معیارِ اہلیت /میرٹ کے بر خلاف بھرتیاں
معیارِ اہلیت /میرٹ کے بر خلاف بھرتیاں
تحریر شاہد لطیف
ایک نہایت ہی اہم موضوع :اہلیت یا میرٹ کے بر خلاف بھرتیاں۔ہمارے ملک میں کیا سرکاری ، کیا نیم سرکاری، کیا کارپوریشن، کیا ا تھارٹیاں، کیا خود مختار اور کیا نیم خود مختار ادار ے، اِن سب کا اہلیت کے بر خلاف بھرتیوں، ملازمتوں اور کنٹریکٹوں نے حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سیاسی اور مذہبی قیادتوں کو جِس طرح اِس مسئلہ کے خلاف آواز اُٹھانا اور جد و جہد کرنا چاہیے تھی اُس کا عشر عشیر بھی نہ کر سکے۔گویا مان لیا گیا کہ ’ سب چلتا ہے‘۔پچھلے دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب کی 4 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر وں سے استعفےٰ طلب کر لئے اور ایک کو معطل کر دیا۔راقم نے اِس موضوع کا انتخاب اِس لئے کیا کہ جامعہ کراچی اور وفاقی اُردو یونیورسٹی کے بھی نا خوشگوارمعاملات سامنے آ رہے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں ڈھائی سال سے کوئی وائس چانسلر اور سات سال سے کوئی پرو وائس چانسلر نہیں۔لاہور کی 4دوسری یونیورسٹیاں بھی طویل عرصہ سے پرو وائس چانسلر سے خالی ہیں۔سُپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں بتایا گیا کہ پنجاب یونیورسٹی، لاہور کی فاطمہ جناح ، فیصل آباد اور راولپنڈی کی میڈیکل یونیورسٹیوں کا ایک عرصے سے کوئی مستقل وائس چانسلر ہی نہیں، عارضی طور پر کسی استاد کو قائم مقام وی سی مقرر کر کے ’ کام چلایا جا رہا ہے‘۔چیف جسٹس آف پاکستان نے سخت نوٹس لیا اور ان چاروں یونیورسٹیوں کے قائم مقام وائس چانسلروں سے استعفےٰ طلب کر لئے۔لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی وی سی عظمیٰ قریشی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ سفارشی ہیں۔عظمیٰ قریشی نے تسلیم کیا کہ وفاقی وزیر احسن اقبال اُن کے والد کے شاگرد ہیں۔چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ وہ استعفیٰ دیں اور اس آسامی کے لئے اشتہار کے بعد درخواست دیں ۔میرٹ پر ہوں گی تو دوبارہ آ سکتی ہیں۔اِس پر انہوں نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ پھر معطل کر دیتے ہیں ۔کہنے لگیں ایسا نہ کریں میری ساکھ خراب ہو گی نیز احسن اقبال نے میری کوئی سفارش نہیں کی ،اِس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس ساری معلومات موجود ہیں اور انہوں نے عظمیٰ قریشی کو معطل کر دیا۔ اِس موقع پر ہائر ایجوکیشن کے سیکریٹری نے کہا کہ نئے وی سی مقرر کرنے میں 4ماہ لگ جائیں گے۔اِس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام 6ہفتے میں ہونا چاہیے۔چیف جسٹس اِس سے پہلے پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کا بھی نوٹس لے چکے ہیں ۔
صوبے کی 5 بڑی یونیورسٹیوں کا یہ حال ہے تو باقی یونیورسٹیوں کا کیا ہو گا؟خیبر پختونخواہ کے ایک یونیورسٹی کے وی سی کی تو ڈگری ہی جعلی نکلی۔کراچی کے ایک وی سی پر اور طرح کے الزامات لگ گئے۔یہ سب کیا ہے ؟ اِس کا منطقی جواب یہ ہے کہ ایک قائم مقام وی سی ، اپنے آپ کو مستقل کرنے کے لئے وزیرِ اعلی کی ’ نظرِ عنایت‘ کا محتاج ہوتا ہے ۔بے بس سرکاری اہلکار کی طرح اپنی وائس چانسلری پکی ہونے کی امید میں ’ جی۔حضور۔۔۔جی جناب ‘ کہتے ہوئے وزیرِ اعلی کے تمام جائز اور نا جائز کام کرتا جاتا ہے۔ بہترین مثال پنجاب ہونورسٹی کے وی سی زکریا ذاکر کی ہے۔