کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔پانچواں اور آخری حصّہ
کہاں وہ ۔۔۔ کہاں یہ ۔۔۔ دینی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ۔پانچواں اور آخری حصّہ
تحریر شاہد لطیف
قیامِ پاکستان کے بعد مارچ ۱۹۴۸ میں شیخ القرآان ،مولانا عبد الغفور ہزاروی اور علّامہ ابو الحسنات سیّد محمد احمد قادری نے جمیعت علمائے پاکستان ( جے یو پی ) قائم کی۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے یہ آل انڈیا سُنی کانفرنس کے نام سے مشہورتھی ۔
علّامہ شاہ احمد نورانی ( یکم اکتوبر ۱۹۲۶ سے ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ ) نے الہ آباد یونیورسٹی سے عربی زبان میں بی۔اے کیا اور بعد میں دارالعلوم میرٹھ سے اسلامی فقہ میں سند حاصل کی۔ وہ ۱۹۵۰ میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ۔ شروع میں مسلم لیگ کے ساتھ رہے مگر جلد ہی جمیعت علمائے پاکستان سے منسلک ہو گئے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد دینِ اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے سلسلے میں انہوں نے ۱۹۷۲ میں مکہ مکرمہ میں ’ ورلڈ اسلامک مِشن ‘ قائم کیا۔علّامہ صاحب کو عربی کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔
یہ ہمارے ملک کے پہلے عالمِ دین ہیں جنہوں نے آئین میں مسلمان کسے کہتے ہیں یا مسلمان کی تعریف کے ہونے کا مطالبہ کیا۔کافی سخت جدوجہد کے بعد علّامہ صاحب اور اُن کی ٹیم پارلیمان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا بِل ۱۹۷۴ میں پاس کرانے میں کامیاب ہوئی۔ علّامہ شاہ احمد نورانی ۱۹۷۰ کے عام انتخابات میں کراچی کے حلقہ (Karachi-VII) NW-134 سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔ یہ کئی جمہوری اتحادوں کا حصہ رہے بشمول ۹ پارٹی پاکستان قومی اتحاد ،جو بھٹو حکومت اور پیپلز پارٹی کے خلاف ۱۹۷۷ میں بنایا گیا تھا۔ اُنہوں نے ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف بھی ۱۹۷۷ سے ۱۹۸۸ تک آوا اُٹھائی ۔ جس کی پاداش میں دوسرے لیڈران کے ساتھ علّامہ نورانی بھی اپنے گھر میں ایک عرصے نظر بند رہے۔ ۱۹۷۷ کے عام انتخابات میں حیدرآباد کے حلقہ NA-167 (Hyderabad-II) سے قومی اسمبلی کی نشست حاصل کی۔یہاں سے قومی سیاست پر اُن کا اثر ورسوخ مزید بڑھا اور وہ ۱۹۸۰ میں سینیٹر بن گئے۔۹۰ کی دہائی میں وہ صدر پرویز مشرف کی مخالفت میں سیاست میں دوبارہ فعال ہو گئے ۔دینی جماعتوں کے اتحاد،متحدہ مجلسِ عمل ( ایم ایم اے) کی صدارت پر فائز ہوئے اورصدر مشرف کی پالیسیوں کے خلاف ملکی سطح پر عوامی حمایت حاصل کی۔
۱۹۹۲ کے لگ بھگ کراچی کی پرانی سیاسی طاقتیں، جماعتِ اسلامی اور خصوصی طور پرجمیعت علمائے پاکستان، ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کی وجہ سے منظر سے غائب ہو گئی ۔ جماعتِ اسلامی کا تشخص پھر بھی قائم رہا۔سندھ میں ایم کیو ایم کی مقبولیت میں کمی آنے سے جمیعت علمائے پاکستان کو کچھ سنبھلنے کا موقع ملا۔
مولانا اپنے علم اور اسلامی نشرو اشاعت کے لئے کافی کام کر گئے۔شعیہ سُنی ہم آہنگی کے سلسلے میں بھی اُن کی خدمات یاد رکھی جائیں گی ۔سیاسی طور پر وہ پارلیمان اور سینیٹ میں بھی فعال نظر آئے لیکن اپنی پارٹی میں اپنی طرح کے مستعد اور بیدار ذہن والے افراد تیار نہ کر سکے۔یہی وجہ ہے کہ علّامہ شاہ احمد نورانی کے دنیا سے جانے کے بعد، اُن کی پارٹی میں اُس پائے کا شخص نہیں تھا۔ شاید جماعتِ اسلامی کے علاوہ کسی بھی بڑی دینی پارٹی میں نئے قائدین کی تربیت کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں،گویا پارٹی بنانے والوں نے طے کر رکھا ہوتا ہے کہ یہ پارٹی ’ ون مین شو ‘ ہے۔ تربیت کے فقدان کی مثال علّامہ صاحب کے انتقال کے کچھ سالوں بعد سامنے آئی جب ۲۰۱۴ کو پارٹی کے سابقہ صدر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر اور علّامہ صاحب کے بیٹے کے درمیاں لیڈری کا جھگڑا اُٹھا۔
