سِتار نواز، اراینجر اور موسیقار جاوید اللہ دتّہ
سِتار نواز، اراینجر اور موسیقار جاوید اللہ دتّہ
تحریر شاہد لطیف
نہ جانے جاوید بھائی میں ایسی کیا بات تھی کہ علاوہ سلام دعا کے اُن سے بات کرنے کا کبھی حوصلہ نہیں ہوا۔حالاں کہ اُن کے چھوٹے بھائی اختر اللہ دتہ سے راقم کی دوستی تھی جو ماشاء اللہ آج تک قائم ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں اپنی ملازمت کے دوران اِن سے اکثر ملاقات ہوا کرتی تھی ۔ یہ کم گو کام سے کام رکھنے والے تھے۔اب ایک زمانے بعد جب اُن کے ہاں بیٹھ کر بات چیت کی تو۔۔۔تو علم ہوا کہ میں تو سراسر گھاٹے میں رہا۔اتنے باصلاحیت شخص کو میں خوامخواہ نظر انداز کرتا رہا۔کاش کہ اِن سے اپنے پروگرام کروائے ہوتے ۔بہر حال پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لئے اُن سے بات چیت کی خاص خاص باتیں پیشِ خدمت ہیں:
’’ ستار نواز کی حیثیت سے 1964 میں 16 سال کی عمر میں قتیل شفائی کا لکھا، نثار بزمی کی موسیقی اور میڈم نورجہاں کی آواز میں فلم’’ ہیڈ کانسٹیبل ‘‘ کا یہ میرا پہلا فلمی گیت تھا‘‘ :
اے کا ش میرے لب پہ تیرا نام نہ آتا
دنیا میں وفا پر کوئی الزام نہ آتا
’’ میرے پیس اور میری جانب سے کوئی ایک بھی ری۔ٹیک نہیں ہوا۔بزمی صاحب اور میڈم نے مجھے شاباشی دی۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہر ایک میوزیشن ،گلوکار، فنکار کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ریڈیو پاکستان پہنچ جائے۔لہٰذا میں نے بھی بہت محنت کی اور 150روپے ماہوار تنخواہ پر 1965 میں ریڈیو پاکستان کراچی میں ستار نواز کی حیثیت سے منسلک ہو گیا۔ 1965 کی جنگ کے بلیک آؤٹ کے زمانے میں ریڈیو اسٹیشن کی کھڑکیوں اور روشن دانوں پر ہم لوگوں نے کاغذ لگا ئے اور پھر یہاں ریکارڈ ہونے والے تقریباََ تمام مِلّی نغموں میں ، میں نے ستار بجائی۔موسیقار اور کمپوزر اُستاد وحید خان صاحب دِن میں 4 مِلّی نغمے کمپوز کیا کرتے۔بہت سے براہِ راست /لائیو بھی نشر اور ریکارڈہوا کرتے‘‘۔
’’جلد ہی سِتار کے ساتھ گِٹار بھی بجانا شروع کیا۔جِس کی سہیل رعنا نے بہت حوصلہ افزائی کی۔حمایت علی شاعر نے فلم ’’ لوری ‘‘ کی کامیابی کے بعد فلم ’’ گُڑیا ‘‘ شروع کرنے کا اعلان کیا۔اِس کے گانے لاہور میں ریکارڈ کرنے کا فیصلہ ہوا ۔فلم کے موسیقارکے طور پر اب کی مرتبہ حمایت صاحب نے خلیل احمد کے بجائے سہیل رعنا کو چُنا۔سہیل مجھے اپنے ساتھ لاہور لے گئے۔ مذکورہ فلم تو بعض وجوہات کی بِنا پر مکمل نہیں ہو سکی البتہ سِتار پلیئر کے طور پر میر ا لئے لاہور جانا بہت اچھا ثابت ہوا ۔۔۔وہ فلمی صنعت کے عروج کا زمانہ تھا‘‘۔
