ایک انوکھی سزا اور اسکولوں کی فیسوں میں اضافے کا نوحہ




ایک انوکھی سزا
اور
اسکولوں کی فیسوں میں اضافے کا نوحہ
تحریر شاہد لطیف

اس مرتبہ ’ اُلٹ پھیر ‘ کے لئے دو موضوع منتخب کئے۔پہلے موضوع تو ہلکا پھلکا ایک اہم مسئلہ کا خوشگوار حل ہے البتہ دوسرا موضوع ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔
پچھلے دنوں جوڈیشل مجسٹر یٹ شرقی ، کراچی نے عام ڈگر سے ہٹ کر ایک دلچسپ، انوکھا اور بہت تعمیری فیصلہ سُنایا۔اِس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک نوجوان، قاسم خطرناک حد تک تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلانے او ر ایک پولیس اہلکار کو ٹکر مارنے کے جُرم میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔پولیس کے چالان، موقع کے گواہان کے بیانات اور خود نوجوان کے اعترافی بیان پر اُس کا جُرم ثابت ہو گیا اب عدالت کی جانب سے سزا سُنائے جانا رہ گیا۔ اِس واقعہ کا سب سے زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اُس کو سزا کیا تجویز ہو ئی؟ لیجئے سزا سُنائی جاتی ہے ۔۔۔ مگر یہ کیا؟۔۔۔نوجوان، قاسم کو ایک سال تک ، ہر ایک جمعہ قائدِ اعظم ؒ ہاؤس کے سامنے بینر اُٹھائے دو گھنٹے کھڑا رہنے کا پابند کیا گیا۔عدالتی حکم کے مطابق اس بینر پر یہ تحریر ہو: ’’ احتیاط کیجئے ! تیز رفتاری جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے! ‘‘۔واضح رہے کہ قاسم نے 2015 میں صدرِ پاکستان کی آمد کے موقع پر شاہراہِ فیصل پر سیکورٹی ڈیوٹی انجام دینے والے پولیس اہلکار، زُبیر کو ٹکر مار کر زخمی کر دیا تھا۔قاسم نے کہا : ’’ میں عدالتی احکام کی تعمیل کرتا رہوں گا ۔ عدالت کا مشکور ہوں کہ عدالت نے مجھے جیل نہیں بھیج دیا۔۔۔یہ کوئی سزا نہیں بلکہ یہ تو عوام کی آگہی ، نصیحت اور اصلاح ہے‘‘۔ نوجوا ن ا ب تک دو جمعہ یہ کام کر چکا ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کا یہ فیصلہ بہت اچھاہے۔ فیصلے کے دور رس اثرات معاشرے پر اچھا اثر چھوڑیں گے ۔ ہمارے ہاں چونکہ ایسی باتیں یا فیصلے نہیں ہوتے لہٰذا اس کو ’’ انوکھی سزا ‘‘ کا نام دیا گیا۔حالاں کہ یہ تو سرے سے سزا ہی نہیں بلکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے، اِس کی نصیحت اور تشہیر ہے۔ہمارے ہاں تو معمولی جرائم پر جیلوں میں بھیج کر نوجوانوں کو گویا ’’ جر ائم کے اداروں ‘‘میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ جغادری اُستادوں کے زیرِ نگرانی ، جرائم میں مزید مہارت حاصل کرتے ہیں ۔جیل کا لفظ ہی بہت ’ بھاری ‘ ہے ۔ترقّی یافتہ ممالک میں اب اس کا نام بدل کر ’’ اصلاحی مرکز ‘‘ کر دیا ہے ۔ قاضی اور جج ،ملزمان پر جرم ثابت ہونے کے بعد جیلوں میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ ان مجرمان کی وہاں پر اِصلاح اور تربیت ہو اور وہ ایک بہتر انسان بن کر باہر نکلیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کے اِس فیصلے سے جہاں اب قاسم آئندہ لاپرواہی سے موٹر سائیکل نہیں چلائے گا وہیں بہت سوں کو تیز رفتاری کے مہلک نقصانات سے آگہی بھی ہو گی۔میرے ایک بھانجے کے ساتھ بھی کچھ ایسی صورتِ حال پیش آئی۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست جارجیا کے شہر ’ آگسٹا ‘ میں اُس کو نیا نیا ڈرائیونگ لا ئسنس ملا تھا۔اپنے گھر کے سامنے جہاں حد رفتار ’’ صرف 15میل‘‘ کے اشارات جا بجا لگے تھے، یہ اُس سے چند میل زیادہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا کہ دھر لیا گیا۔اُس کو یہ سزا دی گئی کہ وہ کُل 16 گھنٹے اپنے محلے اور اطراف میں سماجی کام کرے یعنی محلہ کی سڑکوں کے اطراف کی صفائی، پارک کی دیکھ بھال وغیر ہ جو سب دیکھیں۔ان گھنٹوں کی گنتی اُن دِنوں میں ہو گی جو شدید گرم ہوں گے۔ ضروری نہیں کہ ایک ہی دِن میں سزا مکمل ہو بلکہ فی دِن ، پندرہ منٹ، ایک گھنٹہ یا اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق جتنا وقت صرف کرے۔۔۔ 16 گھنٹے تو پورا کر نے ہیں ۔ 

