چیئرمین ضلع کونسل خیر پور کے اور دفتر کراچی میں۔۔۔




چیئرمین ضلع کونسل خیر پور کے اور دفتر کراچی میں۔۔۔

تحریر  شاہد لطیف

ایک خبر کے مطابق چیئرمین ضلع کونسل خیر پور ،جناب شہریار وسان نے کراچی میں اپناغیر اعلانیہ اور غیر سرکاری ضلعی دفتر قائم کر لیاہے۔ پیر سے جمعہ تک ہفتہ کے 5 روز کراچی میں اور 2دن خیرپور میں گزارتے ہیں۔خیرپور میں پہلے ہی مسائل کیا کم تھے جو اب یہاں کی ضلع کونسل کا عملہ کراچی میں جا کر چیئرمین سے اہم نوعیت کے کاغذات دستخط کروانے پر مجبور ہو گیا۔خود ان کے دفتر واقع خیر پور میں مسائل کی بے شمار فائلیں جمع ہو چکی ہیں مگر کسی کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگی ۔ضلع خیر پور کے عوام نے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے چیئرمین ضلع کونسل خیر پور کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ 

تفصیلات کے مطابق بلدیاتی نمائندے شہریوں کے چھوٹے بڑے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں میں بد دلی اور مایوسی پھیل گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع کونسل کے چیئر مین شہریار وسان،سندھ کے صوبائی وزیر ،منظور وسان کے قریبی عزیز ہیں۔ہفتہ کے پانچ دِن کراچی میں ہونے کی وجہ سے ضلع خیرپور میں مسائل کا ڈھیر لگ چکا ہے۔عوام بھی ازالہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ کبھی کبھی یہ کراچی میں اپنی ’’ مصروفیات ‘‘ کی بنا پر ضروری منظوریاں اور دستخط سنیچر اور اتوار کی ’’ تعطیلات‘‘ میں بھی خیرپو ر جا کر کرتے ہیں ۔اور اس کے بعد دوبارہ کراچی آ جاتے ہیں۔

اِس تمام کہانی سے ضلع بھر کے لوگ سخت پریشان ہیں جن کا یہ کہنا خاصی حد تک درست بھی ہے کہ اگر جناب شہریار وسان کو کراچی ہی میں رہنا تھا تو پھر وہ ضلع کونسل خیر پور کے چیئر مین کیوں بنے؟ عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہر مسائل کا گڑھ بن چکا ہے لیکن بلدیاتی نمائندے اپنے سیر سپاٹوں میں مگن ہیں۔
یقیناََ یہ کسی بھی لحاظ سے مستحسن کام نہیں لیکن اِس کی ماضی قریب اور ماضی بعید میں بہت سی نظیریں موجود ہیں اسی لیے تو یہ کام ہو رہا ہے۔اگر کوئی اِن سے باز پُرس کربھی لے تو اِس رام کہانی کا ’’ سِرا ‘‘ کوئی کہاں سے پکڑے گا؟ 

دور کیا جانا ہے زرداری صاحب کے دور میں حکومتِ سندھ کے کئی ایک وزراء ہفتے کے کئی کئی روز باقاعدگی سے اسلام آباد میں پائے جاتے تھے۔پنڈورا بکس کھلنا اسی کو کہتے ہیں کہ جب کوئی دلیل نہ دے سکے تو آخری حربہ یہی نظیریں ڈھونڈنا رہ جاتا ہے : ’’ فلاں حکومت کے زمانے میں بھی تویہ کام فلاں شخص نے کیا تھا لہٰذا اگر ہم نے کر لیا تو کون سی آفت آ گئی؟ اگر آپ نے کوئی ایکشن ویکشن لینا ہے تو پھر فلاں زمانے سے کیوں شروع نہیں کرتے؟ یہ کام تو فلاں نے اول اول کیا تھا ‘‘ ! 

ایک شخص کو جب ذمہ د ار عہدے پر فائز کیا جاتا ہے تو اُس سے کام کرنے اور کروانے کی امید بھی رکھی جاتی ہے۔جب سرکاری افسران ، عوامی نمائندے اور وزراء اپنے دفتر کو چھوڑ کسی دوسرے شہر یا غیر ممالک میں زیادہ پائے جانے لگیں تو یہ اس بات کا واضح اشارہ ہوتا ہے کہ عوام اور اُن کے مسائل ثانوی اہمیت کے حامل ہیں اور اب اِن افراد کی دلچسپیاں اور ترجیحات بدل گئی ہیں۔