باتوں باتوں میں جاوید بھائی نے ایک بہت دلچسپ واقعہ سُنایا: ’’ موسیقار خواجہ خورشید انور سے کون میوزیشن واقف نہ ہوگا۔ایک روز ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ خواجہ صاحب کا پیغام ہے کہ جاوید کو فُلاں روز براہِ راست میرے گانے کی ریکارڈنگ پر بلوالو، اگر وہ اُس تاریخ کو مصروف ہوئے تو پھر جِو ستار نواز میسّرہو اُس کے لئے ریہرسل ضروری ہو گی۔میں خواجہ صاحب والی ریکارڈنگ کے دِن پہلے ہی کسی اور موسیقار کو ہاں کر چکا تھا۔میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے میں خواجہ خورشید انور صاحب کی ریکارڈنگ کر لیتا مگر یہ نہ ہو سکا ۔۔۔اِس کے باوجود خواجہ صاحب کا مجھے اِس طرح سے بُلوانا ہی میرے لئے ایک بہت اعزاز کی بات ہے‘‘۔
’’ لاہور میں موسیقار ایم اشرف صاحب کے لئے میرا پہلا گیت 1971 میں بننے والی فلم ’’ یادیں ‘‘ کے لئے تسلیم فاضلی کا لکھا ہو ا گلوکارجب علی اورمیڈم نورجہاں کی آواز میں یہ دوگانا تھا جِس میں ، میں نے ستار بجائی‘‘:
مجھ سا تجھ کو چاہنے والا اِس دنیا میں کوئی اور ہو اللہ نہ کرے
تجھ سا مجھ کو چاہنے والا اِس دنیا میں کوئی اور ہو اللہ نہ کرے
لاہور میں جاوید بھائی کے بہت سے نامور میوزیشن کا ساتھ رہا جیسے مظہر حسین گِٹارسٹ المعروف ’ پوپا ‘ اور اختر حسین پیانِسٹ۔اختر صاحب بہت ہی لاجواب پیانِسٹ تھے۔سہیل رعنا کے کئی ایک مقبول ترین گیتوں میں اِن کا پیانو بجایا ہوا ہے،مثلاََ1967 میں بننے والی فلم ’’ دوراہا ‘‘ میں مسرور بھائی المعروف مسرور انور کا لکھا اور مہدی حسن کی آواز میں یہ مشہور گیت:
مجھے تُم نظر سے گرا تو رہے ہو مجھے تُم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے
نہ جانے مجھے کیوں یقین ہو چلا ہے میرے پیار کو تم مِٹا نہ سکو گے
خاکسار کے مطابق آج بھی جب 3:33 منٹ کے اصل گیت کوسنیں توایک لطف محسوس ہوتا ہے۔ جنہوں نے اختر حسین صاحب کو پیانو بجاتے ہوئے دیکھا اور سُنا ہے ،اِس گیت میں پیانوکے انٹرو، باریں، فلرز اور انٹرول میوزک سُن کر اختر صاحب سراپا سامنے آ موجود ہوتے ہیں۔
بات چیت کے درمیان میں راقِم نے پاکستانی فلمی صنعت کے ایک نامورپلے بیک ساؤنڈ ریکارڈسٹ جناب سی منڈوڈی صاحب کا ذکر کیاتو جاوید بھائی نے کہا: ’’ لاہور میں ایک ہی فلور کا اسٹوڈیو ’’ یو بی اسٹوڈیو‘‘ تھا۔اِسی میں ساؤنڈ ریکارڈنگ نھی کی جاتی تھی۔دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ صرف چلتا ہی جناب سی منڈوڈی کے نام پر تھا‘‘۔واقعی یہ جتنے اچھے ساؤنڈ انجینئر تھے اُتنے ہی اچھے اِنسان بھی تھے۔اِس خاکسار کو کئی ایک مرتبہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی میں منڈوڈی صاحب سے ملنے اور گفتگو کا اعزاز حاصل ہے ۔