لاہور میں اورنج ٹرین بن رہی ہے ۔وزیرِ اعلی شہباز شریف کا حکم آیا کہ پنجاب یونیورسٹی کی 5 ایکڑ زمین اورنج ٹرین کے حوالے کر دی جائے۔اِس پر یونیورسٹی کے اساتذہ نے مخالفت کی کہ یہ زمین صرف تعلیمی سرگرمیوں کے لئے ہی استعمال ہو سکتی ہے۔اس پر صوبائی وزیرِ تعلیم نے پنجاب یونیورسٹی میں آ کر پریس کانفرنس کی اور قائم مقام وی سی کو بھی بلوایا اور زمین فوری طور پر اورنج ٹرین کو دینے کا کہہ دیا۔اِس کو ’ بڑے صاحب ‘ کا فرمان سمجھتے ہوئے قائم مقام وی سی نے ایسا کرنے کا فوری حکم جاری کر دیا۔جب چیف جسٹس آف پاکستان نے پوچھا کی ایسا کیوں کیا تو جواب ملا : ’’ غلطی ہو گئی ۔ معاف کر دیا جائے ‘‘ ۔بر سبیلِ تذکرہ ایک بات کرتا چلوں ۔اپنی مرضی کا قانون بنا کر وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ صاحب نے یہ اختیار حاصل کر لیا ہے کہ آئندہ سندھ کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا تقرر گورنر کے بجائے وزیرِ اعلی خود کرے گا۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے کے لئے اعلی تعلیم اور وسیع تجربہ ضروری ہے لیکن آ ئینی طور پر وزیرِ اعلی کے لئے ’ تیسری جماعت‘ پاس ہونا بھی ضروری نہیں۔
1973-1974کا واقعہ ہے۔راقم نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ میں نیا نیا داخلہ لیا تھا۔اس سال جامعہ میں تقسیمِ اسناد کے لئے تیاریاں ہو رہی تھیں۔اُن دنوں سندھ کے کے گورنر میر رسول بخش تالپور تھے ۔موصوف بالکل ہی انگوٹھا چھاپ تھے۔۔۔لیکن تھے جامعہ کراچی کے چانسلر! اسناد کی تقسیم کے لئے انہیں دعوت دی گئی۔ اس بات کا اعلان ہوتے ہی طلباء و طالبات میں بے چینی پھیل گئی اور اُس وقت کی منتخب طلباء یونین کے ذمہ دار ایک وفد لے کر شیخ الجامعہ کے پاس گئے اور اپنا موقف بیان کیا کہ طلباء اپنی اعلی تعلیمی اسناد ایک انگوٹھا چھاپ شخص سے نہیں لیں گے۔یہ ہماری نہیں بلکہ ہماری تعلیمی سند/ ڈگری کی توہین ہو گی۔لیکن یہ مطالبہ نہیں مانا گیاجس پر تقریباََ پوری جامعہ کے نئے پرانے سب طلباء نے شدید احتجاج کیاجِن میں راقم بھی شامل تھا۔جامعہ کے حکام نے اس احتجاج کا کوئی نوٹس نہیں لیااور طے شدہ تاریخ اور وقت کے مطابق اس کانووکیشن کا انعقاد ہوا۔ جونہی گورنر میر رسول بخش تالپور تشریف لائے تو ان کا استقبال گندے ٹماٹروں اور انڈوں سے کیا گیا۔القصہ مختصر یہ کہ تقریب درھم برھم ہو گئی اور کئی طلباء ڈنڈے کھا کر حولات کی سیر کو بھیج دیے گئے جن میں خاکسار بھی شامل تھا۔ اِس واقعے کے کئی سال تک جامعہ میں کانووکیشن منعقد نہیں ہوئی حتیٰ کی راقم نے بھی اپنی سند بدستِ خود جا کر وصول کی۔
اُس وقت طلباء و طالبات تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔نہ صرف اہمیت بلکہ اُس کی عزت و وقار کا بھرم رکھتے تھے۔جب سے اہلیت کا خیال رکھے بغیر تقرریوں کا رواج ہوا ہے ہر اک شعبے سے اس کا احترام اور وقار بھی رخصت ہو گیا ہے۔آج کل کے طلباء و طالبات صرف ڈگریوں کے چکر میں ہیں۔علم کی اہمیت ،اس کی عزت اور وقار سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔۔۔کیوں کہ اب ڈگری کی اہمیت ہے، علم اور اہلیت کی نہیں !!
اسی لئے تو اب ڈگری کا ’’ حصول ‘‘ کوئی مشکل نہیں رہا !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 28 اپریل، 2018 بروز سنیچر روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر کالم ' اُلٹ پھیر ٌ میں شائع ہوئی۔
Comments