کہاں وہ۔۔۔ کہاں یہ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۳



کہاں وہ۔۔۔ کہاں یہ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۳


تحریر شاہد لطیف

جماعتِ اسلامی، پاکستان کی دینی و سیاسی جماعتوں میں ایک اہم جماعت ہے۔آج کل اس کے امیر سراج الحق اورجنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ صاحبان ہیں۔ یہ ۲۶ اگست ۱۹۴۱ کو، ۳ شبلی اسٹریٹ، اسلامیہ پارک لاہور میں اسلامی، سماجی اور سیاسی تحریک کے طور پر قائم ہوئی۔غالباََ اس کا محرک مدینے میں بننے والی مسلمانوں کی پہلی اسلامی ریاست تھی۔ مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا نعیم صدیقی، مولانا محمد منظور نعمانی ، مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا ابو الا علیٰ مودودی بانی ممبران میں سے ہیں۔ 

۱۱ برس کی عمر میں مولانامودودی نے مولانا شبلی نعمانی کے قائم کردہ ، اورنگ آباد اورینٹل ہائی اسکول کی آٹھویں جماعت میں داخلہ لیا ۔ یہاں روایتی دینی علوم کو جدید علوم کے ساتھ پڑھایا جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد مولانا کے والد کا بھوپال تبادلہ ہو گیا۔یہاں اُن کا ساتھ نیاز فتح پوری صاحب کے ساتھ رہا جو جدید علوم کے حامی تھے۔ ۱۹۱۹ میں مولانا دہلی چلے گئے اور دور کے عزیز اور مصلح، سر سید احمد خان کی لکھیکتابیں پڑھیں۔ یہیں پانچ سال مغربی فلسفے ، عمرانیات اور تاریخ کو بہتر سمجھنے کے لئے انگریزی اورجرمن زبانیں سیکھیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ علمائے دین نے یورپ کی ترقی کے اسباب جاننے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔

گو کہ مولانا مودودی نے لکھنے لکھانے کا آغاز ۱۹۲۴ میں ’ الجمیعہ ‘کی ادارت سے کر دیا تھالیکن سیاسی تحریریں ۱۹۳۳ سے لکھنا شروع کیں۔ کم و بیش اسی زمانے میں اسلام کی نشرو اشاعت کے کام کا بھی آغاز کیا۔تب حیدرآباد دکن چھوڑ کر شمال مغربی ہند وستان منتقل ہو جانے کا سوچا کیوں کہ سیاسی طور پریہ مسلمانوں کی اکثریت کا علاقہ تھا۔ ۱۹۳۸ میں علّامہ اقبال ؒ سے ملاقات کے بعد مولانا، وقف شدہ دار الاسلا م نامی ادارے کے انتظام کے لئے پٹھانکوٹ کے ایک دیہات میں آ گئے۔اُن کے خیال میںیہ جگہ، ہندوستان میں اسلام کی نشاطِ ثانیہ کے لئے بہترین تھی۔یہاں حقیقی معنوں میں اسلامی تحریک کے لئے لیڈر تیار ہو سکتے تھے۔ اُنہوں نے مختلف مسلمان دانشوروں کو اپنے ساتھ اس کام میں شرکت کے دعوتی خطوط لکھنا شروع کیے۔جن صاحب نے وہ قطعہء زمین ’وقف ‘کے لئے دیا تھا اُن کا مولانا کے سیاسی نظریات سے اختلاف ہو گیا تو مولانا صاحب نے اسے خیر باد کہہ دیا۔

۱۹۳۹ میں مولانا مودودی اُس ’ دار الاسلام ‘کو ممبران سمیت پٹھانکوٹ سے لاہور لے آئے۔یہاں اسلامیہ کالج نے مدرس کے لئے ان کی خدمات حاصل کیں لیکن چند ماہ بعد ہی مولانا کے سیاسی نظر یات کے کھلے عام پرچار کی وجہ سے اُن کی نوکری ختم کر دی۔ پھر جیسا کہ ابتدائی پیراگراف میں لکھا جا چکا کہ اگست ۱۹۴۱ میں جماعتِ اسلامی قائم ہوئی۔ جماعت کا مقصد ایک اسلامی مملکت کا بنانا تھاجہاں اسلامی قانون کا نفاذ ہو ۔