جاوید بھائی نے ریڈیو پاکستان کراچی اور کراچی کی فلمی صنعت میں موسیقار لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال، نذر اور صابر صاحبان المعروف نذر صابر، دیبو بھٹّہ چاریہ کے ساتھ کام کیا۔
’’ مجھے کمپوزیشن کا بالکل بھی شوق نہیں تھا۔پاکستان ٹیلی وژن کے پروڈیوسرشعیب منصور نے پروگرام ’’ سِلور جوبلی ‘‘ کے لئے پاکستانی فِلمی مِلّی گیتوں کو ’ ری ڈو‘ Re-doکرنا تھا جیسے شوکت تھانوی صاحب کا لکھا ہوا یہ مِلّی نغمہ:
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ پرچم ہمارا رہے
میری اِس کاوش کی پروڈیوسرشہزاد خلیل صاحب نے تعریف کی ۔ میں بھی اِس Re-do سے اپنے دل میں مطمعن تھا ‘‘۔
جاوید بھائی نے یہاںRe-do کی اصطلاح استعمال کی تو مجھ سے رہا نہ گیا ۔میں نے سوال کیا:’’ جاوید بھائی آج کل جو ’ ری مِکس ‘ Re-mix کی وبا چل رہی ہے کیا وہ Re-do سے الگ ہے؟ ‘‘
اُنہوں نے جواب دیا: ’’ Re-do بالکل اصل کے مانند ہے۔ویسا ہی میوزک، ویسی ہی چال ۔دوبارہ سے اصل کو سامنے رکھتے ہوئے پیس ، باریں ، فلر، انٹرول میوزک سب اصل کے مانند ریکارڈ کیا جاتا ہے۔البتہ Re-mixمیں میوزک کی قطع برید کی جاتی ہے‘‘۔
خاکسار کے خیال میں جب ہی تو کوک اسٹوڈیو میں معروف پاکستانی فلمی گانوں کے Re-mix پر ایک نا ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے جبکہ دوسرے کے مطابق یہ اصل گیت کا قتل ہے۔
’’ جاوید بھائی آج کل ایک اور اصطلاح بھی سننے کو مل رہی ہے ’ فیو ژن‘‘ یہ کیا ہے؟‘‘
’’ ہا ہا ۔۔۔میں نے بھی یہ فیوژن والا کام کیا۔لیکن اُس وقت یہ پتا ہی نہیں تھا کہ جو کام ہو رہا ہے ، جدید موسیقی کی اصطلاح میں وہ ہے کیا۔۔۔‘‘
میں بے ساختہ بول اُٹھا ’’ کیا آپ کا اشارہ 1986میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے موسیقی کے پروگرام ’’ رنگ ترنگ ‘‘ میں ساحرہ کاظمی کی پروڈکشن اور شبی فاروقی کا لکھاہوا گیت ہے جو الّن فقیر اور محمد علی شہکی کی آواز میں بہت مقبول ہوا تھا‘‘:
تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا اُسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا
’’ ہاں ! یہ خاصہ مشکل کام تھا۔بعد میں کہیں جا کر علم ہوا کہ یہ جو کام ہواوہ ’ فیوژن ‘ تھا۔یعنی دو چیزوں کا ملاپ۔مشرقی/علاقائی فوک موسیقی کا مغربی موسیقی کے ساتھ خوشگوار امتزاج۔مزے کی بات یہ کہ شبی فاروقی سندھی بولوں کے میٹر پر اُردو میں بول پہلے ہی لکھ چکے تھے۔ویسے یہ بھی کمال کے آدمی تھے۔میں نے اِن کے ساتھ بعد میں بھی کام کیے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں کہا ’’ انجم آفندی، اعظم شیخ، منصوراور میں نے silhouette نام کا ایک بینڈ بنایا ۔بینڈ کی باقاعدگی سے رہرسل ہوا کرتی تھی۔یہاں میں نے سوچا کہ مجھے بھی گِٹار سیکھنا چاہیے۔