موت کے راہی





سر اینڈرو کلڈی کٹ (Sir Andrew Caldecott (1884-1951)

انہوں نے 1907 سے ایک لمبے عرصے تک برطانوی نو آبادیاتی ملایا کی سِول سروس میں مختلف عہدوں پر ملازمت کی۔ یہاں کی زبان ، ثقافت اور لوک کہانیوں میں بہت دل چسپی لی۔وہ 1935 سے 1937 تک ہانگ کانگ کے گورنر رہے۔پھر انہیں 1937سے 1944 کے زمانے میں سیلون، موجودہ سری لنکا کا گورنر بنا دیا گیا۔سر اینڈرو کلڈی کٹ کو ساری زندگی مافوق الفطرت سے بہت دلچسپی رہی۔ یہ ان کی لکھی ہوئی دو جلدوں پر مشتمل کتاب سے ظاہر ہوتی ہے۔ روحوں کی کہانی کی پہلی جِلد انہوں نے 1944 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد شائع کی۔ مندرجہ ذیل کہانی ان کی کتاب Fires Burn Blue کی تیسری کہانی Grey Brothers سے ماخوذ ہے۔یہ کتاب 1940کی دہائی کے آخر میں شائع ہوئی تھی۔
(نوٹ: اِس کہانی کے نام و مقام فرضی ہیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


موت کے راہی

تحریر شاہد لطیف

خدا خدا کر کے ’ کَرَن پور ‘ کا ارضیاتی سروے مکمل ہوا۔اور 1883میں اِسے ایک جامع رپورٹ کی صورت انگریز گورنر کو پیش کر دیا گیا۔اس میں واضح تھا کہ انگریزی تسلط کی اِس کالونی کے پہاڑی علاقے، ا علی قسم کی کافی اور مصالحوں کے لیے نہایت موزوں ہیں۔مذکورہ سروے میں ایک ایسی محیر العقول بات بھی شامل تھی کہ ہر ایک خاص و عام ، مقامی اور انگریز چونکے بِنا نہ رہ سکا۔اُس میں لکھا تھا کہ اِس پورے خطے میں ’ نَو وَدّہ ‘ کی وادی ایک ایسا مقام ہے جہاں کا سروے نہیں ہو سکا۔وہاں کے جنگل میں رہنے والے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم میں سے کوئی اِس جگہ نہیں جا سکتا۔ وجہ پوچھی گئی تو توہم پرستی کی داستانوں کے علاوہ بس اتنا ہی علم ہو سکا کہ دلدل ، کھڑے پانی اور اس کے اطراف جنگلی بوٹیوں کے پتوں اور شاخوں کے گلنے سے جو سڑاند پیدا ہو رہی ہے وہ انسانی اور جنگلی حیات کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔انسان تو انسان کوئی چرند بھی اس کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اور اگر کوئی وہاں گیا تو واپس نہیں آ سکا۔ اصل چونکا دینے والی بات جو اِس ارضیاتی سروے ٹیم کو بتلائی گئی وہ یہ تھی کہ ایسی ہیبت ناک اور سوچ سے بعید جگہ پر صرف ایک ہی شخص ایسا ہے جو حیرت انگیز طور پر صحیح و سالم نہ صرف واپس آیا بلکہ اپنے ساتھ عجیب و غریب نظر نہ آنے والی طاقتیں بھی لایا ۔حیرت پہ حیرت اُس وقت ہوئی جب اُس شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ’ بھنور لال ‘ نام کا ایک ہندوستانی ہے اور سرکاری ملازم ہے۔ یہ آس پاس سے نباتات اور حشرات جمع کر نے کا کام کرتا ہے۔لہٰذا اگر ’ نَو وَدّہ ‘ کی وادی کا دوبارہ سروے کرایا جائے تو اُس شخص سے ضرور رابطہ قائم کریں۔ 


یہ سروے رپورٹ درجہ بدرجہ تجسس قائم کر تے ہوئے بالآخر گورنر تک پہنچ گئی۔ اس ارضیاتی سروے کی تمام عرق ریزی اور معلومات ایک طرف اور یہ عجیب و غریب پراسرار اور طلسماتی شخص ’ بھنور لال ‘ ایک طرف۔ پتا لگاکہ ماضی قریب میں وہ سرکاری ریکارڈ اتفاقی آتش زدگی کی نظر ہو گیا جس میں بھنور سے متعلق معلومات تھیں۔بس یہ ہی معلوم ہوسکا کہ اس کی تعیناتی کَرَن پور کے ریفیلز میوزیم میں معاون برائے علم الحشرات کے ہوئی تھی۔ بھنور لال کا کام دور اور نزدیک کے جنگلات سے مختلف انواع و اقسام کے حشرات کے نمونے جمع کرنا پھر زندہ یا مردہ ان کو مذکورہ میوزیم میں بھجوانا تھا۔


