پاکستانی فلمی گیت نگار۔۔۔۔۔۔۔۔ گھنگھرو ٹوٹ گئے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔قتیل شفائی




پاکستانی فلمی گیت نگار 

گھنگھرو ٹوٹ گئے ۔۔۔

قتیل شفائی(24دسمبر 1919 سے 11جولائی 2001)

تحریر شاہد لطیف


ایک وقت تھا کہ ا دب کے پروردہ فلمی گیت نگاروں کو ادب میں کوئی مقام دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔پھر قتیلؔ شفائی اور اُن کے چند ہم عصر شعراء نے ثابت کیا کہ فلمی گیت بھی شاعری کا ایک اہم حصہ ہیں۔ گو کہ قتیل ؔ شفائی کونمایاں کرنے میں اُن کے فلمی گیتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن اُن کا یہ اصرار رہا کہ ادب ہی اُن کا میدان ہے اور فلمی گیت نگاری تو محض روزگار کا ذریعہ ہے۔ وہ فلموں میں معیاری شاعر ی کو متعارف کروانے کے لئے فلمی گیت نگاری مِشن سمجھ کر کرتے تھے ۔ وہ جب فلموں میں آئے تو اُس وقت وہ صاحبِ دیوان تھے۔اُن کی اب تک 20تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔

اورنگ زیب خان المعروف قتیل شفائی ہری پور سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوئے جہاں اُس وقت علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھر پور تھا لیکن علم و ادب کے لحاظ سے ایک بنجر علاقہ تھا۔ اُن کی شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول کے زمانے سے شروع ہو چکا تھا ۔ اُن کے ابتدائی اساتذہ میں ایک حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری تھے جِن کی نسبت سے اُنہوں نے اپنا نام قتیلؔشفائی رکھ لیا۔
قتیل شفائی کے لئے یہ قابلِ فخر بات ہے کہ 1939 میں علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ کی پہلی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے شہر میں پہلا مشاعرہ کروایا۔

قتیل ؔ شفائی اُردو میں حفیظ جالندھری کو گیت نگاری کا بانی اور تنویر ؔ نقوی کو فلمی گیتوں کا بانی گردانتے ہیں۔ تنویر نقوی اور ساحرؔ لدھیانوی وہ شاعر ہیں جنہوں نے فلمی گیت نگاروں کو ابتداََ ادبی شاعر تسلیم کروایا جس پر قتیلؔ شفائی نے مہر ثبت کر دی۔اِن سب نے فلموں میں گیت نگاری کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی وقت د یا ورنہ مجروح ؔ سلطانپوری ، شکیلؔ بدایونی وغیرہ جب فلم میں گئے تو اُس کے بعد ادب کی طرف توجہ نہیں دی ۔

پاکستان فلمی صنعت اور قتیل شفائی کی فلمی گیت نگاری کا آغاز ایک ساتھ ہوا جب انہوں نے ہماری پہلی فلم ’ تیری یاد‘ کے گیت لکھے ۔تنویر ؔ نقوی کا نام تو پہلے ہی مستند تھا اب قتیلؔ شفائی بھی معتبر ہو گئے ۔ انہوں نے اپنی عمر کے آخری دور میں بمبئی کے کئی سفر کئے اور فلم ’ سَر‘، ’ دیوانہ تیرے نام کا‘، ’ بڑے دل والا‘ اور ’ پھر تیری کہانی یاد آئی‘ کے علاوہ کئی اوربھارتی فلموں کے گیت بھی لکھے۔ایک اندازے کے مطابق انہوں نے تقریباََ 201 پاکستانی اور بھارتی فلموں کے لئے ڈھائی ہزار گیت لکھے ۔اِن کا فن و ہنر بین الاقوامی ہے اور اِن کے کلام کے ہندی، گجراتی، چینی اور روسی زبانوں میں تراجم ہوئے۔

1994میں قتیلؔ شفائی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہء حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔اِن کو آدم جی ادبی انعام، ’امیر خسرو ایوارڈ ‘( بھارت سے)اور نقوش ایوارڈ ملے۔ قتیل ؔ شفائی کوبہترین گیت نگار کے 4 مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل ہوئے: پہلا: فلم ’’ انارکلی‘‘ 1958، دوسرا فلم ’’ نائلہ‘‘ 1965، تیسرا فلم ’’ آگ‘‘ 1979 اور چوتھا فلم ’’ سر کٹا انسان‘‘ 1994۔قتیلؔ شفائی کو طویل عرصہ فلمی صنعت میں خدمات انجام دینے پر ’’ نگار میلی نیّم ایوارڈ‘‘ برائے 1999 دیا گیا۔

