کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔دینی پارٹیوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔۴



کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔دینی پارٹیوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔4


تحریر شاہد لطیف


۱۹۷۲ میں مولانا مودودی نے خرابی ء صحت کی وجہ سے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ جماعت کی مجلسِ شوریٰ نے میاں محمد طفیل کو نیا امیر منتخب کیا، جو ۱۹۷۲ سے لے کر ۱۹۸۷ تک امارت کے درجے پر فائز رہے۔اِن کی امارت کے شروع کے دِنوں میں ، جماعتِ اسلامی کی طلباء تنظیم، اسلامی جمعیتِ طلباء نے بھٹو حکومت کے خلاف لاہور میں مظاہرے شروع کیے۔ ۱۹۷۳ کے اوائل میں میاں صاحب نے فوج سے بھٹو حکومت کو چلتا کرنے کو کہا۔ جلد ہی جماعتِ اسلامی نے ’ نظامِ مصطفےٰ ‘ کے جھنڈے تلے ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی حکومت کے خلاف ایک جاندار تحریک شروع کی۔ جواب میں حکومت نے تحریک کو جبر سے دبایا۔بڑی تعداد میں جماعت اور جمعیت کے ممبران گرفتار کر لئے ۔اسی دوران ۱۹۷۵ کے انتخابات کے انعقاد کے موقع پر جماعتِ اسلامی کے ممبران کو جبراََ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے سے روکا گیا۔لیکن ۱۹۷۷ کے انتخابات میں متحدہ اپوزیشن، قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے جماعت نے ۳۶ نشستیں حاصل کیں۔پیپلز پارٹی نے ۲۰۰ نشستوں میں سے ۱۵۵ نشستیں حاصل کیں جو اُس پس منظر میں مذکورہ پارٹی کی عوام میں تیزی سے کم ہوتی ہوئی مقبولیت میں کسی طور ممکن نہیں تھا۔ قومی اتحاد نے اِن انتخابات میں بھٹو حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگا کر نتائج مسترد کر دیے۔حکومت نے مولانا مودودی کو گرفتار کر لیا۔اُنہوں نے جواباََ تمام دینی اور سیاسی پارٹیوں کو حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے کو کہا۔اِس طرح جماعت کے منظم مظاہروں نے بھٹوحکومت کو رخصت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

جنرل ضیاء الحق نے دستورِ پاکستان کے حساب سے مقررہ مدت میں انتخابات نہ کروا کر جماعتِ اسلامی کو اپنے سے دور کرلیا۔طلباء یونین پر پابندی کے بعد اسلامی جمعیت طلباء نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے البتہ خود جماعتِ اسلامی ،پیپلز پارٹی کی طرف سے چلائی گئی تحریکِ بحالی جمہوریت کی حصہ دار نہیں بنی۔

۱۹۸۷ میں خراب صحت کی وجہ سے میاں طفیل محمد نے جماعت کی امارت سے علیحدگی اختیار کر لی اور مجلسِ شوریٰ نے قاضی حسین احمد کو نیا امیر منتخب کیا ۔صدر ضیاء الحق کے طیارے کے حادثہ کے بعد پاکستان مسلم لیگ نے دائیں بازوؤں کی تمام پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور اسلامی جمہوری اتحاد وجود میں آ یا جس میں جماعتِ اسلامی بھی شامل تھی البتہ ۱۹۹۰ میں جب میاں نواز شریف کو اقتدار مِلا تو جماعت نے کابینہ کا بائیکا ٹ کر دیا کیوں کہ اُس کے خیال کے مطابق پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ایک ہی سکے کے دو رُخ ، ملک کے لئے مسائل بڑھانے میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔۱۹۹۳ کے انتخابات میں جماعتِ اسلامی نے تین نشستیں حاصل کیں۔ 


