اداکار، گلوکار،میوزیشن،ارینجر اور موسیقار خالد نظامی





اداکار، گلوکار،میوزیشن،ارینجر اور موسیقار
خالد نظامی

تحریر شاہد لطیف

پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کا میں ہمیشہ مشکور رہوں گا کہ یہاں شعبہ پروگرام میں کام کرنے کے دوران بہت سے فنکاروں سے ملاقات رہی اور کئی ایک کے ساتھ کام کرنے کے مواقع بھی آئے۔ اِن میں ایک بڑا نام خالد نظامی کا ہے۔ میرا ان سے ۸۰ کی دہائی میں بہت زیادہ ملنا جلنا تھا۔ٹیلی وژن ڈراموں میں ان کا نام منجھے ہوئے کامیڈین میں آتا تھا۔کراچی اسٹیج میں بھی بہت مقبول تھا۔اپنے کردار کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے وہ سب کچھ کر گزرتا تھا۔ ڈرامہ پروڈیوسر قیصر فاروق اورشاہد اقبال پاشا صاحبان کے ساتھ ڈرامہ پروڈیوس کرتے ہوئے اُس کی ذہانت کا میں خود گواہ ہوں ۔ ایک ڈرامے میں پھیری والے کا کامیڈی کردار تھا جس کو ادا کرنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا ۔ریہرسل کے دوران اُس نے کہا کہ مجھے گھنٹہ بھر کی رخصت دو میں ذرا صدر اور پییر الٰہی بخش کالونی کا چکر لگا آؤں۔ پوچھا خیریت؟ جواب ملا : ’’ ذرا پھیری والوں کی صداؤں اور ان کی جسمانی حرکات کا جائزہ لے آؤں ‘‘ ۔ایسی کئی ایک مثالیں ہیں۔ میں نے اِن کو ہر لحاظ سے مکمل فنکار پایا۔ 

اِن سے دو روز قبل تفصیلی نشست رہی ۔ٹیلی وژن ، اسٹیج ، فلم اور موسیقی سے متعلق کئی سوال جواب ہوئے ۔کامیڈی اور اسٹیج پر آنے کے بارے میں کہا : ’’ یہ شاید۱۹۷۰ کا زمانہ تھا۔جب میں نے ون مین شو /اسٹینڈ اپ کامیڈی سے آغاز کیا۔ مجھے اسٹیج پر لانے والے سلیم چھبیلاتھے جو خود بھی نہایت عمدہ کامیڈین تھے۔پھر ماسٹر یعقوب، ڈانس ڈائریکٹر اور کامیڈین سے میں نے ردہم سیکھا۔یہیں سے اسٹیج ڈرامہ ’ بُدھو کہیں کا ‘ میں کام کر نے کا موقع ملا ۔ میرے ساتھ جمشید انصاری بھی تھا۔اُس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ٹی۔وی اداکار ہے۔ شاید میری کارکردگی اسے پسند آ گئی۔وہی زمانہ تھا جب پی۔ٹی۔وی کراچی سے پروڈیوسر محسن علی ’ آج کا انتخاب ‘ کیا کرتے تھے۔اِس میں ایک جاپانی کہانی پیش کرنے کی تیاری ہو رہی تھی جِس میں مالک اور نوکر کا ڈبل رول تھا۔جمشید انصاری نے محسن صاحب کو میرے بارے میں بتلایا۔وہ میری کارکردگی دیکھنے خود ڈرامہ دیکھنے آئے اور مجھے منتخب کر لیا۔ٹی وی پر آمد ایک مشکل ڈبل رول سے ہوئی۔ مجھے ٹی وی پر لانے کا سہرا جمشید انصاری کے سر ہے۔اِس سیریل میں ،میں وا حد اداکار تھا جِس نے پانچ اقساط میں کام کیا۔ پھر اس کے بعد ’ شہزوری ‘ کیا جو میرا اور حسینہ معین دونوں کا پہلاسلسلہ وار ڈرامہ تھا۔پھر اِس کے بعد سلسلہ چل نکلا۔۱۹۷۱ میں بچوں کے لئے ڈرامہ ’ کھیل کھیل میں ‘ اداکاری کی۔’ ساتھی ‘ قاسم جلالی کا بچوں کے لئے ایک سلسلہ تھا۔پھر ’ سائبان ‘ جِس میں طلعت اقبال اور سنبل ہیرو ہیروئن تھے ۔اِس کے بعد مشہورِ زمانہ ’ انکل عرفی ‘ کیا۔اِس میں میرے ساتھ جمشید انصاری کا بھی کامیڈی کردار تھا۔عوام میں یہ کردار بہت مقبول ہوا۔میں نے سوچامیرا رشید بھائی کاکردار اتنا زیادہ مقبول نہیں جا رہا لہٰذا خود ہی کہانی سے نکل گیا تا کہ جمشید انصاری کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملے‘‘۔

