بھارت کا بوفورس اسکینڈل ہمارے سیاستدانوں کے لئے لمحہ ء فکریہ
بھارت کا بوفورس اسکینڈل
ہمارے سیاستدانوں کے لئے لمحہ ء فکریہ
تحریر شاہد لطیف
غلط اعمال مرنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔
جائز ونا جائز ، حلال و حرام صرف دینِ اِسلام ہی کی بنیاد نہیں بلکہ یہ ایک آفاقی سچائی ہے اور دنیا کے ہر اک مذہب میں اِن اخلاقیات کی اہمیت ہے۔اکثر اوقات اِنسان کے غلط اعمال ، مرنے کے بعد بھی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔اور اگر وہ انسان کوئی مشہور ہستی، طاقتور، عہدیدار یا مقبول عوامی راہنما ہو تو اُس کے نا جائز اعمال کی رُسوائیاں آ سیب کی طرح اُس کے پورے خاندان کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں ۔ایسا ہی بھارت کے راجیو گاندھی کے ساتھ ہوا اور اُس کا خمیازہ رُسوائی کی شکل میں اُن کا خاندان بھُگت رہا ہے۔
اِس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 80 کی دہائی میں راجیو گاندھی کی حکومت نے فوج کے لئے 155mm والی 30 کلو میٹر مار کی410 توپوں کے ٹینڈر جاری کیے۔زیادہ بولی اور فوج کے سالار کی مُخالفت کے باوجود اِن توپوں کے ٹینڈر سوئیڈن کی ایک اسلحہ ساز کمپنی بوفورس کے نام منظور ہو گئے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اِس کمپنی کو ٹینڈر کی دوڑ میں غیر قانونی طور پر شامل کیا گیا تھا۔اصولاََ بھارتی سالارِ اعظم کی بات وزن رکھتی ہے۔اُس وقت کے آرمی چیف کرشنا سوامی سُندر جی فرانسیسی کمپنی سوفما Sofma کی توپوں کے حق تھے کیوں کہ اس کی مار بوفورس توپوں کے مقابلے میں 8 کلو میٹر زیادہ تھی۔بات ختم ہو گئی اور بوفورس توپیں بھارتی فوج میں شامِل ہو گئیں۔
ابھی راجیو گاندھی کی حکومت جاری تھی کہ اس سودے کے کچھ عرصہ بعد سوئیڈن کے ایک مقامی ریڈیو اسٹیشن سے ایک رپورٹ نشر ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بوفورس کمپنی نے بھارت سے آرڈر لینے کے لئے رشوت دی ہے۔ اُس وقت وی پی سنگھ راجیو حکومت کے وزیرِ خزانہ تھے۔وہ اس پر کوئی ایکشن لینا چاہتے تھے لیکن حکومت نے اُن کو اِس وزارت سے تبدیل کر کے دِفاع کی وزارت سونپ دی ۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے بوفورس اسکینڈل بے نقاب کر دیا۔اِس کی پاداش میں اُن کی وزارت سے چھُٹّی کرا دی گئی، بعد میں اُنہوں نے کانگریس پارٹی سے استعفیٰ دے کر حزبِ مخالف پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔اِن پارٹیوں، مثلاََ لوک دَل، انڈین نیشنل کانگریس ( سوشلسٹ) ، جَن مورچہ وغیرہ نے وی پی سنگھ کی سرکردگی میں نیشنل فرنٹ بنایا اور 1989 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔اِس طرح وی ہی سنگھ وزیرِ اعظم بن گئے۔اِن انتخابات میں راجیو گاندھی کی شکست کا سبب یہی رُسوائے زمانہ بوفورس اسکینڈل بنا۔
اِس اسکینڈل کا بنیادی کردار اوتاویو کتراچی Ottavio Quattrocchi ہے۔ 1938 میں مافیا کی دنیا میں مشہور ’’ سِسلی ‘‘ میں پیدا ہونے والااوتاویو کتراچی 1960کی دہائی میں اِٹلی کی آئل اینڈ گیس فرم Eni اور اسی کی ا نجنئیرنگ شاخ Snamprogetti کا نمائندہ بن کر بھارت آیا۔ جلد ہی اُس کا خاندان گاندھی خاندان کے بہت قریب آ گیاجب اُس کے تعلقات راجیو اور اُس کی اطالوی نژاد بیوی سونیا گاندھی سے استوار ہوئے، جو آج کل کانگریس پارٹی کی صدر ہیں ۔