قتیلؔ شفائی اپنے گیتوں میں عام بول چال کی آسان اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں گویا وہ عوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کر رہے ہوں ۔خاکسار کے خیال میں اِن کے گیتوں کو مقبول بنانے میں اِس بات کا بہت عمل دخل ہے۔ گیتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلمی انگ میں غزلیں بھی لکھیں جو فلم بینوں اور ریڈیو پر فرمائشی گیت سننے والوں نے بے حدپسند کیں۔آج بھی ایف۔ایم ریڈیو اسٹیشنوں پر شعر وشاعری والے پروگراموں میں قتیل ؔ شفائی کے لکھے نئے اور پرانے فلمی گیت نشر ہوتے رہتے ہیں۔

پاکستان، اُردو زبان اورقتیل ؔ شفائی کے لئے یہ ایک اعزاز ہے کہ بھارت کی مگہد یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ’’ قتیلؔ اور ان کے ادبی کارنامے‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی جب کہ صوبہ مہاراشٹر میں ان کی 2 نظمیں نصاب میں شامل ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہاولپور یونیورسٹی کی 2 طالبات نے ایم۔اے کے لئے اِن پر مقالہ تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر پروفیسر اشفاق احمد آشفتہ، مشہور شاعر ، محقق اور افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے ’’ قتیل ؔ شفائی فن و شخصیت‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھا اوراِس پر اُنہیں 19 اکتوبر 2016 کو ہزار ہ ہونیورسٹی کے شعبہ اردو نے ڈاکٹریٹ کی سند دی ۔

قتیل ؔ شفائی کی تصانیف : ہریالی، گجر، جلترنگ، روزن، جھومر، مطربہ، چھتنار، گفتگو، پیراہن، آموختہ، ابابیل، برگد، گھنگھرو، سمندر میں، سیڑھی، پھوار، صنم، پرچم، انتخاب ( منتخب مجموعہ)۔

قتیلؔ صاحب کے والد کاروبار کرتے تھے ۔ کم عمری میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے باعث انہوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر کاروبار شروع کیا جو چل نہ سکا پھر بہتر روزگار کے لئے راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ یہاں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں 60 روپے ماہوار پر ملازمت کر لی۔ 1946 کا سال کیا آیا کہ اِن کی قسمت کا ستارہ چمکنا شروع ہوا ۔اُنہیں لاہور کے ماہنامہ ’ ادبِ لطیف ‘ میں معاون ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔اِن کی اولین غزل ، ہفت روزہ ’ اسٹار ‘ لاہور سے شائع ہوئی جِس کے مدیر قمر جلال آبادی تھے۔1947 میں لاہور کے ایک فلمساز ’دیوان سرداری لال‘ نے اُنہیں اپنی آئندہ آنے والی فلم ’’ تیری یاد‘‘ کے گیت لکھنے کی پیشکش کی ۔ پھر1948 سے1955کے درمیان اُس دور کے نامور شاعروں اور گیت نگاروں کے معاون رہے۔ یوں زینہ بہ زینہ ترقی کرتے کرتے پاک و ہند کے چوٹی کے فلمی گیت نگار ہو گئے۔