یہ صورتِ حال تشویشناک ہے۔ یہ ’’ بیماری ‘‘ اوپر سے نیچے کی جانب درجہ بدرجہ منتقل ہو رہی ہے اور یہ ایک قومی المیہ ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جمہور در بدراور پریشان ہے؟ ایسا کام اور ایسی مثال تو ہمیں پاکستان میں آمریت کے دور میں بھی کہیں نہیں ملتیں ۔اب تو ذرائع ابلاغ کے طفیل پاکستانی عوام جاننے لگے ہیں کہ ریاست کے تین بنیادی ارکان ہوتے ہیں: مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔یہ ’’بیماری‘‘ تیسرے رکن انتظامیہ میں پائی جا رہی ہے۔ مقننہ قانون بناتی ہے عدلیہ اِس پر عمل کرواتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ قانون پر عمل درآمد کروانا اور اس کو نافِذ کرنا انتظامیہ کا کام ہے۔اِس موقع پر ایک ضرب المثل صادر آ رہی ہے کہ دودھ کی چوکیداری پر بِلا بٹھانا۔ریاست کے تینوں ستون اپنی اپنی جگہ پر اہم ہیں تا ہم انتظامیہ قوانین کو نافذ کرنے کی ذمہ دار ہے۔یہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ شتر بے مہار ہے۔ ہم اپنے اطراف اکثر پولیس کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی خبریں پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔ابھی پچھلے دنوں ملتان میں ایک معمر جوڑے کو پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اخبارات میں ہا ہا کا ر مچ گئی، ہر طرف شور برپا ہو گیا، وزیرِ اعلیٰ پنجاب تک بات پہنچ گئی لیکن ۔۔۔نتیجہ کیا ہوا؟۔۔۔ ڈھاک کے تین پات۔

آج کل ایک عجیب ہی فضا بن گئی ہے کہ کیا بڑے کیا چھوٹے کیا قومی اہمیت کے حامل کیا مقامی مسائل اب عدالتِ عالیہ ہی کے لئے رکھ چھوڑے گئے ہیں کہ وہی ان کو حل کرے۔ایسے ایسے مسائل جو بادی ء النظر میں انتظامیہ کے کرنے کے ہیں وہ اپنے فرائض سے نہ صرف غافل ہے بلکہ کراچی میں جا بجا قوانین کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔اسی بنا پر خود چیف جسٹس سپریم کورٹ کو کراچی جانا پڑا۔یہ بھی ایک اہم خبر تھی کہ اسلام آباد سے کراچی پرواز کے دوران فاضل چیف جسٹس صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ جہاں جا رہے ہیں، وہاں کیا کیا اور کس کس بات کو ٹھیک کریں گے اُدھر تو ہر قدم پر مسائل کھڑے کر دیے جاتے ہیں،آپ کی تو مدتِ ملازمت بھی سال کے آخر میں ختم ہونے والی ہے ۔اِس پر اُنہوں نے یہ تاریخی جواب دیا: ’’ ایک سال تو بڑی بات ہے میں انشاء اللہ 6ماہ میں مسائل حل کرواؤں گا‘‘۔ایک اور بات کہی گئی کہ یہاں ہر کوئی مسئلہ کے حل کے لئے کوئی اور کاندھا ڈھونڈ لیتا ہے اور ذمہ دار کا تعین ہی نہیں ہو پاتا۔اور بات وہیں کی وہیں رہتی ہے۔اِس پر اُنہوں نے کہا کہ میں کسی ایم ڈی اور ایڈمنسٹریٹر اور اداروں کے سربراہ کو نہیں صرف چیف سیکریٹری اور وزیرِ اعلیٰ کو ہی ذمہ دار سمجھتا ہوں۔دیگر افراد کام نہیں کر سکتے تو گھر چلے جائیں۔ 

کراچی میں پانی کے مسئلہ ، واٹر ٹینکر مافیا، چائینا کٹنگ، قبضہ گروپ اور تجاوزات جیسے عفریت مونہہ کھولے کھڑے ہیں جن کے سامنے انتظامیہ بے بس ہے۔ فاضل جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ ٹینکرمافیا ہے کون ہے؟ اس پر ایک فاضل وکیل نے کہاکہ جناب ہر ایک ہائیڈرنٹ کے پیچھے ایک ایم این اے ہے۔اور جب چیف جسٹس نے اُن کے نام پوچھے تو وکیل صاحب کچھ بتا نہ سکے۔۔۔اِس پر چیف جسٹس نے واٹر بوڑڈ کو چھوڑ کر براہِ راست وزیراِ علیٰ اور چیف سیکریٹری کو ایک معین مدت تک مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا۔

جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے روبرو فاضل وکیل ٹینکر مافیا کے سلسلے میں ہر ایک ہائیڈرنٹ کی سر پرستی کے پیچھے کسی ایم این اے کے ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن نام نہیں بتا پاتے تو گویا انتظامیہ کے شتر بے مہار ہونے کا ثبوت ہے۔اِس پس منظر میں اگر خیر پور کے ضلع ناظم ہفتہ کے پانچ دِن کراچی میں اپنا دفتر لگا رہے ہیں تو پھر یہ بھی کوئی ’’خاص ‘‘ بات نہیں۔بہرحال خیر پور کے عوام کے کرب میں ہم پوری طرح شامل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کا یہ کالم 20 جنوری 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہوا۔

















 

Comments

Popular posts from this blog