1974 میں کتراچی کی ملاقات راجیوگاندھی اور سونیا گاندھی سے ایک اطالوی شخص ،مولیناری Molinari نے کروائی۔ اس کے بعد سے کتراچی اور اُس کی بیگم کی راجیو اور سونیا گاندھی سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ دونوں کے بچے بھی آپس میں گھل مل گئے۔ اُس وقت راجیو گاندھی انڈین ائر لائن میں پائلٹ تھا۔اِن کے آپس میں اطالوی کھانے اور تحائف کے تبادلے ہونے لگے اس طرح کتراچی خاندان راجیو گاندھی او ر اس کی بیوی سونیا گاندھی کے بہت قریب ہو گیا۔ اِن دو خاندانوں کے بچے بھی ایک ساتھ بڑے ہوئے۔ وزیرِ اعظم کے دفتر میں کتراچی کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ دہلی کی نوکر شاہی کے اعلیٰ سرکاری افسران اُس کی آمد پر اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہو جاتے تھے۔ گاندھی خاندان کا آخری زمانہ 1980 سے 1987، بھارت میں کتراچی کے لئے سنہری دور تھا۔وہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا سونا ہو جاتی۔اُس کے اور بھارتی سرکار کے مابین سودے کی ایک پیشکش بھی مسترد نہیں ہوئی ۔ اُس زمانے کی کانگریس پارٹی کے ایک کارکن کے بقول : ’’ ۔۔۔حتیٰ کہ کھاد کے ٹھیکے بھی Snamprogetti نے حاصل کر لےئے جِن کے بارے میں یہی سمجھا گیا کہ یہ سونیا اور راجیو گاندھی کے مفاد کی خاطر دیے گئے ہیں‘‘۔ اِن حضرت کا بھارتی وزراء پر اثرو رسوخ اِس قدر بڑھ گیا کہ اُس وقت کے مرکزی وزیرِ خزانہ وی پی سنگھ (1984-87) جو آگے چل کر وزیرِ دفاع (1987) اور پھر وزیرِ اعظم (1989-90 بنے، جنہوں نے سب سے پہلے رسوائے زمانہ بوفورس اسکینڈل کیس کی پیروی کی اور جن کے بیان کی تلخیص کو عدالتی فیصلہ میں شامل کیا گیا ۔۔۔ عاجز آ گئے ۔ کابینہ کے ایک اجلاس میں ، کابینہ کے مطابق کتراچی نے وزیرِ خزانہ سے ملنے کی مختلف ا وقات میں متعدد دفعہ کوششیں کیں لیکن وزیرِ موصوف نے اُس سے ملاقات نہیں کی۔ اس پر راجیو گاندھی نے اُنہیں کتراچی سے ملنے کی ہدایت کی ۔۔۔
کتراچی نے اپنی فرم Snamprogetti کے ذریعہ60 بڑے پراجیکٹ حاصل کیے، ان میں سے یہ بہت ہی اہم منصوبے ہیں:
*1981: Rashtriya Chemicals & Fertilizers Ltd. (RCF) کے پلانٹ کا ٹھیکہ جو ساحلی شہر سورت، گجرات میں لگایا گیا۔اسی سال گجرات ہی میں Oil and Natural Gas Corporation Limited (ONGC)، ایک ملٹی نیشنل کمپنی، کی گیس پائپ لائن بچھانے کا ٹھیکہ بھی حاصل کیا۔
*1983 National Fertilizers Limited (NFL) ضلع گونا، مدھیا پردیش میں 726,000 ٹن یوریابنانے کی صلاحیت والی فیکٹری بنانے کا ٹھیکہ جِس نے یکم جولائی 1988 سے بھر پور کام شروع کر دیا۔
*1984 Indian Farmers Fertiliser Cooperative Limited,
(IFFCO) کے بریلی، اُتر پردیش میں تین عدد پلانٹ لگائے گئے۔
*1987 Nagarjuna Fertilizers and Chemicals Limited کے دو عدد پلانٹ ،آندھرا پردیش میں لگائے گئے۔
