اِن ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ۔۔۔
اِن ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ۔۔۔
تحریر شاہد لطیف
اِن ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستہ میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اِن ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستہ میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
لگتا تو ایسا ہے کہ یہ نقشہ کراچی کے راستوں کا کھینچا گیا ہے۔۔۔ جو کبھی سڑکیں ہوا کرتی تھیں اور پچھلے ایک طویل عرصہ سے جا بجا اِن کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیے گئے ہیں۔بات سپریم کورٹ تک جا پہنچی ہے۔عدالت عالیہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سمیت کراچی کے کئی علاقوں میں بے ہنگم کھدائی پر برہم ہو گئی۔جسٹس گلزار نے استفسار کیا : ’’ سارا شہر گندگی اور ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے ، کراچی کا کیا بنے گا، کیا تمام وقت کھدائی ہوتی رہے گی؟‘‘۔ جسٹس گلزار احمد نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور حکومتِ سندھ کے وکلاء سے سوال کیا : ’’ کیا کبھی ایسا وقت بھی آئے گا کہ کراچی کے لوگ آسانی سے سفر کر سکیں؟ ڈی ایچ اے کا نام بڑا اور کام چھوٹے ہیں‘‘۔ جسٹس گلزار احمد نے یہ بھی کہا : ’’ کبھی کسی کرنل، بریگیڈئر کو خواب آئے گا تو معاملہ ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔جسٹس سجاد علی نے استفسار کیا: ’’ گذری فلائی اوور کا کیا فائدہ ہوا؟‘‘۔اُنہوں نے یہ بھی کہا : ’’ آبدوز چورنگی انڈرپاس سندھ حکومت کا منصوبہ ہو گا اِس لئے تاخیر ہو رہی ہے ‘‘۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا : ’’ ڈی ایچ اے اُلٹا سیدھا کرتا ہے مگر جلدی کام ختم کر دیتا ہے ۔حکومتِ سندھ تو کام ہی نہیں کرتی۔نتیجہ کیا نکلے گا؟۔۔۔ڈیڑھ سال ہو گیا اِدھر اُدھر گھومنا پڑتا ہے۔پنجاب چورنگی کا پارک ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔۔۔‘‘۔
یہ تو خواص کے علاقوں کا ذکر تھا جِس پر عدالتِ عالیہ نے برہمی کا اظہار کیا۔شہر کے دیگر علاقوں کی حالت۔۔۔ اِس پر کوئی کیا نوحہ پڑھے ۔۔۔ یہاں کے مکیں اتنے وسائل کہاں رکھتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں تک رسائی کر سکیں؟ یہ بے چارے تو سٹی کورٹ تک نہیں جا سکتے۔اِس میں پیسہ اور وقت خرچ ہوتا ہے ،یہ دونوں اشیاء عوام کے پاس کہاں! عدالت میں پیشی ہویاسٹی کورٹ میں وکیل سے مشورہ، دونوں ہی کے لئے پورا دن لگ جاتا ہے۔گویا ایک روز کی چھٹی۔لہٰذا ان بے چاروں نے اپنا یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ رکھا ہے۔ اور اللہ کی پکڑ۔۔۔اِس سے پناہ مانگنا چاہیے۔
حیرت کی بات ہے کہ کراچی کے منتخب عوامی نمائندے، خواہ میئر ہوں، صوبائی یا قومی اسمبلی کے ممبران، گورنر ہوں یا وزیرِ اعلیٰ آخر کبھی کسی کام سے ڈیفنس اور کلفٹن سے نکل کر شہر کے دیگر علاقوں میں بھی جاتے ہی ہوں گے۔کیا وہ ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں؟ یا سیاہ شیشوں والی گاڑیاں کہ باہر کچھ بھی دکھائی نہ دے؟ کیا اِن کی گاڑیوں میں رولز رائس کے شاک ابزاربر لگے ہوتے ہیں کہ سرے سے کوئی جھٹکا بھی محسوس نہ ہو سکے؟اِن تمام افراد کو یہاں نہیں تو مرنے کے بعد ’’اُس عدالت ‘‘ میں جواب دینا پڑے گا کہ صاحبِ اختیار ہوتے ہوئے بھی عوام الناس کو کیڑے مکوڑے خیال کرتے رہے اور کبھی اِن کے مسائل حل کرنے کی کوئی سعی کیوں نہیں کی؟
