پاکستانی فلمی گیت نگار۔۔۔تجھے قرار نہ آئے ، قرار کو ترسے گیت، مکالمہ وکہانی نگار، ہدایتکار اور فلمساز سیف الدین سیفؔ





پاکستانی فلمی گیت نگار۔۔۔تجھے قرار نہ آئے ، قرار کو ترسے

گیت، مکالمہ وکہانی نگار، ہدایتکار اور فلمساز
سیف الدین سیفؔ 

20   مارچ1922 ۔ 12 جولائی 1993

تحریر شاہد لطیف

نام سیف الدین اور تخلص سیف ،20 مارچ1922 کو امرتسرکے ایک معزز ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار دیا اور اچھے نمبروں سے پاس کیا۔پھر ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیاجہاں محمد دین تاثیر کالج پرنسپل تھے اور انگریزی کے اُستاد فیض احمد فیض تھے۔اِن دونوں کی قربتوں نے سیفؔ میں علمی اور ادبی ذوق بیدار کیا لیکن بعض سیاسی اور مذہبی مسائل میں الجھنے کی بنا پر انہیں امتحان دینے سے روک دیا گیا ۔ اِس وجہ سے سیفؔ نے تعلیم سے مونہہ موڑ لیااور تلاشِ معاش میں سرگرداں ہو گئے ۔اِس پس منظر میں 1946 میں فلمی لائن اختیار کی اور فلمی کہانیاں لکھنے لگے۔ افسوس کہ بر صغیر کی تقسیم کی وجہ سے اُن کی لکھی ہوئی فلمیں نمائش کے لئے پیش نہ ہو سکیں۔پاکستان بننے کے بعد یہ ہجرت کر کے لاہور آ گئے اور پھر یہیں سے اپنی ادھوری تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان میں فلمی کہانیوں کے ساتھ ساتھ نغمہ نگاری اور مکالمے لکھنا بھی اِن کی روزی کا ذریعہ بن گیا ۔سیفؔ کے چند مشہور گیت یہ ہیں: ’’ جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے۔۔۔ فلم انار کلی( (1958) موسیقی رشید عطرے آواز نورجہاں‘‘۔ ’’ وہ خواب سہانہ ٹوٹ گیا۔۔۔فلم لختِ جگر (1956)، موسیقی جی اے چشتی آواز نورجہاں‘‘۔ ’’ چل ہٹ ری ہوا، گھونگھٹ نہ اُٹھا۔۔۔فلم مادرِ وطن(1966) موسیقی سلیم اقبال آواز نورجہاں۔ ’’ جِس طرف آنکھ اُٹھاؤں تیری تصویراں ہیں۔۔۔فلم ثریا بھوپالی (1976)موسیقی اے حمید آواز ناہید اختر‘‘۔ ’’میں تیر ے اجنبی شہر میں ، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے۔۔۔فلم شمع اور پروانہ (1970) موسیقی نثار بزمی آواز مجیب عالم۔’’ اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔۔۔فلم امراؤ جان ادا (1972) موسیقی نثار بزمی آواز نورجہاں‘‘۔ ’’ جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں۔۔۔فلم وعدہ (1957 ) موسیقی رشید عطرے آواز شرافت علی‘‘۔