اُس وقت یہ بات عام ہو گئی تھی کہ کتراچی کے ذریعہ بھارت کے بڑے سے بڑے ٹھیکے لئے جا سکتے ہیں۔زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ 1985 میں جب Hazira-Bijapur-Jagdishpur (HBJ) پراجیکٹ میں فرانسیسی کمپنی Spie Capag نے کتراچی کی فرم سے چند سو کروڑ روپے کم کی بولی لگائی اور وہ ٹھیکہ/پراجیکٹ کتراچی کے بجائے اِس کمپنی کو دے دیا گیا تو وزیرِ پٹرولیم ، کشور شرما کی وزارت ہی سے چھٹی کرا دی گئی۔اب اُن کا درجہ کم ہو کر کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹری کا ہو گیا۔اُدہر پی کے کول PK Kaul کو کیبینٹ سیکریٹری سے ہٹا کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھارت کا سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔بھارتی گیس اتھارٹی کے چئیرمین مین، ایچ ایس چیمہ HS Cheema کو بھی ہٹا دیا گیا۔
بوفورس اسکینڈل اس وقت منظرِ عام پر آیا جب انگریزی روزنامہ ’’ دی ہندو ‘‘ کی چِترا سُبرامینیم اور این رام کو بوفورس کے مینیجنگ ڈائریکٹر مارٹن آرڈبوMartin Ardboکی خفیہ ڈائر ی ہاتھ لگ گئی جس میں اور باتوں کے علاوہ کئی جگہ’’Q ‘‘ اور ’’ R ‘‘ کے واضح اشارے تھے۔جب تفتیشی ٹیم نے سوئس بینکوں میں رقم کی ترسیل کی چھان بین کی تو Q کی شناخت اوتاویو کتراچی Ottavio Quattrocchi سے ہوئی جو اکاؤنٹ ہولڈر تھا۔R کا بھید بھی جلد کھل گیا۔اِس سے مراد راجیو گاندھی تھا۔بھارتی CBI نے بھی اس ڈائری کی نقول حاصل کر لیں لیکن عدالت نے ان کی صحت ماننے سے انکار کر دیا کیوں کہ وہ اصل کے بجائے فوٹو کاپیوں پر مشتمل تھی۔ اس اسکینڈل کو روکنے کے لئے بھارتی حکومت نے سوئڈش ذ مّہ داروں سے مل کر معاملے کو دبانے کی اپنی سی بہت کوشش کی۔اُس وقت کی امر یکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کرکے حتمی کہہ دیا کہ ’’ یقیناََ اِس معاملے میں ’ بوفورس ‘ نے کمیشن کی رقم ادا کی ہے ، یا براہِ راست بھارتی افسران کو یا کسی بروکر کے واسطے سے 1.2 بلین ڈالر کی یہ رقم بھارتی افسران کی جیبوں میں گئی ‘‘۔
قانونی طور پر راجیو گاندھی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو سکی لیکن خود کانگریس پارٹی کے سیاست دان اِس اسکینڈل کی چھان بین کے در پے ہو گئے جِس سے راجیو گاندھی کی حکومت ہِل گئی جو بالآخر 1989کی انتخابی شکست مُنتَج ہوئی۔
- تقریباََ 4سال تک (1989-1993) اِس اسکینڈل پر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ اِس دوران 1991میں خود راجیو گاندھی نرک سُدھار گئے۔
کئی سال کی خاموشی کے بعد بالآخر کتراچی نے اپنے ایک انٹرویومیں تردید کی کہ اُس نے بوفورس سے کوئی رقم لی ہے۔ اِسی زمانے میں پہلی مرتبہ سونیا گاندھی نے بھی کتراچی سے متعلق اپنی پریس کانفرنس میں لب کشائی کی۔’’ CBI نے اُسے ملزم کہا ہے جبکہ ہم نے آج تک ایسی کوئی دستاویزات نہیں دیکھیں جس سے ثابت ہو کہ اُس نے کچھ کیا ہے ‘‘۔
