تذکرہ سدا بہار موسیقاروں کا :





فلمی حکایتیں
تذکرہ سدا بہار موسیقاروں کا 

تحریر  وتحقیق شاہد لطیف

کلیا ن جی ویر جی شاہ، آنند جی ویر جی شاہ المعروف کلیان جی آنند جی:
کلیان جی آنند جی کے نام کو میں 60 کی دہائی سے جانتا تھا تب ریڈیو پاکستان سے بھارتی فلمی گیت بھی نشر ہوتے تھے جنہیں میں بہت شوق سے سُنا کرتا اوراِن کے اکثر گیت مجھے زبانی یاد تھے۔ پھر جب خاکسار 80کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے وابستہ ہوا تو موسیقی کے کئی ایک پروگرام موسیقار کریم شہاب الدین کے ساتھ کئے۔یہ اکثر مجھ سے کلیان جی آنند جی کا ذکر کیا کرتے تھے کہ مشہور ہونے سے پہلے اِن دونوں بھائیوں اور کریم بھائی کی ایک ہی جگہ بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ کریم بھائی بمبئی میں آغا خان آرکیسٹرا کے ذمہ دار تھے اور کلیان جی بھی موسیقی سے لگاؤ رکھتے اور سنجیدگی سے فِلمی دنیا میں آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ کریم بھائی بتایا کرتے تھے کہ اِن دونوں بھائیوں کو موسیقی کا بہت شوق تھا ۔ کلیان جی نے بمبئی میں الیکٹرانک ساز ’ کلے وائیلن‘ clavioline بجانے میں مہارت حاصل کی جِس کے بارے میں اکثر لوگوں کو آگاہی نہیں تھی۔ پھر کلیان جی نے ’’ کلیان جی ویر جی اینڈ پارٹی ‘‘ نام کا میوزک گروپ بنایا جو بمبئی اور دوسرے شہروں میں بھی موسیقی کے پروگرام کیا کرتاتھا۔ کلیان جی آنند جی اور کریم بھائی کے مابین سب سے بڑیقدرِ مشترک میوزک بینڈتھی۔کریم بھائی سے میں اکثر کلیان جی آنند جی کے بارے میں سوال جواب کیا کرتا تھا وہ بھی بہت شوق سے پرانی باتیں کیا کرتے ۔انہوں نے بتایا کہ بمبئی کی فلمی دنیا میں کلیان جی 1952میں گلوکار اور موسیقار ’ ہمنت کُمار‘ کے معاون کی حیثیت سے آئے۔1954 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ ناگن‘‘ کی موسیقی میں اِسی ’ کلے وائیلن‘ سے بین کی آواز نکالی گئی۔

مذکورہ فلم میں راجِندر کرشن کا لکھا اور لتا کی آواز میں سُپر ہِٹ گیت ’ من ڈولے میرا تن ڈولے‘ میں کلیان جی نے بین کی آواز او ر ’روی ‘ نے ہارمونیم بجایا۔دونوں آگے چل کر بہت اچھے موسیقار ثابت ہوئے۔کلیان جی ویر جی شاہ کو موسیقار کی حیثیت سے پہلی فلم 1958 میں ’’ سَمراٹ چندرَا گُپت‘‘ مِلی ۔ کچھ عرصہ بعد چھوٹے بھائی آنند جی بھی اِن کے ساتھ شامل ہو گئے۔

کلیان جی آنند جی کی پہلی بڑی کامیابی 1960 میں فلم ’’ چھلیا ‘‘ سے مِلی۔یہ ہدایتکار من موہن ڈیسائی کی پہلی فلم تھی۔اس فلم کی ایک اور دلچسپ بات لکشمی کانت پیارے لال کا موسیقار کلیان جی آنند جی کے معاونین کی حیثیت سے کام کرنا بھی ہے۔ مذکورہ فلم کے تمام گیت قمر جلال آبادی نے لکھے جو سب ہی سُپر ہِٹ   ہوئے۔جیسے: ’’ میرے ٹوٹے ہوئے دِل سے کوئی تو آج یہ پوچھے۔۔۔‘‘، ’’چھلیا میرا نام۔۔۔‘‘، ’’ڈَم ڈَم ڈِگا ڈِگا۔۔۔‘‘۔

