پی ڈی ایف فارمیٹ میں " ہمارے مسیحا اور ہم ۔۔۔۔۔
ہمارے مسیحا اور ہم۔۔۔
تحریر شاہد لطیف
ڈاکٹر ،نرسیں، اسپتال اور مریض لازم و ملزوم ہیں۔مسیحا ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔۔۔ مسیحائی تو پیغمبرانہ وصف ہے۔ یہ و ہ رشتہ ہے جو بیمار کو پھر سے پُر اُمید اور پُر اعتماد بناتا ہے۔مگر اُس آئے روز کے لڑائی جھگڑوں کو کیا کیجئے جو مریضوں کے ساتھ آنے والے افراد ڈاکٹروں ، پیرا میڈیکس اور اسپتال انتظامیہ کے ساتھ کرتے ہیں!! اکثر ڈاکٹر ہی کو صبر کرنا پڑتا ہے۔ ایک عام تاثر ہے کہ پرائیویٹ اسپتال کے ڈاکٹروں کو اپنے کام کے ساتھ مریض کے ساتھ کاروبار پیدا کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی دی جاتی ہے ۔ضرورت ہو نہ ہو دس سے پندرہ ہزار روپے کے تفتیشی ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔جب کہ اسپتال کی امرجنسی میں مریضوں کے ساتھ آنے والے صبر گھر چھوڑ کر آتے ہیں۔ سرکاری اسپتال کی امر جنسی میں میں کوئی مریض آیا نہیں کہ اُس کے ساتھ آنے والے افراد ڈاکٹر کے سر پر سوار ہوئے نہیں۔ جب اسپتال انتظامیہ انہیں روکتی ہے تو وہ ہنگامہ آرائی پر اُتر آتے ہیں۔کون ڈاکٹر چاہے گا کہ اُس کا مریض خراب ہو؟ کیا ایسا ہونے سے خود اُس ڈاکٹر کا نام خراب نہیں ہو گا؟ سعودیہ اور امریکہ میں امرجنسی میں آئے مریض کی تفتیش میں تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔خود میرے ساتھ 2005 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیا میں بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔ایک حادثہ کے بعد میں امر جنسی میں گیا تھا جہاں کئی گھنٹے کے تفتیشی عمل کے بعد اگلا قدم اُٹھایا گیا۔یہاں پاکستان میں تقریباََ مُردہ حالت میں مریض کو اسپتال اِس اُمیدپر لایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اُسے فی الفور اچھا کر دے۔ یہ جہالت نہیں تو پھر اور کیا ہے!!!
دواؤں کا اسپتال یا متعلقہ شعبے میں عدم دستیاب ہونا اب عام سی بات ہو گئی ہے۔ صوبے کے سرکاری اسپتالوں کا نظام کوئی قابلِ رشک نہیں۔ اب عوام کو آگاہی دینا ہو گی کہ سرکار کے پاس فنڈ نہیں لہٰذا وہ دوائیں مفت نہیں دے سکتی۔ عام آدمی کو علم ہو جانا چاہپیے کہ یہاں جاؤں گا تو کیا کچھ ملے گا اور کیا نہیں ملے گا۔ نجی اسپتال تو اپنی جگہ کچھ تھوڑا بہت اچھا کر جاتے ہیں البتہ سرکاری اسپتالوں کا احوال۔۔۔ ۔ایس آئی یو ٹی کچھ عرصہ قبل سول اسپتال کراچی کا ایک شعبہ یا وارڈ ہوا کرتا تھا۔ڈاکٹر ادیب رضوی نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اب ماشاء اللہ یہاں جگر کی پیوند کاری بھی ہو رہی ہے۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ اول تو وہ خود عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔دوسرے یہ کہ بیچ میں افسر شاہی نہیں تھی۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ، صحت کے بجٹ کو بڑھانے اور عوامی سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے موجودہ دقیانسی قوانین میں ترمیم کیوں نہیں لا تے؟ اکثریت چونکہ جوڑ توڑ کے زریعے یہاں تک پہنچتی ہے لہٰذا وہ بول ہی نہیں سکتی۔کوئی ضمیر کی آواز اُٹھاتا بھی ہے تو اگر وہ انفرادی شخص ہے تو اُس کا ’’ مونہہ ‘‘ بند کروا دیا جاتا ہے۔اگر کسی پارٹی کا ممبر ایسا کرے تو پارٹی قیادت اُسے ایک حد سے آگے نہ جانے کا کہہ کر خاموش کرا دیتی ہے ۔ ہمارے ملک کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے وسائل کو بھی تو اُسی حساب سے ساتھ دینا چاہیے نا!! بائیس کروڑ لوگوں کے لئے اسپتالوں میں مفت ادویایت کہاں سے آئیں گی!! چیک اینڈ بیلینس کا پورے ملک میں فقدان ہے ۔ڈاکٹر بھی ہمارے ہی معاشرے سے آئے ہیں ۔انہوں نے اپنے اسکول کالج کے زمانے میں ہر ایک طرح کی بے انصافی اور بدعنوانی اور رشوت کے بازار کا تجربہ کر رکھا ہے۔ہم اور آپ اب اِن ڈاکٹروں سے کس قسم کی توقعات رکھتے ہیں!! سرکاری ڈاکٹر وں کی تنخواہیں پرائیویٹ اسپتالوں کے بمقابلہ شرمناک حد تک کم ہیں۔ کیا سرکاری اسپتال کے 17 گریڈ کے ڈاکٹر کو وہی سہولیات حاصل ہیں جو اِسی گریڈ کے افسر شاہی کو حاصل ہیں؟ اُدھر سِول سَروِس کے افسر شاہی کے اوقاتِ کار صبح 9 سے شام 5بجے ہیں۔ انہیں گاڑی ، ملازم اور ائیر کنڈیشن دفتر ملتا ہے۔ اِدھر اسی درجے کے ڈاکٹر کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں۔ اسی پر بس نہیں۔۔۔اُسے پورا پورا دن بھی کام کرنا پڑتا ہے۔