چونکہ اس کی تعیناتی لاٹ صاحب کے دفتر سے نہیں ہوئی تھی لہٰذا یہ وہاں کے ریکارڈ میں نہیں تھا۔البتہ جب مذکورہ میوزم تک تفتیش کا دائرہ بڑھا یا گیا تو بھنور لال کے دفتر کے ساتھیوں نے تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ وہ کم گو اور لئے دیے رہنے والا شخص تھا۔یہاں دفتر میں سب ہی کے خطوط آتے لیکن کبھی بھی اِس کے لئے نہ کوئی خط آیا نہ کوئی ملنے ہی آیا۔اور تو اور کَرَن پور میں بھی اس کا کسی سے کوئی دوستانہ نہیں تھا۔ جس وقت بھنور کو بھرتی کیا گیا وہ میوزیم کے پھیلاؤ اور توسیع کا زمانہ تھا۔ہفتوں جنگلوں ، بیابانوں اور پہاڑی علاقوں میں جا کر حشرات کی ٹوہ میں رہنا مذاق نہیں۔لیکن شایدیہ کام بھنور لال کے لئے سازگار اور موزوں تھا۔وہ کافی کافی عرصہ اِن ہی جگہوں میں پھرتا رہتا۔ میوزیم میں صرف تب آتا جب کوئی بہت کم یاب اور نادر شے یا کوئی بہت زہریلا نمونہ ہاتھ لگتا ۔ورنہ وہ اپنے راشن پانی کا انتظام وہیں سے کر تا اور وہیں سے سرکاری ڈاک کے ذریعے حشرات کے نمونے بھجوا تا۔ اُ س کے نمونوں میں پَروں والے یا اُڑنے والے کیڑوں کے علاوہ مکڑیوں کی ایسی اقسام بھی ہوتیں جو اس سے پہلے کبھی یہاں کسی نے دیکھی نہ سُنیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی۔مگر پھربتدریج عجائب گھر کے ڈائرکٹر کو اطلاعات ملنے لگیں کہ اِس کے ساتھ مہمات پر جانے والا اسٹاف اور قلی ناخوش ہیں۔اور خطرہ ہے کہ عنقریب سب ہی اُس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے لہٰذا اس سلسلے میں کَرَن پور کے مہتمم کی سربراہی میں محکمہ جاتی انکوائری پہلے ہی سے شروع ہے ۔ساتھیوں نے تفتیشی ٹیم کو یقین دلایا کہ جیسے جیسے انکوئیری آگے بڑھے گی آپ کو اِس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ 


بھنور لال کے خلاف انکوائری اِن دو باتوں پر ہو رہی تھی ۔ پہلی یہ کہ وہ حشرات الارض کی تمام تر تلاش’ نَو وَدّہ ‘ کی وادی میں کرتا ہے جو پہلے ہی بیماریوں ، شیاطین اوربھوت پریت کے لئے مشہور ہے۔ دوسری یہ کہ وادی میں حشرات کی تلاش خود کرتا ہے اور اپنے ماتحتوں اور باقی تمام ٹیم سے جبراََ سارا وقت درخت کٹوا کر بیچ جنگل کے ایک لکڑی کی کُٹیا بنواتا ہے۔ اُسے اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھجوایا گیا اور اُسے جواب دہی کے لئے ٹیم کے سامنے پیش ہونے کا حکم ہوا۔ اُس نے ٹیم کو اپنی صفائی میں بتا یا کہ ہر قسم کے حشرات کے لئے کَرَن پور اور اُس کے مضافات میں دُور دُور ’ نَو وَدّہ ‘ کی وادی سے زیادہ زرخیز کوئی اور جگہ نہیں۔اسی لئے اُس نے اس وادی کا انتخاب کیا ہے۔پھر اِن نمونوں کو سردی گرمی، بارش برسات سے بچانے کے لئے مناسب جگہ درکار ہے جس کے لئے اُس نے اپنے ماتحتوں اور مہماتی ٹیم سے درخت کٹوا کر ایک کُٹیا بنوائی ۔ انکوائری کرنے والا مہتمم معقول افسر تھا ۔ اُس نے اپنے ساتھیوں کو تجویز پیش کی کہ اُنہیں خود موقع پہ جا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چا ہیے ۔ اور سب ٹیم ممبران بھنور لال کے ساتھ ’ نَو وَدّہ ‘ وادی کی مہم میں چلیں ۔ ٹیم نے خیال کیا کہ شاید ٹیم کے سربراہ کا اس وادی کی مہم میں جانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے افسران اور گورنر پر اپنی جی داری اور بہادری کی دھاک بِٹھا سکے۔بہر حال جب یہ ارادہ بھنور لال کو بتایا گیا تو اُس نے صرف اتنا کہا کہ یہ برسات کا موسم ہے آپ لوگوں کو مُشکل پیش آ سکتی ہے۔ لیکن ٹیم تمام خطرات کو پسِ پُشت رکھ کر بھنور لال کے ساتھ نوودہ پہنچ گئی۔واقعی انہیں دو راتیں تر بتر بارش اور جونک زدہ جھاڑ جھنکاڑ میں رہنا پڑا۔یہ لوگ دو مرتبہ ایک دلدل میں بھی پھنسے۔کئی مرتبہ لمبا راستہ بھی اختیار کیا۔ ایک راستہ ایسا عجیب و غریب تھا کہ ہر طرف چھوٹی چھوٹی خار دار جھاڑیاں تھیں اور زمین کانٹوں سے پُر۔کانٹے بھی کِیلوں کی مانند۔ جن پر جوتوں کے ساتھ چلنا محال تھا۔لیکن اِن تمام تکالیف کا ثمر انہیں اگلی صبح ایک اونچی جگہ پر بنائی ہوئی کُٹیا دیکھ کر مِل گیا۔یہ دو کمروں کی کُشادہ اور آرام دہ کُٹیا تھی۔جس کی چاروں طر ف لکڑیوں کی باڑھ تھی جس کو باہم بید سے باندھا گیا تھا۔