مقبولیت کے حوالے سے یادگار فلم’’ گمنام‘‘ (1954) میں اُن کا یہ سُپر ہٹ گیت بہت اہم ہے : ’’ تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔۔۔ ‘‘یہ اقبال بانو کا پہلا فلمی گیت ہے جِس کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی ۔میری رائے میں اِسی گیت نے اقبال بانو کو اقبال بانو بنا یا۔یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ سیفؔ صاحب کے اندر کے شاعر کو آسمانِ شہرت کی بلندیوں پر لے جانے والا بھی یہی گیت ہے ۔ اِس گیت نے بھارت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ گیت کی مقبولیت کے بعد سیف الدین سیفؔ نے فلمسازی کا ادارہ ’’ راہ نما فلمز‘‘ قائم کر لیا۔اِس ادارے سے سیف ؔ صاحب نے بطورفلمساز 1954میں اپنی پہلی فلم ’’ رات کی بات‘‘ بنائی جِس کی ہدایات انور کمال پاشا اور موسیقی ماسٹر عنایت حسین کی تھی۔اداکاروں میں صبیحہ سنتوش اور علاؤالدین وغیرہ شامل تھے۔یہ فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی۔سیفؔ مایوس نہیں ہوئے۔اِن کی 1957 میں بننے والی اگلی فلم ’’ سات لاکھ ‘‘ نے اپنے نام کی طرح کامیاب ہو کر ادارے پر واقعی لاکھوں کی برسات کر دی۔اِس فلم کے فلمساز،کہانی نگار اور نغمہ نگار بھی سیف الدین سیف ؔ تھے جب کہ ہدایات جعفر ملک نے دیں۔یہ وہی جعفر ملک ہیں جو فلم ’’ گمنام ‘‘ میں انور کمال پاشا کے معاون تھے۔ اِس فلم کی ایک اور خاص بات حسن طارق ہیں جنہوں نے فلم ’’سات لاکھ ‘‘بننے میں تقریباََ ہر ایک شعبے اور مرحلہ میں سیفؔ صاحب کی معاونت کی۔مجھے یہ بات علی سفیان آفاقی صاحب نے بتائی، جو خود بھی اِس فلم کے ہر مرحلہ میں حسن طارق کے ساتھ رہے۔مذکورہ فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے۔’’ سات لاکھ‘‘ کے یہ گانے سُپر ہٹ ہوئے: ’’ آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے ۔۔۔آواز زبیدہ خانم‘‘۔ ’’گھونگھٹ نکالوں یا گھونگھٹ چرا لوں۔۔۔آواز زبیدہ خانم‘‘۔ ’’ یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔۔۔آواز سلیم رضا‘‘اور ’’ قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے۔۔۔آواز منیر حسین‘‘۔ اِس فلم کو1957 کی بہترین فلم ہونے کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ مجموعی طور پراِس فلم نے 1957 کے 5 نگار ایوارڈ حاصل کیے: سیف الدین سیفؔ بہترین کہانی نگار، بہترین اداکارہ صبیحہ خانم، بہترین فلمساز سیف الدین سیفؔ ،بہترین معاون اداکارہ طیبہ بانو المعروف نیئرسلطانہ، بہترین موسیقار رشید عطرے۔سیفؔ وہ پہلے خوش نصیب فلمساز ہیں جنہیں پہلے بہترین فلمساز کا نگار ایوارڈ ملا۔

18جون 1959 کو عید الاضحیٰ کے موقع پر پاکستان اوربھارتی پنجاب میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی پنجابی فلم ’’ کرتار سنگھ‘‘پہلی پاکستانی فلم تھی جس میں سکِھ کرداروں کو پیش کیا گیا۔یہ فلم تحریکِ آزادی ہندکے ہیرو کرتار سنگھ پر مبنی تھی۔ یہ کردار اداکار علاؤ الدین نے ادا کیا۔مذکورہ فلم کی نمائش بھارتی پنجاب کے سنیما گھروں میں 3سال تک جاری رہی ۔ یہ فلم پاکستان میں پنجابی فلموں میں ایک تاریخ ساز فلم سمجھی جاتی ہے۔اِس فلم کے مصنف، مکالمہ نگار،فلمساز اور ہدایتکار خود سیف الدین سیفؔ تھے۔ اِس فلم میں سیفؔ کے علاوہ، بھارتی پنجاب کی مشہور شاعرہ امرتا پریتم اور پاکستان کے شاعر وارث لدھیانوی نے بھی گیت لکھے جبکہ اِن سُپر ہِٹ گیتوں کے موسیقار دو سگے بھائیوں کی جوڑی سلیم اور اقبال المعروف سلیم اقبال تھے۔فلم ’’ کرتار سنگھ‘‘ کے تقریباََ سب ہی گیت بہت مقبول ہوئے لیکن وارث لدھیانوی کا لکھا ایک گیت تو مقبولیت کے اگلے پچھلے سب ریکارڈ توڑ گیا۔’’ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔۔۔‘‘ ۔فلم کو بنے آج 60 سال ہو رہے ہیں لیکن پاکستان ، بھارت ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، مملکتِ کنیڈا، آسٹریلیا اوریورپی ممالک میں مہندی اور شادی کے موقعوں پر ، لڑکیاں بالیاں اور ہر عمر کی خواتین آج بھی لہک لہک کر یہ گیت گاتی ہیں۔پاکستان، بھارت اور برطانیہ میں پاک و ہند کے نوجوان میوزیشنز اِس گیت کی دھنیں ایسی محفلوں میں بجا کر عوام سے داد وصول کرتے ہیں۔میں خود بھی اِس صف میں شامل رہا ہوں ۔ اِس معرکۃ الآرا گیت کے علاوہ یہ گیت بھی مقبول رہے: ’’اج اکھاں وارث شاہ نوں۔۔۔ شاعرہ امرتا پریتم آوازیں زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی‘‘۔ ’’ اج مک گئی اے غماں والی شام۔۔۔گیت نگار سیفؔ آوازیں سلیم رضا اور عنایت حسین بھٹی‘‘، ’’ ماہی نی تینوں لے جاناں نی گوریے۔۔۔گیت وارث لدھیانوی آوازیں زبیدہ خانم اور نسیم بیگم‘‘۔