اِن موسیقار بھائیوں کو 1968 میں پہلا فلم فئیر ایوارڈ فلم ’’ سرسوتی چندرا‘‘ میں مِلا۔اِس فلم کے تمام ہی گیت مقبولِ عام ہوئے جو اندیور نے لکھے،جیسے: ’’ چنچل سا بدن چنچل چِتون۔۔۔‘‘، ’’چھوڑ دے ساری دنیا کسی کے لئے۔۔۔‘‘۔70 کی دہائی کلیان جی آنند جی کی محنتوں کا پھل لائی۔مشہورِ زمانہ فلمیں: ’’ پورب اور پچھم‘‘ ، ’’ سچا جھوٹا‘‘، ’’سفر‘‘ ، ’’ زنجیر‘‘، ، ’’ مقدر کا سکندر‘‘ اور ’’ ڈان‘‘ وغیرہ۔

فلم ’’ کورا کاغذ‘‘ میں بہترین موسیقار کا دوسرا فلم فیئر ایوارڈ مِلا۔ 

کلیان جی آنند جی نے جب بمبئی کی فلمی دنیا میں موسیقار کی حیثیت سے قدم جمائے اُس وقت ایس۔ڈی۔ برمن، ہمنت کمار، مدن موہن، نوشاد علی، شنکر جے کشن اور روی وغیرہ جیسے نامور موسیقار فعال تھے۔اِن میں اپنی جگہ بنانا مشکل کام تھا۔اِن کی محنت اور قسمت نے ساتھ ساتھ کام کیا۔ایکشن فلموں کے گیت بنانے میں اِن کی بہت بڑی پہچان ہو گئی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلوکار مکیش کے بہترین گیتوں کی ایک بڑی تعداد کلیان جی آنند جی کی بنائی ہوئی طرزیں ہیں، جیسے: ’’ زباں پہ درد بھری داستاں چلی آئی ہے۔۔۔‘‘۔ ’’وقت کرتا جو وفا آپ ہمارے ہوتے۔۔۔‘‘۔’’مجھ کو اِس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو۔۔۔ ‘‘، ’’ میں تو اِک خواب ہوں۔۔۔‘‘، ’’ہم نے تجھ سے پیار کیا ہے اتنا۔۔۔‘‘،’’دیوانوں سے مت پوچھو۔۔۔‘‘،’’چاند آہیں بھرے گا۔۔۔‘‘ اور’’کیا خوب لگتی ہو، بڑی سُندر دِکھتی ہو۔۔۔‘‘۔

اُن کی آخری فلم ’’ اُلفت کی نئی منزلیں‘‘(1994) ہے۔30 جون1928 کو پیدا ہونے والے کلیان جی 24 اگست 2000 کوآنجہانی ہو گئے۔ 2 مارچ 1933 کو اُن کے چھوٹے بھائی آنند جی پیدا ہوئے اور غالباََ ابھی بقیدِ حیات ہیں۔ 2005میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست الاباما کے شہر برمنگھم میں خوش قسمتی سے میری موجودگی میں عظیم موسیقار آنند جی انڈیا سینٹر میں تشریف لائے ۔ میرے مطابق بھارتی فلمی صنعت میں جو پزیرائی کلیان جی آنند جی کو ملنا چا ہیے تھی وہ اِن کو کبھی نہیں مِلی۔ ایسا کیوں ہوا، اور اِس بات کو کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے؟ اِس موضوع پر پھر کبھی بات ہو گی۔