ٹیلی وژن سے فلموں میں آنے کے بارے میں انہوں نے بتایا: ’’ اِسی دوران مجھے منور رشید صاحب نے لاہور فلم کے لئے بلوایا۔فلم کا نام تھا ’ پیار کا موسم ‘۔میرا پہلا فلمی شا ٹ عظیم کامیڈین منور ظریف صاحب کے ساتھ ہو ا ۔ اُنہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی ۔اِس فلم میں لہری اور ننھا بھی تھے۔میرا کردار میمن سیٹھ کا تھا۔اِس کے بعد پرویز ملک صاحب نے مجھ سے فلم ’ پہچان ‘ میں کام لیا۔یہ سُپر ہٹ گئی ۔اِس فلم کی شوٹنگ کے دوران مجھے ندیم صاحب نے کہا کہ نذر الاسلام سے کیوں نہیں ملتے؟ وہ مجھے نذر الاسلام صاحب کے پاس لے گئے اور اُنہوں نے مجھے اپنی فلم ’ حقیقت ‘ میں کردار دیا۔ اِس کے علاوہ ’ کوشش ‘، ’ خوش نصیب ‘، ’ بیوی ہو تو ایسی ‘ میں بھی اداکاری کی ۔ لاہور میں میری فلموں کی تعداد ۲۵ ہے۔پھر لاہور فلمی دنیا میں غیر پیشہ ور لوگ آ گئے اور معیاری فلمیں بننا کم ہو گئیں لہٰذا میں بھی کراچی آ گیا‘‘۔

خالد نظامی کی ٹیلی وژن اور کراچی میں دوبارہ آمد خوشگوار ثابت ہوئی: ’’ یہاں ۱۹۸۳ میں ’ ان کہی ‘ میں کام کیا۔ اِسی زمانے میں معین اختر آدم جی ہال میں تھیئٹر کر رہا تھا۔رزاق راجو اُن کی ٹیم کا ایک ذہین ڈائریکٹر اور کامیڈین تھا ۔ ایک ڈرامے کی ریہرسل ہورہی تھی جِس میں عمر شریف نے بھی اداکاری کرنا تھی۔کسی وجہ سے وہ پہلے روز نہ آ سکا۔ مجھے رزاق راجو نے کہا کہ عمر شریف کے مکالمے بول لو تا کہ ریہرسل ٹھیک ہو۔دوسرے روز پھر یہی کہانی ہوئی اور عمر شریف نہیں آیا۔تیسرے روز بھی جب عمر شریف نہیں آیا تو میں نے اُس کے مکالمے باقاعد ہ ادا کاری کے ساتھ ادا کیے۔اِس طرح سات ریہرسلوں میں عمر شریف نہیں آیا۔ میں نے اُس کے مکالمے بول کر باقی اداکاروں کی ریہرسل کروائی۔شو سے ایک رات قبل رزاق راجو میرے گھر آیا اور کہا کہ عمر شریف نے آنے سے قطعی معذرت کر لی ہے لہٰذا اب تم نے اُس کا کردار ادا کرنا ہے۔ڈرامے کا نام تھا ’ یا شیخ ویزہ بھیج ‘۔اُس دور میں ڈرامہ ٹیم میں لاہور سے ایک بڑا اداکار لازم ہواکرتا تھا۔ہمارے شو میں اورنگ زیب لغاری تھے۔پہلا ہی شو ہاؤس پیک رہا۔ ہم نے ۱۵ شو کیے۔تمام ہاؤس پیک۔عمر شریف اور فرقان حیدر ہماری ٹیم کو فلاپ کروانا چاہتے تھے جب ہی عمر شریف نے اپنے آنے یا نہ آنے کو لٹکائے رکھا اور عین وقت پر نہ آنے کا بتلایا تا کہ پروڈیوسر کی کمر ٹوٹ جائے۔ہمارے ڈرامے کے فوراََ بعد اُن کا ڈرامہ ’ فرق صاف ظاہر ہے ‘ اسی ہال میں پیش کیا گیا جس کے لاہور کے ادا کار شجاعت ہاشمی تھے۔اُن کا خیال تھا کہ یہ ڈرامہ ہمارے ڈرامے سے کہیں زیادہ کامیاب ہو گا اور ’ فرق صاف ظاہر ہو جائے گا ‘۔مگر ۔۔۔ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔۔۔ ان کی ٹیم کا پہلا ہی شو فلاپ گیا ۔ اپنے باقی کے دِن ہم کو دے دیے یعنی اپنے باقی کے ۱۴ شو ہم کو دے دیے۔ یوں پھر سے ’ یا شیخ ویزہ بھیج ‘ پیش کیاگیا۔ اورنگ زیب لغاری کی جگہ وہ کردار شجاعت ہاشمی نے ادا کیا۔ اِس ڈرامے کے تمام ۲۹ شو ہاؤس پیک گئے‘‘۔