’’ آپ لوگ اور کیا اُمید کر رہے تھے؟‘‘ ۔حُجّت تمام کرتے ہوئے بھنور لال نے ٹیم کے سربراہ سے بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا۔’’ کوئی بھی کام ادھورا نہیں چھوڑا جاتا۔جب بڑے حُجم کے نمونے آئیں گے تو یہاں کی ایک ایک انچ جگہ استعمال ہو گی‘‘۔ 


’’ بڑے حُجم کے نمونے‘‘ ٹیم کے سربراہ نے حیرت سے پوچھا۔’’ یہ کیا کہہ رہے ہو!! کِس چیز کے نمونے؟‘‘۔


’’ آپ نہ صرف بے وقوف ہیں بلکہ اندھے بھی !! مکڑیوں کے اور کِس کے !! ‘‘۔بھنور لال نے تُنک کر جواب دیا۔


’’ کیا آج صبح سورج طلوع ہو تے وقت یہ مکڑیاں آپ لوگوں کو نظر نہیں آئیں؟ سورج اُن کے پیچھے تھا جس کی روشنی میں یہ بہت واضح دکھائی دے رہی تھیں‘‘، کچھ توقف کے بعد وہ بولا ’’ انتظار کیجئے میں واپسی پر موقع ملا تو آپ کے سامنے پکڑ کر بیگ میں ڈالوں گا‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آنے والے راستے کی بجائے ایک مختلف راستے سے واپس ہوئے۔ اب کی مرتبہ سفر کوئی ایسا دشور گزار ثابت نہیں ہوا۔ تفتیشی ٹیم کے سربراہ کو اب اپنی رپورٹ لکھنے میں مزید مشکل پیش آ گئی۔اُس کے سامنے ایک نافرمان اور سرکش ماتحت کا کیس تھا جو ذہنی مریض بھی تھا۔ کَرَن پور کے اسٹاف اور دیگر انگریزی سمجھنے والے افراد کے سامنے اس کی خاصی عزت افزائی ہو چکی تھی ۔ اِس سُبکی پر اسے بہت غصہ آیا لیکن یہ ایک اعلی ظرف افسر تھا لہٰذا ا س کو ناک اونچی رکھنے کا مسئلہ نہیں بنایا۔بلکہ اُلٹا بھنور لال پر اس کو ترس آنے لگا۔بے شک اس پورے علاقے میں دور دور ایسا محنتی کارکُن نہیں تھا۔اس بات کی تو بھنور کے مخالف بھی معترف تھے۔ ٹیم کے سربراہ کے لئے بھنور لال ایک عجیب و غریب کیس تھا۔اُس کے تمام ماتحت اور ساتھی جنہوں نے اُس کے ساتھ مہمات میں شرکت کی، اس بات کے گواہ تھے کہ موصوف کو کبھی بھی ملیریا نہیں ہوا۔ اُس کے ساتھ رہنے والوں اور مہمات پر جانے والے سب کے سب کئی ایک مرتبہ اس کا شکار ہو چکے تھے۔نہ صرف بھنور لال کے ساتھیوں بلکہ کرن پور اور اُس کے مضافات میں رہنے والوں کو یقین تھا کہ اُس کے پاس کوئی مافوق الفطرت طاقت ہے۔ بہرحال ٹیم کے سربراہ نے ارادہ کیا کہ واپس پہنچ کر وہ بھنور لال کا مکمل ڈاکٹری معائنہ کروائے گا۔


یہ بھی ایک ہی رہی کہ بھنور لال کے بجائے ٹیم کے سربراہ کو پہنچتے ہی بہ حالتِ مجبوری اپنا میڈیکل کرانا پڑا ۔وہ اور اُس کی پوری ٹیم کو شدید ملیریا کا حملہ ہوا اور اُنہیں اتنا بھی موقع نہ ملا کہ وہ اپنے اس سفر کی با ضابطہ رپورٹ اعلیٰ حکام کو دے سکیں۔لگ بھگ ایک ماہ یہ سب اسپتال میں داخل رہے۔ قدرے حالت بہتر ہونے کے بعد جب ٹیم کا سربراہ اپنے دفتر گیا تو اُس کے نام آئے ہوئے خطوط میں بھنور لال کی جانب سے آیا ہوا خط بھی تھا:

ڈائریکٹر میوزیمز

میں نے اپنی ملازمت کے معاہدے کی شق نمبر 12 کے تحت اپنی ملازمت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔لہٰذا ایک مہینے کی تنخواہ واپس کرنے کا پابند ہوں۔اِس ضمن میں اپریل کے مہینے کی تنخواہ کا چیک لوٹا رہا ہوں۔
بھنور لال، بتاریخ 5 مئی، 1897 
اس خط کے ساتھ مذکورہ چیک موجود تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کَرَن پور میں کوئی بھی یہ نہ بتا سکا کہ استعفیٰ دینے کے بعد بھنور لال کہاں گیا۔یہ بھی نہایت عجیب بات تھی کہ یوں تو تقریباََ یہاں کا ہر خاص و عام اُس کو جانتا تھا لیکن دُکانداروں ، مہمات پر جانے والوں اور ماتحتوں کے علاوہ اُس کی کسی سے دعا سلام نہیں تھی۔ بحری جہازوں کے دفاتر سے بھی معلوم کروا لیا کہ بھنور لال کَرَن پور سے باہر نہیں گیا۔ ڈا ئریکٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ یہیں کہیں کسی کھیتی باڑی یا کسی فارم کی نگرانی کا کام کر رہا ہو گا۔مہینہ ہی گزرا ہو گا کہ اطلاع ملی کہ بھنور لال کو ’’ کِچُو بہ‘‘ میں ایک چھوٹی سی راشن کی دُکان پر دیکھا گیا ہے۔یہ مقام نوودہ کی وادی کے قریب تھا۔کچوبہ اور اس کے مضافات میں کھیتی باڑی اور فارموں کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔اب تو یہ واضح ہو گیا کہ بھنور لال واپس نووردہ کے جنگل کے بیچوں بیچ بنی اپنی کُٹیا میں چلا گیا ہے ۔گو کہ اب بھنور سرکاری ملازم نہیں رہا تھا کہ اُس کی نقل و حرکت کی حکومت ذمہ دار ہوتی۔تاہم ڈائریکٹر نے اپنا فر ضِ منصبی سمجھتے ہوئے پولیس کمشنر کو اُس کی ذہنی کیفیت اور موجودہ دیکھے جانے والے مقام کی نشاندہی کروا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کچوبہ، نوودہ کی وادی کے مغرب میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ۔یہ کم و بیش پہاڑی علاقہ تھا جس کی چھوٹی بڑی چٹانیں سخت پتھر کی بنی ہوئی تھیں۔اِن کے دامن میں کم گہری جھیلیں تھیں۔ ماہرین نے اب تک کے کئے گئے سروے کی بنیاد پر کئی متبادل منصوبے بنائے۔اِن میں ایک یہ بھی تھاکہ سڑاند والا کیچڑ زدہ پانی ، دلدل اور اور جھیلوں کے پانی کی نکاسی سُرنگوں کے ذریعے کی جائے ۔ بات گھوم کر منصوبے پر اُٹھنے والے اخراجات پر آ گئی۔ طے ہوا کہ آدھی رقم سرکار اور آدھی یہ کام کرنے والی کمپنی برداشت کرے گی، جس کو 99سال کے پٹے پر یہ علاقہ دیا جا رہا تھا۔باقی علاقوں میں تو کچھ نہ کچھ آبادی تھی ہی لیکن وادی نوودہ میں تو صرف ایک ہی شخص تھا جو کل تک تاجِ برطانیہ کے تحت تھا اب وہ ایک کمپنی کی نجی ملکیت میں رہ رہا تھا۔ 


بھنور لال کی یہاں سے بیدخلی کی شایدضرورت ہی پیش نہ آتی اگر ان سرنگوں کی تعمیر میں اُس کی ساکھ رُکاوٹ نہ بنتی۔ کچھ لوگ اُسے بہروپیا جانتے اور اُس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔لیکن ایک بڑی اکثریت اُس سے خوفزدہ رہتی اور اُسے پراسرار قوتوں والا مانتی جس کی دسترس میں پہاڑوں کی بد روحیں بھی ہیں۔یہ تھی بھی عجیب بات!! وہ ایک ایسے مقام پر رہ رہا تھا جہاں اگر کوئی گیا تو واپس نہ آیا۔ جانے والوں کا کیا انجام ہوا ؟یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ اکثر گورے مہم جو ، اپنے پیش روؤں کا کھوج لگانے گئے لیکن خود بھی اندر کہیں گُم ہو گئے ۔ اور یہ شخص۔۔۔ بھنور لال، ملیریا جس کو چھو نہ سکا، نمونیا کی شکایت بھی کبھی نہیں کی، حتیٰ کہ معمولی بخار میں بھی آج تک اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ دور اور نزدیک کے ’ جادوگر‘ اور ’ حکیم ‘ تک اُس سے ڈرتے تھے۔ بھنور لال کچوبہ میں اس عرصہ میں محض چندمرتبہ ہی راشن کی دُکان پر دیکھا گیا ۔ لوگوں نے بتایا کہ بظاہر اُس کی حالت بہت مخدوش تھی۔تَن کے کپڑے پھٹ کر چیتھڑے ہو رہے تھے۔داڑھی اور سر کے بال بے تحاشہ بڑھ گئے اور وہ ننگے پاؤں تھا۔ اُس نے کسی سے دعا سلام نہیں لی اور نہ ہی کسی کے سوال کا جواب دیا۔پیسہ دھیلا تو اُس کے پاس تھا ہی نہیں بھنور نے انتہائی ضرورت کی چند چیزیں اُٹھائیں اورجانے لگا۔ پہلے دو ایک دفعہ مارے خوف کے دُکاندار بولا ہی نہیں ۔اب کی دفعہ عجیب واقعہ ہو گیا۔ دُکاندار نے اُس کو اپنی دُکان میں دیکھتے ہی پہلے پیسوں کا مطالبہ کر دیا ۔اس پر بھنور لال نے پہاڑوں کی جانب دیکھا پھر اپنے جسم اور ہاتھوں کو زمین سے رگڑا اور ایک دم مکڑی کی طرح سے چل کر اپنے مونہہ سے سُرمئی رنگ کا لیس دار مواد پچکاری کی صورت دُکاندار کی جانب پھینکا۔دُکاندار ، اور وہاں موجود لوگوں کو یقین ہو گیا کہ بھنور لال کے پاس یقیناََ شیطانی قوتیں ہیں۔ 


