اداکار محمد علی جِن کا ایک ایسا عالمی ریکارڈ ہے جس کو بین الاقوامی فلمی دنیا کا کوئی اداکار نہیں توڑ سکا




صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور تمغہ ء امتیاز حاصل کرنے والے

اداکار محمد علی

جِن کا ایک ایسا عالمی ریکارڈ ہے جس کو بین الاقوامی فلمی دنیا کا کوئی اداکار نہیں توڑ سکا
( 10  نومبر 1938 سے 19 مارچ 2006 )

تحریر شاہد لطیف

’’ ہم لوگ جب اپنے والد صاحب کے ساتھ کراچی سے لاہور منتقل ہوئے تو اداکار محمد علی ہمارے ہاں اکثر آتے تھے ‘‘۔یہ بات کیریکٹر ایکٹر آغا کمال ایرانی کے بڑے صاحبزادے آغا جعفر نے کہی۔ ’’ اُنہیں اورآنٹی (اداکارہ زیبا) کو بچوں سے بہت پیار تھا۔محمد علی ہمارے ہاںآنے سے پہلے میری والدہ سے جھینگے بریانی کی فرمائش ضرور کرتے۔۔۔پھر جب ہم واپس کراچی آئے تو وہ ہمارے دونوں گھروں یعنی آغا باغ اور عزیزآباد میں آ تے تھے۔آغا باغ میں تو خیر اتنی آبادی نہیں تھی لیکن عزیز آباد میں محلے والوں کا رش ہو جاتا تھا۔ لیکن مجال ہے جو کبھی محمد علی کی پیشانی پر بَل آیا ہو۔ہر کس و ناکس سے پُر تپاک ملتے تھے۔۔۔ہم بھی اُن کے لاہور والے شاندار گھر جایا کرتے تھے ۔ ماشاء اللہ کیا گھر تھا!! لیکن مکان جتنا شاندار تھا اُس سے زیادہ شاندار محمد علی کا دل تھا۔کئی مرتبہ میری موجودگی میں کراچی، حیدرآباد اور نہ جانے کِن کِن جگہوں سے لوگ محض اُن سے ملنے آیا کرتے۔ نہایت مہمان نواز تھے۔ اِن کے مکان کو دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں عالمِ اسلام کی جید شخصیات کی مہمان داری کا اعزاز اور شرف حاصل ہوا ‘‘۔

’’ ابھی محمد علی اور مصطفےٰ قریشی دونوں فلموں میں نہیں آئے تھے۔ہم تینوں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے باغ میں بیٹھا کرتے تھے‘‘ ۔یہ بات صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی پانے والے بانسری کے اُستاد، سلامت حسین نے مجھے بتلائی۔’’ ہماری محفل میںرازؔ مرادآبادی بھی شامل تھے۔محمد علی ہمارے رامپور کے رہنے والے تھے۔۔۔نہایت شریف النفس ، ہمدرد اور خلقِ خدا سے پیار کرنے والے ۔۔۔‘‘۔ پڑھنے والوں کو اِس گفتگو سے محمد علی کی عظیم شخصیت کا اندازہ ہوا ہو گا ۔

عام لوگ فن و ثقافت ، کھیل اور سیاست سے متعلق شخصیات کو دیکھتے ہی ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔میرا مشاہدہ ہے کہ اِن کی ایک بڑی اکثریت اپنے چاہنے والوں سے بہت ہی ’ بُری ‘ طرح پیش آتی ہے۔ کسی کے گھر یا پبلک مقام پر کافی کافی دیر اپنے مداہوں کے درمیان رہ کر اُن سے فرداََ فرداََ ہاتھ ملانا اور ہنس کر بات کرنا ہر گز بھی معمولی بات نہیں۔میں نے اب تک صرف 2 شخصیات کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ اتفاق سے دونوں ہی ہم نام ہیں۔ہمارے محمد علی اور عظیم ترین ۔۔۔یعنی محمد علی باکسر۔

