نوعیت کے جرائم کی سزا پانے والے جیل میں ’’ جگادری اُستادوں‘‘ کے ساتھ رکھے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ نئے آنے والے تیز رفتاری کے ساتھ جرائم کی دلدل میں اُترتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس کی تازہ مِثال یہ ہے کہ حکومتِ سندھ کے جیل اصلاحات کے اعلانات کے بعد بھی سینٹرل جیل کراچی اور دیگر شہروں ،بشمول سکھر، جیلوں کے مسائل ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ افسوس ناک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سزا کاٹ کے باہر آنے والی اکثریت اُن قیدیوں کی ہے جو رہا ہوتے ہی پھر کوئی سنگین جُرم کر کے اپنے ’’ استادوں ‘‘ کے پاس واپس جیل میں آ جاتے ہیں۔
اِس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جیل حکام نے حکومتِ سندھ کے احکامات کی روشنی میں ملیر اور جامشورو سمیت کراچی کے کئی مقامات پر ’’ ہائی پریزن جیل ‘‘ کے لئے زمین کی تلاش شروع کی جس میں انہیں کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی لیکن یہ ابھی تک محض ایک خواب ہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے جیل کے عملے اور باہر کے رضاکار مبلغوں کی مسلسل اور ان تھک کوششوں سے کچھ مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ قیدیوں نے جیل میں توبہ اور نماز روزے کا اہتمام کرنا شروع کر دیا ہے۔اِسی طرح جیل میں صحت مند ماحول ، معیاری خوراک کی فراہمی اور دیگر صحت مند سرگرمیوں کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ یوں قیدیوں کو اِس بات کا احساس ہوتاہے کہ جیل میں قید زندگی اور باہر کی زندگی میں بہت فرق ہے اور یہ کہ جیل کے باہر والی زندگی جیل کی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ مہذب دنیا میں جیل خانہ جات ’’ اصلاحی مراکز ‘‘ کہلاتے ہیں۔ جہاںآنے والوں کے جرائم کے حساب سے درجہ بندیاں کی جاتی ہیں ۔ یہ نہیں ہوتا کہ کسی چھوٹے جرم میں پہلی دفعہ جیل آنے والا پرانے ’’ اُستادوں ‘‘ کے درمیان میں رکھا جائے۔
برِ صغیر پاک و ہند پرمغل سلطنت کے دوسرے فرماں روا ، نصیر الدین محمد ہمایوں 1530 سے 1540 تک پہلے دور کی بادشاہت رہی۔مختلف وجوہات کی بنا پر اِس عرصہ اُس نے شیر شاہ سوری کو سلطنت کا باغی اور اپنے لئے خطرہ سمجھا اور اُس سے اُلجھتا رہا ۔بالاآخر 17 مئی 1540 کو بِلگرام (ضلع ہردوئی، اتر پردیش) کے مقام پر خود مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں نے شیر شاہ پر جنگ مسلط کر دی اور خود اُس کے مقابل آ گیا جس کے نتیجہ میں ہمایوں کو شکست نصیب ہوئی اور وہ تخت و تاج چھوڑ کر ایران چلا گیا۔ اِس طرح مغل سلطنت ، جو آج کے افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش تک کا علاقہ تھا،اِس پر نہ چاہتے ہوئے بھی فرید خان ،المعروف شیر شاہ سوری کو حکمراں بننا پڑا۔یہ 22مئی 1545 تک حکمران رہے۔اِن کی ، کی گئی ا صلاحات میں جہاں زرائع آمدو رفت، سڑکیں اور تیز ترین ڈاک کا نظام تھا جو کسی نہ کسی شکل میں آج تک چلا آرہا ہے، وہیں اِس خطہء زمین پر جیل خانوں کی اصلاحات بھی تھیں۔یہ اِس حکمران کا برِ صغیر پر احسان ہے ۔شیر شاہ سوری کا مختصراََ ذکر اِس لئے بھی ضروری ہے کہبرِ صغیر میں جب بھی جیل اصلاحات کی بات ہو گی ، موصوف کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ورنہ پہلے جو سپاہی کسی بد نصیب قیدی کو زندان میں ڈالتا تھا وہی اُس کے نکالنے کابھی ذمہ دار تھا۔۔۔افسوس ہے کہ آج بھی بعض دوست عرب ممالک میں وہاں کے شُرتے ’’الشرطۃ ‘‘ یہی کام کرتے ہیں۔