یہ تھا وہ پس منظر کہ جس کی وجہ سے بھنور لال پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔ اب گندے پانی کے نکاسی کی سُرنگوں کا سروے و پیمائش کرانا تھا۔کارپوریشن اور ارضیاتی سروے ڈپارٹمنٹ نے اس مقصد کے لئے ایک ٹیم تشکیل دی ۔ٹیم جب کچوبہ پہنچی اور انہوں نے وہاں کے مقامی باشندوں سے مدد مانگی تو انہوں نے وہاں جانے سے صاف انکار کر دیا۔اور وضح طور پر بتا دیا کہ جب تک بھنور لال اس علاقے میں موجود ہے یہاں سے کوئی ایک مرد و زن وہاں نہیں جائے گا۔
ٹیم نامراد واپس آ گئی۔اب حکام سر جوڑ کر بیٹھے کہ کیا کریں۔قانونی تقاضہ یہ تھا کہ بھنور لال کو بے دخلی کا ایک نوٹس بھجوایا جائے۔ لیکن نوٹس کون لے کر جائے؟ بہرحال باہم مشورے سے یہ طے پایا کہ گاؤں بھر میں ایک ڈھنڈورچی بہ آوازِ بُلند اِس بیدخلی کا اعلان کرے اور ایک نوٹس اس دُکان پر چسپاں کیا جائے جہاں بھنور لال کھانے پینے کی چیزیں لینے آتا ہے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اعلان کرنے والے نے مقامی زبان میں اعلان کیااور نوٹس انگریزی میں تھا جو کوئی نہ پڑھ سکا۔ہاں ایک ہفتے بعد ہی بھنور لال گاؤں آیا۔سیدھا دُکان پر گیا۔جاتے ہی اُس کی نظر نوٹس پر پڑی ۔جونہی نوٹس پڑھا اُس کی بھنویں تَن گئیں۔اُس نے نوٹس کو غصہ سے اُتار کر پھاڑ ا اور لپک کر دُکان کے حساب کتاب کے رجسٹر سے ایک صفحہ کھینچ اُتارا۔وہیں کھڑے کھڑے دُکاندار کا قلم اُٹھایااور لکھنا شروع کیا:


پولیس کمشنر کے لئے:
’’میں بھنور لال نوودہ کا بادشاہ ہوں۔پہاڑوں کا محافظ اور جنگل کا رکھوالا۔یہاں کی وادیوں اور گھاٹیوں میں جو کچھ ہے میں اُس پر حکمران ہوں ۔
یہ کہ کَرَن پور کے گورنر نے ایک حالیہ اعلان کے ذریعے ہمیں اپنے تخت و سلطنت چھوڑ نے کو کہا ہے۔ یہ ایک بے حقیقت بات ہے جس سے ہم انکار کرتے ہیں۔
ہم یہاں اپنی سلطنت اور حکمرانی قائم رکھیں گے۔اگر اُس نے بزور قوت ہم سے ہماری سلطنت چھین کر بیدخلی کرنا چاہی تو پھرہم خبردار کرتے ہیں کہ اُس سے آہنی ہاتھوں سے نہایت بے رحمی کے ساتھ نِبٹا جائے گا‘‘۔
بھنور لال 


یہ سب لکھ کر کاغذ دُکان پر چسپاں کیا کہ نوٹس دینے والے خود ہی آ کر جواب بھی دیکھ لیں۔یہ جواب حکام تک پہنچ گیا۔بات اوپر پہنچانی ضروری تھی۔کمشنر پولیس اور چیف سیکریٹری سر جوڑ کر بیٹھے اور مسئلہ کا حل سوچنے لگے۔اِس سے پہلے چیف سیکریٹری نے پولیس کمشنر کو واضح کر دیا تھا کہ جب تک ہم بھنور لال کو اپنی تحویل میں نہیں لیتے گورنر کو یہ بات نہ بتائی جائے۔کیوں کہ اصل مسئلہ نوٹس کی تعمیل کا ہے۔ طویل سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے بعد ایک لائحہ عمل تشکیل پا گیا۔دونوں نے فیصلہ کیا کہ ایک چار رُکنی ٹیم بنائی جائے جو بھنور لال کو بہلا پھُسلا کر کَرن پُور لے آئے اور اس کا جسمانی اور ذہنی علاج کرایا جائے کہ نوٹس کا جواب اُس کی ذہنی علالت کی نشاندہی کر رہا تھا۔