1986 کے رمضانوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس انجیلیس میں محمد علی باکسر نے اپنےبنو ائے ہوئے اسلامک سینٹر میں نمازِ عید کے بعد بلا شبہ گھنٹوں کھڑے رہ کر ہزاروں مداہوں سے ہاتھ ملایا اور سلام دعا کی۔میں بھی اُن سے ہاتھ ملانے والا خوش قسمت ہوں۔اُس موقع کی ایک تاریخی تصویر میرے پاس ہے۔اِس سے کہیں پہلے کم و بیش یہی صورتِ حال میں نے اداکار محمد علی کے ساتھ دیکھی جب وہ قومی ہاکی اور کرکٹ کی ٹیموں کے استقبال پر کراچی ائرپورٹ آتے تھے۔ایک ہجوم محض ان سے ہاتھ ملانے آ موجود ہوتا تھا۔یہ گھنٹوں اُن سے ہاتھ ملاتے رہتے۔

عوام نے بھی جواباََ اپنے پسندیدہ فنکار محمد علی کی خوب خوب پذیرائی کی۔ اِس کا ثبوت اُن کی کامیاب فلمیں ہیں۔فلموں میں عوام کیا اور کس کو پسند کرتے ہیں اس کا عکس ہمیں نگار ایوارڈ کی صورت میں ملتا ہے۔ 

اداکار محمد علی کو 10 عدد نگار ایوارڈ حاصل ہوئے:

-1 نگار ایوارڈ بہترین سپورٹ اداکار برائے فلم ’’ خاموش رہو‘‘ (1964 )۔ مذکورہ فلم کے ہدایتکارجمیل اختر، کہانی ریاض شاہد، موسیقی خلیل احمد، گیت نگار تنویرؔ نقوی، حمایتؔ علی شاعر اور حبیب جالب۔ؔ 

-2نگار ایوارڈ بہترین اداکار برائے گولڈن جوبلی فلم ’’ کنیز ‘‘ ( 1965) ۔مذکورہ فلم کے مشترکہ فلمساز حسن طارق اور علی سفیان آفاقیؔ ،ہدایتکار حسن طارق،کہانی آفاقیؔ صاحب، موسیقی خلیل احمد جن کے معاون تصدق حسین تھے جو خود آگے جا کر اچھے موسیقار ثابت ہوئے۔گیت نگار آغا حشر ؔ کاشمیری اور حمایتؔ علی شاعر۔

-3 نگار ایوارڈ بہترین اداکار برائے گولڈن جوبلی فلم ’’ آگ کا دریا‘‘ ( 1966 )۔اس فلم کے ہدایتکار ہمایوں مرزا اور اُن کی معاونت اداکار ساقی نے کی۔کہانی آغا نذیر کاوش اور مکالمے ریاض شاہد کے۔ موسیقار جوڑی غلام نبی اور عبد اللطیف۔گیت نگار جوشؔ ملیح آبادی۔

4 -نگار ایوارڈ بہترین اداکار برائے گولڈن جوبلی فلم ’’ صاعقہ ‘‘ ( 1968 )۔یہ فلم شمیم آرا پروڈکشن نے رضیہ بٹ کے ناول سے بنائی جس کا اسکرین پلے علی سفیان آفاقی نے لکھا۔ ہدایات لئیق اختر ۔مکالے اور گیت نگار مسرورؔ انور اور موسیقار نثار بزمی۔ 

-5نگار ایوارڈ بہترین اداکار برائے گولڈن جوبلی فلم ’’ انسان اور آدمی ‘‘ ( 1970)۔ شباب پروڈکشن کے تحت اس کے ہدایتکار اور کہانی نگار شبابؔ کیرانوی، مکالمے شاطرؔ غزنوی، موسیقار ایم اشرف اور گیت نگار تسلیمؔ فاضلی اور شبابؔ صاحب خود تھے۔ 

