ستارہء امتیاز، تمغہ حسن کارکردگی اور نگار ایوارڈ یافتہ موسیقار سہیل رعنا ، ایک خوش قسمت اور خوش بخت موسیقار


ستارہء امتیاز، تمغہ حسن کارکردگی اور نگار ایوارڈ یافتہ
موسیقار سہیل رعنا  
ایک خوش قسمت اور خوش بخت موسیقار  

                           

تحریر شاہد لطیف


ریڈیو ، فلم اور ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیت سہیل رعنا کو کون نہیں جانتا۔موسیقی وجہ شہرت بنی لیکن قسمت اور بخت کے لحاظ سے ہمارے ملک میں ان جیسا کوئی اور نہیں۔ ابتدائی فلموں کے فوراََ بعد ہی پاکستان اور پاکستان سے باہر ، ان کی فلمی دھنوں کا ڈنکا بجنے لگا ۔


میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرامز سے مُنسلک تھا جب 1980 کے اوائل میں ایک دِن اُس وقت کے پروگرامز منیجر نے حکم سُنایا کہ پی،ٹی وی کے منیجنگ ڈائرکٹر ضیاء نثار جالندھری کے لکھے قومی نغمے کو جلدی ریکارڈ کروا کر نشر کروانا ہے۔ میں نے سُہیل رعنا سے اس نغمہ کی دھن بنانے کی تجویز پیش کی جو فوراََ منظور ہو گئی۔یوں پہلی مرتبہ راقِم کی اُن سے ملاقات ہوئی۔ میں نے تمام ماجرا سُنا کر نغمہ کے بول بتائے جِس پر اُنہوں نے کسی تبصرے کے بغیر کہا کہ نمایاں گلوکار حبیب ولی محمد کو رکھ لو باقی30 / 40 لڑکے لڑکیاں اور کراچی مرکز پر جو بھی گلوکار/ گلوکارائیں ہیں سب کو اگر آج ریہرسل پر بُلوا لو تو دو تین دِن میں نغمہ ریکارڈ ہو سکتا ہے۔میں نے کہا کہ سب کچھ 7 گھنٹوں کے اندر ہو سکتا ہے لیکن 30 / 40 لڑکیاں اور لڑکوں کے سُر تال میں پورے ہونے کا امتحان کون لے گا؟ اِس جواب سے وہ بہت خوش ہوئے ،پھر کہا کہ تعداد یہی ہو اور مجھ کو اختیار دیا کہ یہ امتحان میں خود لوں۔یہ انتظام کیسے ہوا ؟ اِس پر پھر کبھی بات ہو گی۔بہرحال وہ نغمہ صدا بند ہوا پھر ویڈیو ریکارڈنگ اور تدوین ( جو چند گھنٹوں میں کی گئی ) کے بعد مقررہ وقت سے کہیں پہلے نشر بھی ہو گیا:’’روشن و رخشا ں نےئر و تاباں پاکستان رہے ۔۔۔‘‘۔

دوسرا کام اِن کے ساتھ ہفتہ وار پروگرام ’ اُمنگ ‘ تھا جو راقم سینئر پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے ساتھ کرتا تھا ۔ اِس پروگرام کی خاص بات پروین شاکر کا دُھن پر غزل لکھنا ہے جو ٹینا ثانی کی آواز میں نشر ہوئی :’’دروازہ جو کھولا تونظر آئے کھڑے وہ، حیرت ہے بہت دیر کے بعد آئے اِدہر وہ۔۔۔‘‘۔ انہوں نے کبھی بھی دھُن پر کچھ نہیں لکھا بس صرف یہی ایک چیز دھن پر لکھی تھی۔

مجھے بعض نامور سازندوں اور ساؤنڈ ا نجینئروں نے خبردار کیا کہ بزمی صاحب کی طرح سہیل رعنا بھی سخت مزاج ہیں ۔مجھے اپنے اوّل تجربہ میں شاید ان کے مزاج کو پرکھنے کا موقع نہیں مِلا ؛ اب اِس پروگرام کی تیاری میں بھی سہیل رعنا سے کوئی زیادہ بات چیت نہ ہوسکی۔ اُن کو میں نے خاموش طبع، کم گو، کم آمیز، اور ہر وقت کسی سوچ میں سنجیدہ ہی دیکھا۔شاید اُن کے اندر کا آدمی بے چین تھا۔کیوں نہ ہوتا وہ شاعر باپ، رعنا اکبر آبادی کے صاحب زادے اور خود شاعر ، موسیقار اور پھر مصّور بھی تھے۔ لوگوں کی بھیڑ میں بھی وہ الگ تھلگ محسوس ہوتے تھے۔میرے ذہن میں بے شمار سوالات تھے جو میں اُن سے کرتا لیکن ارمان دِل ہی میں رہ گیا۔