پاکستانی فلمی صنعت میں چھوٹے بڑے کئی گیت نگار گزرے اور آئندہ بھی آتے رہیں گے لیکن قتیلؔ شفائی کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے گیت نگاری کا کام بالکل ابتدا سے کیا، جس کی مثال ہمارے ہاں تو کیا بھارت میں بھی نہیں۔ وہ ایسے کہ یہ اپنے وقت کے نامور فلمی گیت نگاروں کے معاون کے طور پر 1948 سے 1954تک گیت نگاری کرتے رہے ۔ پھر 1955 میں پیش کی جانے والی فلم ’’ قاتل‘‘ میں قتیلؔ شفائی نے انفرادی گیت نگار کی حیثیت سے گیت لکھے۔اِس فلم کا ایک گیت اُن کو آسمانِشہرت پر لے گیا۔ اِس شہرت میں ماسٹر عنایت حسین کا برابر حصہ ہے۔ماسٹر صاحب نے ’راگ دیس‘ کے بنیادی سُروں کو استعمال کر کے ا قبال بانو کی آواز میں شعروں کی کیفیت کواِس طرح بھر پور طریقے سے استعمال کیا کہ یہ گیت سننے والے کے دل و دماغ پر وہی اثر ڈالتا ہے جو گیت نگار اور موسیقار نے محسوس کیا:
        اُلفت کی نئی منزل کو چلا، تو باہیں ڈال کے باہوں میں
       دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
فلم ’’ قاتل‘‘ نے 1955 میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اِس کے مصنف حکیم احمد شجاع جب کہ ہدایت کار اِن کے اپنے بیٹے انور کمال پاشا تھے ۔ واضح ہو کہ اقبال بانو کی پاکستانی فلمی صنعت میں دھماکہ خیز آمد ، ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں سیف الدین سیف کے گیت: ’’ تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔۔۔‘‘سے فلم ’’ گمنام‘‘ 1954 سے ہوئی تھی۔اسی فلم میں قتیلؔ شفائی کا بھی ایک گیت: ’’ چاندی کی جھنکار پر جیون کی بازی ہار کر۔۔۔‘‘ منور سلطانہ کی آواز میں تھا، خاصا مقبول رہا۔ بات سے بات نکل گئی، فلم ’’ قاتل‘‘ کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس فلم میں قتیلؔ شفائی کا ایک اور گیت بے حد مقبول ہوا: ’’ او مینا، نہ جانے کیا ہو گیا، کہاں دل کھو گیا۔۔۔‘‘ آواز کوثر پروین کی تھی۔

1957 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ عشقِ لیلیٰ‘‘ میں قتیلؔ شفائی کے لکھے 18 گیت تھے ۔موسیقی صفدر حسین ، کہانی، مکالمے اور ہدایات مُنشی دَل اور فلمساز جے۔سی۔آنند تھے۔’’جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے، محبت کا جنازہ جا رہا ہے۔۔۔‘‘ آ واز عنایت حسین بھٹی، ’’ پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ۔۔۔‘‘ آوا ز اقبال بانو،’’ لیلیٰ لیلیٰ لیلیٰ،اخترِ خوباں لیلیٰ۔۔۔‘‘ آواز زبیدہ خانم،’’ نکل کر تیری محفل سے یہ دیوانے کدھر جائیں۔۔۔‘‘ آواز عنایت حسین بھٹی،’’ اُداس ہے دل ، نظر پریشاں،قرار بن کر چلے بھی آؤ۔۔۔‘‘ آواز سلیم رضا،’’ اِک ہلکی ہلکی آہٹ ہے ، اِک مہکا مہکا سایہ ہے۔۔۔‘‘ آواز اقبال بانو۔مذکورہ فلم کی موسیقی اور قتیلؔ شفائی کے گیتوں نے پورے ملک میں دھوم مچا دی۔ 

1965 میں پیش ہونے والی گولڈن جوبلی فلم ’’ نائلہ‘‘ کا ذکر پاکستان کی فلمی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جا سکتا ہے۔اِس فلم کے گیتوں نے جہاں جہاں اُردو گیت و غزل سنے جاتے تھے وہاں وہاں قتیل شفائی کا نام پہنچادیا۔رضیہ بٹ کے ناول پر مبنی اِس فلم کی ہدایات شریف نیر نے دیں اور اِس کے فلمساز جی۔ اے۔ گل تھے۔مالا ،مسعود رانا اور نسیم بیگم گلوکار تھے۔مذکورہ فلم کا صرف ایک گیت: ’’ دور ویرانے میں ایک شمع ہے روشن کب سے۔۔۔‘‘ حمایت علی شاعر نے لکھا۔باقی تمام گیت قتیل شفائی کے تھے اور موسیقی ماسٹر عنایت حسین کی ۔فلم کو گولڈن جوبلی کی کامیابی پر لے جانے میں موسیقی اور اِس کے گیت برابر اہمیت کے حامل ہیں۔جیسے: ’’غمِ دل کو اِن آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے۔۔۔‘‘، ’’ اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی، جا اور محبت کر پگلی۔۔۔‘‘۔اِس گیت میں کتنی سادا بات کہی گئی کہ ’ دیکھا اِس کام کا نتیجہ؟ ہم نہ کہتے تھے کہ ایسا نہیں کرو۔۔۔‘،پھر ماسٹر عنایت حسین کی التجایہ،اور بولوں کی مناسبت سے سادا دھن جو دل میں جا اُترے۔کیا کمال کے لوگ تھے۔

