پی ڈی ایف فارمیٹ میں تحریر " آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے تو اس ترمیم میں ترمیم کیوں نہیں




آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے تو اس ترمیم میں ترمیم کیوں نہیں ہو سکتی

تحریر شاہد لطیف

اٹھارویں ترمیم پھر سے منظرِ عام پر آ گئی !! ۔یاد رہے پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو پیپلز پارٹی کی حکومت اور صدرآصف زرداری کے دور میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے بغیر بحث کے منظور کی۔حیرت ہے کہ ا تنا بڑا فیصلہ بغیر بحث کے کیسے کر لیا گیا۔کسی ایک رکن نے بھی مخالفت نہیں کی۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟؟پہلے کی بات چھوڑیے!! لگتا تو یوں ہے کہ عوام کو دانستہ اِس ترمیم سے متعلق معلومات نہیں دی گئیں۔کسی طرف سے بھی وہ گرما گرمی نہیں جو ہونا چاہیے۔ اِس میں کیا بڑی پیچیدگیاں ہیں؟ نہیں بتایا جا رہا۔کچھ مسائل کی نشاندہی کی تو گئی لیکن وہ حل کیسے ہوں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ۔یوں تو جب سے یہ ترمیم کی گئی اِس موضوع پر اخبارات میں مختلف زاویوں سے باتیں ہوتی رہی ہیں۔لیکن اِس میں تیزی اُس وقت آ ئی جب سپریم کورٹ میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ٹرسٹ اسپتالوں کی صوبوں کو منتقلی کے کیس میں ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اسپتال کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جناح اسپتال کو وفاق کے تحت کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا: ’’ عمارت صوبے میں ہونے کا مطلب نہیں کہ صوبوں کو منتقل ہو جائے گی۔قانون سازی کے لئے پارلیمان سپریم ادارہ ہے۔دنیا بھر میں آئینی ترمیم سے پہلے بحث ہوتی ہے کیوں کہ وہ آئین کی تشریح کے لئے اہم ہوتی ہے۔پارلیمنٹ میں اٹھارویں ترمیم پر بحث نہیں ہوئی ، ہمارے ملک میں بغیر بحث کے ترمیم کیسے منظور ہو گئی ؟‘‘۔ اس پروکیل رضا ربانی نے کہا کہ یہ درست ہے اور استد عا کی کہ عدالت یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے پارلیمان کو ہدایت دے۔اس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا : ’’ 18ویں ترمیم کر کے پارلیمان نے اپنا کام کر دیا، اب اس کی تشریح عدالت کا کام ہے۔یہ معاملہ دوبارہ پارلیمان کو نہیں بھیج رہے۔قانون کی تشریح وہ ہے جو سپریم کورٹ کرے گی‘‘۔سپریم کورٹ اپنی جگہ پر درست ہے کہ یہ ترمیم پارلیمان میں بحث کے بغیر منظور ہوئی۔اب کیسے اندازہ ہو کہ ارکانِ اسمبلی اپنی کوئی سوچ بھی رکھتے تھے یا محض پرانے وقتوں کے ارکان کی طرح محض ’’ ربڑ اسٹیمپ ‘‘ تھے!! غور طلب سوال ہے کہ اس پر بحث کیوں نہیں کروائی گئی۔ یہ بھی تو آئین کا تقاضا تھا!! پارلیمان نے تو اِس ترمیم کے ساتھ پورے آئین کو بدل کر رکھ دیا۔کیا وہ ایسا کر بھی سکتی تھی؟؟ کسی سیاسی جماعت، کسی نام نہاد تھنک ٹینک، کسی اسکالر ۔۔۔نے ایک لفظ اس کے بارے میں نہ کہا ۔