پاکستان سے امریکہ جانا اور پھر واپسی کے بارے میں بتلایا: ’’ ۱۹۸۶ میں چند وجوہات کی بنا پر میں امریکہ نقلِ مکانی کر گیا۔ نیو یارک، ڈی۔سی (واشنگٹن) بالٹی مور (ریاست میری لینڈ) میں اسٹیج اور فنکشن کرتا ہوں ۔ میرا ایک اسٹوڈیو اور ایک بینڈ ہے۔میرے تمام میوزیشن ساؤتھ انڈین ہیں اور مرکزی گلوکارہ راجھستان کی نازنین ہے۔ میں دوبارہ ۲۰۱۳ میں پاکستان آیا لیکن یہاں آنے کے بعد مجھے علم ہوا کہ صرف پاکستان میں رہ کر دال روٹی چلانا مشکل ہے اِ س لئے آنا جانا لگا رہتا ہے ‘‘۔

فلم انڈسٹری میں اپنی دوبارہ آمد کے بارے میں بتایا: ’’ یاسر نواز اور حسن ضیاء کی فلم ’ مہر النساء وی لب یو ‘ میں میرا کردار جاندار ہے۔کہانی کا ڈرامائی موڑ میرے کردار سے ہی ہوتا ہے‘‘ ۔ یقیناََ اسے فلم بینوں نے دیکھ ہی لیا ہو گا۔

اپنے آنے والے ڈراموں کے بارے میں کہا: ’’ ہم ۔ٹی۔وی کے لئے روبینہ اشرف کے ڈرامے ’ میں ماں نہیں بننا چاہتی ‘ میں میرا جعلی پیر کامنفی اور سنجیدہ کردار ہے ۔ ہم۔ ٹی ۔وی سے ہی مہرین جبار کی ایک ٹیلی فلم ’ ہم آ گئے ‘ میں میرے ساتھ مرینہ خان اور حنا دلپذیر ہیں‘‘۔