1962 میں فلمساز کی حیثیت سے فلم ’’ دروازہ ‘‘ بنائی جِس کے گیت نگار اور ہدایتکار وہ خود تھے اور موسیقار سلیم اقبال۔اِس فلم کے ستارے نیلو، یوسف خان، لیلیٰ، صبا، نذر اور سلطان راہی وغیرہ۔باکس آفس پر یہ ایک اوسط درجے کی فلم رہی البتہ یہ ایک یادگار فلم ہے کیوں کہ اِس میں استاد امانت علی خان نے پہلی مرتبہ فلمی نغمہ سرائی کی: ’’ پیا نہیں آئے۔۔۔‘‘ یہ دوگانہ تھا جو انہوں نے نورجہاں کے ساتھ ریکارڈ کروایا۔مذکورہ فلم کا ایک اور گیت بھی سُپر ہِٹ تھا: ’’ چھُپ گئے سِتارے ندیا کنارے، تم نہیں آئے ۔۔۔آواز نسیم بیگم‘‘ ۔ایک اور دوگانا بھی مشہور ہوا:’’ اب ڈر کاہے کا، گھونگھٹ کے پَٹ کھول دے۔۔۔آوازیں فضل حسین اور نسیم بیگم‘‘۔فضل حسین نے فلموں میں کم گایا ہے لیکن جو گایا وہ اکثر مقبول ہوا۔ دیگر گلوکاروں میں ناہید نیازی اور سلیم رضا شامل ہیں۔

1965کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں بننے والی فلم ’’ مادرِ وطن‘‘ کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔یہ 1966 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اداکاروں میں دیبا ، محمد علی،زینت،طالش، نعیم ہاشمی شیخ اقبال، رنگیلا، مظہر شاہ، منور ظریف، خلیفہ نذیر اور البیلا وغیرہ تھے۔اِس فلم کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکار سیفؔ خود تھے۔ اِسی فلم میں گیت نگار مشیر کاظمی کے نام کو دوام بخشنے والا معرکۃ الآرا گیت ہے جو سیفؔ صاحب نے اِن سے لکھوایا :’’ اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو ، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔۔۔ ‘‘ ۔اِس گیت نے مشیرؔ کاظمی اور اِس گیت کی گلوکورہ نسیم بیگم کو لازوال شہرت بخشی۔ گیت نگار اور گلوکارہ کو دوام بخشنے میں موسیقار بھائیوں کی جوڑی سلیم اقبال کا بھی برابر کا حصہ ہے۔


ِ پاکستانی سماج میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بد عنوانی/کرپشن کو موضوع بناتے ہوئے سیف الدین سیفؔ نے1967 میں پنجابی فلم ’’ لُٹ دا مال‘‘ بنائی۔ اداکاروں میں فردوس، اکمل، مظہر شاہ، سلونی اور آصف جاہ، رنگیلا، عالیہ البیلا وغیرہ تھے ۔مذکورہ فلم کے فلمساز، کہانی و نغمہ نگاراور ہدایتکار یہ خود تھے ۔ جبکہ موسیقار سلیم اقبال اور گلوکار مالا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، آئرین پروین، سلیم رضا، مسعود رانا، فضل حسین اور شوکت علی تھے۔ 


جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ حسن طارق فلم ’’ سات لاکھ‘‘ میں معاون ہدایتکارکی حیثیت سے فلم کے تمام شعبوں میں سیکھنے کی غرض سے سیفؔ صاحب کے ساتھ ساتھ تھے لہٰذا اِن کی سیفؔ صاحب سے ذہنی ہم آہنگی ہو گئی۔آگے چل کر جب حسن طارق ہدایتکار بن گئے تو اپنی کئی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے سیف الدین سیف سے لکھوائے: مثلاََ ’’ سوال‘‘ جِس کی کہانی اور منظر نامہ انہوں نے لکھا جب کہ مکالمے علی سفیان آفاقی اور ریاض شاہد کے اور موسیقی رشید عطرے کی۔ پاکستانی سُپر ہٹ فلم امراؤ جان ادا 1972) ) اور سیفؔ صاحب لازم و ملزوم ہیں۔وہ اِس فلم کے کہانی نگار، گیت نگار اور مکالمہ نگارتھے۔بعض احباب بھارتی امراؤ جان ادا کا اِس سے مقابلہ کرتے ہیں جو 1981 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔یہ فلم بھی بڑی کاسٹ اور خطیر خرچے سے تیار ہوئی اور یہ بھی دیکھے جانے کے قابل ہے۔ اِن دونوں فلموں کا کوئی موازنہ نہیں۔ رانی ، طالش ،شاہد اور علا ؤ الدین کی جان دار اداکاری، نثار بزمی کی دل کے تاروں کو ہلاتی ہوئی موسیقی ، حسن طارق کی حقیقت سے قریب ہدایتکاری، نورجہاں، رونا لیلیٰ، احمد رشدی وغیرہ کی گلوکاری کا جادو اور سیفؔ صاحب کی کہانی اور موقع کی مناسبت سے زور آور مکالموں نے ایسا رنگ جمایا ۔۔۔میری اِن سطور کے پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو کر یہ دونوں فلمیں دیکھ کر خود فیصلہ کریں۔

