تعلیم تجارت نہیں ۔۔۔سندھ ہائی کورٹ
تعلیم تجارت نہیں ۔۔۔سندھ ہائی کورٹ
تحریر شاہد لطیف
سندھ ہائی کورٹ نے نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے کے خلاف دائر درخواست پر بچوں سے اضافی فیس وصول کرنے کے حکم امتنائی میں 24 اپریل تک توسیع کر دی ہے ۔جمعرات کو جسٹس عقیل احمد کی سربراہی میں دو رُکنی بینچ نے نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے کے خلاف والدین کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران تبصرے میں کہا ’’ آئین مفت تعلیم کی ضمانت دیتا ہے اور سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت سب کے سامنے ہے۔جبکہ ایسی صورتِ حال میں نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں میں اضافے کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ معذرت کے ساتھ تعلیم کو تجارت نہیں سمجھنا چاہیے ، اِس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ۔یہ وقت تو تعلیمی ایمر جنسی کا ہے ، حکومت اِس میں پالیسی کے طور پر بھی بہت کچھ کر سکتی ہے اور ملک میں ایک نہیں دس سسٹم چل رہے ہیں، ملک کی حالت سمجھیں کہ کیا سے کیا ہو گئی ہے ۔جو آتا ہے تعلیم کو کاروبار بنا دیتا ہے۔لوگوں کی یہ حالت ہے کہ کھانا میسر نہیں، ایسے میں فیسوں میں غیر معمولی اضافے کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں ۔اسکولوں کی برانچوں میں اضافہ ہو رہا ہے، اچھا ہے لیکن عام آدمی کا خیال کیا جائے‘‘۔ سماعت کے موقعے پر والدین کا کہنا تھا کہ فیسوں میں اضافہ اسکول انتظامیہ نہیں بلکہ رجسٹریشن اتھارٹی کرتی ہے جبکہ اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ عدالتِ عالیہ کا دو رُکنی بینچ اِس معاملے پر فیصلہ دے چکا ہے اِس لئے مذکورہ درخواستوں کی سماعت کے لئے بڑا بینچ تشکیل دیا جائے ۔ فاضل عدالت نے درخواستوں کی سماعت 24 تک ملتوی کر دی۔
اُدھر نجی تعلیمی اداروں میں طلباء کے والدین کی نمائندہ تنظیم پیرنٹس ایکشن کمیٹی نے نجی اسکو لوں کی جانب سے فیسوں میں اضافے، جون اور جولائی کی فیسوں کے ساتھ ساتھ نئے تعلیمی سال میں مختلف مدوں میں رقم کی وصولی، اسکولوں ہی سے نصاب اور یونیفارم کی خریداری کی شرائط سمیت دیگر من مانیوں کے خلاف نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے سے رابطے کا فیصلہ کر لیا۔ پیرنٹس ایکشن کمیٹی کی لیگل ایڈ کمیٹی نے اِس سلسلے میں تمام سفارشات مکمل کر لی ہیں ۔اپنے آیندہ کے لائحہ عمل کے لئے قانونی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔یہ بات پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئر مین کاشف صابرانی نے کہی۔انہوں نے کہا کہ آج پورے شہر میں نجی اسکولوں کی من مانیوں کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں والدین نے ہم سے رابطے کیے ہیں ۔ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھی اِس اہم اور عوامی مسئلے پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔والدین کی جانب سے اُٹھائے گئے سوالات ، جیسے جون جولائی کی فیسوں کی زنردستی وصولی، نئے تعلیمی سال کے آغاز پر سالانہ چارجز، اور فیسوں میں 25 سے 50فی صد اضافے کے ساتھ ساتھ اِن اسکولوں کی جانب سے نئے سال کا کورس اور یونیفارم بھی صرف انہی اسکولوں یا اِن کی منتخب دُکانوں سے ہی خریدنے کی پابندی کے خلاف پیرنٹس ایکشن کمیٹی کی لیگل ایڈ کمیٹی تمام تر قانونی پہلو ؤں سے غور کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اِس معاملے کو نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کے حوالے کیا جائے۔اِن تینوں اداروں کو اِن اسکولوں کی جانب سے من مانیوں کے تمام شواہد فراہم کیے جائیں گے ۔ پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئر مین نے کہا کہ یہ نجی اسکول کسیقانون کو ماننے کے لئے تیار نہیں ۔افسوس ہے کہ ہائی کورٹ کے احکامات پر بننے والی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی انہی اسکولوں کے لوگوں کو ممبر بنایا گیا ،اِس لئے ہم چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بنائی جانے والی اِس اسٹینڈنگ کمیٹی میں فوری طور پر پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے اور پھر اِس بننے والی کمیٹی کو پابند کیا جائے کہ وہ 10 دِن کے اندر اندر اپنی رپورٹ عدالت کو پیش کریں کیوں کہ موجودہ بنائی گئی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ایک سازش کے تحت 45 روز کا وقت مانگا ہے جس کے دوران من مانیوں میں مصروف یہ نجی اسکول والدین سے ناجائز اضافہ شدہ فیسیں وصول کر لیں گے۔