میٹھا ساز بجانے والا مسکراتے چہرے والا امداد حسین ستار نواز
میٹھا ساز بجانے والا مسکراتے چہرے والا
امداد حسین ستار نواز
تحریر شاہد لطیف
پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے منسلک ہو تے ہی مجھے موسیقی کے پروگرام کرنے کو ملے اِس طرح مجھے کئی میوزیشن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ پہلا پروگرام ’’ اُمنگ ‘‘ تھا جِس کی پروڈیوسر ، میری اُستاد سلطانہ صدیقی صاحبہ تھیں۔موسیقار کریم شہاب الدین اور شاعر شبی فاروقی تھے۔بد قسمتی سے گلوکار یا گلوکارہ کا نام یاد نہیں آ رہا۔گیتوں کی صدا بندی شاداب اسٹوڈیو، صدر میں ہونا تھی۔ایک تو پہلے ہی سے موسیقی میرا شوق رہا دوسرے یہ میری پہلی ریکارڈنگ۔۔۔ میں بہت پُر جوش تھا۔ میری موجودگی میں کریم بھائی کی دھنوں پر شبی فاروقی صاحب نے گیت لکھے تھے۔گلوکار کو تو یہ گیت بعد میں یاد ہونا تھے خاکسار کو اُس سے کہیں پہلے از بر ہو گئے ۔پروگرام کی ذمہ داری کے ساتھ اپنے شوق کی وجہ سے میں ہر اک ریہرسل میں موجود ہوتا خواہ وہ میرے اوقاتِ کار کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔مجھے آج تک یاد ہے کہ میرے پہلے پروگرام کی ریکارڈنگ میں کِس کِس نے حصہ لیا۔ میرے سامنے منجھے ہوئے وائلن نواز مظہر بھائی کی قیادت میں پانچ عدد وائلن نواز ریہرسل میں موجود تھے۔اِسی طرح روبن جون ( گلوکار ایس بی جون کے بیٹے) نے کی بورڈ، طفیل صاحب نے ڈرم سیٹ، بابا ڈِک نے ڈبل بیس، ناصر حسین ( موسیقار مجاہد حسین کے چھوٹے بھائی اور اُستاد نتھو خان سارنگی نواز کے بیٹے) نے گِٹار، کامل صاحب نے سنتور، ارشد نے طبلہ اور فِدا حسین ستار پر تھے ۔ فِدا صاحب کے ساتھ ایک دبلا پتلا ، مسکراتے چہرے والا لڑکا سِتار لئے بیٹھا تھا ۔ یہ اُن کا چھوٹا بھائی تھا۔میں نے فرض کر لیا کہ کریم بھائی نے دو سِتاریں بجوانا ہوں گی۔ریہرسل مکمل ہوئی اور فائنل ریکارڈنگ کا دِن آن پہنچا ۔سلطانہ صاحبہ نے ریکارڈنگ کی تمام ذمہ داری مجھے سونپ رکھی تھی۔ ریکارڈنگ سے پہلے کریم بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ وہ طفیل صاحب کے بیٹے ’’ اسلم ‘‘ سے ڈرم بجوانا چاہتے ہیں اور اسی طرح فِدا حسین کے چھوٹے بھائی ’’ امداد حسین‘‘ سے سِتار ۔ اُس وقت اسلم اور امداد دونوں ہی کم عمر تھے۔ میں نے کیا اعتراض کرنا تھا مجھے کریم بھائی پر پورا اعتماد تھا۔اُنہوں نے اِن دونوں کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ امداد حسین نے تھوڑا سا وقت ضرور لگایا لیکن مسلسل مشق اور کریم بھائی کے ساتھ دیگر میوزیشن، میں اور ساؤنڈ ر یکارڈسٹ توصیف ( جو خود بھی نو عمر تھا) اور شاداب اسٹوادیو کے روح، رواں مشکور صاحب نے بہت حوصلہ افزائی کی۔اِس قصّہ کی قابلِ ذکر بات یہ ہے امداد حسین اپنے پیس میں معمولی سی غلطی پر بھی مسکرادیا کرتا تھا۔
’’ اُمنگ ‘‘ ختم ہوا تو موسیقی کے نئے پروگرام ’’ سُر سنگم‘‘ کا آغاز ہوا۔ تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد اِس پروگرام کی صدا بندی کرنے کے لئے خاکسار نے شالیمار ریکارڈنگ کمپنی سے اجازت حاصل کر لی کیوں کہ دونوں ادارے ہی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے تحت آتے تھے۔کریم شہاب الدین کے پروگراموں میں اب امداد اکثر نظر آنے لگا۔شروع شروع میں اُس کے بڑے بھائی فِدا بھی ساتھ آیا کرتے لیکن پھر بتدریج اُنہوں نے آنا کم کر دیا اور جلد ہی ایک ایسا وقت آیا کہ امداد ’’ بڑا ‘‘ ہو گیا۔ مجھے واقعی اُس دن بہت خوشی ہوئی.
