گداگری یا کاروبار۔۔۔ PDF فارمیٹ





گداگری یا کاروبار۔۔۔

تحریر شاہد لطیف

وقت کیسے بدلتا ہے۔۔۔ محلے کے ٹیوشن سینٹروں کا نام پہلے کوچنگ سینٹر ہوا پھر اکیڈمی ہو گیا۔ بالکل اسی طرح پہلے راہ چلتے کی چوری چکاری اب اسٹریٹ کرائم ہے۔ کسی کی زمین ،دُکان، پلاٹ یا مکان دھونس دھاندلی سے ہتھیانے والے قبضہ مافیا کہلاتے ہیں۔ لیکن اب بھی ایک فرق ہے: ایک آدھ پلاٹ پر قبضہ کرنے والا اب بھی قابلِ گرفت ہے لیکن منظم اور بڑے پیمانے پر یہ کام کرنے والا عوام میں تو قبضہ مافیا لیکن خواص اور حکام میں وہ عزت دار ہیں اور رئیل اسٹیٹ والے کہلاتے ہیں۔ یہ بھی زمانے کا اُلٹ پھیر ہے کہ جو چیز کل تک ہمارے معاشرے میں ایک ’ لعنت ‘ سمجھی جاتی تھی وہ آج کل منافع بخش کاروبار بن گیا ۔۔۔ فقراء و مساکین کہلانے والے اب پیشہ ور بھکاری ہیں۔ گداگری بھی منظم اور بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے۔ ایسا کرنے اور اس کاروبار میں حصہ دار یا مدد دینے والے۔۔۔ گداگر مافیا کہلاتے ہیں۔یہ کوئی مذاق نہیں آخر کراچی کی انتظامیہ، کراچی پولیس، دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟ کیا گداگری قانوناََ جُرم نہیں؟اس پر اکثر احباب یہ کہتے پائے گئے کہ اِس سے کہیں بڑے اور سنگین جرائم بھی انتظامیہ اور پولیس کے سامنے دن دہاڑے ہو رہے ہیں اِن کے مقابلے میں تو یہ بے ضرر قسم کا جُرم ہے ۔ لیکن یہ دلیل قطعی بے وزن ہے۔جب ’ ڈِگری ‘ ڈِگری ہو سکتی ہے تو جُرم جُرم کیوں نہیں ہو سکتا؟ ۔


میں 1974 سے 1997 تک حسن اسکوائر میں رہا۔ اُس زمانے میں حسن اسکوئر کی چورنگی ہوا کرتی تھی۔ایک سڑک غریب آباد، بلوچ ہوٹل اور دس نمبر لیاقت آباد ، دوسری اس کی متضاد سمت نیشنل اسٹیڈیم کی طرف، تیسری سبزی منڈی اور نیو ٹاؤن پولیس اسٹیشن کی جانب اور چوتھی کراچی یونیورسٹی اور صفورا گوٹھ کی طرف۔ہمارا فلیٹ چوتھی منزل پر تھا۔اُس کے ایک کمرے کی کھڑکی چورنگی میں کھلتی تھی ۔ میں روزانہ باقاعدگی سے دیکھا کرتا تھا کہ صبح صبح ایک بڑی وین میں پیشہ ور بھکاری اپنے ٹھیکیدار کے ساتھ آتے تھے۔ یہ ٹھیکیدار اِن کو اِن چاروں سڑکوں پر ان کی مقرر کردہ جگہوں پر بٹھاتا تھا۔اِن میں زیادہ تر بالکل جعلی اپاہج ہوتے ۔ موسم کے لحاظ سے ان بھکاریوں کو ایک ایک یا تین تین پانی کی بوتلیں دی جاتی تھیں ۔ پھر دوپہر کو اِن کو کھانا ملتا ۔اور ساتھ ہی وہ ٹھیکیدار ڈ نکے کی چوٹ اُس وقت تک کی کمائی یا اُس کا کوئی مقرر حصہ لے جاتا۔یہی کام پھر مغرب کے بعد ہوتا۔پھر رات گئے تک وہ ’’ ڈیوٹی ‘‘ پر رہتے۔اُس کے بعد وہی وین آتی جس میں یہ بھکاری اپنی ڈیوٹی ختم کر کے واپس اپنے ٹھکانے پر پہنچا دیے جاتے۔