ہم نے اِس پلیٹ فارم سے ایک LP ریلیز کیا۔تھوڑے ہی عرصہ بعد رونا لیلیٰ کی آواز میں 45 RPM کا EP ریلیز ہوا۔یہ بنگالی فوک فیوژن تھا۔پھر محمد علی شہکی کے ساتھ بھی بینڈ کے طور کام کیا‘‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں کہنے لگے: ’’ بینجمن سسٹرز میرا اور شعیب منصور دونوں کا آئڈیا تھا۔اِن تینوں میں شبانہ بہت جلدی دھن کو یاد کر لیا کرتی تھی۔اِن کے والد جناب وِکٹر بنجمن جلترنگ، وائبروفون اور سنتور کے بہترین میوزیشن تھے۔جلترنگ اِن کی پہچان تھی۔اب تو جلترنگ خواب و خیال ہو کر رہ گیا ہے‘‘۔واضح ہو کہ یہ خالصتاََ پاک و ہند کا ایک قدیم سا ز ہے جو چینی کی پیالیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اِن میں مختلف مِقدار میں پانی موجود ہوتا ہے، گویا اِن کے سُروں کو پانی اور پانی کی مقدار سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ہلال کی صورت میوزیشن کے سامنے رکھے ہوئے پیالوں کے کنارے پر ہلکی ضرب لگانے سے پانی میں ارتعاش کے ذریعہ سُرپیدا ہوتا ہے ۔اِس سلسلے میں بنجمن صاحب کے بارے میں جاوید بھائی نے کہا: ’’ ہم لوگ جب پی آئی اے آرٹس اکیڈمی میں تھے تب ایک مرتبہ وکٹر بنجمن نے میڈیسن اسکوائر، نیویارک میں جلترنگ کے انفرادی فن کا مظاہرہ کیا۔یہاں ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔لوگ حیران ہو گئے کہ جلترنگ بھی کیا غضب کا ساز ہے‘‘۔
جاوید بھائی نے PMC والوں کے لئے بنجمن سسٹرز اور محمد علی شہکی کے نئے گانوں کے کیسٹ بنائے۔
لاہور میں اُنہوں نے جِن مشہور فلمی گانوں میں ستار بجائی کچھ اُن کا ذکر ہو جائے:
1972میں نمائش کے لئے پیش کی جانے والی ایس سلیمان کی فلم ’’ محبت ‘‘ میں فرازؔ کی 3:42 منٹ کی غزل، جِس کی دھن نثار بزمی صاحب نے بنائی تھی، بہت مشہور ہوئی: ؎
رنجش ہی سہی دِل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
اِ س غزل کا انٹرو اور تینوں انتروں میں جاوید اللہ دتّہ صاحب نے ستار بجائی ہے۔
1976 میں بننے والی فلم ’’ خریدار ‘‘میں موسیقار ایم اشرف کی موسیقی اور (غالباََ) منیر نیازی کی غزل ناہید اختر کی آواز میں بے حد مقبول ہوئی:
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خاموشی سے گذر جائیں ہم تو کیا
اِس تاثر انگیزاصل فلمی غزل کو اطمینان سے بیٹھ کر سُنا جائے توجاوید بھائی کی سوز میں ڈوبی سِتار دِل کی تاروں کی چھیڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
1972میں بننے والی فلم ’’ ایک رات ‘‘ کا ایک گیت زبان زدِ عام ہو گیا تھا جس کو تسلیم فاضلی نے لکھا اور ناشاد صاحب نے طرز بنائی۔اِسے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا: ؎
پھر آ کے چلے جانا
اک بار چلے آؤ