’’ سُر سنگم ‘‘ ختم ہوا تو ’’ آواز و انداز ‘‘ شروع ہوا۔یہ 20 منٹ کا پروگرام ہوتا تھا ، جس میں ایک ہی فنکار /فنکارہ کے چار سے پانچ آئیٹم ہوتے تھے۔مجھے چونکہ خود بھی موسیقی کا شوق تھا لہٰذا ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں اکثر وقفے کے دوران میں امداد سے انفرادی سِتار سُنا کرتا،جس سے میں جلد جان گیا کہ ’’ اُمنگ ‘‘ سے شروع ہو کر ’’ آواز و انداز ‘‘ تک امداد حسین نے اپنے سِتار کو بہت سنوار لیاہے۔اب اُس کے سُر بہت جم کر لگنے لگے تھے۔تبھی تو بڑے بھائی نے آنا چھوڑ دیا۔
گزشتہ ہفتہ امداد سے عرصہ بعد ایک دلچسپ نشست ہوئی ، اُس کا احوال پیش خدمت ہے:
’’ امداد! کچھ اپنے بارے میں بتاؤ!‘‘
’’ ہم لوگ ’’ سینیا گھرانہ ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ہماری اِس گھرانے کی ساتویں نسل ہے ۔ میرے والد اُستاد حبیب خان اور بڑے بھائی فدا حسین ہیں ۔ میں نے 17سا ل کی عمر سے ریکارڈنگوں اور فنکشنوں میں بجانا شروع کیا اور فلم ٹیلی وژن، ریڈیو، اور کمرشل جنگلز بھی کیے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں کہا : ’’ٹی وی پر سب سے پہلا کام سہیل رعنا کے کسی پروگرام میں ٹینا ثانی کا گیت تھا جو شاداب ریکارڈنگ اسٹوڈیو صدر میں مشکور قادری صاحب نے ریکارڈ کیا۔اس کے ساتھ ریڈیو بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا‘‘۔
راقِم نے پی ٹی وی کراچی مرکز میں مرغوب احمد صدیقی صاحب کے ساتھ امداد کا 10منٹ کا’ کھَمّاج ٹھا ٹھ ‘ پر مشتمل سولو آئٹم، پروگرام ’’ راگ رنگ ‘‘ میں پیش کیاجس میں بشیر خان صاحب نے طبلے پر سنگت کی ۔ اُسی زمانے کا ذکر کرتے ہوئے اُس نے کہا: ’’اُس زمانے میں میوزیشنوں کے پاس بہت کام ہوا کرتا تھا۔خود میرے پاس اتنا کام تھا کہ اپنے ریاض کے لئے بہت مشکل سے آدھ گھنٹہ نکالا کرتا تھا۔ جو کام تھا میں اُس کو ریاض سمجھ کر کیا کرتا تھا‘‘۔
پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے موسیقاروں کا ذکر چل نکلا تو امداد نے کہا: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ بزمی صاحب کے ساتھ کام کرنا خاصامشکل ہوا کرتا تھا۔اُن کی کمپوزیشنوں میں لَے کا استعمال، سُروں کا انتخاب،سازوں کی تقسیم۔۔۔ کس کس کی بات کروں۔ہر چیز موتیوں کی لڑی کی طرح ہوتی تھی۔کریم شہاب الدین بہت اچھے ارینجر تھے۔بے حد لچکدار انسان تھے۔سینئر میوزیشنز اور مجھ جیسے نئے آنے والوں نے بھی اگر انکی کمپوزیشن یا ارینجمنٹ سے متعلق کوئی تجویز یا مشورہ دیاتو ہمیشہ کھلے دل سے قبول کیا ۔ان کی کمپوزیشن اور ارینجمنٹ میں مجھے بجانے کا بہت مزہ آتا تھا۔ یہ کمپوزیشن سادا لیکن میلوڈی سے بھرپور ہوا کرتی تھیں۔کورڈ کا بے حد رچاؤ ہوتا تھا۔نیاز احمد صاحب کی کمپوزیشن بجا کر میں نے بہت تجربہ حاصل کیا‘‘۔
’’ تسلیم فاضلی صاحب نے کراچی میں ایک فلم شروع کی تھی ’’ سہارے ‘‘ اُس کی موسیقی نیاز صاحب کی تھی۔میں نے اُس فلم کے گانوں میں ستار بجائی۔رفیق رضوی صاحب المعروف ’’ باپو ‘‘ کے بیٹے سعید رضوی صاحب کے اسٹوڈیو ’ نوویٹاس ‘ Novitas میں اُن کی فلم ’’ سر کَٹا انسان ‘‘ کے لئے لاہور سے موسیقار کمال احمد صاحب آئے تھے۔مذکورہ فلم کے گانوں اور پس منظر موسیقی میں، میں نے ستار بجائی‘‘۔