لیکن اکتوبر 1999 میں بھارتیا جنتا پارٹی المعروف بی جے پی کے حکومت میں آنے کے بعد سینٹرل بیورو آف اِنویسٹی گیشن (CBI) نے کتراچی اور اس کی بیوی ماریہ کے خلاف فردِ جرم عائد کر دی ۔یہ سوئیس بینک کی 500 دستاویزات کی بنیاد پر کیا گیا۔ اِن کے شریکِ کار کے طور پر راجیو گاندھی اور کانگریس پارٹی کے کچھ اور عہدے دار وں کو بھی اِس میں شامل کیا گیا ۔فردِ جرم میں یہ بھی بتایا گیا کہ کتراچی کو A.E. Services کے ذریعہ 7 ملین امریکی ڈالروں کا 3% کمیشن کے طور پر دیا گیا۔گویا موت کے بعد بھی بوفورس کا بھوت راجیو گاندھی سے چمٹا ہی رہا۔
فردِ جرم عائد کرنے کے باوجود بی جے پی کو یقینی ثبوت نہ مِل سکے لیکن اِس کیس کو مزید تقویت اُس وقت حاصل ہوئی جب جون 2003 میں انٹرپول کے ہاتھBSI AG بینک لندن کے دو عدد اکاؤنٹ 5A5151516M اور 5A5151516L لگے جو کتراچی اور اُس کی بیگم ماریہ کے تھے۔اِن میں 3 مِلین یورو اور 1 مِلین امریکی ڈالر تھے۔ا،س پر ایک بھارتی اخبار نے لکھا : ’’ایک تنخواہ دار شخص کے بچت اکاؤنٹ میں اتنی کثیر رقم کا ہونا تجسس کا باعث ہے‘‘۔ بھارتی CBI کی باقاعدہ سرکاری درخواست پر یہ اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے۔ کتراچی نے اپنے اِن اکاؤنٹ کو غیر منجمد کرنے کی کئی ایک اپیلیں کر ڈالیں لیکن برطانوی عدالتوں نے وہ تمام کی تمام مسترد کر دیں۔یہ CBI کی بھرپور محنت اور ٹھوس ثبوت کی وجہ سے ممکن ہوا۔
2004میں کانگریس دوبارہ برسرِ اقتدار آئی۔اُس وقت من موہن سنگھ وزیرِ اعظم بنے لیکن پارٹی کی صدارت پر سونیا گاندھی بدستور قائم رہیں۔یقیناََ یہ سونیا گاندھی کا دباؤ ہو گا کہ 22 دسمبر 2005 میں بھارتی حکومت نے اِس سلسلے میں یکسر اپنا موقف بدل ڈالا۔اُس وقت کے وزیرِ قانون ہنس راج بھَردواج نے ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل آف انڈیا additional solicitor general of India بی دتّہB. Duttaکو خاص طور پر لندن بھیجا تا کہ وہ کتراچی کے وہ دو منجمد اکاؤنٹ غیر منجمد یا کھلوانے کا بندوبست کریں۔ بھارتی وزارتِ قانون نے اپنے ملک کی تحقیقاتی ایجنسیCBI سے اس سلسلہ میں سرے سے کوئی مشورہ نہیں لیا حالاں کہ کتراچی کے مذکورہ اکاؤنٹ اِسی ایجنسی کی ایماء پر منجمد کروائے گئے تھے۔
برطانوی حکام کی ایک ای میل کے مطابق : ’’ مسٹر دتّہ نے حکومتِ ہندوستان، وزارتِ قانون اور سینٹرل بیورو آف انویسٹٹیگیشن کی جانب سے دی گئی ہدایات سے آگاہ کر دیا کہ 25 جولائی، 2003 کے ممانعتی حکمنامہ سے مسٹر کتراچی کے کیس کی سماعت میں کوئی مدد نہیں مِل سکتی ‘‘۔
16جنوری 2006 کو بھارتی سُپریم کورٹ میں ایک دعویٰ دائر ہوا کہ CBI کو حکم دیا جائے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ لندن میں واقع کتراچی کے اِن اکاؤنٹ میں سے کوئی رقم اُس وقت تک نہ نکلوائی جا سکے جب تک بھارتی حکومت اس سلسلہ میں اپنا موقف واضح نہیں کرتی۔ کیوں کہ CBI کا دعویٰ ہے کہ کتراچی اُسے اب بھی بوفورس کیس میں مطلوب ہے۔ سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ بی دتّہ نے وزیرِ قانون ہنس راج کے احکامات پر عمل کیا اور CBI سے ہر گز کوئی مشورہ نہیں کیا گیا تھا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پہلے ہی 4 ملین امریکی ڈالر ان دونوں اکاؤنٹ سے نکلوا لئے گئے۔