-6نگار ایوارڈبہترین اداکار برائے سلور جوبلی فلم ’’ وحشی ‘‘ ( 1971)۔ہدایات اور اسکرین پلے حسن طارق، کہانی تنویر کاظمی، مکالمے آغا حسن امتثال، موسیقی اے حمید، گیت سیف الدین سیفؔ اور قتیلؔ شفائی۔

-7 نگار ایوارڈبہترین اداکار برائے گولڈن جوبلی فلم ’’ آس ‘‘ (1973)۔فلمساز،و ہدایتکار اور کہانی نگار علی سفیان آفاقیؔ ،موسیقار نثار بزمی ۔گیت مسرورؔ انور اور تسلیم فاضلی۔

-8 نگار ایوارڈ بہترین اداکار برائے گولڈن جوبلی فلم ’’ آئینہ اور صورت ‘‘ (1974)۔ہدایات و کہانی شبابؔ کیرانوی، مکالمے ریاض الرحمن ساغر۔موسیقی ایم اشرف، گیت نگار قتیل ؔ شفائی، مسرور ؔ انور اور تسلیمؔ فاضلی۔

-9 نگار ایوارڈ بہترین اداکار برائے سلور جوبلی فلم ’’ حیدر علی ‘‘ ( 1978 )۔مذکورہ فلم کے ہدایتکار مسعود پرویز اور موسیقار خواجہ خورشید انور، کہانی اور مکالمے ریاض شاہد اور گیت قتیلؔ شفائی۔

10 ۔ 2 عدد فلموں پر دیا جانے والا سُپر پرفارمنس ایوارڈ 1984برائے گولڈن جوبلی فلم ’’ دوریاں ‘‘ (1984) ایور نیو پکچرز کی اس فلم کے ہدایتکار حسن عسکری، کہانی بشیر نیاز، گیت سعید گیلانی اور موسیقار روبن گھوش۔دوسری ڈائمنڈ جوبلی فلم ’’ بوبی‘‘ (1984)۔فلمساز و ہدایتکار نذر شباب، موسیقی امجد بوبی۔

اداکار محمد علی کو 1984 میں صدر ضیاء الحق نے صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی دیا۔اسی سال انہیں تمغہ ء امتیاز بھی عطا ہوا۔ فنکار برادری میں محمد علی ہی وہ واحد فنکار ہیں جن کوتمغہء امتیاز سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ انہیں 2000 میں ملینیم لیجنڈ اسٹار گریجوئٹ ایوارڈ، الیاس رشیدی گولڈ میڈل 1998، نگار لائف ٹائم ایچیو منٹ ایوارڈ 1998، نگار ملینیم ایوارڈ 2000 ، بولان ایوارڈز، اسکرین لائٹ ایوارڈز، جامعہ پنجاب کی جانب سے کلچرل ایوارڈ ، دبئی کا النصر ایوارڈ اور بھارت سے نوشاد ایوارڈ سمیت دیگر ایوارڈ حاصل ہوئے۔

اداکار محمد علی کو قوم سے کتنا پیار تھا اس کی چند مثالوں کا تو میں بھی چشم دید گواہ ہوں۔60 کے اواخر اور 70 کی دہائی میں ہماری قومی ہاکی ٹیم اور کرکٹ ٹیم جب فاتح کی حیثیت سے بیرونِ ملک سے واپس کراچی آتی تھی تو اداکار محمد علی ( اور کبھی اُن کے ہمراہ زیبا)خاص طور پر لاہور سے قومی ٹیموں کے استقبال کے لئے آتے تھے۔اُس زمانے میں میرے والد محکمہ صحت ، کراچی ائرپورٹ میں تھے اور ہم وہیں ائر پورٹ کے بالکل قریب سرکاری مکان میں رہتے تھے۔میں نے اداکار محمد علی کو ایسے پس منظر میں بے حد جوش و ولولے کے ساتھ پُرتپاک استقبال کرتے دیکھا ہے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک شخص لاہور سے کراچی ہوائی جہاز میں محض قومی ٹیموں کے استقبال کو آئے۔ 