ابتدا میں مولانا صاحب نے نظریہ پاکستان کی مخالفت کی لیکن پاکستان بننے کے بعد مولانا صاحب کا زیادہ وقت سیاست میں بسر ہونے لگا اور نظریاتی اور علمی کاموں اور تصنیفات کو وقت کم ملا ۔ ۱۹۵۱ اور پھر ۱۹۵۶ اور ۱۹۵۷ میں انتخابی سمجھوتوں کی وجہ سے جماعت کے بعض ممبران کا کہنا تھا کہ جماعتِ اسلامی کا اخلاقی معیار گر گیا ہے ۔اس کی ایک مثال۱۹۵۱ میں جماعت کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ہے جہاں جماعتِ اسلامی کے سیاست کو چھوڑ دینے کی قرار داد منظور ہوئی ۔مولانا مودودی ، جماعت کے بدستور سیاست میں فعال رہنے کے حق میں تھے لہٰذا ایک کھلا اجلاس بلوایا گیا اور مودودی صاحب نے شوریٰ کی قرار داد کو مسترد کر دیا۔یہاں کئی ایک پرانے ممبران نے احتجاجاََ استعفے دے دیے اور جماعت میں ایک طاقتور شخصیت پرستی کا آغاز ہو گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مجلسِ شوریٰ کے فیصلہ کو نہ ماننا مولانا صاحب کی غلطی تھی ۔ 

۱۹۵۳ میں مولانا اور اُن کی جماعت کو ملک گیر پیمانے پر احمدیوں کے خلاف تحریک چلانے پر جنرل اعظم خان نے مولانا مودودی کو گرفتار کر لیا ۔اُنہیں سزائے موت سُنا دی گئی۔مگر عوامی رد عمل کی وجہ سے دو سال بعد اُن کو رہا کر دیا گیا۔صدرِ مملکت کے سامنے اپنی جان بخشی کی اپیل نہ کرنے پر ان کی عوامی اور سیاسی حلقوں میں بہت پزیرائی ہوئی جو اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔مولانا اور جماعتِ اسلامی ( اور ان کے ساتھ دوسری جماعتوں) کی یہ تحریک وطن کی سیاست کے محور سے نکل کر اب (شاید) پہلی مرتبہ اسلام کے نام کے ساتھ جڑ گئی۔ ۱۹۵۶ کے آئین کا بننا بھی اسی ’ اسلامی ‘ پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔البتہ اسکندر مرزا کے ۱۹۵۸ کے مارشل لاء کے بعد جب ایوب خان صدربنے تو یہ آئین پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ مولانا مودودی اور اُن کی جماعت کو سیاسی طور پر سخت دباؤ کا سامنا تھا ۔مولانا صاحب کو ۱۹۶۴ اور ۱۹۶۷ میں قید کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جماعتِ اسلامی نے لادینی پارٹیوں سے اتحاد کیا اور ۱۹۶۵ میں ایوب خان کے مقابلے میں خاتون صدارتی امید وار، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی ۔

دسمبر ۱۹۷۰ کے عام انتخابات میں مولانا مودودی نے ملک گیر مہم چلائی۔ جماعت کے اپنے ۱۵۱ امیدواروں کے لئے بہت زیادہ توانائی اور وسائل استعمال کرنے کے باوجود قومی اسمبلی میں ۴ اور ۴ ہی نشستیں صوبائی اسمبلیوں میں حاصل ہو سکیں ۔اسکے فوراََ بعد ہی مولانا سیاست میں بتدریج غیر فعال ہونے لگے۔ ۱۹۷۲ میں اُنہوں نے اپنی صحت کے پیش نظر امیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد نظامِ مصطفیٰ کی تحریک کا شوشا اُٹھا۔یہ تحریک بظاہر اسلام کے لئے چلائی جا رہی تھی لیکن دراصل یہ براہِ راست ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھی۔یہ تحریک جس میں تمام چھوٹے بڑے گروپ اور پارٹیاں شامل تھیں، جماعتِ اسلامی کی وضع کردہ حکمتِ عملی اورتنظیم کی بدولت بہت موثر ثابت ہوئی۔۱۹۷۷ میں مولانامودودی صاحب دوبارہ فعال نظر آئے جب ذوالفقار علی بھٹو مفاہمت کے لئے خود مولانا کے ہاں ۱۶ اپریل کو مشاورت کے لئے آئے۔اسی سال جب ضیاء الحق برسرِ اقتدار آئے تو مولانا مودودی کو بزرگ سیاست دان کا درجہ دیا گیا۔کچھ چیزوں پر اختلاف سے ہٹ کر مولانا اور جماعتِ اسلامی نے صدرضیاء الحق کی پالیسیوں کی حمایت کی۔ 

انتخابی نتائج کے حوالے سے جماعتِ اسلامی دیگر بڑی سیاسی پارٹیوں سے برابری تو نہ کر سکی لیکن سیاست اور قومی افق پر اس جماعت کے اثرات نمایاں ہیں۔ خاص طور پر احتجاجی تحریکوں میںیہ بہت اثر انگیز طریقے سے کام کرتی ہے ۔۱۹۶۹ میں صدر ایوب کو صدارت چھوڑنے، اور ۱۹۷۷ میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے والے حالات بنانے میں جماعتِ اسلامی نے نمایاں حصہ لیا۔صدرضیاء الحق کے ابتدائی چند سالوں کی حکومت میں اس جماعت کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہوا ۔
(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اختتام
خاکسار کی یہ تحریر، بروز سنیچر،  5 اگست 2017 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔

Comments

Popular posts from this blog