بینظیر کے دوسرے دورِ حکومت میں ۲۰ جولائی، ۱۹۹۶ کو امیرِ جماعت قاضی حسین احمد نے حکومت کی مبیّنہ کرپشن کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اِسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اُنہوں نے ۲۷ ستمبر ۱۹۹۶ ایوانِ بالا (سیَنٹ) سے احتجاجاََ استعفیٰ دے دیا۔جماعت کا اعلان کردہ لانگ مارچ کا آغاز، ۲۷ اکتوبر ، ۱۹۹۶ سے ہو ا جِس میں جماعت کے علاوہ حزبِ مخالف پارٹیاں بھی شامِل ہو گئیں۔منظم احتجاج رنگ لایا ، حکومت پر دباؤ بڑھتا گیا یوں بالآخر ۴ نومبر ، ۱۹۹۶ کو بینظیر حکومت کو صدر فاروق لغاری نے گھر بھیج دیا۔


جماعتِ اسلامی نے ۱۹۹۷ کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور اس طرح پارلیمان میں اپنی موجودگی اور پارٹی نمائندگی کا موقع کھو دیا۔البتہ جماعت سیاسی طور پر بہت فعال رہی جیسے بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے لاہور آنے پر مظاہروں کا انتظام ۔ 


جب ۱۹۹۹ میں پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو شروع شروع میں جماعتِ اسلامی نے اُن کے اِس اقدام کو سراہا اور جنرل صاحب کو خوش آمدید کہا لیکن جب صدر پرویز مشرف نے لادینی اور ’ روشن خیالی ‘ کی اصلاحات نافذ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو جماعت نے سخت اعتراض کیے۔پھر جب صدر مشرف نے ۲۰۰۱ میں افغان طالبان کو چھوڑ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا اتحادی بنا دیا تب بھی اس اقدام کی مخالفت کی۔جماعتِ اسلامی نے نیو یارک میں ہونے والی ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی ہے لیکن ساتھ ہی افغانستان پر امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی چڑھائی کی بھی۔


۲۰۰۲ کے انتخابات میں جماعتِ اسلامی نے دیگر دینی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر ایک متحدہ مجلسِ عمل(ایم۔ایم۔اے ) بنائی اور قومی اسمبلی میں ۵۳ نشستیں حاصل کر لیں۔اِن میں زیادہ تر صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں سے تھیں۔جماعتِ اسلامی نے پاکستان میں امریکی ایجنسیوں اور فوجوں اور اُن کے سہولت کاروں کی ہمیشہ مخالفت کی۔قاضی حسین احمد نے لال مسجد کے زخمیوں کی عیادت کے فوراََ بعد
قومی اسمبلی میں اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔قاضی صاحب نے ہمیشہ آزاد عدلیہ کی حمایت کی۔ 


جماعتِ اسلامی میں ۲۰۱۳ کے امیر کے اندرونی انتخابات میں قاضی صاحب نے امیدوار ہونے سے معذرت کر لی۔۶ جنوری، ۲۰۱۳ کو سیّد منّور حسن جماعت کے نئے امیر منتخب ہوئے۔ منور حسن صاحب جماعتِ اسلامی کے وہ واحد امیر ہیں جِن کو جماعت کی امارت کے دوران ہی مارچ ۲۰۱۴ میں اراکین جماعت نے ووٹنگ کے ذریعہ رد کر دیا۔نئے امیر سراج الحق خان منتخب ہوئے۔ غالباََ ارکان جماعت بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح جماعت میں بھی قدرے جوان اور عملی لیڈر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ 


۵ ستمبر، ۱۹۶۲ کو پیدا ہونے والے سراج الحق پرویز خٹک انتظامیہ میں خیبر پختونخواہ میں سینیئر وزیر رہ چکے ہیں۔یہ واحد سینیٹراور صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں جِن کا کسی بھی بینک میں اکاؤنٹ نہیں ہے ۔ ان کے خیال میں تمام بینک ایک طرح یا دوسری طرح سود کے پیسوں سے کاروبار کرتے ہیں۔اپنی دیانتداری اور سادا طرزِ زندگی گزارنے کی وجہ سے اکثر اِن کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے سلسلے میں تبصرے میں کہا ’’ ہمیں یہ پیمانے دوبارہ متعین کرنے ہوں گے۔اگر صورتِ حال جوں کی توں رہی تو آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ سے کوئی ایک شخص بھی نہیں بچ سکے گا ماسوائے سراج الحق ‘‘۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختتام
 خاکسار کی12  اگست، 2017 بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہونے  والی  تحریر ۔







Comments

Popular posts from this blog