صورت تو دکھا جاؤ
اِس التجائی شاعری اور دھن پر جاوید بھائی کی بجائی ہوئی المیہ ستار سُننے سے تعلق رکھتی ہے، 3منٹ میں یہ گیت ختم بھی ہوجاتا ہے اور سُننے والا محسوس کرتا ہے کہ ابھی تو شروع ہوا تھا۔
پاکستان فلمی صنعت میں سیف الدین سیف کی معرکتہ الآرا فلم ’’ اُمراؤ جان ادا‘‘ کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔بھارت میں اِس کے کہیں بعد 1981 میں اُنہوں نے اِسی نام سے فاروق شیخ، ریکھا ، نصیر الدین شاہ ،راج ببر، بھارت بھوشن اور مکری وغیرہ جیسی بڑی کاسٹ کو لے کر اِسی مرزا ہادی رُسوا کے ناول ’’ اُمراؤ جان ادا‘‘ پر فلم بنائی۔ اس کے ہدایت کار جناب مظفر علی صاحب اور منظر نامہ مظفر علی، جاوید صدیقی اور شمع زیدی نے لکھا۔تمام گیت شہریار اور دھنیں موسیقار خیّام نے ترتیب دیں۔ غیر جانبداری سے دونوں فلموں کا مقابلہ کیا جائے تو سیف صاحب اور حسن طارق کی فلم ہر لحاظ سے اُن سے افضل ہے۔بات سے بات نکلتی ہے، ذکر ہو رہا تھا پاکستانی فلم ’’ امراؤ جان ادا ‘‘ کا۔اِس فلم میں سیف الدین سیف کے باقاعدہ 5 گیت ، ایک نوحہ اور ایک احمد رُشدی کی تحت اللفظ توصیفی نظم ہے۔اِن پانچ گیتوں میں 3 میں جاوید بھائی نے سِتار بجائی:
؎
کاٹیں نہ کٹیں رے رتیاں سیّاں انتظار میں
اے ہے میں تو مر گئی بیدردی تیرے پیار میں
رونا لیلیٰ کی آواز میں اِس گیت میں بزمی صاحب نے ستار کا بھرپور استعمال کروایا ہے جِس سے گیت مزید روشن روشن محسوس ہوتا ہے۔
؎
جھومیں کبھی ناچیں کبھی گائیں خوشی سے
جی چاہتا ہے آج مر جائیں خوشی سے
رونا کے اِس گیت میں دوسرے انترے میں انٹرول میوزک میں ستار بجائی گئی ہے۔انتروں میں ستار کی باریں بہت خوبصورت محسوس ہوتی ہیں۔
؎
مانے نہ بیری بلما
ہو مور ا مَن تڑپائے
جیا را جلائے
رونا لیلیٰ، آئرین پروین اور نذیر بیگم کی آوازوں میں اِس گیت کا انٹرو ،راگ ایمن اور گونڈ سارنگ کے خوبصورت امتزاج سے بزمی صاحب نے جاوید بھائی سے بجوایا۔
1974 میں لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں پاکستان ٹیلی وژن کا تیار کردہ مِلّی نغمہ ’’ ہم مصطفوی ہیں‘‘ بہت مقبول ہوا۔اِس کو جمیل الدین عالیؔ صاحب نے لکھا اور پاکستان کے نامور موسیقار سہیل رعنا نے اِس کی طرز بنائی۔اِس سب پر سونے پہ سہاگہ جناب مہدی ظہیر صاحب کی ولولہ انگیز آواز۔۔۔