اس چار رکنی ٹیم میں پہلا رُکن مجسٹریٹ تھا،دوسرا ڈاکٹر،تیسرا پولیس افسر اور چوتھا ارضیاتی سروے کا ایک کارکُن تھا۔تمام ارکان جوان، صحت مند، چاق و چوبند اور پُر جوش تھے اور ہر دم خطرات سے کھیلنے کو تیار!! ان سب کو منتخب کرنے کے بعد پولیس چیف نے انہیں اصل صورتِ حال بتا دی تھی اور وہ سب بخوشی یہ معرکہ سر کرنے کے لئے تیار تھے۔


اِن چاروں کو صرف ٹارگٹ بتایا گیا تھا۔اس کو حاصل کرنے کی حِکمت عملی انہوں نے خود بنانی تھی۔سفر پر نکلنے سے پہلے چاروں مل بیٹھے۔ڈاکٹر کے علاوہ تینوں ارکان بڑھ بڑھ کر بھنور لال کو پکڑنے کے مختلف منصوبے بنانے لگے۔ڈاکٹر اِن سب میں عمر کے لحاظ سے چھوٹا تھا۔کافی دیر تو وہ خاموشی سے بیٹھ سنتا رہا پھر رہ نہ سکا۔کہنے لگا:


’’ آپ ایک ایسے شخص کے لئے پریشان ہیں جو کمزور اور ناتواں ہے۔رپورٹوں کے مطابق وہ چلتے ہوئے لڑکھڑاتا ہے۔اُمید ہے ہم آسانی سے اُس تک پہنچ جائیں گے اور بہتر ہے کہ شام کے وقت اُس کی کُٹیا میں پہنچیں۔شام کو سردی بڑھ جاتی ہے اور وہ کمزوری کی وجہ سے یقیناََ شام کو باہر نہیں نکلتا ہو گا۔سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اُس سے زیادہ اپنی فکر کریں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خود نمونیا یا ملیریا کا شکار ہو جائیں۔اس لئے احتیاطی تدابیر بھی ساتھ رکھیں‘‘۔


اگلے دِن وہ لوگ کچوبہ گاؤں پہنچ گئے۔وہاں انہوں نے اپنے انتظامات کئے۔بگھی کو وہیں چھوڑا اور جنگل کے راستے نوودہ وادی کی طرف چلے۔5 بجے تک وہ ایک ایسے مقام پر تھے جہاں سے تقریباََ 3 فرلانگ دور ایک اونچے مقام پر کُٹیا دکھائی دی۔کچھ دیر آرام کے بعد چاروں الگ الگ فاصلے سے کُٹیا کی طرف بڑھے۔قدرے قریب ہوئے تو بالکل جھُک کر رینگنے لگے۔سورج کافی نیچے چلا گیا تھا۔اِس کی تِرچھی شعا ع نے ہر ایک چیز کے سائے مہیب کر دئیے تھے۔ ماحول میں عجیب سُکوت تھا۔ آنے والے چاروں افراد کُٹیا کے بہت قریب آ گئے تھے۔ اچانک چھ مرتبہ ایسی آواز آئی گویا کسی نے گھنٹی بجانے کی انداز میں کوئی دھاتی چیز بجائی ہے۔اس آواز کے ساتھ ہی بھنور لال کُٹیا کے دروازے پر نمودار ہوا۔اُلجھے بال، پھٹے کپڑے کاندھے پر ایک بوسیدہ کمبل لٹک رہا تھا۔ایک دُبلی پتلی کالی بلی اس کے قدموں میں لوٹ رہی تھی۔وہ آہستہ آہستہ لنگڑاتا ہوا کنارے پر آیااور بلند آواز میں کوئی منتر پڑھنے لگا۔گویا وہ عبادت کر رہا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ خاموش ہوا اور دوبارہ بلند آواز میں کہنے لگا :


’’ مجھے سفید فام لوگوں کی بو آ رہی ہے‘‘۔


مجسٹریٹ فوراََ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ساتھ ہی باقی تین ارکان بھی۔مجسٹریٹ نے بلند آواز سے کہا:


’’ ہاں یہ ہم ہی ہیں !! ہم تم سے ملنے آئے ہیں۔کیا ہم اوپر تمہارے پاس آ جائیں؟ ‘‘۔


بھنور لال کے چہرے پر ایک طنزیہ مُسکراہٹ اُبھری اور اس نے اثبات میں سر ہلایا۔اوپر پہنچ کر ڈاکٹر نے نرم لہجے میں کہا:


’’ بھنور لال !! ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم بہت بیمار اور زخمی ہو۔میں ڈاکٹر ہوں اور ہم سب تمہیں لینے آئے ہیں تا کہ کَرَن پُور میں تمہارا علاج کرائیں‘‘۔