اِس اقدام سے حکومت پر بہت تنقید ہوئی اور سونیا گاندھی کی پوزیشن بھی کمزور ہو گئی۔علاوہ ازیں فروری 2004 کو دہلی ہائی کورٹ نے راجیو گاندھی اور دوسروں پر رشوت لینے کے الزامات منسوخ کر دیے۔ اس کا سبب ناکافی شواہد کے حوالے اور ثبوت بتلائے گئے جس سے یہ ثابت نہ ہو سکا کہ اِن لوگوں کو کبھی کوئی کمیشن دیا گیا۔اِس پر سونیا گاندھی نے جشن منایا : ’’ آخر 17 سال کی بدسلوکی اور بدنامی کے بعد یہ میرے لئے اور میرے بچوں راہول اور پرینکا کے لئے بہت خاص لمحہ ہے‘‘۔البتہ یہ کیس مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ دھوکہ دہی اورحکومت کو غلط طریقے سے نقصان پہنچانے کے یہ دو عدد الزامات عدالتوں میں چلتے رہے۔
دوسری طرف جب کتراچی 1993 میں سوئیس اکاؤنٹس منظرِ عام پر آ جانے کے بعد دہلی سے ملائیشیا پرواز کر گیا توملائیشیا سے کتراچی کی حوالگی کی کوششیں، بھارتی حکومت کے پاس یقینی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہو گئیں۔ 2003 میں کتراچی اٹلی واپس چلا گیا۔اِس دوران بھارتی حکومت نے انٹرپول سے بھی کتراچی کی گرفتاری کی درخواست کی اور وارنٹ نکلوا لئے۔
انٹرپول کے گرفتاری کے وارنٹ کے باوجود،جنوری 2007کے اواخر میں اوتاویو کتراچی اٹلی سے ارجنٹائین کے دارالحکومت بیونس آئرس Buenos Aires پرواز کر گیا۔ یہاں کچھ روز رہنے کے بعد ارجنٹائین اور برازیل کی سرحد پر واقع دنیا کی سب سے بڑی آبشار اور تفریحی مقام اِگواژو guazu Falls کی سیاحت کو چلا۔کتراچی کی بد قسمتی کہ اُس وقت وہاں ڈرگ اور دہشت گردی کا ہائی الرٹ نافذ تھا۔ یہاں تک تو ’’ اٹلی زندہ باد ‘‘ تھا لیکن جب کتراچی برازیل کی حدود میں واقع اِس آبشار کی سیاحت سے واپس آ نے لگا تو اِگواژو کے ہوائی اڈہ پر بھارتی درخواست پر جاری کئے گئے انٹر پول وارنٹ کی بنیاد پر ر وک لیاگیا۔ اگلے ہی روز بھا رتی تحقیقاتی ادارے CBI کو سرکاری طور پر کتراچی کی گرفتاری کا بتلا دیا گیا۔اُس وقت تک بھارت میں کانگریس اپنی حکومت بنا چکی تھی۔CBI نے پہلے تو اِس خبر کو چھپائے رکھا پھر 23 فروری کو CBI نے بیان جاری کیا کہ اُنہیں ارجنٹائین حکام نے اطالوی شہری اوتاویو کتراچی کی گرفتاری کی اطلاع دی ہے جو بھارتی CBI کے( بوفورس )کیس نمبر RC.1(A)/90-ACU.IV/SIGاور انٹرپول کے سُرخ نوٹِس نمبر A-44/2/1997 کے تحت ارجنٹائین میں 6فروری 2007 سے گرفتار ہے۔ 24 فروری کو بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دعویٰ کیا کہ کانگریس پارٹی نے ارادتاََ اِس خبر کو چھپائے رکھا تا کہ سونیا گاندھی کو جگ ہنسائی اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے نیز اِس خبر کے رد عمل کے نتیجہ میں پنجاب اور اُترکھنڈ میں ہونے والے انتخابات متاثر نہ ہو جائیں۔26 فروری کو کتراچی ضمانت پر رہا ہو گیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ارجنٹائین میں بھارتی حکومت اور CBI کی سرے سے نمائندگی ہی نہیں ہوئی۔جبکہ دوسری طرف اطالوی حکومت نے اپنے شہری کی بھرپور مدد کی۔اطالوی کونسل جنرل خود عدالت میں موجود رہا۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی کتراچی کی بھارت حوالگی یا انٹرپول کے وارنٹ کے تحت گرفتار کر کے بھارت بھیجنے کو حکومتِ اطالیہ نے مسترد کر دیا۔کیوں کہ کتراچی نے اپنے اوپر تمام الزامات کی شنوائی اطالوی عدالتوں میں کرنے کی درخواست کی ہوئی تھی۔