اب ریڈیو پاکستان کراچی کے حوالے سے بات کرتا ہوں۔60 کی دہائی کی بات ہے کہ ریڈیوپاکستان کراچی میں مسرور بھائی المعروف مسرورؔ انور کمرشل سروس کیا کرتے اور پروڈیوسر مہدی ظہیر تھے۔ اکثر اشتہارات کی دھنیں یہی بنایا کرتے ۔یہیں حمایت علی شاعر حیدرآباد سے اکثر آ تے اور صہبا ؔ اختر بھی نظر آ جاتے۔ اُس زمانے میں کرّار نوری صاحب چھوٹے بڑے فنکاروں کے تلّفّظ درست کروا تے تھے۔ مظہر حسین وائلن نواز ،اسٹاف آرٹسٹ تھے۔احمد رُشدی کا بھی آنا جانا لگا رہتا ۔سِتاروں کا ایک جہاں آباد تھا۔ اِسی گلشن میں سُہیل رعنا بھی آنے جانے لگے۔ اُس وقت سہیل رعنا بمشکل 19برس کے تھے جب قسمت نے اُن کے بخت پر دستک دی۔وہ ایسے کہ اُن کے کرکٹ کے ساتھی اور جامعہ کراچی کے سینیئرطالبِ علم ، وحید مراد نے اپنے ادارے، فلم آرٹس میں بننے والی فِلم’ ’ جب سے دیکھا ہے تمہیں‘ ‘ میں ان کو بطور موسیقار متعارف کروایا جو 29مارچ 1963کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے تین گیت نمائش سے کہیں پہلے ریڈیو پر سُپر ہِٹ ہو گئے تھے: ’’ یہ خوشی عجب خوشی ہے۔۔۔‘‘آواز احمد رشدی، ’’تو حسین تیرا جہاں حسین۔۔۔‘‘ آواز احمد رشدی اور ’’ جب سے دیکھا ہے تمہیں دل کا عجب عالم ہے۔۔۔‘‘ آواز سلیم رضا۔ محض اِن گیتوں کی وجہ سے فلم دیکھنے والے بہت بھاری تعدادمیں آئے۔ اِس فلم میں حمایت علی شاعر کے لکھے گیت: ’’ ہمّت سے ہر قَدم اُٹھانا تو ہے پاکِستانی ، تجھ سے ہی یہ ملک بنے گا دنیا میں لاثانی۔۔۔‘‘ سے سُہیل رعنا نے قومی نغموں میں ایک نئی اختراع شروع کی ۔ میرے نزدیک یہیں سے اُن کے قومی نغمات کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اِس سے قبل قومی نغمات میں مارچنگ بینڈ کا تاثر مِلتا تھا جو انہوں نے ختم کیا۔اِسی فلم میں سلیم رضا کی آواز میں غزل : ’’ جب سے دیکھا ہے تمہیں دل کا عجب عالم ہے ۔۔۔‘‘ میں انتروں سے واپس استھائی میں آنے سے بالکل پہلے ، سہیل رعنا نے سارنگی سے اِس قدر خوبصورتی سے یہ عرصہ پورا کیا ہے جو سُننے کے لائق ہے۔ایسا کام کم از کم اِس کمتر نے اُس سے پہلے نہیں سُنا۔یہ گیت آج بھی سحر طاری کر دیتا ہے۔یہ بات اُن کے ناقدین بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بعدپھر سہیل رعنا نے کوئی گیت /غزل سلیم رضا سے نہیں گوائی ۔کیوں؟ یہ معلوم نہ ہو سکا۔

11 دسمبر 1964کو فلم ’ ’ ہیرا اور پتھر ‘ ‘ نمائش کے لئے پیش ہوئی ۔اِس کی مسلسل 68 ہفتہ ’ ہاؤس فُل ‘ نمائش جاری رہی۔ فلم میں مسرورؔ انور کے لکھے دوگانے: ’’ مجھے تُم سے مُحبّت ہے اک بار ذرا دھیرے سے ،تمہیں میری قسم کہہ دو ۔۔۔‘‘کو احمدرشدی اور نجمہ نیازی کی آواز میں صدا بند کیا گیا۔ منظر کی ضرورت ، بولوں اور دھن کے امتزاج کے ساتھ نجمہ نیازی کے بیساختہ پن نے اِس گیت کو لازوال بنا دیا۔ یہ سوال بھی میرے دل میں رہ گیا کہ دوبارہ نجمہ نیازی کو کیوں موقع نہیں دیا گیا؟ اُس وقت میں اتنا جونئیر تھا کہ اُن سے پوچھ نہ سکا۔