اگر ہم اپنے ملک کی دینی جماعتوں کے بانیوں اور آج کی پارٹی کی قیادت کا موازنہ کریں تو صورتِ حال کوئی زیادہ اچھی نظر نہیں آتی۔جماعتِ اسلامی کے مولانا مودودی نے علمی کام کے علاوہ سیاست میں بھی عمل دخل رکھا اور اسلام کی نشرو اشاعت پر خاص توجہ دی۔ تبدیلی ڈنڈے کے بجائے تربیت اور تعلیم سے لانے کے قائل رہے ۔اِن کے جانے کے بعد میاں طفیل محمد کے زمانے سے اسلامی جمیعتِ طلبہ میں تشدد کی واضح لہر دیکھنے کو ملی۔توڑ پھوڑ کا عنصر بھی اسی دور میں داخل ہوا۔وہ جو مصرع ہے: آج جو کچھ بوئے گا، کاٹے گا کل ۔۔۔ اِس بات پر پورا اترتا ہے۔ہمارے ملک میں آج جومار دھاڑ ،جلاؤ گھیراؤ کی سیاست ہے اُس میں برداشت کی کمی کا ایک سبب سیاسی طلبہ تنظیمیں ہیں۔میاں صاحب کے بعد قاضی حسین احمد کے زمانے میں سنسنی اور زبردستی کی لانگ مارچ کا نام آتا ہے جس سے اُس وقتکے صدر فاروق لغاری نے بینظیر حکومت کو چلتا کر دیا تھا۔آپ نے اپنے مطالبے منوانے کے لئے لانگ مارچ کی ایک ایسی روایت ڈال دی کہ وہ پارٹیاں جن کی سرے سے پارلیمان میں کوئی نمائندگی ہی نہیں وہ بھی گھیراؤ اور لانگ مارچ کی ڈگر پر چل پڑیں جیسے طاہر القادری صاحب کی عوامی تحریک۔ حضرت موصوف خیر سے زیادہ تر کینیڈا میں ہوتے ہیں لیکن لانگ مارچ یہاں۔۔۔ اے کاش کبھی وہاںبھی لانگ مارچ کرنے کا ایک اشتہار ہی دیا ہوتا ۔۔۔
جماعتِ اسلامی کے موجودہ امیر سراج ا لحق صاحب کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے جب اُنہوں نے ’ احتساب سب کا ‘ نعرہ لگایا ۔احتساب تو پھر کشمیر کمیٹی والوں کا بھی ہونا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمان صاحب نے اِس میدان میں کیا کارنامے انجام دیے؟
جمیعت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود صاحب نے اپنی وزارتِ اعلیٰ میں اُس وقت کے صوبہ سرحد میں عوامی بہبود کے بہت سے کام کیے۔لیکن پارٹی میں قومی سطح کے قائدین کی تیاری میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔پارٹی میں موروثیت تو قطعاََ نہیں ہونا چاہیے تھی۔مفتی محمود کے جانے کے کچھ عرصہ بعد اُن کے بیٹے مولانا فضل الرحمان کا نام سربراہی کے لئے لیا جانے لگا۔ حیرت ہے کہ جمیعت علمائے اسلام کے کسی عالم نے کوئی مخالفت نہیں کی کہ دینی جماعت کی سربراہی کے چناؤ میں موروثیت داخل نہیں ہونا چاہیے۔ یوں جمیعت علمائے اسلام میں ’ ملوکیت ‘ داخل کر دی گئی۔وہ تو بھلا ہو انس نورانی کا کہ مارچ ۲۰۰۸ میں اُنہوں نے جمیعت علمائے پاکستان کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا ورنہ ۔۔۔ بہر حال اِس پارٹی میں بھی قومی سطح کا کوئی شخص نظر نہیں آتا۔
کیا ہماری سیاسی اورکیا دینی پارٹیا ں، کوئی بھی مستقبل کے لیڈر تیار نہیں کر رہا۔شاید ایک آدھ پارٹی کو چھوڑ کر اب طے کر لیا گیا ہے کہ پارٹی بھی و راثت کی شے ہے جو خاندان میں ہی رہنا چاہیے ۔ دیگر پارٹیوں پر کچھ کہنا سننا فضول ہے ، البتہ دینی جماعتوں کو تو ملک و قوم کی خاطر مستقبل کے لئے صحیح لوگ تیار کرنے چاہیے تھے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ واقعی کہاں وہ۔۔۔شروع کے پارٹی والے اور کہاں یہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 19 اگست 2017 ، بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔
Comments