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کتراچی کا بیٹا ماسیمو کتراچی، سونیا اور راجیو گاندھی کے بچوں، راہول اور پرینکا گاندھی کے ساتھ کھیل کود کر جوان ہوا۔یہ آگے چل کر اپنے ان گاندھی خاندان سے قریبی تعلقات کی وجہ سے لگزمبرگ Luxembourg میں قائم کردہ Clubinvest نامی فرم کا بزنس ایڈوائزر برائے بھارت بنا دیا گیا۔اس شخص کے متعلق یہ بھی کہا گیا کہ وہ بھارت بہت زیادہ آیا جایا کرتا تھا ۔ اُس کا ایک دفتر بنگلور میں بھی تھا۔وہ اُس وقت بھی بھارت میں موجود تھا جب اُس کے باپ کو ارجنٹائنا میں فروری 2007 میں گرفتار کیا گیا۔یہ بھی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ اُس کی اپنے باپ کے بوفورس توپوں کے رشوت ستانی کیس کے سلسلے میں پرینکا، راہول اور سونیا گاندھی کے ساتھ کافی نشستیں ہوئیں۔
ارجنٹائین میں کتراچی کی گرفتاری کے وقت اُس کا بیٹا ’ ماَ سیِمو‘ کئی ماہ سے بھارت میں تھا۔وہ نئی دہلی 21 جولائی 2006 کو لفت ہانسا Lufthansa کی پرواز 761 سے پہنچا تھا۔ چونکہ بھارتی عوام کو کتراچی کی گرفتاری کی اطلاع CBI نے واقعہ کے 16دن بعد دی لہٰذا کہا گیا کہ یہ سب کتراچی کے بیٹے کو سہولت دینے کی خاطر کیا گیا ہے جو خبر عام ہونے سے ایک روز بیشتر بھارت سے چلا گیا تھا۔ یہ بھارتی حکومت، سونیا گاندھی اور خود CBI کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے جو اس کیس میں ماَ سیِموکے ملوث ہونے کی غمازی کرتا ہے۔اُس وقت کیCBI کے ڈائریکٹر وِجَے شنکرنے یہ بوگس دلیل دی کہ اصل دستاویزات کے ھسپانوی زبان سے ترجمہ کرنے میں اتنا وقت لگ گیاجو آگے چل کر سفید جھوٹ ثابت ہوا کیوں کہ وہ دستاویزات بھارتی سفارتخانے نے انگریزی زبان میں بھیجی تھیں۔ اس تاخیر نے عوام کو کتراچی کے اکاؤنٹ بحال ہونے کا بھی یاد دلا دیا۔
مزید برآں 17 فروری 2007 کو مبینہ طور پر ماَ سیِمو کو سونیا گاندھی کی بیٹی پرینکا کے ساتھ ایک تقریب میں دیکھا گیا جس کی کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹری ڈِگ وِجَے سنگھ نے سختی سے تردید کی۔مگر جب اِن سے پوچھا گیا کہ آپ کو اس بات کا کیسے علم ہوا تو ڈھٹائی سے کسی ایسی ملاقات اور تقریب ہی سے منکر ہو گئے۔البتہ عوامی دباؤ پر بھارتی ایجنسیوں نے تحقیق شروع کر دی۔ایسے اہم وقت میں کتراچی کے بیٹے کا سونیا گاندھی کی بیٹی کے ساتھ تقریب میں ایک ساتھ دیکھے جانے پر حزبِ مخالف سیاسی پارٹیاں کھلے عام الزام لگانے لگیں کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ وہاں سب ہی جانتے تھے کہ ماَ سیِمو ،راہول اور پرینکا کے ساتھ ہی پلا بڑھا ہے لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ اِس تعلق نے بھارتی حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کو متاثر نہ کیا ہو۔یوں ہی تو ارجنٹائین میں CBI اتنے اہم کیس میں نا اہل ثابت نہیں ہوئی !