’’ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے ڈھائی سال تک چلنے والا موسیقی کا پروگرام’’ محفلِ شب ‘‘ تھاجس میں اساتذہ کا کلام ملک کے نامور گلوکار گایا کرتے تھے۔اس کے ارینجر قمر اللہ دتہ تھے جو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے۔اس پروگرام میں غلام عباس، حمیرا چنا اور دیگر فنکاروں کے ساتھ میں نے ستار بجائی‘‘۔
جیو چینل نے سہیل رعنا کے لئے ایک پروگرام ’’ آج جانے کی ضد نہ کرو ‘‘ ترتیب دیا جس میں ملک کے نامور گلوکار /گلوکاراؤں نے 30 میوزیشوں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔اس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کی ایک ہفتہ ریہرسل بھی کرائی گئی۔ اس پروگرام میں 20سے زیادہ گیت تھے۔میں نے اِس پروگرام میں ستار بجائی‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں امداد نے کہا : ’’ پی ٹی وی یا کسی بھی نجی چینل سے گیت و غزل کے معیاری لا ئیو موسیقی کے پروگرام نہیں ہو رہے۔ماضی قریب میں کبھی کسی بھی چینل بشمول پی ٹی وی، سے موسیقی کے ہلکے پھلکے سازینوں Instrumental کا کوئی پروگرام پیش نہیں ہوا جبکہ اس سے پہلے عدنان سمیع خان کا ایسا پروگرام مقبول ہوا تھا ۔ ہمارے اپنے ثقافتی ساز جیسے سارنگی، ستار، سرود، بانسری ، شہنائی،الغوزہ وغیرہ آہستہ آہستہ عوام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔اِن، اور اِن جیسے دوسرے سازوں کو گیت و غزل کے پروگراموں میں بکثرت استعمال کرانا بہت ضروری ہے ورنہ تو اِن کا ذکر کتابوں اور تذکروں ہی میں رہ جائے گا‘‘۔
مختلف فنکاروں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا:’’ سلمان علوی کے ساتھ میں عرصہ 25سال سے بجا رہا ہوں۔سعید اور ان کے بھائی منظور بھی وائلن پر میرے ساتھ ہوتے ہیں۔میں نے بحریہ آڈیٹوریم کراچی میں سائرہ نسیم کے ساتھ بجایا۔پی ٹی وی ایوارڈ 1990میں بجایا۔مشہور رقّاصہ نگہت چوہدری کے ساتھ لاہور میں لائیوبجایا‘‘۔
موجودہ موسیقی کے معیار پر وہ کہتے ہیں: ’’ کوک اسٹوڈیو ہو یا آج کل پاکستان میں کسی بھی نئے فنکار کے گانے، غلط تو کوئی بھی نہیں۔بات سلیقے سے اپنی ثقافت کو اٹھائے رکھنے کی ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں امداد نے کہا : ’’ آجکل کے میڈیا میں ہماری شمولیت اور ہمارا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ہر ایک انٹرٹینمنٹ چینل میں کم ازکم ہفتہ وار ایک موسیقی کا پروگرام ہونا چاہیے۔
پڑوسی ملک بھارت میں اُن کی فلمی گیتوں میں تب بھی اور اب بھی، دیسی ساز ہی ریکارڈنگ میں استعمال کیے جاتے ہیں۔بات گھوم کر کام لینے والے پر آ جاتی ہے۔یہاں کام لینے والوں میں اوّل نام کمپوزر کا آتا ہے پھر پروڈیوسر کا ۔ہم میوزیشن آج بھی پاکستانی عوام کو 70اور80کی دہائی کے سریلے اور دل کو لگتے گیت بنا کر دے سکتے ہیں لیکن کوئی کام لینے والا بھی تو ہو؟ موسیقی کے اچھے پروگرام بنائے جائیں تو آج بھی لوگ پسند کرتے ہیں جیسے پی ٹی وی کراچی مرکز سے پروگرام ’’ بزمِ مہدی ‘‘ جو ڈیڑھ سال چلا‘‘۔