ایسی سزائیں خصوصاََ نوجوانوں میں مثبت رویے پیدا کرتی ہیں۔پھر وہ اس سے لطف بھی لیتے ہیں اور نصیحت بھی۔۔۔ یہی سزا کا مقصد ہونا چاہیے۔

آج کا دوسرا موضوع ایک افسوسناک حقیقت ہے وہ یہ کہ وزارتِ تعلیم سندھ بشمول وزیرِ تعلیم جام مہتاب حسین، صوبائی محکمہء اسکول ایجوکیشن کراچی ، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن، ڈائریکٹر پرایؤیٹ انسٹی ٹیوشنز سندھ ڈاکٹر منسوب صدیقی صاحبان ،سب کے سب پرایؤیٹ اسکول مافیا کی من مانی فیسوں اور پھر ان میں مزید اضافہ کے سامنے بے بس ہو گئے یا ’’ کر دیے گئے ‘‘۔

صوبائی محکمہء اسکول ایجوکیشن کراچی، کراچی کے نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں اضافے کی روک تھام کے لئے قانونی کاروائی کا طریقہ ء کار وضع کرنے میں بری طرح ناکام ہو گیا۔جس کے بعد متاثرہ والدین نے ایک مرتبہ اور بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلہ میں سی ویو پر ایک بڑی واک کا اہتمام کیا گیاجس میں سیاسی راہ نما بھی شریک ہوئے۔ آل سندھ پیرنٹ ایسوسی ایشن کے راہ نما نہال علوی کا کہنا تھا کہ اب انہیں عدالتوں سے انصاف کی اُمید ہو گئی ہے۔آٹھ یا نو نومبر کو سماعت میں معاملے پر فیصلہ متوقع ہے۔واضح ہو کہ دو ماہ پہلے کراچی کے بااثر نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں خلافِ ضانطہ اضافے کے خلاف والدین نے اختجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔یہ احتجاج فاؤنڈیشن پبلک اسکول، بیکن ہاؤس اسکول سسٹم، اور دیگر نجی اسکولوں کے مرکزی دفاتر کے باہر کیے گئے تھے۔کچھ عرصہ پہلے متعلقہ اسکولوں کو تنبیہہ کے نوٹس جاری کئے گئے تھے تا ہم نجی اسکول محکمہ کو خاطر میں ہی نہیں لائے، محکمہ کی معائنہ ٹیموں سے کسی قسم کا کوئی تعاون ہی نہیں کیا ۔بعد ازاں صوبائی وزیرِ تعلیم جام مہتاب حسین کی سربراہی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں بڑے بڑے دعوے کئے گئے اور کہا گیا کہ ان اسکولوں کے خلاف قانونی کاروائی کے لئے محکمہء قانون سندھ کا تعاون حاصل کیا جائے گا ، اور اس سلسلہ میں رابطہ کیا بھی گیاجس میں ڈائریکٹوریٹ کے لئے کراچی کے تمام ضلعوں میں ایک ایک مجسٹریٹ تعیناتی کی درخواست کی گئی جو ان اسکولوں کے خلاف فوری قانونی کاروائی کر سکے اور اس کے بعد سندھ کے وزیرِ تعلیم سمیت پورا محکمہ صرف زبانی جمع خرچ کر کے خاموش ہو گیا۔ 

چونکہ مقدمی عدالت میں زیرِ سماعت ہے لہٰذا اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام بڑے نجی اسکول ۔۔۔فیسوں کے اعتبار سے بڑے اسکول۔۔۔ اُن لوگوں کے ہیں جو خود اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، قانون وہی بناتے ہیں جو اُن کے فائدے میں ہوں ۔اگر یہ اسکول اُن کے نہیں تو وہ اُس کی پشت پر ضرور ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پیرینٹ ایسوسی ایشن کی طرح ہمیں بھی امید ہے اور ہم دعا گو بھی ہیں کہ عدالت ہر طرح کے دباؤ کو نظر انداز کر کے بر حق فیصلہ دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کا یہ مضمون 4 نومبر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والے کالم " اُلٹ پھیر" سے لیا گیا ہے۔













 

Comments

Popular posts from this blog