موسیقی، خاص طور ’ تُم سنگ نیناں لاگے۔۔۔ ‘ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: ’’ عارفین سے پرانی دوستی تھی۔میں اکثر دھنیں بناتا رہتا تھا اور اُس کو بھی سناتا تھا۔جب وہ ٹی وی پروڈیوسر بنا تو اُس نے مجھے بلوایا کہ کوئی اچھی دھن بناؤ ، ریکارڈ کرواتے ہیں۔ میری دھنوں کی تمام استھایاں / مکھڑے میرے لکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ایسا ہی ایک مکھڑا اُسے پسند تھا   ؂
     تم سنگ نیناں لاگے لاگے ناہی جیا را ۔۔۔ پیا پیا بولے پیا من کا پپیہا را
اِس گیت کی استھائی بھی میری لکھی ہوئی ہے۔ انترے لکھنے کے لئے عارفین نے اسد محمد خان صاحب کو بلوایا۔میں نے مکھڑا گا کر سنایا۔ کہنے لگے کہ بھئی ’ لاگے ‘ یہاں دو مرتبہ مہمل ہے ، دوسرے لاگے کی جگہ ’ مانے ‘ کر دیا جس سے بول کے تسلسل اور گیت کے بہاؤ کا مزہ جاتا رہا۔بہر حال اسد صاحب نے اُدہر انترے لکھے اِدہر میں نے اُن کی دھن بنائی ۔ عارفین اور اسد صاحبان نے او کے کر دیا ۔ اس کے بعد میں ریڈیو پاکستان کراچی گیا او ر سینئر میوزیشن محبوب اور اشرف صاحبان کو کہا کہ فلاں فلاں میوزیشن کو لے کر فلاں دن میری ریکارڈنگ کے لئے آ جائیں۔وہ سب لوگ میری بات کو سنجیدہ نہیں سمجھ رہے تھے۔ شاید سوچ رہے تھے کہ کہیں شوق میں ایک دھن بنا لی ہے ۔کہنے لگے کہ ’’ فکر نہیں کرو، اِس دھن کی تہذیب ہم لوگ کر لیں گے‘‘ ، پھر میں نے ریہرسل کے دوران اُنہیں بتایا کہ اِس گیت کا ارینجر اور کمپوزر میں ہی ہوں ۔ یہ گیت درباری میں ہے، E- Minor سے ہے، ردھم کی چال سنگل قہروا ہے ۔ پھر خود ہارمونیم بجا کر میوزیشنز کو ریہرسل کروائی تو وہ سب حیران رہ گئے ۔ستار گٹارکے پیس ، اور وائلن والوں کو اُن کے پیس اور کاؤنٹر خود یاد کروائے۔ عارفین نے یہ گیت ’ فیلر ‘ (Filler)کے طور پر بہت چلوایا یوں یہ پورے ملک میں مشہور ہو گیا۔اِس پر سہیل رعنا صاحب نے اعتراض کیا کہ پی۔ ٹی۔ وی میں بھارتی گانوں کی کاپی ہو رہی ہے ۔اِنہوں نے گیت ’’ یہ سماں ، سماں ہے یہ پیار کا ، کسی کے انتظار کا ۔۔۔‘‘ کی طرف اشارہ کیا ۔حالاں کہ دونوں گیتوں میں محض ’ اسکیل ‘ اور راگ کی مماثلت ہے ۔ اِس طرح تو پھر میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ اُن کی موسیقی میں گلوکارہ مالا کا گیت ’’ کوئی میرے دِل میں دھیرے دھیرے آ کے نندیا چرائے ‘‘۔کا اسکیل بھارتی گیت ’’ جیا لے گیو جی مورا سانوریا ‘‘ سے مماثل ہے‘‘۔

یہاں میں، یعنی راقِم، ایک مِثال دیتا ہوں۔دلیپ کمار پر فلمایا ہوا فلم سنگدل کا گیت ’’ یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی ۔۔۔‘‘ موسیقا ر سجاد حسین نے کمپوز کیا۔اسی میٹر میں موسیقار مدن موہن نے فلم آخری داؤ میں گیت: ’’ تجھے کیا سناؤں میں دلربا ۔۔۔‘‘ کمپوز کیا۔ لہٰذا میری رائے کے مطابق خالد نظامی ہوں، سہیل رعنا ہوں، سجاد حسین یا مدن موہن، جب بھی راگ کو بنیاد بنا کر کمپوزیشن کی جائے گی تو اُس میں یا اسکیل میں مماثلت ہوجاتی ہے ۔

پی۔ٹی۔وی میں شعبہ پروگرام میں آنے سے پہلے ہی مجھے اس بات کا علم تھا کہ روبینہ بدر کی آواز میں اسد محمد خان کا لکھا گیت ’’ تم سنگ نیناں لاگے ۔۔۔‘‘ کا موسیقار خالد نظامی ہے ۔ اسی پس منظر میں ایک دِن ٹی وی کی کینٹین میں اسے پکڑ لیا اور اپنے موسیقی کے پروگرام ’’ آواز و انداز ‘‘ کے لئے نغمات کمپوز کرانے کا اقرار بھی کروا لیا۔اُنہیں بتایا کہ گلوکار خالد وحید کو سامنے رکھ کر کام شروع کریں ۔ خالد نظامی کے پاس کئی ایک دھنیں ، استھائی /مکھڑے کی صورت ا کثر تیاررہتی تھیں۔پہلے گیت کا مکھڑا یہ تھا : ’’ تیرا میرا کیا بندھن ہے راہی تو اکیلا ہے ۔۔۔ ‘‘۔اسی طرح کے چار گیت منتخب ہوئے۔اُسی وقت محمد ناصر بھی سلطانہ صدیقی صاحبہ کے کمرے میں آ موجود ہوئے لہٰذا طے پایا کہ ’’ ابھی نہیں تو کبھی نہیں ‘‘ اور محمد ناصر کو چاروں مکھڑوں پر انترے لکھنے پر متعین کر دیا۔یوں چاروں گیت ریکارڈ وقت میں موزوں ہو گئے۔ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی بھی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ماتحت تھی لہٰذا پروگرام ’ آواز و انداز ‘ کی آ ڈیو ریکارڈنگ کے لئے وہاں دن مقرر تھے۔ میرے کہنے پرپہلا گیت ’ تیرا میرا کیا بندھن ہے ۔۔۔ ‘ ریکارڈنگ کے لئے تیار ہوا۔میں نے پہلی دفعہ وائلن کے کاؤنٹر سے گیت شروع ہوتے ہوئے دیکھا ۔کیا عجب کمپوزیشن تھی۔جو مجھے آج بھی ازبر ہے۔ احمد رشدی بھائی بھی وہاں ’’ آواز و انداز ‘‘ کے لئے کی گئی اپنی ریکارڈنگ کی ٹرانسفر کے لئے موجود تھے ۔اُنہوں نے مذکورہ گیت کو بہت پسند کیا اور اس کو گانے کی خواہش کا اظہاربھی کیا۔خالد نظامی کے لئے یہ بیشک ایک بڑا اعزاز ہے کہ احمد بھائی نے اُس کے کمپوز کیے ہوئے گیت کو گانے کی خواہش کی۔ صد افسوس کہ کسی وجہ سے وہ گیت صدابند نہ ہو سکے۔ ا لبتہ ’ تیرا میرا کیا بندھن ہے ۔۔۔ ‘ آج تک میرے دل پر نقش ہے۔