میوزیشن کو پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن اور پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن سے ملنے والے معاوضوں کے ذکر پر امداد نے کہا: ’’ ریڈیو سے متعلق کیا بات کہوں۔۔۔ وہاں تو تین ماہ بعد پیسے ملتے ہیں۔پہلے پی ٹی وی کے معاملے ٹھیک تھے لیکن وہاں بھی اب کچھ ریڈیو جیسی صورتِ حال ہو گئی ہے ۔ پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن اور پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن میوزیشنوں کو اُن کے معاوضوں کی ادئیگی کے سلسلے میں اب بھی 1960کے زمانے میں ہیں۔ہمیں وہاں سے آدھ گھنٹے کے پروگرام کا جو معاوضہ ادا کیا جاتا ہے وہ بتا کر پڑھنے والوں کو اذیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ چونکہ خالص مشرقی ساز بجانے والوں کی اب قدر نہیں کی جاتی لہٰذا وہ کچھ اور کام کرتے ہیں ۔یہ بہت غلط ہو رہا ہے، اس طرح تو مستقبل قریب میںیہ ساز بجانے والے نہیں رہیں گے ۔ لاہور کے اُستاد نذر حسین سرود نواز نے بھی اب یہ چھوڑ دیا ہے۔ٹی وی چینل بہت ہو گئے ہیں جن میں اکثریت نیوز کے ہیں۔تفریحی/انٹرٹینمنٹ چینل میں بھی میوزیشن کے لئے کام نہیں ہے کیوں کہ گیت غزل کے وہاں کوئی پروگرام نہیں ہوتے۔حقیقت میں آپ کی اپنی تخلیق ہی مقبول ہوا کرتی ہے۔وہی ہِٹ اور سُپر ہِٹ بن جاتی ہے۔ٹی وی چینلوں میں تخلیق اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔آپ خود دیکھ لیجئے کہ ایک زمانے سے کسی ایک چینل سے بھی کوئی معیاری گیت نہیں بنایا گیا‘‘۔
باتوں باتوں میں پاکستانی گلوکاروں کے بھارت میں جا کر فن کے مظاہرے اور بھارتی فلموں میں گیت ریکارڈ کروانے کا ذکر ہوا تو امداد نے ایک بہت اچھی بات کہی: ’’ ۔۔۔ راحت فتح علی کو لوگ خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہیں وہ اگر ایک فنکشن کے لاکھوں روپے لیتا ہے تو اپنے میوزیشوں کو بھی فی میوزیشن 25,000 روپے دیتا ہے‘‘۔
’’ المیہ یہ ہے کہ موسیقی سے نا بلد لوگ پی ٹی وی اور دیگر چینلوں کے کرتا دھرتا ہیں تو عوام کہاں سے معیاری موسیقی سنیں؟ اہل اور تجربہ کار لوگ اب بھی اِس بِگاڑ کوسنوار سکتے ہیں۔ان کے تجربات سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔آج بھی اظہر حسین جیسے میوزیشن بہترین کام کر کے اچھے نتائج دے سکتے ہیں‘‘۔
معاوضوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’ آج کے دور میں ایک میوزیشن کا 30 /25 منٹ کے پروگرام کی ریکارڈنگ کا کم سے کم معاوضہ 10,000 ہزار ہونا چاہیے۔اب تو خیر سے EMI بند ہو چکی لہٰذا بند ہوئی کمپنی کی رائلٹی کا کوئی کیا رونا روئے، البتہ ریڈیو اور ٹی وی سے بھی یہ سلسلہ اب بند ہو گیا ہے‘‘۔
اپنے فنکار گھرانے کے بارے میں امداد حسین نے بتایا : ’’ ہمارا گھرانا ’’ سَینِیَا ‘‘ کہلاتا ہے۔ہمارا خاندان ریاست جے پور کا رہنے والا تھا ۔ 250-300 سال سے ہمارے ہاں سِتار بجانے کا فن چلا آ رہا ہے ۔ خاندان کے تین نامور بزرگ گزرے ہیں جِن کے نام ہیں : رحیم بخش خان، کریم بخش خان اور احمد بخش خان ۔میرے دادا کا نام محمد بخش خان اوروالد حبیب خان ہیں۔میرے والد کے ہم عصر مچھو خان حیدرآباد میں ستار بجاتے تھے۔میرے بڑے بھائی فِدا حسین ،اِن کا بیٹا ساجِد حسین پھر میں، امداد حسین اور میرا بیٹا وقاص حسین ، یہ سب اسی شعبہ میں ہیں‘‘۔