روی شنکر شرما المعروف ’روی ‘ ( 3 مارچ 1926 سے 7 مارچ 2012):
میٹھی اور یادگار طرزیں بنانے والے موسیقار ’روی ‘نے موسیقی کی رسمی یا کلاسیکی تعلیم کسی سے نہیں لی۔اپنے والد کو بھجن گاتے غور سے سُنا اور پھر خود ہی سے ہارمونیم بجانا شروع کر دیا اور اِس میں مہارت حاصل کر لی۔اِن کو گانے کا بہت شوق تھا لہٰذا فلمی دنیا میں پلے بیک سنگربننے کے لئے بمبئی آ گئے۔یہاں 1952 میں یہ، گلوکار و موسیقار ہمنت کُمار کے حلقے میں آ گئے جنہوں نے روی کو ’کورس ‘کی آوازوں میں شامل کر لیا۔ہمارے ہاں تو ’’ سب چلتا ہے‘‘ کا فارمولا ہے جب کہ بھارت میں اُس وقت بھی کورس تک کے لئے آوازوں کا بڑا کڑا پیمانہ ہوا کرتا تھا۔جہاں ضرورت پڑی، روی نے ہمنت کمار کے لئے ہارمونیم بجایا۔ روی جدو جہدِ مسلسل کے قائل تھے۔لوگوں سے ملنا ملانا اور بھاگ دوڑ رنگ لائی۔ ان کی ملاقات فلمساز ’ دیو اندرا گوئل ‘ سے ہوئی جو اپنی آنے والی فلم میں کسی نئے موسیقار کو لینا چاہتے تھے ۔ روی کی قسمت کا تارہ چمکا اور 1955میں گوئل صاحب نے ان سے موسیقار کی حیثیت سے فلم ’ ’وچن‘‘ کا معاہدہ کیا جِس سے روی کی کایاپلٹ گئی۔اس فلم کے چند گیت تو امر ہو گئے، جیسے : ’’ محمد رفیع اور آشا کی آوازوں میں ’’اِک پیسہ دے دے۔۔۔‘‘ آشا بھونسلے کی آواز میں لوری: ’’ چندا ماما دور کے۔۔۔‘‘ یہ گیت پریم دھوَن نے لکھے۔اِس لوری کی سادالیکن نہایت پر اثر طرزاس کو اب تک مقبول رکھے ہوئے ہے۔اپنی اولین فلم ہی میں انہوں نے اپنی دھنوں سے فلم بینوں کو مسحور کر دیا۔یہ وہ دور تھا جب فلم کو کامیاب کروانے میں فلمی گیتوں کا بہت اہم کردار ہوتا تھا۔ فلم ’’ وچن‘‘ نے روی کو کامیاب موسیقاروں کی صف میں شامل کر وا دیا۔روی اُن موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے آشا بھونسلے کو آشا بھونسلے بنایا۔جیسے راگ درباری میں ساحرؔ کاگیت: ’’ تورا من درپن کہلائے ۔۔۔‘‘ اِسی طرح مہندر کپورکو مقبول کرانے میں اِن کا بڑا ہاتھ ہے۔جیسے فلم ’’ گمراہ‘‘ ( 1963) میں ساحرؔ کا لکھا گیت ’’ چلو اک بار پھر سے۔۔۔‘‘ مذکورہ گیت پر مہندر کپور کو فلم فیئر ایوارڈ مِلا۔