’’ اِس نغمے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سہیل رعنا نے ایک روز مجھ سے کہا کہ میں لاہور جا کر اصل نغمہ کے ٹریک پرپورا نغمہ ستار پر سولو ر یکارڈ کروا کر لے آؤں۔یہ خاصا مشکل کام تھا۔میں نے ان سے کہا کہ وہ بھی میرے ساتھ چلیں لیکن وہ کہنے لگے کہ تمہیں بھیج ہی اسی لئے رہا ہوں کہ تُم یہ کام اکیلے ہی کر اور کروا سکتے ہو ۔الحمدوللہ ۔۔۔یہ کام بخوبی ہو گیاجو میرے لئے ایک اعزاز ہے۔اِس کے بعد سہیل رعنا کے ساتھ DFP ڈپارٹمنٹ آف فلم اینڈ پبلی کیشن کی بہت سی فلموں کا بیک گراؤنڈ کیا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں دلچسپ بات بتائی : ’’ میں جب silhouette بینڈ میں تھا تو خیال آیا کہ میں بھی اپنے ستار میں ایک ’ پِک اَپ ہیڈ ‘ Pick-up head لگا کر آواز کو تھوڑا بہت بدل کر دیکھوں۔ہم نے اِس ’’ الیکٹرک سِتار ‘‘ کے ساتھ بنگالی فوک دھن ’’ بھوّیہ ‘‘ ریکارڈ کرائی جو بہت مقبول ہوئی‘‘۔
اپنے پی آئی اے آرٹس اکیڈمی میں کام کے بارے میں کہا : ’’ اللہ کے فضل سے بہت سے ممالک میں ستار پر راگ راگنیاں سولو پرفارم کیں ۔یہ سلسلہ 1974تک چلا۔جب اکیڈمی کو بعض وجوح کی بنا پر بند کر دیا گیا۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ضیاء محی الدین صاحب کی سربراہی میں اِس اکیڈمی نے دن رات کی محنت سے بین الاقوامی طور پر پاکستان کا نام روشن کیا‘‘۔
اپنے ریکارڈنگ اسٹوڈیو کے بارے میں کہا: ’’ ہر ایک کمپوزر کوشش کرتا ہے کہ اُس کا بھی اپنا ریکارڈنگ اسٹوڈیو ہو جہاں وہ اپنی مرضی کے وقت اور موڈ کے لحاظ سے تخلیق کا کام کر سکے۔مجھے بھی اللہ نے توفیق دی اور 1980کی دہائی میں یہ بنا لیا۔۔۔جو کمرشل نہ ہو سکا۔۔۔‘‘
اپنے بچپن سے متعلق بتایا: ’’ میرے والد بہت سخت تھے، کسی حد تک یہ بات مجھ تک بھی پہنچی ہے۔لیکن ظاہر ہے میرے والد ہم سب سے بے حد پیار کیا کرتے تھے۔۔۔اَن کے انتقال پر ریڈیو پاکستان میں سہیل رعنا نے خاص طور پر تعزیت کی تھی‘‘۔
گو کہ آج کل بے شمار ٹی وی چینل وجود میں آ چُکے ہیں لیکن اِن میں زیادہ تر صرف نیوز چینل ہیں۔اِس سلسلہ میں اُنہوں نے کہا:’’ آج کل انٹرٹینمنٹ چینلوں کے دروازے موسیقی پر مکمل طور پر بند ہیں‘‘۔
جاوید بھائی نے کئی مشہور ڈراموں کے ٹائٹل سونگ کمپوز کیے، جیسے ’’ چاند گرہن ‘‘ ، ’ ’ شی جی‘‘ ، ’’ ستارہ اور مہر النساء ‘‘ ۔اِس ڈرامہ کے ٹائٹل سونگ کے بارے میں ایک دلچسپ بات بتلائی: ’’ ایک محفل میں نیرہ نور اِس ڈرامے میں اپنا گایا ہوا یہی ٹائٹل گیت سُنا رہی تھیں جومیں نے راگ دیس میں ترتیب دیا تھا ۔سامنے سُننے والوں میں مہدی حسن بھی بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ کچھ ایسا اثر ہوا کہ مہدی حسن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔۔۔ہے تو یہ عجیب سی بات ۔۔۔لیکن یہ بھی میرے لئے ایک اعزاز ہے۔
اِسی محفل میں یہ گیت سُن کر 1993 میں مجھے فلم ’’ خواہش ‘‘ کی پیشکش کی گئی۔اِس کے ہدایت کار نذرالاسلام تھے ۔اِ س سے پہلے ایک فلم ’’ دشمنوں کے دشمن‘‘ کی جو اللہ کے فضل سے 1989میں نمائش کے لئے پیش ہوئی ۔اِس فلم میں میڈم نورجہاں کے 4 عدد گانے بھی تھے‘‘۔
