خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو۔۔۔




خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو۔۔۔

تحریر شاہد لطیف

ملائشیا کے وزیرِ اعظم نے اِس سال 23 مئی کو اپنی اور اپنی کابینہ کے ارکان کی تنخواہوں میں 10 فی صد کٹوتی کا اعلان کر دیاجس کا فوری نفاذ بھی ہو گیا۔جو یہ ثابت کرتا ہے کہ وزیرِ اعظم مہاتیر محمد اپنے ملک کے مالی مسائل کے حل کے لئے بہت سنجیدہ ہیں۔ ملائشیا کی نئی حکومت کا ملک پر US$250 billion کا قرض اتارنے کا یہ قابلِ تعریف اور قابلِ تقلیداقدام ہے ۔تحقیق کے مطابق اِس کٹوتی سے پہلے ملائشیا کی پارلیمان کی ماہانہ تنخواہیں کچھ اس طرح سے تھیں: وزیرِاعظم: رنگٹ ملائشین 22,827 RM US$5,700)، نائب وزیرِ اعظم: RM18,168 ، وزیر: RM14,907 اور نائب وزیر: RM10,848ْ۔آج کل ایک رنگٹ برابر 29.15روپے ہے۔

جب وزیرِ اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا سول سروس کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں میں بھی کٹوتی ہو گی تو مہاتیر محمد نے کہا : ’’ جب میں 1981 میں وزیرِ اعظم بنا تو میں نے پہلا کام وزیروں اور سول سروس کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں میں کمی کا کیا تھا۔سول سروس کے اعلیٰ افسران، وزرا سے کہیں زیادہ تنخواہیں پاتے ہیں۔اب یہ اُن پر ہے کہ وہ ملک پر قرضہ کا بوجھ اتارنے کے لئے انفرادی طور پر حصہ ڈالیں ۔لیکن ان پر کوئی زبردستی نہیں‘‘۔ 

دوسری طرف ہمارے ملک میں کیا قومی اور کیا صوبائی اسمبلیوں کے ممبران، بڑی شان سے ہر سال عارضی قانون سازی کر کے اپنی تنخواہیں بڑھواتے اور اپنی مدت میں امیر سے امیر تر ہوتے رہتے ہیں۔تحقیق کے مطابق ممبر قومی اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ 200,000/ روپے اور ممبر صوبائی اسمبلی کی 120,000/ روپے ہے۔انہیں ٹرانسپورٹ الاؤنس 48,000/روپے ماہانہ دیا جاتا ہے۔ اگر یہ ممبران ریل گاڑی میں سفر کرنا چاہیں تو فرسٹ کلاس اے سی میں اپنی پوری مدتِ اسمبلی بالکل مفت۔ ہوائی جہاز میں بزنس کلاس میں سالانہ 40مرتبہ بالکل مفت۔بجلی کے 50,000یونٹ مفت، 170.000لوکل کالیں مفت۔ایک ممبر پر پانچ سال میں 160,000,000/ روپے اخراجات آتے ہیں۔اور 342ممبران قومی اسمبلی پر 550/کروڑ روپے کے اخراجات۔اِس پر بھی اسمبلی ممبران اپنی بنیادی تنخواہوں کو بڑھانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ حیرت ہے کہ اِن میں کوئی ایک بھی صاحبِ دل اور عوام کا خیر خواہ نظر نہیں آتا۔اپنی اپنی غرض کے بندے ہیں۔جس حلقے کے عوام نے ان کو منتخب کیا اُن کی بہبود کے لئے جو کرنا چاہیے وہ نہیں کرتے۔اور تو اور اتنے الاؤنس اور سہولتیں اسی لئے تو دی جاتی ہیں کہ وہ قانون سازی کا کام اطمینان کے ساتھ کر سکیں۔لیکن۔۔۔قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی سیشن کے دوران ممبران کی حاضری دیکھ لیں، اکثر کور م پو را نہ ہونے کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔

جب سے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد کی خبر پڑھی ہے اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے یہی اعدادو شمار ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔پھر مجھے خواب سا آیاکہ ہمارے ملک کے وزیرِ اعظم، اور ان کی پوری کابینہ، وزرا ا ور اُن کے مشیران نے بھی ملک اور قوم کی خاطر اپنی تنخواہوں میں از خود کٹوتی کر لی۔صاحبِ ثروت ممبرانِ اسمبلی رضاکارانہ طور پر قائدِ اعظمؒ کی تقلید کرتے ہوئے ایک روپے ماہانہ پر بخوشی راضی ہو گئے۔وہ پاکستانی بھی جو سوئس بینکوں میں ’’ صاحبِ اکاؤنٹ‘‘ ہیں وہ بھی اِن کی تقلید میں اپنی تمام دولت ملک میں لانا شروع ہو گئے ہیں۔خواب تو خواب ہے دیکھنے میں کیا حرج ہے؟آخر ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونئیرنے بھی تو28 اگست 1963میں اپنی مشہورِ زمانہ تقریر ’’ میرا خواب ‘‘ میں اپنے خواب کا ذکر کیا تھاکہ جب افریقی امریکیوں کو بھی برابری کے حقوق اور اچھی ملازمتیں حاصل ہوں گی۔تب ڈاکٹر صاحب کے خواب کا بہت مذاق اڑایا گیا کہ بھلا یہ کیا بات کر دی ! لیکن بعد میں بظاہر دیوانے کا خواب افریقی امریکی باشندوں کے لئے ایک درخشاں تعبیر ثابت ہوا۔ 60 کی دہائی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چالیس سال بعد مارٹن لوتھر کے خواب کی تعبیر صدر جان ایف کینیڈی کے دور میں کالے گورے کے برابر حقوق تسلیم کیے جانے اور پھر بارک اُبامہ کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدربننے سے ملے گی۔

بات ہو رہی تھی ملائشین وزیرِ اعظم کی قرض اتارو مہم کی۔۔۔قرض تو ہمارے اوپر بھی بہت ہے۔ 90 کی دہائی میں ہمارے وزیرِ اعظم نے بھی ایک ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ مہم شروع کی تھی۔وہ کتنی کامیاب ہوئی۔۔۔کتنا قرض اترا۔۔۔مجھے اُس کے تو اعداد و شمار معلوم نہیں لیکن میڈیا نے اس مہم کی جس طرح تشہیر کی اس کی آنکھوں دیکھی مثال پیش کرتا ہوں: ایک دن میں نیشنل بینک میں موجود تھا ، مہینے کے ابتدائی دن تھے لوگ اپنی پنشن لینے آئے ہوئے تھے۔ایک بوڑھی عورت بھی ان میں موجود تھی۔اس اثنا ء میں پی ٹی وی کی نیوز ٹیم اپنے کیمرے لئے آ پہنچی۔پروڈیوسر نے اسی بوڑھی عورت کا انتخاب کیا اور کہا کہ اماں ہم ریکارڈنگ کر رہے ہیں میں آپ سے پوچھوں گا کہ آج کل جو مہم چل رہی ہے ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ آپ اُس میں کچھ حصہ ڈالیں گی تو آپ کہنا کہ میں اپنی پنشن قرض اتارنے کے لئے دیتی ہوں۔اماں فوراََ بولیں نہیں میں تو ایسا نہیں کروں گی۔تب ٹیم نے کہا کہ اماں یہ صرف ٹی وی پر دکھانا ہے آپ کون سا اصل میں دے رہی ہیں اور ہم کون سا لے رہے ہیں۔۔۔

اب جو خواہش عبید اللہ علیم ؔ اپنے مصرع : ’’ خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو۔۔۔‘‘ میں کر رہے ہیں وہی میرے بھی پیشِ نظر ہے کہ تعبیر نہ جانے کیا ہو۔بہر حال ہمیں اچھا ہی سوچنا چاہیے۔کیا خبر اللہ اس رمضان میں ہمارے اجتماعی گناہ معاف کر دے اور ہمارے راہنماؤں میں سے ایسے لوگ چن کر حکمران بنائے جو وزیرِ اعظم مہاتیر محمد کی طرح اپنے ملک کے لئے اسٹینڈ لے سکیں ۔ اُن میں اتنی طاقت ہو کہ وہ بظاہر اپنے خلاف فیصلے پر اپنے ساتھیوں کو قائل کرسکیں۔ خواب تو خواب ہے لیکن کبھی کبھی خواب کی اچھی تعبیر بھی مل جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 9 جون 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے  ایک ساتھ صفحہ نمبر 11 پر  کالم " اُلٹ پھیر" میں شائع ہوئی۔























 

Comments

Popular posts from this blog