بھنور لال ہنسا ۔ ’’ ضرور !! میں ضرور جاؤں گا مگر شاید تم سب نہ جا سکو۔میرے ’’ بھائی ‘‘ تمہارے منتظر ہیں۔وہ بھوکے ہیں‘‘۔


’’ کون بھائی؟ ‘‘ پولیس کمشنر نے فوراََ پوچھا۔


’’ سُرمئی مکڑیاں‘‘ بھنور لال آہستہ سے بولا ’’ آؤ میرے ساتھ ‘‘۔


وہ چاروں چونکے اور مونہہ ہی مونہہ میں بڑبڑاتے ہوئے بھنور لال کے پیچھے کُٹیا میں داخل ہو گئے۔ایک مناسب بڑا کمرہ تھا جس کے درمیان میں چند لکڑیاں سُلگ رہی تھیں اور ایک طرف گھاس پھونس کا بستر سا بنا ہوا تھا۔بس یہ کمرے کی کُل متاع تھی۔ایک طرف والی دیوار میں بند دروازہ تھا۔پورا کمرہ دھوئیں سے بھرا تھا۔مگر باہر کے مقابلے میں فضا آرام دہ تھی۔سورج ڈوبنے کے قریب تھا۔بلند مقام پر ہونے کی وجہ سے کُٹیا میں ابھی اُجالا تھا۔بھنور لال سیدھا بند دروازے کی طرف گیا۔اُسے کھولا اور سامنے ہٹ کر انہیں اندر آنے کی دعوت دی:


’’ آؤ!! میرے ’’ بھا ئیوں ‘‘ سے ملو !! ‘‘


یہ دوسرا کمرہ تھا جس میں کوئی روزن نہیں تھا۔اندر ملگجے اندھیرے میں زمین پر کچھ تھا۔اِن کے سامان میں کچھ موم بتیاں بھی تھیں ۔انہوں نے دو بڑی موم بتیاں روشن کیں ۔پولیس افسر اور سروے کا رُکن بتیاں پکڑے آگے تھے پھر مجسٹریٹ اور آخر میں ڈاکٹرکمرے کی طرف بڑھے جبکہ بھنور لال ایک طرف کھڑا رہا۔اندر کے منظر نے انہیں مبہوت کر دیا۔کمرے کے فرش پر ہر طرف بڑی بڑی مکڑیاں موجود تھیں۔اِن کی جسامت ناریل جتنی۔سُرمئی ٹانگیں بالوں سے بھری ہوئی تھیں۔پولیس افسر ، مجسٹریٹ اور سروے کارکن کے دل اُچھل کر حلق میں آ گئے۔وہ ساکت کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ جبکہ ڈاکٹر نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی نظریں بھنور لال سے نہیں ہٹائیں نہ ہی کمرے میں جھانکا۔اسی لئے جب بھنور لال نے جھُک کر فرش سے بُغدا اُ ٹھایاتو ڈاکٹر کو علم ہو گیا۔اب ڈاکٹر پوری توجہ سے اُس کا جائزہ لے رہا تھا۔بھنور لال بُغدا ہاتھ میں لئے سیدھا ہوا اور ابھی وہ وار کرنے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ کٹیا کے دروازے سے ایک چوہا اور اُس کے پیچھے وہی مَریل سی کالی بلی اندر داخل ہوئے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے سیدھا دوسرے کمرے کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہو گئے۔وہ دونوں مکڑیوں کو پھلانگتے ہوئے دوبارہ دروازے سے باہر آئے تو بھنور لال کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا۔ آنکھیں باہر اُبل آئیں۔وہ لپک کر آگے بڑھا اور بلی کو دبوچ لیا ۔پھر ہاتھ میں پکڑے ہوئے بُغدے سے اُسے مار ڈالا۔دوسری طرف اس حادثے نے دروازے کے قریب کھڑے ہوئے تینوں افراد کا ’ طلسم ‘ بھی توڑ دیا ۔وہ ہوش میں آئے تو دیکھا کہ کہ کمرے میں مکڑیاں لُڑھکی پڑی ہیں۔ٹانگیں ہوا میں جھول رہی ہیں اور وہ ۔۔۔واقعی ناریل ہی ہیں۔


ڈاکٹر تیزی سے آگے بڑھا اور بھنور لال کو پُشت کی طرف سے قابو کرنے لگا۔ساتھ ہی اُس نے چیخ کر ساتھیوں کو بلایا۔وہ بھی لپک کر آئے ۔ایک نے بلی پکڑ کر باہر پھینکی دوسرے نے بُغدا چھینا۔اسی وقت بھنور لال ڈاکٹر کے بازوؤں میں جھول گیا۔ڈاکٹر نے اسے فوراََ زمین پر لٹایا ۔اس سے پہلے کی وہ کچھ کرتا بھنور لال کا وقت پورا ہو چکا تھا۔