1969 میں بننے والی فلم ’’ ناز‘‘ میں نثار بزمی کی موسیقی اور مالا کی آواز میں قتیلؔ شفائی کا یہ معرکۃالآراء گیت ’’ مجھے آئی نہ جگ سے لاج، میں اتنے زور سے ناچی آج کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے‘‘ ۔ اِس نے مقبولیت کے سب ریکارڈ توڑ دیے۔یہ ایسا مقبول ہوا کہ بھارتی گلوکار پنکھج اُداس نے بھی ریکارڈ کرایا او ر اِسے جگجیت سنگھ بھی نجی محفلوں میں سناتے رہے ہیں۔بعض نامور قوال آج بھی اکثر اِس گیت کا مکھڑا ،رَنگ میں سناتے ہیں۔

1970 میں قتیلؔ شفائی نے اپنی مادری زبان ’ ہندکو‘ میں بننے والی ذاتی فلم ’’ قصہ خوانی‘‘ کی فلمسازی بھی کی جو مختلف وجوہات کی بنا پر ایک دہائی کے بعد 1980 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اِس کا ذکر انہوں نے اپنی آپ بیتی، ’ گھنگھرو ٹوٹ گئے‘ دوسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 159 سے 162پر کیا ہے۔

گیتوں کے ساتھ ساتھ قتیل نے فلموں میں معیاری لیکن سادا اور آسان غزلیں بھی لکھیں جن سے فلمی غزل کو چار چاند لگ گئے اور فلمی غزل کا معیار بڑھ گیا۔جو کام تنویر ؔ نقوی اور ساحر ؔ لدھیانوی نے شروع کیا اُس کا منطقی انجام قتیلؔ شفائی نے کیا۔

اُن کے انتقال کے بعدبلدیہ لاہور اور اہلِ محلہ نے اِن کے گھر جانے والی سڑک کا نام ’قتیل شفائی اسٹریٹ ‘ رکھ دیا ۔ اِسی طرح ہری پور میں جہاں یہ رہا کرتے تھے اُس جگہ کا نام ’ محلہ قتیل شفائی‘ رکھا گیا ہے۔

قتیلؔ شفائی مشاعروں میں شرکت کرنے اکثر بھارت جاتے تھے ۔ کئی مرتبہ بھارتی فلمسازوںنے اُنہیں خصوصی طور پر گیت لکھنے کے لئے دعوت دی۔ قتیلؔ شفائی نے اُنہیں کئی گیت لکھ کر دیے جیسے: 1993 کی فلم ’’ پھر تیری کہانی یاد آئی‘‘ میں انّو ملک کی موسیقی میں الکا یاگنِک کی آواز میں اِن کا یہ گیت: ’’شاعرانہ سی ہے زندگی کی فضا، آپ بھی زندگی کا مزا لیجئے۔۔۔‘‘،1993میں بننے والی فلم ’’ وقت ہمارا ہے‘‘ میں ندیم شیروَن کی موسیقی اور الکا اور محمد عزیز کی آوازوں میں: ’’ میں نے پی یا تو نے پی، ارے بات ایک ہوئی۔۔۔‘‘، 1993 کی فلم ’’سَر‘‘ میں انو ملک کی موسیقی میں کمار سانو اور کویتا کرشنا مورتی کی آوازوں میں : ’’ آج ہم نے دل کا قصہ تمام کر دیا، خود بھی پاگل ہو گئے تم کو بھی پاگل کر دیا۔۔۔‘‘ اور 1994 میں بننے والی فلم’’ ناراض‘‘ میں کُمار سانو کی آواز میں انو ملک کی موسیقی میں یہ گیت:’’ سنبھالا ہے میں نے بہت اپنے دل کو، زباں پر تیرا پھر بھی نام آ رہا  ہے۔۔۔‘‘وغیرہ ۔
قتیلؔ شفائی کے کلام کے چند نمانے پیش ہیں:
           ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
         ہمیں پر، ر ات بھاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
        تمہیں کیا ! آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
           یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

           اعزاز پانے والے زرا یہ بھی سوچتے
          دستار کے عوض کہیں سر تو نہیں گئے



          تم آ سکو تو شب کو بڑھا دوں کچھ ا ور بھی
          اپنے کہے میں صبح کا تارہ ہے اِن دِنوں

بر صغیر کے عظیم فلمی گیت نگار اور شاعر 2001میں جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔اُن کے دوست اظہر جاوید نے اُن کی وفات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ قتیل شفائی کی زندگی کا کھنکتا چھنکتا گھنگھرو بالآخر موت نے توڑ دیا۔اور انہوں نے قتیلؔ شفائی کی آپ بیتی کا نام بھی یہی رکھا ہے۔۔۔گھنگھرو ٹوٹ گئے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 17  اپریل 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔

 

Comments

Popular posts from this blog

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