PDF فارمیٹ میں تحریر " قائمہ کمیٹیوں کی وقعت ۔۔۔"





قائمہ کمیٹیوں کی وقعت ۔۔۔

تحریر شاہد لطیف

مغربی جمہوریت میں دو ایوان ہوتے ہیں۔ ’ اَپَر ہاؤس ‘ یا ’ ایوانِ بالا ‘ اور ’ لوور ہاؤس ‘ یعنی ’ ایوانِ زیریں ‘۔ ہمارے ہاں ایوانِ بالا کا درجہ سینیٹ کو حاصل ہے۔کسی قومی معاملے کے حقائق جاننے کے لئے سینیٹ میں قائمہ کمیٹی بنائی جاتی ہے۔اسی طرح ہماری قومی اسمبلی پاکستانی جمہوریت میں ایوانِ زیریں ہے۔سینیٹ کی طرح یہاں بھی پارلیمانی کمیٹیاں بنا ئی جاتی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں ایسی کمیٹیوں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تو طاقت کا سرچشمہ کانگریس ہے جہاں پر امریکی صدر بھی مجبور ہے۔ اور ہمارے ہاں کی سینیٹ اور پارلیمانی کمیٹیوں کی ’ اوقات ‘ سب ہی کو معلوم ہے۔اس کی حالیہ مِثال قومی ائیر لائن پی آئی اے کے ایک طیارے کا جرمنی لے جا کر فروخت کرنے کا معاملہ ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اب بھی عوام کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔


ایک جرمن شہری کو پہلے تو پاکستانی عوام کی تحقیر کے لئے پی آئی اے کا سی ای او مقرر کیا گیا۔یہ پاکستانی عوام کے مونہہ پر جوتا نہیں تو پھر اور کیا تھا !! گویا پورے ملک میں سِول اور افواج میں کوئی ایک فرد بھی اِس عہدے کے لائق نہیں تھا۔کسی بھی ادارے نے اس جرمن شہری برنڈ ہلڈن کی اس ذ مہ دار عہدے پر تعیناتی سے قبل کوئی تفتیش نہیں کی۔جب چڑیاں کھیت چُگ گئیں تب عوام کو بتلایا گیا کہ موصوف ’ لیپزگ ‘ کے ہوئی اڈے کی انتظامیہ کا شریک تھا ۔ یہ وہی ہوائی اڈہ ہے جہاں ہمارا طیارہ لا وارثوں کی طرح کھڑا تھا۔اُس پر روزانہ کے حساب سے پارکنگ فیس پی آئی اے کے کھاتے میں جا تی رہی اور اُس وقت کی انتظامیہ کو اس بات کا بخوبی علم تھا۔مگر سچ یہ ہے کہ کسی اعلیٰ افسر کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔اُن کے کون سے باپ کا جہاز تھا!! وہ تو بھلا ہو متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی کا جنہوں نے سب سے پہلے 13 ستمبر 2017 کو سینٹ کے اجلاس میں یہ معاملہ اُٹھایا ۔ انہوں نے کہاکہ معلوم ہوا ہے کہ پی آئی اے کا ایک طیارہ پراسرار طور پر لا پتہ ہے۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے تکلیف دہ انکشاف کیا تھاکہ قومی ائیر لائن کے سابق جرمن سی ای او برنڈ ہلڈن نوکری سے برخواستگی کے بعد وطن جاتے ہوئے اس طیارے کو ساتھ لے گئے۔ واضح ہو کہ اب یہ حقائق سامنے آ رہے ہیں کہ موصوف کا نام تو بدعنوانی کے سلسلے میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل تھا۔ 2017 میں ہی اس سلسلے میں تحقیقات کی گئیں تو یہ باتیں سامنے آئیں ۔۔۔پی آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ ایک برطانوی فلمساز کمپنی نے یہ طیارہ مملکتِ مالٹا میں ہونے والی عکسبندی کے لئے کرایہ پر لیا تھا پھرجہاز جرمنی پہنچ گیا( کیسے؟ معلوم نہیں)۔ یہ کہ جہاز اپنی مدت 30 سال پورے کر چکا ہے اور پہلے ہی گراؤنڈ تھا ( تو وہ اُڑا کیسے؟) ۔ اس کو واپس پاکستان لانے کے لئے کافی اخراجات آئیں گے لہٰذا اسے وہیں فروخت کرنے کے ٹینڈر جاری ہو چکے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق سی ای او جرمنی ’ فرار ‘ ہو چکا ہے اوردوسرے قائم مقام ڈائریکٹرپرو کیورمنٹ جس محکمہ سے آئے تھے وہاں واپس چلے گئے۔لہٰذا پی آئی اے نے ایف آئی کو تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت کر لی۔عجیب ہی کہانی ہے۔ایک طرف وفاقی تحقیقاتی ادارہ طیارے کی گمشدگی کی تحقیق کر رہا ہے تو دوسری جانب جہازکی فروخت کے سرکاری ٹینڈر جاری ہورہے ہیں۔ 


یہ طیارہ کن شرائط پر فروخت ہوا؟ کتنی رقم حاصل ہوئی؟ یہ معاملہ ہمارے زیرِ بحث نہیں ۔ہمارا موضوع قومی معاملوں پر بننے والی قائمہ کمیٹیاں ہیں۔ ماضی میں بھی یہ کمیٹیاں بنتی رہیں لیکن نتائج عام طور پر صفر ہی نکلے۔اول تو سینٹروں اور ممبرانِ قومی اسمبلی کی اکثریت کے پیشِ نظر اپنے مفادات اور مراعات ہی رہتے ہیں اُن کو کسی بھی علاقائی اور قومی مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں ۔رہی قائمہ کمیٹیوں کے ممبران تو وہ بھی تو انہی میں سے ہوتے ہیں۔ سب خانہ پُری ہوتی ہے۔کبھی کبھارکسی نے کوئی اہم موضوع پر بات کی اور ایک کمیٹی بن گئی۔بات تو اس کمیٹی کے نتائج کی ہے۔۔۔ تفتیش پر جب طاقتور افسر شاہی طلب کی جاتی ہے تو اول تو وہ پیش ہی نہیں ہوتی اگر ہو بھی تو ویسا تعاون نہیں کیا جاتا جیسا کیا جانا چاہیے۔پھر کچھ عرصہ بعد کمیٹی ممبران اپنے گھر اور جن پر الزامات ہیں وہ بھی اپنے گھر میں نظر آتے ہیں۔تمام جوش و ولولہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ہاں البتہ ایف آئی اے اور ( آج کل ) نیب سائے کے پیچھے بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں۔پھر۔۔۔ مدعی سُست گواہ چست۔۔۔رہے عوام، وہ تو محض بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں اور جیسے چاہو ،جس طرف چاہو ہانک دو۔

سوال یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے گُن تو گاتے ہیں۔لیکن کیا کبھی جمہوریت کا ثمر عام آدمی کو مِل بھی پائے گا؟ ہمارے روز مرہ مسائل، ضلعی،صوبائی اور قومی سطح کے معاملات کیا کبھی خاطر خواہ حل ہو سکیں گے؟ شاید کبھی نہیں۔۔۔ اس لئے کہ ہمارے نمائندے ہم میں سے نہیں ۔جب تک دونوں ایوانوں میں عوام کے حقیقی نمائندے نہیں آئیں گے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی کوئی وقعت نہیں ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
یہ تحریر 9 مارچ 2019 بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔








 

Comments

Popular posts from this blog