اب آتا ہوں اُس چونکا دینے والی بات پر جس کو سُن کر میں بھی انگشت بہ دندان رہ گیا تھا۔علی سفیان آفاقؔ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔پاکستانی فلمی مورخوں میں یہ بہت معتبر ہیں۔ مجھے 2009 میں آفاقیؔ صاحب نے بتایا کہ اداکار محمد علی کا ایک ایسا ’ ریکارڈ ‘ بھی ہے جِس کو کیا ہالی ووڈ، کیا بمبئی، کیا آسٹریلیا، کیا ہانگ کانگ ،کیا لندن اور کیا لاہور ۔۔۔ فلمی صنعت کا کوئی بھی فنکار نہیں توڑ سکا۔ ریکارڈ یہ ہے کہ عکس بندی کے دوران انہوں نے اپنے کھانے پینے، ملبوسات، ٹائی جوتے وغیرہ کا خرچہ کبھی پروڈکشن کے بجٹ سے نہیں لیا ۔ اور تو اور وہ اندرون ملک اور بیرونِ ملک فلم کی عکس بندی کے لئے تمام سفری اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ اِس میں غیر ممالک میں ہوٹل اخراجات بھی شامل ہیں۔ یہ اِس عظیم شخصیت کا وہ پہلو ہے کہ جس کا انہوں نے کبھی تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ دوسرے اس کا چرچا کریں۔

اداکار محمد علی کی فلمی اور سماجی خدمات دیکھتے ہوئے مارچ2010 میں نگار ویکلی نے بڑے تُزک و احتشام کے ساتھ محمد علی یادگار نمبر شائع کیا ۔

فلمی صنعت سے عملاََ ریٹائرمنٹ کے بعد جب اُن سے فلموں سے کنارہ کرنے کا سبب پوچھا جاتا تو وہ یہی کہتے : ’’ ہم لوگ جس ماحول اور پس منظر میں کام کرتے تھے وہ سب اب بدل چکا ہے‘‘۔

اداکار محمد علی کی کوشش ہوتی کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی فلم میں انصاف کے ساتھ کام کریں لیکن 1975 میں ایسا بھی ہوا کہ اُن کی 23 فلمیں نمائش کے لئے پیش ہوئیں۔اس سے پہلے 1974 میں انہوں نے 14 فلموں میں کام کیا۔اسی طرح 1982 میں اُن کی 13 فلمیں ریلیز ہوئیں۔’’ کرائے کے قاتل‘‘ ( 1989 ) اُن کی آخری ریلیز شدہ فلم ہے جس کے ہدایتکار ایس سلیمان تھے۔

اداکار محمد علی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔اداکار تو اور بھی گزرے ہیں لیکن جو چیز اداکار محمد علی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی خلقِ خدا سے محض اللہ واسطے دل سے اچھا برتاؤ تھا ۔میں اب تک جن لوگوں سے ملا ہوں جنہوں نے اداکار محمد علی کو قریب سے دیکھا ہے، وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بڑے فنکار تو تھے ہی لیکن اُس سے کہیں زیادہ بڑے اِنسان تھے۔یہ اُن لوگوں سے پوچھئیے جن کاماہانہ راشن پانی اِن کے ہاں سے باقاعدگی لیکن خاموشی کے ساتھ مہیا کیا جاتا تھا۔

ہماری فلموں کا یہ درخشندہ ستارہ 19 مارچ 2006 کو غروب ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر نگار ویکلی کی 16 مارچ 2019 کی اداکار محمد علی کے خصوصی ایڈیشن میں شائع ہوئی۔





 

Comments

Popular posts from this blog