بنی گالہ پر دھرنا۔۔۔ اور بی بی سی پر عمران خان کا انٹرویو
بنی گالہ پر دھرنا۔۔۔ اور بی بی سی پر عمران خان کا انٹرویو
تحریر شاہد لطیف
25جولائی2018بروز بدھ، پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔پاکستان کے گزشتہ عام انتخابات میں کئی نعرے سننے میں آ تے تھے جیسے ’ روٹی کپڑا اور مکان‘، ’ اسلامی نظام کا نفاذ‘، ’ قومیت‘، ’ سب سے پہلے پاکستان‘، ’ تبدیلی‘ اور اب ’ ووٹ کوعزت دو‘،’ نیا بنے گا پاکستان‘، ’ احتساب سب کا‘وغیرہ۔کڑوا سچ تو یہ ہے کہ عام آدمی تو انتخابات میں کھڑا ہو ہی نہیں سکتا جیتنا تو دور کی بات ہے۔ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا کہ انتخابات میں ایک بہت بڑی تعداد اُن امیدواروں کی ہوتی ہے جن کے پیشِ نظر ( نا جائز ذرائع سے) دولت کا حصول، اختیارات کی طاقت،کسی کمیٹی یا کمیشن کی ممبر شپ، ظاہر ہے وزارت کے مزے کسے عزیز نہیں اور سب سے بڑھ کر ’ہٹو بچو‘ کا پروٹوکال۔ ایسے نئے پرانے امیدوار وں کی منافقت کی حد ہے جب وہ ’’ غریب عوام‘‘ کی فلاح و بہبود کی خاطر ووٹ مانگتے ہیں۔۔۔ بہرحال اصل موضوع کی جانب آتے ہیں وہ ہے مشہورِ زمانہ 126 دن کے پارلیمان کے گھیراؤ والے علامہ طاہر القادری کے ساتھی عمران خان کے گھر پر اُن ہی کی پارٹی کے لوگوں کا گھیراؤ اور بی بی سی کی زینب بدوی کا پروگرام ’ ہارڈ ٹاک‘ میں موصوف سے انٹرویو ( 04-06-2018)۔۔۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے 2018کے ہونے والے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم میں کئی امید وار نظر انداز کر دیے گئے اور بعض کو ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا معاملہ مشروط کر دیا گیا۔جیسے کراچی سے امید وار عامر لیاقت حسین اور فیصل واڈا کو ٹکٹ نہیں دیے گئے۔ذرائع کے مطابق اسلام آباد سے بابر اعوان کو بھی ٹکٹ نہیں ملا۔عمران خان کے گھر واقع بنی گالہ کے باہر تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے دھرنا دیا ہوا ہے۔اُن کا مطالبہ ہے کہ این اے 54 سے سرور خان کو ٹکٹ دینے کے بجائے اجمل راجہ کو ٹکٹ دیا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ صابر راجہ نے اپنے کارکنوں کے ہمراہ بنی گالہ میں احتجاج کیا کہ ان کو چوہدری نثار کے مقابلے میں ٹکٹ کیوں نہیں دیا۔ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور خود میانوالی میں بھی ٹکٹوں کے مسئلہ پر امید وار اور کار کنان احتجاج کر رہے ہیں ۔جب کہ این اے 72 سیالکوٹ سے فردوس عاشق اعوان کو ٹکٹ مل گیا۔تحریکِ انصاف کے سابق رکنِ قومی اسمبلی علی محمد خان کا کہنا ہے : ’’ لوٹوں اور نیب زدہ لوگوں کے مقابلے میں عمران خان ضرور کارکنوں کی حمایت میں فیصلہ دیں گے‘‘۔ بنی گالہ میں دھرنے اور احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہو ئے عمران خان نے کہا کہ ’’ پارلیمانی بورڈ نے ٹکٹ میرٹ پر تقسیم کیے، لہٰذا اس معاملے پر کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گا خواہ میرے گھر کے باہر دس ہزار افراد بھی جمع ہو کر احتجاج کریں تو بھی میں اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کروں گا‘‘ ۔واضح ہو کہ یہ خطاب پارٹی ورکروں سے کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا :’’ اگر آج چند لوگوں کی موجودگی پر فیصلے تبدیل کیے تو کل اس سے زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہو کر مطالبے پیش کریں گے ‘‘۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ کسی کے بھی دباؤ میں نہیں آئیں گے نہ کسی کے احتجاج پر فیصلے تبدیل کریں گے۔