لاہور میں اپنے قیام کی ایک اور دلچسپ بات یاد بتلائی۔اِس کا پس منظر یہ ہے کہ کسی وجہ سے جاوید بھائی کے سر کے بال نوجوانی ہی سے خاصے سفید تھے اِس پر وہاں کے ایک بہترین وائلن نواز الیاس خان نے کہا: ’’ بھئی تم نے ستار پر اپنے پیس بہترین بجائے آج پتا چلا کہ یہ بال ایسے ہی دھوپ میں سفید نہیں کیے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا : ’’کوک اسٹوڈیو سے متعلق کہا : ’’ پرانی بندشوں کے ساتھ پرانی دھنوں میں ’ فیوژن ‘‘ میں جو ہو رہا ہے وہ مجموعی طور پربہتر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پروگرام یا آئٹم پیش کیسا کیا جا رہا ہے۔اِس کا یہاں کافی فقدان ہے‘‘۔
’’ بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے قریب ہمارا گھر تھا۔کئی مرتبہ میں گھر سے ایسٹرن اسٹوڈیو پیدل بھی گیا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں جاوید بھائی نے کہا: ’’ میں نے سوچا کہ آسان ساز سیکھنا چاہیے، تو ستار سیکھنے کا خیال آیا۔اُستاد مچھو خان، اُستاد امداد حسین، اُستاد شریف خان پونچھ والے اور اُستاد رئیس خان میرے اساتذہ ہیں ۔۔۔
میں نے پی ٹی وی کے لئے حمد و نعت کی بھی طرزیں بنائی ہیں۔پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں قاسم جلالی کے ڈرامہ’’ ٹیپو سلطان‘‘ میں صہبا اخترؔ کی لکھی ہوئی حمد/نعت کی طرزبنائی جو گلوکار محمد افراہیم کی آواز میں ریکارڈ ہوئی۔جب خود کمپوزر ہوا تومسرورؔ انور، قتیلؔ شفائی،،حسنؔ اکبر کمال، شبیؔ فاروقی، محمد ناصرؔ ، صابر ظفروغیرہ کے ساتھ کام کیا‘‘۔
’’ میں اللہ تعالیٰ اور آلِ نبیﷺکا شکر گذار ہوں کہ اُس نے اتنا نوازا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا۔میرے چار بیٹے ہیں: پہلا احسن ہے جو دبئی میں ایک بینک کے ذمہ دار عہدے پر فائز ہے۔اِس کی ماشاء اللہ دو بیٹیاں ہیں۔دوسرا بیٹا مُحسن ہے۔یہ یہاں ڈراموں کا بیک گراؤنڈ میوزک اور تھیم سونگ کمپوز کرتا ہے۔اِس کی ماشاء اللہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔تیسرا بیٹا حسن ہے جو ایک مقامی ٹیلی وژن چینل میں مارکٹنگ کے شعبے سے منسلک ہے۔اِس کا ماشاء اللہ ایک بیٹا ہے۔چوتھا بیٹا عباس ہے جو ایک شپنگ کمپنی کے مارکٹنگ کے شعبے میں ذمہ دار عہدے پر فائز ہے ۔اِس کا بھی ماشاء اللہ ایک بیٹا ہے‘‘۔
آج کل جاوید بھائی نے خرابیء صحت کی وجہ سے موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے۔اللۃ اُنہیں صحت وعافیت کی زندگی عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
23 جنوری 2018 بروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے فن و ثقافت، صفحہ 9 پر شائع ہونے والی تحریر۔
Comments