1960کا سال روی کے لئے مزید ترقی اور مقبولیت لے کر آیا جب فلمساز گرودت کی فلم ’’ چودھویں کا چاند‘‘ نے پاک و ہند میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدیے۔شکیلؔ بدایونی کے لکھے 10مقبول گیتوں میں سے 5 سُپر ہِٹ رہے۔جیسے: محمد رفیع کی آواز میں یہ گیت:’’ چودھویں کا چاند ہو۔۔۔‘‘، ’’ ملی خاک میں محبت۔۔۔‘‘، ’’ یہ لکھنؤ کی سر زمین۔۔۔‘‘،’’ میر ایار بنا ہے دولہا۔۔۔‘‘،’’ یہ دنیا گول ہے۔۔۔‘‘۔واضح ہو کہ فلمساز ، ہدایتکار اور اداکار گرودت نے اِس فلم سے پہلے فلم’’ کاغذ کے پھول‘‘ بنائی تھی۔ یہ بھارت کی ایک خوبصورت ’آرٹ‘ فلم تھی، بعض فلم پنڈت اس کو آرٹ فلموں کی ’ ماں‘ بھی کہتے ہیں۔ لیکن مذکورہ فلم بری طرح ناکام رہی۔اب ’’ چودھویں کا چاند‘‘ نے گرودت کے پچھلے نقصانات کی تلافی کر دی ۔ اُس زمانے میں جب کہا جاتا کہ فلاں فلم کامیاب رہی تو گویا یہ براہِ راست فلم کے موسیقار کا شکریہ ادا ہو رہا ہوتا تھا۔اِس فلم نے محمد رفیع ، شکیل بدایونی اور فلم کے آرٹ ڈائریکٹر بیرن ناگ کو فلم فیئر ایوارڈ دلوائے لیکن خود روی صاحب اِس سے محروم رہے۔ کیوں؟ اِس کا علم نہیں ! بہرحال فلم ’’ چودھویں کا چاند‘‘(1960) سے روی سکہ بند موسیقار ہو گئے۔روی صاحب نے 50اور60کی دہائیوں میں اپنی اہمیت ثابت کی لیکن 1970کے بعد سے غیر فعال ہو گئے ۔پھر 1982میں انہوں نے دوبارہ فلمی صنعت میں شمولیت اختیار کی اور فلم ’’ نکاح‘‘ کی صورت میں ایک سُپر ہِٹ فلم عوام کو پیش کی ۔ سلمیٰ آغا کی آواز میں حَسن کمال کا لکھا گیت ’’ دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔۔‘‘اپنے دور کا ایک مقبول ترین گیت تھا۔

روی نے 70 سے زیادہ فلموں کی موسیقی مرتب کی جِن میں بہت سی سُپرہٹ ہوئیں ۔80کی دہائی میں چند ہندی(اُردو) اور 12 ’ ملیالم ‘ زبان کی فلمیں کیں جِن میں زیادہ تر مقامی سطح پر سُپر ہٹ رہیں۔ملیالم فلموں میں پہلے سے ’ رویندرن ماسٹر‘ نام کے موسیقار موجود تھے۔ملتے جلتے ناموں سے بچنے کی خاطر یہاں کے فلمسازوں نے روی صاحب کو’ بمبئی روی‘ کے نام سے پکارنا شروع کیا ۔ اِن فلمسازوں کے لئے موسیقار روی کبھی اجنبی نہیں رہے تھے ۔ جنوبی ہند والے، بمبئی میں اِن سے ’’ گھونگھٹ‘‘،’’گھرانہ‘‘،’’ عورت‘‘،’’سماج کو بدل ڈالو‘‘  ، ’’مہربان‘‘،’’ دو کلیاں‘‘،’’ بھروسہ‘‘ اور ’’ خاندان‘‘ کے گیت بنوا چکے تھے۔ 
روی کے گیتوں کی مقبولیت دیکھئے کہ آج بھی اکثر ہمارے ملک میں بارات کے ساتھ بینڈ والے فلم ’’ آدمی سڑک کا‘‘ (1977 )میں ورما ملک کا لکھا اور محمد رفیع، خود روی صاحب اور ساتھیوں کی آوازوں میں گیت: ’’ آج میرے یار کی شادی ہے۔۔۔‘‘ کی دُھنبجا تے ہیں۔


