ڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کار شو روم ۔ وزیرِ اعلیٰ کا سخت نوٹس - مگر -




سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کار شو روم ۔ وزیرِ اعلیٰ کا سخت نوٹس  - مگر -
تحریر شاہد لطیف

کراچی میں جہاں کار شو روم بکثرت ہیں وہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ آس پاس کی سڑکیں اور فٹ پاتھ بھی شو روم کو الاٹ ہو چکے ہیں۔سب جگہوں پر گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آتی ہیں حتیٰ کہ پیدل چلنا مشکل ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اخبارات میں اِس مسئلہ کا ذکر نہ کیا جاتا ہو۔اداریے تک لکھے جا چکے۔ایڈیٹر کے نام بے شمار خطوط میں اِس بات کا اکثر رونا رویا جاتا ہے۔

کبھی کبھار ’ ہلکا ایکشن‘ لے کر ا یک دو روز کے لئے عوام کو سکون دے دیا جاتا ہے لیکن پھر۔۔۔پھر وہی ہوتا ہے جو صدر کے علاقہ کے پتھارے داروں نے کیا۔جب تک سختی رہی علاقہ چلنے پھرنے کے قابل رہا جہاں چھ ماہ بعد ’ کسی وجہ ‘ سے نرمی برتی گئی ۔۔۔دوبارہ پھر وہی پہلے والی صورتِ حال شروع ہو گئی۔

چند روز پہلے وزیرِ اعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ کی جانب سے کار شو روم کے گاڑیاں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کھڑی کرنے کا نوٹس لئے جانے کے بعد نہ صرف آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ بلکہ ڈی آئی جی ٹریفک عمران یعقوب بھی متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے ماتحت افسران کو سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کھڑی کی جانے والی گاڑیوں کے خلاف فوری کاروائی عمل میں لانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔وزیرِ اعلی نے یہ نوٹس پہلے بھی د یا تھا لیکن ان پر کسی ادنیٰ و اعلیٰ افسر نے کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ یہ احکامات انہوں نے نیو ایم اے جناح روڈ، لیاقت آباد الاعظم اسکوائر پر شوروم مالکان کی جانب سے فٹ پاتھ اور سڑکوں پر گاڑیاں کھڑی کرنے سے متعلق دیے تھے۔لیکن آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ، ڈی آئی جی ٹریفک عمران یعقوب ، ایس پی ٹریفک ایسٹ زون ارم اعوان اور ایس پی ٹریفک سینٹرل زون نے اس پر کوئی کاروائی نہیں کی۔لگتا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ تک کراچی کے اخبارات کی رسائی ہو گئی ہے جِس میں اُن کے احکامات پر صفر عمل ہونے کا ذکر تھا۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ اُن کے احکامات پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں انہوں نے ایک سے زیادہ ذرائع استعمال کیے اور دوبارہ سخت نوٹس لیا۔اِس پر یہ افسران حیران و پریشان رہ گئے۔


ذرائع کا کہنا ہے (جب صحافیوں کو اِن کا علم ہے تو لا محالہ وزیرِ اعلیٰ کو بھی تھا)کہ نیو ایم اے جناح روڈ پر ایسٹ زون کے عملہ نے مبینہ طور پر بھاری معاوضہ لے کر اپنی آنکھیں بندکر لی ہیں ۔لگتا ہے کہ وزیرِ اعلی سندھ اب عوامی مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہیں۔

یہ کمتر پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ تمام چھوٹے بڑے مسائل کا حل صرف اور صرف ایک لفظ پر عمل کرنے سے ہو سکتا ہے اور وہ ہے ’’ نفاذ ‘‘۔احکامات ہوں یا قوانین جب اِن کا نفاذ ہی نہیں ہوتا تو پھر اِس بھاگ دوڑ کو عوام محض نمائشی جمع خرچ نہ سمجھیں تو اورکیا سمجھیں! 