انہوں نے بھنور لال کی لاش کو دیوار کے ساتھ لِٹا کر کمبل سے ڈھانپ دیا۔خود گھاس پھوس کے بستر پر بیٹھ گئے۔سورج غروب ہو چکا تھا۔موم بتیوں کی روشنی کُٹیا میں پھیلی ہوئی تھی۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے رات میں نکلنا مناسب نہیں۔دوسرا پو پھٹے لاش کو لے کر نکلیں اور کَرَن پُور ساتھ لے جائیں تا کہ گاؤں والوں کو بھی اطمینان ہو کہ واقعی نوودہ کی وادی خالی ہو چکی ہے۔ڈاکٹر نے حتمی فیصلہ دیتے ہوئے کہا:


’’ اب بھنور لال کی مخدوش ذہنی حالت میں کوئی شک نہیں رہا۔وہ خیالی سُرمئی مکڑیوں کے فسانے سناتا رہا ۔مگر کوئی نمونہ نہیں بھجوا سکا اور خود اپنے ہاتھ سے یہ بنا بنا کر انہیں اصلی سمجھنے لگا۔بھنور لال کا قصہ ختم ہو چکا۔اُمید ہے اب گاؤں کے لوگ حکومت کی مدد کے لئے تیار ہوں گے‘‘۔


ایسی جگہ اور اس پس منظر میں نیند کسے آنا تھی۔رات کچھ آرام کیا اور ساتھ ساتھ لکڑیوں کی مدد سے ایک اسٹریچر تیار کیا۔پو پھٹے انہوں نے لاش اسٹریچر پر ڈالی اور جب وہ گاؤں پہنچے تو سورج نکل چکا تھا۔گاؤں والوں کو سارے قصے کا علم ہو گیا اور وہ چاروں لاش سمیت پہلے سے وہاں موجود سرکاری بگھی میں کَرَن پُور روانہ ہو گئے۔


لاش مُردہ خانے میں جمع کروا کر انہوں نے چیف سیکریٹری کو رپورٹ پیش کی۔چیف نے اگلے دن چاروں کو بلوا بھیجا۔


’’ گورنر تمہاری کارکردگی سے بہت خوش ہیں۔انہوں نے خصوصی انعام بھجوایا ہے اور ایک پیغام بھی کہ ڈائریکٹر میوزیم نے گورنر کو ایک بہت پُرانی مجلد رپورٹ بھجوائی ہے جس کے صفحہ نمبر 37 پر ایک اہم نوٹ آپ لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہو گا۔‘‘۔چیف نے ان چاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔


’’ آپ لوگ ابھی گورنر کے دفتر چلے جائیں۔اُنہوں نے یہ مجلد رپورٹ انتظار گاہ کی میز پر رکھوائی ہے۔گورنر مصروف ہیں لہٰذا آپ لوگ سیدھا انتظار گاہ چلے جائیں‘‘۔


چاروں متجسس گورنر کے دفتر کی انتظار گاہ پہنچے۔چاروں طرف صوفے اور کُرسیاں بچھی تھیں اور درمیان میں ایک میز پر لال جلد ولی بوسیدہ کتاب رکھی تھی۔اُس کی موٹی لال جلد پر جگہ جگہ سوراخ تھے۔ مجسٹریٹ نے کتاب اُٹھائی۔صفحہ 37 کھولا۔سامنے ہی جلی حروف میں لکھا تھا ’’ سُرمئی مکڑی ‘‘۔ عنوان دیکھتے ہی سب کے سب کتاب پر جھُک گئے۔عنوان کے بعد یہ تحریر تھی:


’’ کل ہی ہماریے پاس کچھ ’ اجزا ‘ آئے۔لانے والے نے بتایا کہ یہ سُرمئی مکڑی کے اجزا ہیں۔ مقامی لوگ اسے آدم خور مکڑی کہتے ہیں۔اس سے زیادہ وہ نہیں بتا سکا۔جب اِن اجزا کو جوڑا گیا تووہ باہم مل کر ایک ہی جسم نظر آئے۔وہ ایک اتنی بڑی مکڑی بن گئی اس پورے علاقے میں دور و نزدیک کبھی نہیں دیکھی گئی۔۔۔لیکن بہرحال یہ صرف مُردہ مکڑی کے اجزا ہیں زندہ مکڑی نہیں۔۔۔‘‘


اچانک کتاب مجسٹریٹ کے ہاتھ سے نیچے گر گئی۔ہاتھ اُٹھے کا اُٹھا رہ گیا۔اُس نے چیخنا چاہا مگر آواز اس کے حلق سے نہ نکلی۔وہ بے سُدھ کٹے ہوئے شہتیر کی طرح نیچے گر گیا ۔ایک مکڑی اُس کے بازو پر رینگ رہی تھی اور لال جلد کے سوراخوں سے کئی ایک مکڑیاں رینگتی ہوئی باقی تینوں کے جوتوں اور لباس پر چڑھ رہی تھیں ۔۔۔جن کی ٹانگوں پر باریک باریک سرمئی بال روشنی میں چمک رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اختتام 
یہ پُراسرار کہانی ماہانامہ قومی  ڈائجسٹ   میں مارچ کے   شمارے میں شائع ہوئی۔


 

Comments

Popular posts from this blog