انہوں نے کارکنوں سے کہا کہ آپ نے پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں کیا یہ کوئی سیاسی جلسہ ہے جہاں آپ لوگ مونہہ اٹھا کر آ گئے ہیں ؟ اس کے باوجود تحریکِ انصاف کے کئی امیدوار ، کارکنوں کے ہمراہ بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ان احتجاجی امیدواروں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کرو ا دیے ہیں اب وہ چیئرمین پی ٹی آئی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ٹکٹ جاری کیا جائے۔ملتان سے آنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سکندر بوسن کو ٹکٹ نہیں دیا جائے جو چند ہفتے پہلے مسلم لیگ (ن) سے تحریکِ انصاف میں منتقل ہوئے ہیں ۔ کارکنوں کا اعتراض یہ ہے کہ عمران خان جِن لوگوں کو کرپٹ کہتے تھے ۔۔۔انہی کو ٹکٹ کیوں دیا؟ کہ (ن) لیگ کے لوگ جب پی ٹی آئی میں آ گئے تو کیا یہ ہی ’’ تبدیلی ‘‘ہے؟ وہی کرپٹ عناصر تحریکِ انصاف میں آ گئے جِن کی کرپشن کے خلاف وہ آواز بلند کئے ہوئے تھے۔ پھر اِن نئے آنے والے بدعنوان عناصر کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ بھی دیے ۔۔۔اسی پر یہ دھر نا ہو رہا ہے۔
قارئین کو یاد ہو گا جب 126 روزہ دھرنے میں کنٹینر سے دن میں کئی کئی مرتبہ عمران خان کی تقاریر ہوا کرتی تھیں کہ قومی اسمبلی میں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ چور اور ڈاکو ہیں۔پی ٹی آئی نے اُن کو محض ’ الیکٹیبل‘ ہونے کی وجہ سے ٹکٹ دیے۔الیکٹیبل کے معنی یہ کہ وہ ہمیشہ انتخابات جیتنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں خواہ وہ کسی بھی پارٹی میں جائیں۔ گویا عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ کوئی چور ڈاکو ہوتا رہے، کوئی فرق نہیں پڑتا، بس جیتنے کی صلاحیت ہونا چاہیے۔یہی پی ٹی آئی کے پارلیمانی بورڈ کا فیصلہ ہے۔بنی گالہ میں تحریکِ انصاف کے چیئر مین کے گھر کے باہر جو ہزار ہا افراد ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر جمع ہو کر غصہ کا اظہار کر رہے ہیں اُن کی تربیت 126 روزہ دھرنے میں کنٹینر کی تقاریر ہی سے ہوئی تھی۔اگر اپنی بات منوانے کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا قانوناََ جائز تھا( علامہ طاہر القادری کی موجودگی میں باعثِ ثواب بھی) تو اب یہ چھوٹے پیمانے کا اپنی پارٹی کے کارکنوں کا دھرنا غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ وہی کارکن تھے جو بڑے دھرنے میں عمران خان کے پیش پیش تھے، کیا اس وقت بھی وہ مونہہ اٹھا کر گئے تھے؟ چیئر مین سے کون پوچھ سکتا ہے کہ صاحب پارلیمنٹ ہاؤس پر دھرنے کی منطق کیا تھی؟تحریکِ انصاف کی خواتین بھی بنی گالہ کے سامنے خواتین کی مخصوص نشستوں کی اُس فہرست پر احتجاج کر رہی ہیں جس میں سے خوش نصیبوں کاانتخاب کیا جائے گا۔ان خواتین کو بھی امید ہے کہ اگر احتجاج کامیاب رہا تو اس فہرست میں مطلوبہ ردو بدل ہو جائے گا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے وہ فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی ہے اب اس میں رد و بدل ممکن ہی نہیں۔بظاہر تو ایسا دِکھتا ہے کہ دھرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔چیئرمین کے گھر کے سامنے پارٹی کارکنوں کے احتجاجی دھرنے والوں پر پولیس بلوا کر ’ ہلکا لاٹھی چارج‘ کروایا گیا ہے۔جوضرورت پڑنے پر ’ بھاری‘ بھی ہو سکتا ہے۔پی ٹی آئی نے جس دھرنے کلچر کو رواج دیا تھا اب وہ ختم ہونے والا نہیں۔ذرائع کے مطابق بنی گالہ کے بعد ایک بڑا دھرنا ملتان میں ہوا ہی چاہتا ہے کہ جمشید دستی کے ساتھ پی ٹی آئی کا اتحاد نا منظور۔یہ اتحاد شاہ محمود قریشی نے کروایا ہے لہٰذا اب ان کی رہائش ’ بابِ قریش‘ کے سامنے احتجاجی دھرنا ہو گا۔اس کو کہتے ہیں ’’ جو بو ؤگے وہی کاٹو گے‘‘۔