اِسی طرح وہ جون اور جولائی کی فیسوں کے ساتھ کورس اور یونیفارم بھی دھونس اور زبردستی والدین کو لینے پر مجبور کر چکے ہوں گے ۔اِس لئے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ موجودہ اسٹینڈنگ کمیٹی کو 10 دِن میں رپورٹ پیش کرنے کا پابند کیا جائے نیز اس میں کم از کم پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے عہدے داروں کو بھی شامل کیا جائے ۔اِس ایکشن کمیٹی کے چیئر مین نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اِس حوالے سے سوموٹو ایکشن لیں ۔لاکھوں طلباء اور طالبات کے ساتھ ساتھ اُن کے والدین کو اِن نجی اسکولوں کی دہشت گردی اور لوٹ مار سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ہمارے خیال میں فیسوں میں من مانا اضافہ،تمام نصاب ، یونیفارم اور سب سے بڑھ کر کاپیاں اور رجسٹر تک اِن با اثر اسکولوں سے خریدنے کی پابندی قطعاََ قابلِ قبول نہیں۔گو کہ یہ دھونس زبردستی ایک عرصے سے جاری تھی اور والدین چیخ وپکار بھی کر رہے تھے لیکن سب بے اثر ۔۔۔ مگر جس طرح اِن نام نہاد ’ اشرافیہ‘ اسکولوں نے تمام حدیں پار کر لی ہیں بالکل اُسی طرح اب والدین کی قوتِ برداشت بھی جواب دے گئی ہے ۔جب با اثر نجی اسکول انتظامیہ کھلے عام کہتی ہے کہ ’ کر لو جو کرنا ہے‘ تو اُن کو اپنے اثر و رسوخ اور مہنگی فیسوں والے وکلاء پر حد درجے یقین ہوتا ہے۔افسوس یہ ہے کہ یہ سچ بھی ہے۔یہ تو با اثر اسکول انتظامیہ کی بات ہے، مشاہدہ یہ ہے کہ طاقتور فریق اور پیسے والا اپنے اثر اور پیسے کی بنا پر مہنگے اور نامور وکیل کرتا ہے جو بات بے بات ایسے ایسے کمالات دکھا تا ہے کہ اپنا جائز حق مانگنے والا تاریخیں بھگت بھگت کر دنیا ہی سے گزر جاتا ہے۔
ہماری بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت اِس سارے معاملے میں گونگی بہری بن گئی ہے۔سیاسی پارٹیوں کی مرکزی اور مقامی قیادت کے نزدیک تعلیم و صحت کے مسائل تو مسائل ہی نہیں۔کیا پاکستان پیپلز پارٹی، کیاپاکستان مسلم لیگ ن، کیاپاکستان تحریکِ انصاف کیا متحدہ اور پاک سر زمین والے، کیا اے این پی اور دوسری پارٹیاں اور کیا شہر کے سماجی خدمت گزار ۔۔۔کہیں سے بھی اِس بے جا ظلم کے خلاف ایک آوازبھی بلند نہیں ہوئی ۔ وہ علمائے دین جو اُٹھتے بیٹھتے علم کی بات کیا کرتے ہیں اُنہوں نے بھی اِس ’ علم کو تجارت‘ بنانے اور فیسوں میں ہوشربا اضافے اور دیگر من مانیوں پر کوئی بات نہیں کی۔
اب آتے ہیں یونیسیف UNICEF کی طرف۔ اقوامِ متحدی کا یہ ذیلی ادارہ پسماندہ، کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر مملک میں بچوں کی صحت اور تعلیم کے لئے بنایا گیا تھا۔آج پاکستان میں تعلیمی میدان میں اِس ادارے کا کام گم ہو کر رہ گیا ہے۔؟ کیوں ؟ اِس لئے کہ آئے دن کی پولیو مہم نے اِس ادارے کے دیگر کاموں کو گہنا دیا ہے۔جو رقوم اِس پولیو مہم پر خرچ ہو رہی ہے اگر تعلیم پر ہوتی تو پاکستانی بچے تباہ حال اور غیر معیاری تعلیم دینے والے سرکاری اسکولوں کے بجائے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ممکنہ حد تک بہترین تعلیم حاصل کر رہے ہوتے جو کہ بقول سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی اُن کا دستوری اور آئینی حق بھی ہے ۔ با اثر اشرافیہ اسکولوں کی من مانیاں صرف کراچی کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے لہٰذا ہم مقامی اور قومی سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے قائدین سے درخوست کرتے ہیں کہ لللہ مسئلہ کی سنگینی کو سمجھیں۔ ورنہ عوام میں یہ تاثر جگہ پانے میں دیر نہیں کرے گا کہ ساسی لیڈر تو خود اِن ہی اشرافیہ اسکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں انہیں ہماری کیا پروا۔۔۔ پھر۔۔۔ جب آر یا پار کے فیصلے کی گھڑی آ ئے گی تو ’ انقلابِ فرانس‘آ ئے گا۔اشرافیہ اسکولوں کے مالکان اور انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اُس وقت سے ڈریں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 14 اپریل، 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر کالم " اُلٹ پھیر" میں شائع ہوئی۔
Comments