خالد نظامی کے بارے میں یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اگر وہ واقعی موسیقار ہوتے تو ان کے اور گیت بھی منظرِ عام پر آتے ، اُنہوں نے مزید گیت کیوں ریکارڈ نہیں کروائے؟ کل یعنی ۱۸ اگست بروزجمعرات خالد کے ساتھ لمبی نشست رہی میں نے جب یہ سوال کیا تو اُ س نے کہا : ’’ ۱۹۷۷ میں گراموفون کمپنی آف پاکستان EMI لاہور اسٹوڈیو میں ، میں نے گلوکار اے۔ نیر کی آواز میں تین گیت ریکارڈ کروائے ۔ٹیلی وژن پروڈیوسر سا حرہ کاظمی کو نئے گانوں کی تلاش تھی وہ یہاں کے چیف ساؤنڈ ریکارڈسٹ آصف صاحب کے پاس نئے گیتوں کی تلاش میں آئیں ۔مختلف موسیقاروں کے گیت سن کر جب اے۔نیر کے گیت سُنے تو وہ پسند آئے۔پوچھا کہ کون موسیقار ہے؟ میرا نام سن کر حیران ہوئیں اورتینوں گیت لے گئیں اور نیر کو بلوا کر وی ٹی آر کروا لیا۔اُن میں سے ایک گیت : ’ میں ہوں انجانا راہی پیار کا ۔۔۔‘‘کو سال کے بہترین گیت کا ایوارڈ اور گلوکار کو پندرہ ہزار روپے نقد انعام مِلا ‘‘۔

میں نے پوچھا ’’ اور تُم کو؟ ‘‘
’’ تم بہت ہنساتے ہو ۔۔۔ ،ہی ہی ہی ۔۔۔اپنی مخصوص ہنسی ہنس کر کہا۔۔۔ کچھ نہیں!‘‘ 

خالد نظامی نے اپنی موسیقی کے بارے میں مزید بتایا : ’’ میں نے لاہور میں ۳۰ گیت کمپوز اور ارینج کیے۔لیکن جیسی مقبولیت میرے پہلے گیت ، تم سنگ نیناں لاگے کو حاصل ہوئی، ویسی نہ مل سکی ۔اصل میں میرے یہ گیت ’’ فیلر ‘‘ (Filler)نہیں بنے تھے نا ! ‘‘۔