دوسری جنگِ عظیم میں معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجنے کے بعد اِس ایک لفظ پر عمل کرنے سے جاپان نے چند سالوں میں دوبارہ کہاں سے کہاں ترقی کر لی۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیانی عرصہ میں معاشی طور پر تباہ حال جرمنی کے چانسلر ایڈولف ہٹلر نے اپنا مشہور چار سالہ منصوبہ بناکر جرمن عوام کی عزتِ نفس اور قومی معیشت بہتر کرکے وہ کام کر دکھایا جو صرف معاشیات کی کتابوں میں ہی ملتا ہے، ’ فُل ایمپلا ئمنٹ Full employment کہ آپ کو مزدور درکار ہوں اور کوئی بھی مزدور نہ ملے، سب پہلے ہی کہیں کام کر رہے ہوں۔یہ کام اِس سے پہلے دنیا میں کہیں نہیں ہوا۔ جرمن چانسلر کے پاس نئے دور کا کوئی چراغ الہ دین نہیں تھا ۔اُس نے صرف اور صرف ایک لفظ پر عمل کیاتھا ’’ نفاذ ‘‘ ۔ پالیسی اور احکامات کا مکمل نفاذ۔

دور کیا جانا ہے، کوریا میں ہمارے ڈاکٹر محبوب الحق صاحب کو اقوامِ متحدہ نے اقتصادی منصوبہ بندی کے لئے بھیجا۔انہوں نے کوریا کی ترقی کے لئے منصوبے بنائے ۔ جب اِن کو نافذ کر کے مکمل عمل کیا گیا تو کوریا کی ترقی دنیا نے دیکھی۔آج ڈاکٹر صاحب کا مجسمہ بھی کوریا کے معماروں کے طور پر اُن کے قومی ہیرو کے مجسموں میں ایستادہ ہے۔

کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاٹھوں پر نا جائز تجاوزات اور اب نیو ایم اے جناح روڈ ، لیاقت آباد اور دیگر جگہوں میں کار شو روم والوں کی غیر قانونی پارکنگ کے مسئلہ کا حل بھی صرف قانون اور احکامات کے نفاذ میں پوشیدہ ہے۔جب قانون نافذ کرنے والے قانون کے نفاذ پر آنکھیں بند کرنے کی قیمت وصول کریں گے تو وزیرِ اعلیٰ کے احکامات کی تعمیل کون کرے گا ! اور اگر ایسا ہو گا بھی تو عوام بھی جانتی ہے کہ کتنے دِن؟ ایک دن؟ تین دن؟۔نفاذکے لئے ڈنڈا اور سزائیں نا گزیر ہو چکی ہیں ! سزائیں بھی کس کو؟ دوکان داروں اور شو روم مالکان کو نہیں،علاقہ کے ذمّہ دار ٹریفک پولیس کے افسران کو ! 

ہم وزیرِ اعلیٰ سے یہ اُمید تو نہیں رکھیں گے کہ وہ بھیس بدل کر لوگوں کی تکالیف کا جائزہ لیں اور اُن کا تدارک کریں لیکن کم از کم اگر وہ صبح اُٹھ کر کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں سے شائع ہونے والے اُردو اور سندھی اخبارات میں حکومتِ سندھ سے متعلق خبریں، اداریے، کالم، ایڈیٹر کے نام ڈاک کی ایک جامع رپورٹ دیکھ لیا کریں تو ان کو حکومتی مشینری کی حالت کا صحیح اندازہ ہو گا۔اب شاید بھیس بدل کر عوام کے پاس جانا ضروری بھی نہیں رہا کیوں کہ صوبہ بھر کے اخبارات تقریباََ چھوٹے بڑے تمام عوامی مسائل کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ 

یہ کام کرنا اور کروانا کوئی مشکل نہیں۔چند صفحات پر مشتمل رپورٹ وزیرِ اعلیٰ کے لئے ایک آئینہ ہو گی جس میں وہ اپنے احکامات پر عمل ہوتا دیکھ سکیں گے۔ اپنے حواریوں کا ’ سب اچھا ہے‘ کا بے سُرا راگ سننے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ وزیرِ اعلیٰ کے ہاں اِس کام کے کرنے کو کئی لائق افراد موجود ہیں۔ صبح صبح اُٹھ کر تمام اخبارات سے حکومتِ سندھ سے متعلق خبروں پر مشتمل ایک جامع رپورٹ دیکھ کر متعلقہ شعبوں کی کارکردگی اور وزیرِ اعلیٰ کے احکامات پر عمل ہونے نا ہونے کا پتا لگ سکے گا۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ایسا ہونے لگے گا تو وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ اپنے دن کی شروعات ایک نئے ولولے، اعتماد اور مثبت سوچ سے کریں گے۔شاہ صاحب ! اللہ کا نام لے کر اِس کام کا آغاز کرلیجئے۔ا للہ آپ کا حامی اور ناصر ہو۔آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
یہ تحریر  11 نومبر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی  کے صفحہ 11 پر کالم  " اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔









  

Comments

Popular posts from this blog