خوشی کی گھریلو محفلوں میں فلم ’’ وقت‘‘ (1965)میں منا ڈے کی آواز میں ساحرؔ کا لکھا گیت ’’ اے میری زہرہ جبیں تجھے معلوم نہیں۔۔۔‘‘کیا جوان کیا بوڑھے، اب بھی اکثر گاتے اور گنگناتے پائے جاتے ہیں۔ خاکسار ، جو خود بھی موسیقی کا شوق رکھتاہے اور کئی ساز بجا لیتا ہے تو۔۔۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں خوشی کی ایک محفل میں ایک بزرگ نے مجھ سے یہی گیت سنانے کی فرمائش کی ۔ گیت کیا سنایا، محفل کا تو رنگ ہی بدل گیا۔موسیقار روی بے شک اپنی سدا بہار دھنوں کی وجہ سے آج بھی ہم میں موجود ہیں ۔ 

روشن لال ناگرتھ المعروف روشن 14جولائی 1917سے 16نومبر 1967:
گوجرنوالہ میں پیدا ہونے والے روشن نے کم عمری ہی میں لکھنؤ میں واقع،مشہورِ زمانہ بھاتکنڈہ میوزک انسٹیٹیوٹ میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی اور’ ایسراج‘ بجانے کے ماہر ہو گئے۔یہ ساز ’ دلربا‘ سے ملتا جلتا ہے۔ انشاء اللہ جلد پاک و ہند کے سازوں کا بھی ذکر کیا جائے گا۔1940کے اوائل میں آل انڈیا ریڈیو ، دہلی کے موسیقی کے پروگرام پروڈیوسر خواجہ خورشید انورصاحب نے روشن کو ’ ایسراج‘ کے سازکار کی حیثیت سے اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر رکھ لیا۔ اتفاق دیکھئے کہ آگے چل کر دونوں حضرات نے موسیقی کی دنیا میں اپنا نام و مقام پیدا کیا۔ خواجہ صاحب بمبئی کی فلمی دنیا میں آ گئے تو روشن بھی وہاں اُن کے معاون ہو گئے۔روشن کی قسمت ’ کیدر ناتھ شرما‘ کی صورت میں کھُلی جو اُس دور کے نامور فلمساز، ہدایتکار، اسکرین رائٹراور فلمی گیت نگار تھے۔انہوں نے اپنی فلم ’’ نیکی اور بدی‘‘ (1949) کی موسیقی کے لئے روشن کو منتخب کیا۔فلم تو ناکام رہی لیکن اگلے سال شرما صاحب نے تقسیم کاروں کی مخالفت کے باوجود فلم
’’ بانورے نین‘‘ میں روشن کو ہی موسیقار رکھا ۔ مذکورہ فلم کا راگ درباری کا نڑا میں مکیش کی آواز میں کیدر ناتھ کا لکھا یہ گیت: ’’ تیری دنیا میں دل لگتا نہیں۔۔۔ ‘‘ آج بھی اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے؛ اور گیتا رائے (گیتا دت) اور مکیش کی آواز میں یہ لازوال گیت’’ خیالوں میں کسی کے اس طرح آیا نہیں کرتے۔۔۔‘‘ مکیش کے مقبول دوگانوں میں ہے۔50 کی دہائی میں روشن نے محمد رفیع،مکیش اور طلعت محمود کے لئے بے مثال طرزیں بنائیں۔جیسے فلم ’’ملہار‘‘ میں مکیش کے یہ گیت: ’’ دل تجھے دیا تھا رکھنے کو۔۔۔‘‘ ، ’’ تارہ ٹوٹے دنیادیکھے۔۔۔‘‘۔فلم ’’ انہونی ‘‘ میں طلعت محمود کی آواز میں علی سردار جعفری کا گیت: ’’ میں دل ہوں اک ارمان بھرا۔۔۔‘‘۔