اُنہوں نے اپنی فیملی کے بارے میں بتایا: ’’ میری والدہ ، رشیدہ نظامی رائٹر ہیں۔ ۱۴ کتابیں لکھیں۔۵۰ کی دہائی میں روزنامہ جنگ میں ان کی تحریریں شائع ہوئیں ۔اُن کی چند کتابیں: ’ چوبارے ‘، ’ چہرہ مہرہ ‘ اور ’ کمندیں ‘ خاصی مشہور ہیں۔ والد، رشید نظامی ۱۹۳۳ میں بمبئی میں بننے والی فلم ’چندر ریکھا ‘ میں ہیروآئے۔میرا بڑا بیٹاشاہد نظامی فری لانس رائٹر ،ایکٹر اور ڈی۔او۔پی ۔ ہے۔ اُس نے انجلینا ملک کا ڈرامہ ’’ کتنی گرہیں باقی ہیں‘‘ اور اُنہی کی ’’ کورٹ روم ‘‘ سیریز کی ہے۔دوسرا بیٹا راحیل نظامی ساؤنڈ انجینئیر ہے اور اس کا اپنا اسٹوڈیو ہے اور اُس نے موسیقی کا گروپ ’ ڈومینیٹر ‘ Dominator بھی قائم کر رکھا ہے۔یہ بھی ایکٹر ،رائٹر اورڈائریکٹر ہے۔خرم نظامی چھوٹابیٹا ہے۔یہ ڈائریکٹر ، ساکت عکاس اور رائٹر ہے۔۱۴ اگست سے متعلق اس نے ٹیلی فلم ’’ جھنڈے والا چوک ‘‘ لکھی جس کو بڑے بیٹے شاہد نظامی نے ڈائریکٹ کیا۔ایک ٹیلی فلم ’ سانس ‘ بھی کی جس میں اداکار شفیع محمدنے آخری کام کیا ۔ اِس میں پروین اکبر بھی تھی۔ میری بیگم نسرین نظامی رائٹر ہیں جن کے ’ جیو ‘ سے سیریل، ’ گندی گلی ‘ اور ’ منجدھار ‘ نشر ہو چکے ہیں۔ آجکل جیو کہانی سے ’ کرن ‘ ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے جس کو خرم نظامی اور میری بیگم نسرین نظامی نے مل کر لکھا۔جیو کہانی ہی میں ’ ستم ‘ چل رہا ہے جسے نسرین نظامی نے لکھا۔میری بیٹی سطوت نظامی ، ایک پروڈکشن ہاؤس میں رائٹر پروڈیوسر ہے ۔ پروڈکشن کے دوران یہ سیٹ ڈیزائنر کا بھی کام کر لیتی ہے۔پاکستان ٹیلی وژن کے ایک پرانے منجھے ہوئے سیٹ ڈیزائنر قیصر عباس نے اِس کے کام کی تعریف کی ہے ‘‘ ۔

جب میں نے خالد نظامی سے پوچھا کہ اس سب کہانی میں آخر ریڈیو کا ذکر کیوں نہیں آیا؟ جواب میں ہنستے ہوئے کہا : ’’ ٹی و ی میں کام کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی کے ایک نا مور ڈرامہ پروڈیوسر نے مجھے ریڈیائی ڈرامے میں ایک کردارکے لئے بلوایا۔ میں نے ریکارڈنگ میں حصہ بھی لیا لیکن مجھے جلد ہی پتا چل گیا کہ میں یہاں نہیں چل سکتا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔میرے نزدیک دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ریڈیو پر صدا کاری ہے ‘‘۔

میرا اُن سے آخری سوال یہ تھا کہ کراچی میں کمرشل ڈرامہ کیوں نہیں ہو رہا؟
اُس نے جواب میں کہا: ’’ کراچی کے بے یقینی حالات کی وجہ سے لوگوں نے رات کو نکلنا بند کر دیا ہے۔کمرشل ڈرامے میں رات کی بہت اہمیت ہے۔اس لئے کہ یہ رات کو شروع ہو کر آدھی رات کو ختم ہوتا تھا۔اِن حالات میں تماشائی تو کیا خود فنکاروں کا تحفظ خطرے میں تھا۔پھر ایک اور بڑی وجہ یہ بنی کہ اسٹیج ڈرامہ انتہائی ’’ کمرشل ‘‘ ہو گیا۔غیر پیشہ ورانہ لوگ بحیثیت پروڈیوسر پیسہ لگانے لگے جنہوں نے معیار کو نہیں بلکہ آ مدنی کو ترجیح دی، مکالموں کی جگہ جگت بازی نے ،کہانی کی جگہ ڈانس نے لے لی۔پیسے نے تمام اصول وضوابط کو پسِ پشت ڈلوا دیا۔یہی حال لاہور فلم انڈسٹری کا ہوا تھا ۔۔۔ اور ہے۔۔۔‘‘

خالد نظامی کی جانب سے پڑھنے والوں کے لئے ایک پیغام : ’’ ہمارے عظیم سینیئر فنکاروں شکیل، طلعت حسین،قاضی واجد، منور سعید، راحت کاظمی وغیرہ کی قدر کیجئے، یہ ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں! ‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 29 اگست بروز منگل، 2017 کے روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔









Comments

Popular posts from this blog