پہلے بھی سڑکوں وغیرہ کے کام ہوا ہی کرتے تھے۔یہ اتنے بڑے بڑے فلائی اوور، انڈر پاس ایسے ہی تو نہیں بن گئے۔وقت تو لگا لیکن اس کا ثمر لوگوں کو نظر آ رہا تھا لہٰذا وہ صبر و شکر سے کام مکمل ہونے تک متبادل راستوں سے کام چلاتے رہے۔لیکن۔۔۔اب کی دفعہ تو معاملہ عجیب ہے۔ہر ایک کام کرنے میں بھی شروع ، درمیان اور آخر ہوتا ہے لیکن یہاں کوئی ترتیب ہے نہ کوئی قاعدہ، بعض جگہوں اور سڑکوں کو تو بس کھود کر کام کو ادھورا چھوڑ رکھا ہے۔لگتا ہے شہر کے صاحبِ اختیار ارادتاََ یہی چاہتے ہیں کہ اہلِ کراچی کی سوچ بس یہیں محدود رہے اورکسی چیز کا ہوش ہی نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ پھر کیا ، کیا جائے؟۔سب سے پہلے تو یہ کہ ایک وقت میں ایک کام مکمل کرایا جائے ۔ یہ کیا کہ سب اطراف میں سڑکیں کھود رکھی ہیں۔ماشاء اللہ ہمارے شہر کے ان اداروں میں بہت سے اہل اور قابل افراد موجود ہیں، کام لینے والا ہونا چاہیے۔کام لینے والا بھی کراچی میں موجود ہے۔کسی کو سابقہ میئر مصطفےٰ کمال سے سیاسی اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن یہ ایسے کام کر اور کروا کے اپنا نام منوا چکے ہیں۔ملکی اور شہری سیاست سے بالا تر ہو کر اُن سے کراچی کے ادھورے ترقیاتی کام کی نگرانی کروانے میں ایسی کون سی قباہت ہے ؟ تمام ادھورے منصوبے معیاری طور پر بہتر تعمیر کے ساتھ جلد مکمل ہو سکتے ہیں۔
تمام بڑی چھوٹی سیاسی پارٹیاں جمہوریت کی بات کرتی ہیں تو عملاََ جمہوریت کر کے بھی تو دکھلائیں؟ جمہوریت جمہور کے لئے ہوتی ہے۔جب جمہور سڑکوں پر خوار ہو رہے ہوں تو پھر اِس خواری سے نکالنا بھی تو حکومت اور اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔ٹھیک ہے اب مصطفےٰ کمال کراچی کے میئر نہیں لیکن ہیں تو کراچی کے شہری! اِن سے مشاورت کیوں نہیں کی جا سکتی؟اہلِ کراچی کے مسائل کو حل
کرانے میں موجودہ میئر وسیم صاحب ضرور مُخلص ہوں گے لہٰذا سیاسی مخالفت کو الگ کرتے ہوئے سابقہ میئر کراچی سے مشاورت ناگزیر ہے۔یہ ہی جمہوریت کا حسن ہونا بھی چاہیے۔پھر بعد کے معاملات اور بعد کی مخالفتیں بعد میں جاری رکھی جا سکتی ہیں۔
یہ خاکسار کسی گنتی میں نہیں لیکن کراچی کی موجودہ قیادت سے عرض کروں گا کہ شہر کی کی سڑکوں کے مسائل مصطفےٰ کمال کی زیرِ مشاورت حل کرائے جائیں جو کم وقت میں اعلیٰ معیارکے ساتھ مکمل ہو سکتے ہیں۔ہم اگر خود کو ترقی پذیر ممالک کی صف میں شمار کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم خاصی حد تک مہذب قوم ہیں،جہاں کے پالیسی ساز اور سیاستدان ’’ سب سے پہلے عوام ‘‘کی بات کرتے ہیں۔اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں ایسے شخص کی صلاحتیں شہر کے مسائل حل کرانے میں استعمال نہیں کرائی جا سکتیں؟
اِس کمتر نے اِن ہی کالموں میں ’’ ہٹلر کے چار سالہ منصوبے‘‘میں ذکر کیا تھا کہ ترقی کے چار سالہ منصوبوں کے نفاذ کے وقت جرمنی کے چانسلر کی حیثیت سے ایڈولف ہٹلر نے ملک کے بہترین آدمیوں کا انتخاب کیا۔اِس سلسلہ میں تاریخ گواہ ہے کہ مرکزی بینک کے سربراہ ایک ایسے شخص کو لگایا جو چانسلر کا سخت مخالف تھا۔اِس پر نازی پارٹی کے بعض لیڈروں نے اعتراض بھی کیا لیکن ہٹلر نے ملک کی ترقی اور اپنے منصوبے کے 200فی صد نفاذ کی خاطر ایک زورآور مُخالف کو مرکزی بینک کا صدر نامزد کیا ۔نتیجہ؟۔۔۔ نتیجہ یہ کہ جنگِ اول کے فوراََ بعد کے جرمنی کی تباہ حال معیشت دو سالوں ہی میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔بات کو سمیٹتے ہوئے دوبارہ کہوں گا کہ مصطفےٰ کمال کی خدمات حاصل کی جائیں تو گارنٹی کے ساتھ تمام نا مکمل ادھورے تعمیری اور ترقیاتی منصو بے ریکارڈ وقت میں مکمل ہو سکتے ہیں۔۔۔یہ کراچی کی سیاست میں ایک اعلیٰ مثال ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کا لکھا ہوا یہ مضمون 25 نومبر 2017 بروز سنیچر ، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر کالم اُلٹ پھیر میں شائع ہوا۔
Comments