ابتدائی زمانے میں پاکستانی فلمی صنعت کو اپنے پیروں پہ کھڑے کرنے والوں میں بجا طور پر سیف الدین سیفؔ کا نام شامل ہے ۔ انہوں نے اپنی بنائی ہوئی فلموں اور دوسرے فلمسازوں کے لئے مکالمے، منظر نامے، گیت اور کہانیاں لکھیں۔ایک دو فلموں کو چھوڑ کر اپنی فلموں کی ہدایتکاری بھی کی جِن میں ’’کرتار سنگھ‘‘ سرِ فہرست ہے۔راقم نے سیفؔ صاحب کی معرکۃ الآرا فلمیں بغور دیکھیں ہیں۔پھر اِن کے علاوہ ماضی میں میری موسیقار نثار بزمی، مسرور بھائی المعروف مسرور انور اور علی سفیان آفاقی صاحب، 70 کی دہائی کے گراموفون کمپنی آف پاکستان EMI کراچی اسٹوڈیو کے چیف ساؤنڈ انجینئیر عزیز صاحب اور لاہور اور کراچی کے نگار ایوارڈ یافتہ ساؤنڈ ریکارڈسٹ جناب سی منڈوڈی سے سیف الدین سیفؔ سے متعلق کافی گفتگو رہی۔ اِس سے میں نے یہ رائے قائم کی کہ سیف الدین سیف ایک ہمہ صفت شخصیت تھے لیکن اُن کی تمام صفات میں نمایاں تراُن کی شاعری ہے جو فلموں کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی مقبول ہے جِن میں نظمیں ، گیت اور غزلیں سب شامل ہیں ۔


ادبی گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے اِن کو کمسنی ہی سے شعر و سُخن سے دلچسپی رہی۔انہوں نے غزل، رباعی طویل اور مختصر نظمیں اور گیت لکھے مگر غزل سے فطری لگاؤ تھا۔’’ خمِ کاکل ‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ ہے جو نظم اور غزل کا امتزاج ہے۔اِس میں چند فلمی گیت بھی شامل ہیں مثلاََ: ’’ رات کی بے سکوں خاموشی میں رو رہا ہوں کہ سو نہیں سکتا۔۔۔‘‘فلم ’’ سوال‘‘ ،’’ آج یہ کس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں میں۔۔۔‘‘فلم ’’ طوفان‘‘ جیسے گیت اور غزل بھی اس میں شامل ہیں۔ 
’’ کفِ گل فروش‘‘ اُن کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔سیفؔ کے تیسرے مجموعہ کا نام ’’ دُور دراز ‘‘ ہے۔


سیفؔ کے کلام کے چند نمونے پیش کرتا ہوں:
سیف اندازِ بیان رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حال بے قرار دل کا
داغوں میں ہے اب شمار دل کا
آتا نہیں دل تیری گلی سے
جاتا نہیں انتظار دل کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے
مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
جو سنائی انجمن میں شبِ غم کی آپ بیتی
کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو محفل سے اُن کی نکالے ہوئے ہیں
غمِ دوجہاں کے حوالے ہوئے ہیں
یہاں سیفؔ ہر دن قیامت کا دن ہے
وہ کس حشر پر بات ٹالے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس طرح روکتا ہوں اشک اپنے
کس قدر دل پر جبر کرتا ہوں
آج بھی کارزارِ ہستی میں
جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے ! تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں
اہلِ دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اُٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
ہم سے واقف ہیںیہ دریایہ سمندر یہ پہاڑ
ہم نئے رنگ سے تاریخ کو دہراتے ہیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھا تو پھر وہیں تھے چلے تھے جہاں سے ہم
کشتی کے ساتھ ساتھ کنارے چلے گئے
جاتے ہی اُن کے سیف، ؔ شبِ غم نے آ لیا
رُخصت ہوا وہ چاند، ستارے چلے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی فلم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ 12 جولائی 1993 کو دنیا میں72 سال گزارنے کے بعد لاہور میں ڈوب گیا ۔اللہ اِن کی مغفرت کرے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 24  اپریل 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت پر شائع ہوئی

  

Comments

Popular posts from this blog