خیر یہ تو برسبیلِ تذکرہ بات تھی۔ لیکن انسان کی 1540 میں بھی بنیادی ضروریات وہی تھیں جو آج ہیں۔ جب جب انسان اپنے وسائل کی ’’ چادر سے باہر‘‘ نکلا تب تب اُس نے خود اپنے ہاتھوں اپنی مصیبتیں خریدیں۔جرائم ہوئے تو قید خانے بھی وجود میں آئے۔ آج ترقی کا دور ہے چاند تاروں پر کمندیں ڈال دی گئیں ،مختلف شعبہ جات میں مزید بہتری کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔پاکستان میں بھی واضح ’’ ہل جُل ‘‘ ہے۔ایک اہم سوال ہے کہ ہمارے جیل خانوں میں بہت ذہین لوگ قید ہیں ، وہ چھوٹی موٹی وارداتوں میں آخر کیوں اپنا آپ کھپا رہے ہیں؟اور بار بار کیوں جیل کے اندر باہر ہوتے رہتے ہیں ۔۔۔ جواب بہت آسان ہے ۔۔۔ اپنی قید کاٹ کر ایسے نوجوان جیل سے باہر آ کر در بدر ہو جاتے ہیں۔ا ن کو ڈھنگ کی تو خیر کیا نوکری ملتی، کوئی بے ڈھنگا کام تک نہیں مِلتا۔جیل سے جو اپنی قید پوری کر کے آیا ہے، در اصل اُس نے اپنے کیے کی سزا پا لی لہٰذا وہ نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔پاکستانی قانون کے مطابق ، اپنے حصّے کی سزا پوری کر نے کے بعد اُس کا وہ جرم مِٹ جاتا ہے۔۔۔لیکن۔۔۔پاکستان میں کیا سرکاری ادارے، کیا نجی دفاتر، کیا کارپوریشنیں ، کیا اتھارٹیاں، کیا دفتر یا محلہ کی دوکان ۔۔۔کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جیل کی قیدکاٹ کر آنے والے کو اُس کے مطلب یا حسبِ منشاء کوئی ملازمت دے سکے ! انسان سماج میں ہی رہتا ہے نا؟ جیل سے واپس آنے والا، لاکھ تائب ہو، اپنی ’’ حلفیہ توبہ‘‘ گلے میں لٹکا لے ۔۔۔کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔ خاکسار نے تو یہی دیکھا کہ ایسے شخص کو ہمارا سماج جوتے کی دھول بھی نہیں سمجھتا۔اب آپ ہی بتائیں کہ واپس آنے والے پر جیل کی قید اُس پر آسیب کی طرح سے چمٹ گئی ہو تو ۔۔۔ کر لی اُس نے محنت اور مِل گئی اُس کو نوکری ! تو ۔۔۔ پھر جیل خانے کی جتنی چاہیں اصلاحات لے آےئے، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلے گا۔
پھر اب کیا ، کیا جائے؟ خاکسار کی تجویز ہے کہ سب سے پہلے تو صحیح معنوں میں جیلوں کو ’’ اصلاح خانے ‘‘ بنایا جائے۔یہاں آنے والوں کو اُن کی ذہنی استبداد کے مطابق کوئی ہنر یا کوئی کام سکھلا کر متعلقہ بورڈ یا ادارے سے سرٹیفیکیٹ / ڈپلومہ دلوایا جائے۔ یوں باہر آنے کے بعد یہ نہ ختم ہونے والا اندر باہر ہونے کا منحوس چکر ختم ہو سکتا ہے۔لیکن اِس نصابی علم و ہنر کے ساتھ ساتھ اِن کی بھرپور اخلاقی تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔یہ کوشش محکمہ جیل خانہ جات ایک مرتبہ کر کے تو دیکھے !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 13 جنوری 2018 بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر11 پر شائع ہوئی۔
Comments