جب 1980 کے اواخر میں یہ خاکسار پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرام سے منسلک ہواتومیں نے اِسی موضوع پر اُس وقت کے پروگرام منیجر اور مشہور ڈرامہ پروڈیوسر سید محسن علی سے بات کی کہ کیوں نہ ایک ڈرامائی شکل کا دستاویزی پروگرام ناظرین کے سامنے پیش کیا جائے!! کیوں کہ یہ محض کراچی کا مسئلہ نہیں تھا یہ تو پاکستان کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کا مسئلہ ہے۔پھر اُس زمانے میں کراچی جی پی او بم کیس بھی ہوا تھا۔اِن گداگروں کے روپ میں نہ جانے کون کون سے عناصر کراچی میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکتے تھے۔اُن کے کہنے پر میں نے اُس وقت کے دستیاب ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار حمید کاشمیری سے خود اُن کے گھر واقع صدر میں بیٹھ کریہ کام کروایا۔اِس کی پہلی قسط جو ٹی وی کی زبان میں ’ پائلٹ ‘ کہلاتی ہے تیار بھی ہو گئی۔اس میں ٹھیکیدار کی صبح ، دوپہر اور شام کی سرگرمی بھی ریکارڈ کی گئی۔لیکن۔۔۔ افسوس ہیڈ آفس سے یہ پروگرام مسترد ہو گیا۔

اب پھر ایک مرتبہ اور گزشتہ دسمبر کو پورے ایک ہفتہ میں نے صبح شام کراچی کی عوام اور خواص کی بستیوں میں اِن ٹھیکیداروں کی سرگرمیوں پر تحقیق کی۔اِن میں گذری ، زیب النساء اسٹریٹ، صدر بوہری بازار، زینب مارکیٹ، خالد بن ولید روڈ، نورانی موڑشاہراہِ قائدین، طارق روڈ، حیدری مارکیٹ، جامع کلاتھ، بروکس / چمڑا چورنگی انڈسٹریل ایریا،جوہر موڑ، ڈاکخانہ اور دس نمبر لیاقت آباد وغیرہ شامل ہیں۔پھر اپنی یہ تحقیق اور رائٹ اَپ ایک جگہ بہت مان سے شائع کرنے کے لئے بھیجی۔ لیکن بوجوہ یہ شائع نہ ہو سکی۔

بڑے افسوس کا مقام ہے کہ بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز بچوں اور خواتین کے حقوق کے لئے آئے دِن تشہیری مہمات چلاتی ہیں۔بڑے بڑے بیانات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں ۔اپنے پیسوں سے ویڈیو بنا کر میڈیا پر چلوائی جاتی ہیں لیکن عملا کیا ہوتا ہے!! صرف باتیں!! اور جو مہم چلائی جاتی ہے وہ تین دن پانچ دن یا دس دن!! بس؟؟ اسی پر بس نہیں ۔ہر ایک ادارہ کوئی بھی اصلاحی مہم دنوں سے زیادہ نہیں چلاتا اور سال کاباقی حصہ۔۔۔ اس مہم کی تیاری میں صرف ہوتا ہے۔سرطان جب پھیلتا ہے تو اُس کی شاخیں کاٹنے سے صحت نہیں ملتی کیوں کہ جڑ سلامت ہوتی ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم سرطان کی شاخیں کاٹتے رہتے ہیں اور جڑ کو چھوڑ دیتے ہیں۔پھر شفا ء کیسے ہو گی؟ ہم ہر مرتبہ اِن کالموں میں یہ بات دھراتے ہیں کہ فساد کی جڑ کو ختم کریں۔اسی طرح گداگری کے خاتمے کی مہم تب ہی کامیاب ہو گی جب مجوزہ ٹھیکیداروں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ایک یا دو ٹھیکیداروں پر ہی مقدمہ چلایا جائے تو بڑی حد تک اس لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان ٹھیکیداروں پر ہاتھ ڈالے گا کون؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
















 

Comments

Popular posts from this blog

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