1966 میں پہلی پاکستانی پلاٹینم جوبلی فِلم ’ ارمان ‘ میں تو کمال ہی ہو گیا۔روایت کی جاتی ہے کہمسرورؔ بھائی کے لکھے گیت : ’’ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تُم ، تمہارے سوا ہم بھلا کیا جئیں گے۔۔۔‘‘ کی صدا بندی کے لئے کراچی میں 65 سازندوں کا آرکسٹر ا استعمال کیا گیا جو یہاں ایک انوکھی بات مانی گئی ۔اِس فِلم میں اُن کو بہترین  موسیقار ہونے کے نِگار اورگریجوئیٹ ایوارڈ مِلے۔ 

1967 میں سِلور جوبلی فِلم’ ’ احسان ‘‘ میں مسرور ؔ انور کا لکھا اورمہدی حسن کی آواز میں یہ گیت : ’’ اک نئے ہوڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے ۔۔۔‘‘ میں سہیل رعنا نے طبلہ نواز امیر سلطان سے انتروں اورسنچائی میں ایک بالکل ہی نئے انداز سے طبلہ کی کنار اور با ئیں کو استعمال کر واکے موسیقی کی شدھ بدھ رکھنے والوں کو حیران کر دیا۔اِسی سال ہدایت کار پرویز ملک کے ساتھ مِل کر اُنہوں نے سِلور جوبلی فِلم ’’ دوراہا‘ ‘کی فلمسازی کی۔سہیل رعنا کی موسیقی میں مسرورؔ انور کے سدا بہار گیت : ’’مجھے تُم نظر سے گِرا تو رہے ہو ۔۔۔‘‘ اور ’’بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں۔۔۔‘‘ نے تو نئی تاریخ رقم کر دی۔ مسرورؔ انور اور سہیل رعنا کا ایک کارنامہ 1970 کو چہار جانب گونجنے لگا: ’’ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد ۔۔۔‘‘۔

دلچسپ بات یہ کہ کسی نے اُن سے پوچھا کہ شروع کی فلموں میں آپ نے مادام نورجہاں کو چھوڑ کر مالا کو کیوں فوقیت دی؟تو جواب دیا کہ گیت’’ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تُم ۔۔۔‘‘ دراصل نورجہاں کو ہی گانا تھا لیکن پھر کوئی وجہ ہو گئی ۔۔۔بعد کی فلموں میں جیسے ’’ بادل اور بجلی‘ ‘ ( 1973)میں نورجہاں سے گیت گوائے ۔مذکورہ فلم کے گیت، فیاضؔ ہاشمی، خواجہؔ پرویز اور صہباؔ اختر نے لکھے۔اِس فلم میں نورجہاں کے دو گیت بہت مشہور ہوئے: ’’ بانسری بجانے والے۔۔۔‘‘ اور ’’ گلیاں گلیاں ڈھونڈھ رہی ہوں۔۔۔‘‘۔اس کے بعد پھر انہوں نے13 سال بعد فلم ’’ حساب‘‘ ( 1986) کی جو اُن کی آخری فلم ہے۔

سہیل رعنا نے EMI کے لئے بھی کام کیا اور کئی ایک غیر فلمی گیت و غزلیات اور سازینے اور معرکۃ الاراء لانگ پلے گرامو فون ریکارڈ ’’ خیبر میل ‘‘ ((1976 ریکارڈ کروائے۔ 1968 سے اُنہوں نے بچوں کے لئے ٹیلی وژن پروگرام ’’ کلیوں کی مالا‘‘ کرنا شروع کیا جو 1988تک کم و بیش 20 سال مختلف ناموں سے جاری رہنے کے بعد ’’ سنگ سنگ چلیں‘‘ پر ختم ہوا۔

یہ 1972سے 1974تک پی آئی اے آرٹس اکیڈمی میں ریزیڈنٹ کمپوزر رہے۔انہوں نے ٹیبلو ’ہیر رانجھا ‘ دوبارہ ترتیب دیا اورکنڈکٹ کیا۔جہاں ضرورت ہوئی وہاں نئی علاقائی موسیقی سے رنگ بھرے ۔اکیڈمی کے ڈائریکٹر ضیاء محی الدین تھے۔طائفے میں 88 افراد تھے جن میں رقّاص، گلوکار اور میوزیشن شامل تھے۔
سہیل رعنا کو 1974 میں گراموفون کمپنی آف پاکستا ن EMIکی جانب سے گولڈ ڈِسک سے نوازا گیا ۔یہ انہیں لانگ پلے گراموفون ریکارڈ ’’ خیبر میل‘‘ پر دیا گیا۔