اٹھارویں ترمیم کی کچھ مثبت باتیں بھی ہیں جیسے: آرٹیکل 6 کے تحت آئین معطل کرنا بھی غداری سمجھا جائے گا۔جرنیلوں کے ساتھ ایسے ججوں کو بھی اِس دائرے میں شامل کیا جو اس کی منظوری دیتے ہیں ۔ اس طرح نظریہ ضرورت ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔آرٹیکل 25 کے تحت 5سے14سال تک کے تمام بچوں کو ریاست مفت تعلیم مہیا کرے گی۔افسوس کہ دس سال سے ’’ کرے گی ‘‘ سے ایک قدم آگے نہ بڑھایا جا سکا۔بہرحال ؛ آرٹیکل 37 : جلد اور سستا انصاف یقینی بنایا جائے گا۔ آرٹیکل( 58(2 بی کے تحت صدر کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا ۔اِس ترمیم نے صدر کے پاس موجود افسرِ اعلی کے تمام اختیارات پارلیمان کو دے دیے۔چونکہوزیرِ اعظم قومی اسمبلی کا قائدِ حزبِ اقتدار ہوتا ہے لہٰذا اِس میں سے زیادہ تر اختیارات وزیرِ اعظم کو حاصل ہوئے۔ صوبوں کو مرکزی حکومت کے اختیارات مل تو گئے مگر اسی آئین کے تحت انہیں مقامی حکومتوں تک منتقل نہیں کیا گیا ۔ اس پر آئینی ماہرین خاموش رہے ،کیوں ؟ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی وجہ سے وفاقی حکومت سے ناراض، قوم پرست جماعتیں خوش تو ہو گئیں لیکن وہ بھی اس سلسلے میں غیر فعال ہی رہیں۔اب صوبوں کی عدم صلاحیتوں پر اعتراض اُٹھائے جا رہے ہیں۔صحت کی طرح تعلیم بھی صوبائی معاملہ ہے۔ تاریخ کے نصاب پر بحث جاری ہے کہ اتنا اہم مضمون جس کا جیسا دل کرتا ہے وہ ویسا اپنے اسکول میں پڑھا رہا ہے۔کیا ہائر ایجوکیشن محض سائنس و ٹیکنالوجی ہی کنٹرول کرتا ہے؟ تاریخ تو نظریہ پاکستان کے لئے اہم ترین ہے۔کیا اس کا ارادتاََ حلیہ بگاڑا جا رہا ہے؟ پاکستان دشمن قوتیں اب یہاں بھی حملہ آور ہو گئی ہیں کیا!! تعلیمی پالیسی کے مربوط نہ ہونے پربین الاقوامی امدادی ادارے الگ تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

اشارے تو بتا رہے ہیں کہ افسر شاہی صوبوں کو اختیارات ملنے پر سخت مزاحمت کر رہی ہے کہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے اُن کی مراعات اور ٹھاٹھ باٹھ نہیں رہیں گے ۔افسر شاہی کے کرتے دھرتوں سے سوال ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر 2010 تک صحت اور تعلیم کا شعبہ وفاقی حکومت کے پاس رہا۔سیکریٹری اور دیگر نوکر شاہی نے اِس دوران تعلیم کے شعبے میں کوئی ایک بھی قابلِ ذکر کارنامہ انجام دیا؟؟ شرح خواندگی میں کتنا اضافہ ہو ا؟ کیا عوام کو مطلوبہ صحت اور اسپتال میں تمام کم از کم سہولیات حاصل ہو گئیں؟ جواب سوائے شرمندگی اور فضول تاویلات کے اور کچھ نہیں!!

اور تو اور اس ترمیم کی خالق پارٹی بھی عوامی جلسوں میں اسے اچھالنے لگی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول زرداری نے پُر جوش خظاب میں کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اور وہ ہر گز ایسا نہیں ہونے دیں گے۔اپوزیشن کو ساتھ لے کرایسے غیر آئینی اقدام کے خلاف سڑکوں پر آ جائیں گے۔ نیز یہ بھی کہا کہ یہ تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ فیصلہ کر کے یہ ترمیم کی تھیں۔ یہ ہر دور کا المیہ رہا ہے کہ حکومت کے خلاف ہی بات کرنی ہے۔بلاول زرداری جِس غیر آئینی اقدام کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی بات کر رہا ہے اُس کا حکم عدالت کی طرف سے آ یا ہے ۔اور وہ لوگوں سے ایک ایسے نکتے کی حمایت چاہتا ہے جس کا عوام الناس کو علم ہی نہیں۔میں نے ابھی لکھا ہے کہ اس ترمیم سے متعلق لوگوں کو آ گاہی نہیں دی گئی۔اس کی تصدیق کے لئے جب میں نے اپنے اہلِ محلہ ، دُکانداروں اور ہنر مندوں سے بات کی تو 100 فی صد جواب ایک تھا۔میرا سوال تھا کہ آپ کا اٹھارویں ترمیم کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ہر ایک نے کہا ’’ کون سی ترمیم؟‘‘۔یہ چاولوں کی دیگ کا ایک دانہ ہے۔میری مختصر سی وضاحت پر ہر ایک نے میری بات کاٹی اور کہا : ’’ بھائی !! پہلے ہمارے مسئلے تو حل کریں۔ہمیں اِن ترمیموں سے کیا لینا دینا‘‘۔تو برائے مہربانی سیاستدانوں سے درخواست ہے کہ وہ عوام سے اس چیز کا مطالبہ نہ کریں جن سے اُن کا کوئی تعلق واسطہ نہیں جب کہ صدر علوی نے واضح کہا ہے : ’’ اٹھارویں ترمیم ختم نہیں کی جارہی۔اگر سب متفق ہوں گے تو بہتری کے لئے اس میں ترمیم کریں گے۔یہ اچھی چیز ہے ۔۔۔اگر آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے تو اس میں بھی ہو سکتی ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 20  اپریل 2019 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ 11 پر کالم اُلٹ پھیر میں شائع ہوئی۔

















  

Comments

Popular posts from this blog

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