روشن نے اندیور کے اندر کے گیت نگار کو پہچانا اور اُن سے بہترین کام لیا۔ یہ روشن ہی تھے کہ جِن کی وجہ سے اِن پر فلموں کی برسات ہونے لگی۔موسیقی کے پنڈتوں کے نزدیک لتا اور موسیقار مدن موہن کے اشتراک سے جیسے گیت تخلیق ہوئے ویسا ہی معاملہ روشن اور لتا کے ساتھ بھی ہے۔لتا کے مقبول ترین مدھر گیتوں میں روشن کا ایک اعلیٰ مقام ہے۔اِن گیتوں میں بانسری اور سارنگی کا بہت خوبصورت استعمال کیا گیا ہے۔ روشن کی موسیقی میں لتا کے مقبول گیت : ’’ فلم ’’ نوبہار‘‘ (1952 )میں ستی ایندرا کا لکھا گیت: ’’اے ری میں تو پریم دیوانی۔۔۔‘‘،فلم ’’ ملہار‘‘ (1951) کا ایندیور کا لکھا گیت ’’ گرجت برست بھیجت آئے لو۔۔۔‘‘ ، فلم ’’ برسات کی رات‘‘ (1960 ) میں ساحرؔ کا گیت’’ مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا۔۔۔‘‘، فلم ’’ ہم لوگ‘‘ (1951) میں اُدے کُمارکا لکھا گیت ’’بہے انکھیوں سے دھار، جیا میرا بے قرار ۔۔۔‘‘اور’’ چھُن چھن چھن باجے پائل موری۔۔۔‘‘ ، فلم ’’ آرتی‘‘ (1962 ) میں مجروحؔ سلطان پوری کا یہ گیت ’’ کبھی تو ملے گی کہیں تو ملے گی۔۔۔‘‘، فلم ’’ بہو بیگم‘‘ (1967)میں ساحرؔ کا گیت ’’ دنیا کرے سوال توہم کیا جواب دیں۔۔۔‘‘، فلم ’’ اجی بس شکریہ‘‘ (1958) میں فاروق قیصر کالکھا گیت ’’ ساری ساری رات تیری یاد ستائے۔۔۔‘‘

میرے خیال میں یہ وہ زمانہ تھا( 50اور60 کی دہائی)جب مختلف وجوہات کی بنا پر موسیقار شنکر جے کشن کم کام کر رہے تھے ۔ نوشاد علی بھی اب پہلے کی طرح فعال نہیں رہے تھے ایسے میں روشن کی مدھر دھنوں نے فلمسازوں اور تقسیم کاروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ یوں روشن کی قسمت اور محنت نے اپنا رنگ دکھا دیا۔

موسیقار روشن کے بیٹے راکیش روشن لال ، بمبئی فلمی صنعت کے مشہور فلمساز، ہدایت کار، اسکرین رائٹر، تدوین کار اور اداکار تھے ۔ اور اُن کے پوتے ہرتیک روشن موجودہ دور کے معروف اداکار ہیں۔اور راُن کے دوسرے بیٹے راجیش روشن بھی بمبئی فلمی صنعت کے معروف موسیقار ہیں۔

بمبئی فلمی صنعت ہو، لاہور ہو یا ہالی ووڈ، فنکار اور ہنرمند لاکھ با صلاحیت ہوں، لاکھ قسمت کا تارہ چمک رہا ہو یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس طرح اِن آنے والوں نے اپنی محنت اور قسمت سے اپنے ہم عصروں میں کوئی مقام حاصل کیا ، بالکل اسی طرح کچھ عرصہ بعد کسی اور نے اُن کا حاصل شدہ مقام لینا ہی ہے۔البتہ زمانہ اُن کو یاد رکھتا ہے جنہوں نے اپنے کام میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہو۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ جو اپنے حاصل کردہ مواقع سے بہترین فائدہ اُٹھالے وہ تا دیر اپنے کام کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔موسیقار روشن نے بھی مسلسل محنت اور اپنی سدا بہار دھنوں کی وجہ سے جو مقام گیت و غزل سننے والوں کے دلوں میں پیدا کیا وہ اِن کے نام کو روشن رکھنے کو کافی ہے ۔ َ َ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
یہ تحریر روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین مورخہ 18 جون سے 24 فون ) میں شائع ہوئی۔

 

Comments

Popular posts from this blog