اب کچھ بات بی بی سی کی زینب بدوی کے انٹرویو کی ہو جائے ۔ زینب کے سوالات اورعمران خان کے جوابات سے اندازہ ہوا کہ کھرے اور اصل انٹرویو کے تنقیدی اور چبھتے ہوئے سوالات کا وہ واضح جواب دینے میں بے بس دکھائی دیے۔جبکہ بدوی یہ بتانے میں کامیاب رہیں کہ کے پی کے میں اپنی پانچ سالہ حکومتی مدت میں پی ٹی آئی صرف نعرے بازی تک محدود رہی۔ زینب بدوی کا پہلا سوال کہ عمران خان اِس ہونے والے انتخابات میں اپنی کامیابی کی بات کس بنیاد پر کرتے ہیں جبکہ حالیہ سروے کے مطابق مسلم لیگ(ن) ان کی جماعت سے آگے ہے۔جس کے جیتنے کے امکانات بھی ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسے سروے اور پول کبھی بھی درست نہیں ہوتے۔ آگے چل کر جب کے پی کے میں اُن کی حکومت کی کارکردگی سے متعلق سوال کیا گیاتو انہوں نے اپنی پارٹی کارکردگی سے متعلق کیے گئے سروے کا حوالہ دیاجس سے ان کی پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔تھوڑی دیر پہلے کہا کہ سروے کبھی بھی درست نہیں ہوتے اب خوداپنی بات سروے سے ثابت کر رہے ہیں۔
کے پی کے سے متعلق سوال میں عمران خان مضطرب اور گھبرائے ہوئے لگے ۔جب پوچھا کہ پی ٹی آئی کا منشور مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی سے کچھ بھی مختلف نہیں تو اس کا بھی وہ خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے۔ جب سوال کیا کہ ان پانچ سالوں میں کے پی کے میں آپ کی حکومت نے کتنی نئی یونیورسٹیاں ، اسپتال اور اسکول بنائے؟ پینے کے صاف پانی کی کون سی سہولیات فراہم کی گئیں؟ اگر ایسا کچھ ہوا ہو تو بتائیے۔اس کا جواب یہ دیا کہ ہماری پارٹی کے پی کے میں بہت مقبول ہے اور دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہو گی۔اسے کہتے ہیں سوال کچھ جواب کچھ!
حقیقت تو یہ ہے کہ کے پی کے میں پانچ سالہ حکومت میں عمران خان نے اپنی اور صوبائی قیادت کی تمام تر توانائیاں نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف بیانات ، تقاریر اور پریس کانفرنسوں میں ضائع کروا دیں۔اوپر سے قادری صاحب کے ساتھ مل کر نواز شریف کی حکومت گرانے کے لئے دھرنوں سے ملکی معیشت کا بھٹا بٹھا دیا۔۔۔ مذکورہ انٹرویو سے ثابت ہو گیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پی کے میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر سکی۔
دوسری پارٹیوں سے آنے والے اور والیوں کو جو کل تک عمران خان اور پی ٹی آئی کے نزدیک قابلِ نفرت تھے ، ریس کے گھوڑوں کی مانند، کہ یہ تو جیتے ہی جیتے، ان کو انتخابات میں تحریکِ انصاف کے ٹکٹ دیے گئے ۔ اپنے اصولوں ، پرانے وفا دار کارکنوں کی پی ٹی آئی کے پارلیمانی بورڈ کوکیا پروا۔رہے عوام۔۔۔ووٹر ۔۔۔جن کے ووٹ سے ہی اسمبلیوں میں جانے والے موجیں اُڑائیں گے ، اُن کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ہاں تبدیلی تو انتخابات سے پہلے ہی آ گئی۔۔۔اب تحریکِ انصاف خود تبدیل ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر کالم ' اُلٹ پھیر' میں روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے 23 جون کی اشاعت کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔
Comments