اِس معاملے میں کتراچی چونکہ زیادہ فائدہ اُٹھانے والا تھا اور پھر دوسروں کو رشوتیں دینے کا موجب ثابت ہو رہا تھا لہٰذا مسلسل کانگریس پارٹی اور راجیو کی اطالوی نژاد بیوی سونیا گاندھی کی ساکھ متاثر ہونا شروع ہو گئی۔ بھارتی وزیرِ قانون ہنس راج بھی دفاعی پوزیشن پر آ گئے۔وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کی دیانت پر بھی انگلیاں اُٹھنے لگیں یوں وہ بھی مشکوک ہوئے۔
اپریل 2009 میں انٹرپول نے اوتاویو کتراچی کے نام کے سرخ وارنٹ منسوخ کر دیے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایسا خود بھارتی تحقیقاتی ایجنسی CBI کی ہی درخوست پر کیا گیا۔ CBI کی تقریباََ دو دہائیوں پر مشتمل تحقیقات کے برعکس انکم ٹیکس کی ایک عدالت میں یہ فیصلہ سنایا گیا کہ کتراچی اور اُس کے ساتھی چَدھا نے بطوربوفورس ایجنٹ410 ملین بھارتی روپے رشوت میں لیے ہیں۔
دوسری طرف 4 مارچ 2011 کو دہلی کی عدالت کے چیف مجسٹریٹ ونود یادیو نے پچیس سال پرانا بوفورس کا کیس یہ کہہ کر بند کر دیا کہ CBI ، 21 سالہ تگ و دو کے بعد بھی کتراچی کے خلاف 640 بلین بھارتی روپے بطور کمیشن وصول کرنا،قانونی طور پر ثابت نہ کر سکی ۔
بالآخر 13 جولائی 2013 میں اٹلی کے شہر میلان میں اوتاویو کتراچی اپنے ساتھ بوفورس کے رازلیے دوسرے جہان سُدھارا ۔اور یوں بوفورس اسکینڈل کا دوسرا کردار بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ بوفورس کا جِن بوتل کے اندر باہر آتا جاتا رہتا تھا کہ 25 جولائی 2017 کو یہ ایک مرتبہ اور بوتل سے باہر آ گیا ۔سوئیڈن کے چیف تحقیقاتی افسر اسٹین لِنڈسٹرام Sten Lindstrom کا ایک ٹی وی انٹرویو 25 جولائی کو نشرہوا۔یہ وہی سوئڈش افسر ہیں جنہوں نے 1987میں ساڑھے تین سو سے زائد دستاویزات بھارتی صحافی چِترا سُبرامینیم کو دیں۔وہ اُس وقت روزنامہ ’’ دی ہِندو ‘‘ میں کام کرتی تھیں ۔ اور اُنہوں نے اِسے عام کیا۔اسٹین لِنڈسٹرام کو بوفورس اسکینڈل کی تفصیلات خود بوفورس کمپنی کے چیف مارٹن Ardbo Martin نے بتائی تھیں۔
1986میں بھارتی حکومت نے توپوں کے ٹینڈر مانگے۔توپوں کی ڈیل پر دستخط ہونے سے دو ماہ پہلے راجیو گاندھی نے اپنے سوئیڈش ہم منصب کے ساتھ ایک ہوائی سفر کیا۔اِس سفر میں بوفورس کمپنی کے چیف مارٹن بھی موجود تھے۔دونوں کے درمیان معاملات طے پا گئے۔رقم کی ادائیگی کے لئے کتراچی کا انتخاب ہوا۔اور یہ ادائیگی سوئیس بینکوں کے ذریعے ہونا تھی ۔کمپنی نے توپوں کے بروکر کو 9.9 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ رقم ادا کی۔دس ملین امریکی ڈالر بھارتی نامور سیاست دانوں اور وزارتِ دفاع کے اعلیٰ افسران کو دیے۔