’’ اسلام آباد میں سِتار نواز فرید نظامی اور بھارت کے بین الا قوامی شہرت یافتہ ستار نواز آنجہانی پنڈت روی شنکر بھی سینیا گھرانے سے ہیں۔اُستاد کبیر خان کا تعلق بھی سینیا گھرانے سے ہے۔ یہ اُستاد شریف خان (پونچھ والے) سے پہلے گزرے ہیں۔اب شریف خان کا بیٹا اشرف اچھی ستار بجا رہا ہے‘‘۔
پاک بھارت کے مشہور سِتار نوازاُستاد رئیس خان کے بارے میں ذکر چل نکلا تو اِس پر امداد نے بتایا : ’’ ولایت خان اور رئیس خان ’’ میوات ‘‘ گھرانے کے ہیں، اُستاد رئیس خان کے بیٹے فرحان آجکل ستار بجا رہے ہیں۔میں نے بھی اُستاد رئیس خان کے ساتھ پی ٹی وی کے پروگرام ’’ محفلِ شب ‘‘ میں بجایا ہے۔ جس کے پروڈیوسر امجد حسین شاہ تھے‘‘۔
ا پنے غیر ملکی دوروں سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں امداد نے کہا: ’’ میں دس سے زیادہ دورے کر چکا ہوں۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی طرف سے عوامی جمہوریہ چین اور تھائی لینڈ گیا جہاں میں نے سولو solo ستار پرآئیٹم پیش کیے ۔ پروموٹرز کے ساتھ سنگاپور گیا۔سلمان علوی اپنے ساتھ مجھے لندن، ماریشیس اور یو اے ای لے کر گئے‘‘ ۔سلمان علوی کا ذکر ہوا تو بر سبیلِ تذکرہ بتاتا چلوں کہ یہ میرے دوست ہیں، انشاء اللہ اِن پر بھی لکھوں گا مگر یہاں ان کی اس بات کا ذکر کرنا بر محل ہے کہ یہ جب بھی کسی فنکشن میں بلائے جاتے تو حامی بھرنے سے پہلے اپنی شرط پیش کرتے کہ میرے ساتھ طبلہ نواز، ستار نوازاوروائلن نواز ہوں گے اور پروگرام لائیو ہو گا۔اِس طرح سلمان نے اِن میوزیشن کا ساتھ نبھایا۔ان سطور کے پڑھنے والوں کو ضرور علم ہو گا کہ غزل و گیت کی لائیو محفل میں اِن سازوں کے ساتھ گلوکار/گلوکارہ کو سُننے کا ایک بالکل ہی الگ سماں بندھ جاتا ہے ۔
اپنی گفتگو کے دوران اُس نے بتایا : ’’ مجھے اپنے ملکِ پاکستان کے کئی نامور فنکاروں کے ساتھ ستار بجانے کا اعزاز حاصل ہے، جیسے مہدی حسن، طفیل نیازی ،غلام علی،پرویز مہد ی ، غلام عباس صاحبان،عابدہ پروین وغیرہ۔ کراچی کی ایک یادگار محفلِ غزل میں غلام علی کے ساتھ ستار بجائی۔اس محفل کی خاص بات یہ تھی کہ سُننے والوں میں میرے عین سامنے پاکستان کی عظیم غزل گائیکہ فریدہ خانم بیٹھی ہوئی تھیں جس کی مجھے خوشی ہوئی۔یہ خوشی اُس وقت دو چند ہو گئی جب اُنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی‘‘۔
امداد حسین نے اِس نشست کے اختتامی جملے بہت خوبصورت کہے: ’’ فنون کو سیکھنے کے خواہش مندوں کے لئے ہمارے ہاں انسٹیٹیوٹ اور ادارے ہونا چاہییں۔ ادارے ہی میوزشنوں کو آکسیجن دیا کرتے ہیں اور اسی طرح اچھا کام اور اچھی موسیقی کو زندہ رکھا جا سکتا ہے ۔۔۔ خود میرے کئی ایک شاگرد مختلف ممالک میں ہیں ۔یہاں کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی ستار کو سنجیدگی سے سیکھنے والے موجود ہیں‘‘۔ امداد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بڑوں کو اُستاد مانتے ہیں ۔ستار ، بحیثیت ساز کے حوالے سے اِن کا کہنا ہے کہ وہ اس کے مستقبل سے پر امید ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کا یہ مضمون 14 نومبر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوا۔
Comments