میں نے ایک ہفتے غیر جانب دار ہو کر اِس موضوع پر بہت تحقیق کی۔ڈاکٹر اِس کہانی میں بہت کم قصور وار ثابت ہوئے ۔این آئی سی وی ڈی یعنی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو واسکولر ڈیزیز کی ایک مِثال پیشِ خدمت ہے۔پہلے یہ اسپتال صرف کراچی میں تھا لیکن اب یہ پانچ عدد شہروں میں کام کر رہا ہے۔ یہاں انجیوگرافی اور بائی پاس کی سرجری بھی کی جا رہی ہے۔دیگر اسپتالوں سے انجیوگرافی کروانے کے ڈھائی سے تین لاکھ روپے تک کا خرچہ آتا ہے جب کہ یہاں ڈھائی روپے بھی نہیں لگتے۔سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ ایک واقعی تاریخ ساز اورعوام دوست کام کیا ہے۔لیکن نہ جانے اس میں کیا مصلحت ہے کہ اتنے بڑے مستحسن اقدام کی کہیں بھی وہ تشہیر نہیں ہو رہی جو ہونا چاہیے ۔میڈیا پر بھی مخصوص لابی گاہے بگاہے ہمارے سرکاری اسپتالوں اور اُن کے ڈاکٹروں کا ترقی یافتہ ممالک کے اسپتالوں اور اُن کے ڈاکٹروں سے مقابلہ کرتی رہتی ہے۔یہ سراسر نا انصافی ہے۔باہر کے ممالک کو ایک طرف رکھئیے۔۔۔یہاں این آئی سی وی ڈی کے ڈاکٹر، نرسوں اور ٹیکنیشن کی تنخواہ دیگر سرکاری اسپتالوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔لہٰذا وہ اپنا پور ا وقت اور توانائی آنے والے مریضوں کے لئے وقف رکھتے ہیں۔میری تحقیق کے مطابق امر جنسی میں روازانہ 100 مریض دیکھے جانے کی گنجائش ہے۔او پی ڈی میں 1500سے2000 مریضوں کے بیڈ کا انتظام ہے۔اگر یہ تنخواہیں دیگر سرکاری اسپتالوں میں بھی دی جائیں تو وہاں بھی ایسا ہی اعلیٰ پائے کا کام دیکھنے کو ملے گا۔انشاء اللہ !! سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں پر کام کا بہت زیادہ دباؤ ہے۔اگر دباؤ کم کر دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں بھی وہی نتائج حاصل ہو سکیں۔ تحقیق کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ جب سے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی تعداد بڑھی ہے ، ایک آدھ کو چھوڑ کر اِن کا معیار گِرا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اب بھی سندھ کے سرکاری میڈیکل کالجوں کا معیار نجی میڈیکل کالجوں سے بہتر ہے۔ مختلف شعبہ ہائے کے لوگوں سے جب پوچھا کہ اب مسئلہ حل کیسے ہو؟ تو یہ تجاویز سامنے آئیں: یہ کہ قانون سازی کے ذریعے ڈاکٹروں کی تنخواہوں اور دیگر سہولیات کو یقینی طور پر بہتر بنایا جائے۔یہ کہ اچھے کام کی کسی نہ کسی شکل میں ستائش مِلنا چاہیے۔پھر ایسے کاموں کی کوئی تحریک اور ترغیب بھی دینا ہو گی۔یہ کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے مریض کا کیس کے خراب ہونے میں ڈاکٹر کی غفلت ہے تو پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے شکایت کے ازالے کے لئے ایک طریقہء کار بنا رکھا ہے۔ عوام میں اِس بات کی بہت کم آ گاہی ہے۔ یہ کہ آبادی کو کنٹرول کرنا ہو گا۔لوگ چین کی مثال دیتے ہیں کہ دیکھو کتنی زیادہ آ بادی ہے لیکن کیا ترقی کی ہے۔۔۔ایسی باتیں کرنے والے اپنے گریبان میں مونہہ ڈال کر دیکھیں کہ کیا ہم عوامی جمہوریہ چین کے عوام کی طرح محنتی بھی ہیں؟؟؟کیا اُن کی طرح ہم نے بھی چھ ماہ میں کوئی بند بنایا؟؟ یہ کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ضلع میں ایک بڑا سرکاری اسپتال ہو۔اسپتال انتظامیہ میں اگر قواعد اور ضوابط سختی کے ساتھ نافذ کرنے کی صلاحیت اور طاقت ہو تو وثوق سے کہتا ہوں کہ سرکا ری اسپتالوں کی حالت بہتر ہو جائے گی۔شرط ہے کہ کسی بھی جانب سے ’’ مداخلت ‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 13 اپریل 2019 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور لوئٹہ کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔
Comments