اِس انٹرویو نے تمام پُرانی باتیں بھی یاد دِلا دیں جب 2011 میں سوئٹزرلینڈ میں خفیہ بھارتی اکاؤنٹ میں راجیو گاندھی کے ڈھائی بلین سوئس فرانک کی موجودگی کا انکشاف ہوا اوریہ کہ سونیا گاندھی، اب راجیو گاندھی کی بیوہ کی حیثیت سے اس کے خفیہ 2.5 بلین سوئیس فرانک (جو 2.2 بلین امریکی ڈالر) کی مالک ہیں۔یہ دولت اُن بینکوں میں ہے جہاں دنیا کے رسوائے زمانہ بد عنوان ترین افراد اپنے وطن کی لوٹی ہوئی رقمیں رکھا کرتے ہیں ۔ اب یہ رقم سونیا گاندھی کے چھوٹے بیٹے کے نام ہے۔یہ اکاؤنٹ لازماََ جون 1988 سے پہلے کا ہے جب راہول گاندھی جوان ہو گیا تھا۔ یہ لوٹ کا مال اب تقریباََ 10,000کروڑ بھارتی روپے بنتا ہے۔سوئیس بینکوں میں یہ ’’کالا دھن ‘‘ خوب پھلتا ہے۔ اُس وقت لمبی مُدتت پر رکھوائی گئی 2.2 بلین ڈالر کی رشوت کی یہ رقم2009 میں ضرب ہو کر9.41 بلین امریکی ڈالر ہو چکی ہو گی، یعنی 42,345 کروڑ بھارتی روپے۔اقتصادی ماہرین کے مطابق ایسی رقوم لمبی مدت کے بانڈ میں50:50 کے تناسب میں محفوظ رکھی جاتی ہے۔لہٰذا وہ 11.19 بلین ڈالر ہوئی (بھارتی 50,355 کروڑ روپے)۔اب خواہ آپ کوئی بھی فارمولا استعمال کریں، رشوتوں میں وصول شدہ وہ2.2 بلین امریکی ڈالر آج کے تقریباََ 84,000کروڑ بھارتی روپے ہیں۔
سوئیڈش تحقیقی افسر لنڈاسٹروم کو اِس بات کا بہت افسوس ہے کہ پچھلے 30 سالوں میں بھارت سے کسی سراغ رسان، تحقیقاتی افسر وغیرہ نے اُس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔خود سوئیڈن میں یہ کیس 1988 میں ہی بند کر دیا گیا۔اب وہ ( لنڈ اسٹروم ) سوئیڈن اور بھارتی حکام پر کوئی انحصار نہیں کرتے لہٰذا جو کچھ اُنہیں معلوم ہے وہ چترا کو منتقل کر رہے ہیں۔
آج کل چوں کہ بی جے پی کی حکومت ہے لہٰذا وہ تمام مصلحتیں اور لحاظ قصّہ ء پارینہ ہوئے جن کی بنا پر ایک طرح یا دوسری طرح بوفورس کیس میں راجیو گاندھی کے ملوث ہونے کی وجہ سے کیس ہی کو داخلِ دفتر کر دیا گیاتھا۔یہ اسکینڈل بی جے پی کے نِشی کانت دُبَے نے لوک سبھا میں اُٹھایا ۔ بھارتی پارلیمان (لوک سبھا) میں جب اِن انکشافات کی با بت سوال جواب ہوئے تو سونیا اور راہول گاندھی واک آؤٹ ہی کر گئے۔بوفورس کی بوتل کا جِن ایک مرتبہ اور باہر آ گیا۔یہ بات طے ہے کہ اِس کیس کی تحقیقات صحیح خطوط پر کبھی کی ہی نہیں گئیں۔نشی کانت نے مطالبہ کیا کہ CBI دوبارہ سے اس کیس پر تحقیقات کرے اور ساتھ ہی دہلی ہائی کورٹ کے 2005والے حکم نامہ کو بھی چیلینج کر دیا۔یہ بوفورس اسکینڈل تو کانگریس اور گاندھی خاندان کی جان کو عذاب ہی ہو گیا۔اِس نے راجیو گاندھی کی کانگریسی حکومت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔کوئی خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہتا رہے یہ حقیقت ہے کہ بھارت کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی کانگریس کے ماتھے پر یہ کلنک کا ٹیکہ ہے جو دھوئے نہیں دھلتا اور مرنے کے بعد بھی راجیو گاندھی کو چین نہیں لینے دیتا۔
یہ عبرت ناک اسکینڈل ہمارے سیاستدانوں کے لئے لمحہء فِکریہ ہے۔ہمارے نبی ؑ نے بالکل درست فرمایا ہے کہ بنی آدم کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔اگر اِس کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری کی تمنا کرے گا۔اور اِس کامونہہ قبر کی مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔(صحیح بخاری۔6439 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر جنوری 2018 کے ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔
Comments