   EMIکے 1954سے 1974تک سب سے زیادہ فروخت ہونے والے گراموفون ریکارڈ کا ریکارڈتھا۔کراچی سے پشاور ریل گاڑی جہاں سے گزرتی ہے، وہاں کی علاقائی موسیقی اور موڈ کو مغربی سازوں، جیسے الیکٹرک آرگن، سرف گٹار، ڈرم سیٹ وغیرہ اور مشرقی سازوں جیسے ستار، بانسری وغیرہ کے امتزاج سے سازینے کے طور پر پیش کیا گیا۔ مغربی پاپ موسیقی کو روایتی اور علاقائی موسیقی کو لاطینی امریکی ردہم میں عوام و خواص نے بہت پسند کیا۔


لاہور میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس 1974کے لئے سہیل رعنا کی طرز پر جمیل الدین عالیؔ کا لکھا ہوا خصوصی نغمہ’’ اللہ اکبر۔۔۔‘‘بھی تاریخ ساز کام ہے،اِس کو مقبول کرنے میں مہدی ظہیر صاحب کا جوش و جذبہ بھی کم نہیں۔



سہیل رعنا کو 1981 میں تمغہ حسنِ کارکردگی دیا گیا۔پاکستان ٹیلی وژن سے انہیں 1982 اور 1989 میں پی ٹی وی ایوارڈ اور 2007 میں پی ٹی وی لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ ملے۔ اقوامِ متحدہ کے ہیڈ آفس واقع نیو یارک میں سہیل رعنا کو 1987میں پیس مسینجر ایوارڈ دیا گیا۔2012 میں انہیں حکومتِ پاکستان نے ستارہء امتیاز دیا جو ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز ہے۔


یہ 1990 میں وہ میسی ساگا، اونٹاریو، مملکتِ کینیڈا میں نقلِ مکانی کر گئے۔یہاں انہوں نے گلوکاروں اور ساز سیکھنے والوں کے لئے ایک اسکول کھولا۔اب چلتے چلتے اُس کام کا ذکر کرتا چلوں جو ہم پاکستانیوں کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔پچھلے دِنوں میرے موسیقی کے اُستاد عدنان الحق حقی جو جناب شان الحق حقی صاحب کے بیٹے اور کینیڈا میں رہتے ہیں ، کہہ رہے تھے کہ سُہیل رعنا نے مملکتِ کینیڈا کے قومی ترانے کی دھن پر اُس کا اُردو ترجمہ لکھا اور مقامی آوازوں میں صدابند کروا کر حکومتِ کینیڈا سے منظور کروا لیا۔اب جہاں بر صغیر کے تارکِین وطن ہیں وہاں یہ اُردو والا قومی ترانہ بجایا جاتا ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کیاکہ سہیل رعنا ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔انہوں نے بچوں کے جتنے بھی پروگرام کیے اُن میں سب شاعری اُن کی اپنی تھی۔

سہیل رعنا کی طرز میں فیاضؔ ہاشمی کا گیت جسے حبیب ولی محمد نے فلم ’’ بادل اور بجلی‘‘ میں گایا ،بعد میں کسی نجی محفل میں گلوکارہ فریدہ خانم نے بھی یہ غزل سنائی جو پھر بھارتی فلم ’’ مون سون ویڈنگ‘‘ میں ’’ بادل اور بجلی‘‘ کے فلمساز کی اجازت حاصل کیے بغیر شامل کر لی گئی۔اسی طرح آر پی جی ریکارڈنگ کمپنی نے ایک البم ’’ آشا‘‘ پیش کیا جس میں آشا بھونسلے کے گیت تھے۔اِس البم میں بھی یہی گیت اور مسرورؔ انور کا لکھا اور سہیل رعنا کی موسیقی میں فلم ’’ دوراہا‘‘ کا لا زوال گیت ’’ مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو۔۔۔‘‘اصل طرز پر بلا اجازت ریکارڈ کیے گئے۔واضح ہو کہ سہیل رعنا اور پرویز ملک دونوں مذکورہ فلم کے فلمساز تھے۔

1974 سے1976 تک وہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے جنرل منیجر نیشنل آرکیسٹرا رہے ۔ یہ کام اُنہوں نے کیوں پسند کیا؟ میں نہیں جانتا لیکن اِس سے اُن کا فلمی سفر جا مِد ہو گیا۔’ ’ جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ ( 1962 ) سے لے کر ’ ’ حساب‘‘ ( 1986 )تک سُہیل رعنا نے 24 فلموں کی موسیقی مرتب کی۔اداکارہ مسرت نذیر کی طرح اپنے عروج میں یہ فلموں سے کنارہ کر گئے۔

میری شدید خواہش ہے کہ کبھی سہیل رعنا سے ایک لمبی نشست ہو اور میں اُن سے جی بھر کے سوالات کروں .......

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
 یہ تحریر26 جون کے روزنامہ نوائے وقت  لاہور، اسلام آباد اور ملتان سے بیک وقت صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔


 

Comments

Popular posts from this blog