نگار ویکلی میں شائع ہونے والی تحریر ، پنجابی فلم " کھیڈ مقدراں دی "
نئی پنجابی فلم ’’کھیڈ مقدراں دی‘‘
فلم کے ذریعہ پیسہ کمانا میرے مطمعء نظر نہیں
شیشے اور پلاسٹک کے گِفٹ آئٹمز بنانے سے بڑی اسکرین پر فلم بنانے والے
سنسر شو پر ایک اچھی روایت قائم کرنے والے
فلمساز، مصنف ، ایڈیٹر اور ہدایتکار نوید رضا سے بات چیت
تحریر شاہد لطیف
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کو کسی حکومت نے کبھی بھی سرکاری طور پر ’’ صنعت ‘ ‘ ہی تسلیم نہیں کیا۔ اِس کو اُس کے بانیوں نے اپنی مدد آپ کے اُصول کے تحت اپنے پیروں پر کھڑا کیا ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سیالکوٹ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے سیالکوٹ ائرپورٹ اور اب نجی ہوائی کمپنی ’’ ایئر سیال ‘‘ کا منصوبہ اپنی مدد آپ کے تحت پایا ء تکمیل تک پہنچایا۔ حتیٰ کہ ہوائی اڈے کو جانے والی سڑک بھی خود ہی تعمیر کروائی۔ پاکستانی فلمی صنعت نے بہت اچھے چڑھاؤ کازمانہ بھی دیکھا اور پھر اُتار بھی ۔لیکن افسوس اِس بات پر ہے کہ ’’ مریض ‘‘ کو ضرورت کے وقت سرکاری علاج اور دوا کی کوئی سہولت بہم نہیں پہنچائی گئی۔ 80 کی دہائی کے درمیان ایک مخصوصحلقے نے ابلاغ اور دیگر ذرائع سے تشہیر کا بازار گرم کر دیا کہ پاکستانی فلمیں تو دیکھنے کے قابل ہی نہیں۔ کچھ اِس تاثر نے کام دکھایا کچھ فلمی دنیا سے غیر وابستہ لوگوں کو یہاں کے سیاہ سفید کے مالک بنا دیے جانے سے فلمی دنیا میں جمود طاری ہونے لگا۔ تمہید طول پکڑ گئی۔پچھلے دنوں میر ا لاہور جانا ہوا۔ وہاں مقامی فنکارہ سونو جان نے برسبیلِ تذکرہ بتایا کہ اُس نے ایک صاف ستھری فیملی پنجابی فلم ’’ کھیڈ مقدراں دی ‘‘ میں کام کیا ہے۔ مجھے اشتیاق ہوا اور فلم کے فلمساز و ہدایتکار نوید رضا سے فون پر بات کی ۔ نوید نے مجھے سنیما میں سات بجے والے شو میں آنے کی دعوت دی اور اِس طرح 20 مارچ 2019 کو لاہور کے کیپٹل سنیما میں نئی پنجابی فلم ’’کھیڈ مقدراں دی‘‘دیکھنے کا اتفاق ہوا۔فلم د یکھتے ہوئے ذہن میں کئی سوال ابھرے ۔اِن کا ذکر نوید رضا سے کیا تو انہوں نے اگلے روز باری فلم اسٹوڈیو میں اپنے دفتر میں ملاقات کا کہا ۔ نوید اِس فلم کے کہانی نگار، فلمساز ، تدوین کار اور ہدیات کار خود ہیں۔ ہماری خاصی معلوماتی اور دل چسپ گفتگو ابھی جاری تھی کہ اِسی فلم کے ہیرو کا فون آ گیا۔مجھ سے بھی بات ہوئی اور یوں تھوڑی دیر بعد وہ بھی وہیں آ کر گفتگومیں شامِل ہو گئے ۔یہ بہت اچھی نشست رہی ۔ اس بات چیت کی خاص خاص باتیں پیشِ خدمت ہیں:
ایک سوال کے جواب میں نوید رضا نے بتایا : ’’ فلم تک پہنچنے کا سفر 2003 میں شروع ہوا جب گلوکار اکرم راہی کے آڈیو گیتوں میں فلمی مناظر ڈال کر میں نے سی ڈی ریلیز کی۔اس کی تدوین ویڈیو 2، ہال روڈ لاہور کے طاہر محمود سے کروائی۔یہ کاوِش کامیاب رہی‘‘۔
’’ کیا اس کاروبار کا کوئی تجربہ تھا؟ ‘‘۔اِس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’’ کسی بھی کاروبار کی الف ب کا علم تو تھوڑا بہت تھا ہی کیوں کہ کراچی میں میرے بڑے بھائی کا شیشے اور پلاسٹک کے گِفٹ آئٹمز بنانے کا کام کا تھا۔ہم ڈاکخانہ کے قریب لالو کھیت میں رہتے تھے اور کارخانہ بھی وہیں تھا۔چونکہ مجھے اِس کام پر مکمل گرفت تھی لہٰذا لاہور منتقل ہو کر بھی نیلا گُنبد سے اسکرین پرنٹنگ کا کام شروع کیا۔یہ کام 1996 سے 2002تک کیا۔اِس سے پہلے ہال روڈ پر واقع، اُس وقت کے ایک نامور ادارے ویڈیو وار کے لئے نعت خواں فصیح الدین سہروردی کے وی سی آ ر آئٹمز کے کے ڈبے بنائے۔پھر کتاب کی طرح کھلنے والی سی ڈی کی ڈ بّبی بنائی‘‘ ۔
’’ کاروبار میں ہما وقت ’’ سب اچھا ‘‘ ہی نہیں ہوتا۔ مجھ کو پہلا جھٹکا 2006 میں لگا ۔ اللہ کے فضل سے پھر جلد ہی سنبھالا مِل گیا۔لاہور کی مشہور کاروباری شخصیت میاں مدثر نے دُکان لے کر دی کہ سی ڈی کی ڈبیاں چھاپنے کا اپنا کام کرو۔ابھی بہ مشکل ہی سنبھلا تھا کہ فلم ’’ دیو داس ‘‘ کے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی پر دوسرا جھٹکا لگا جب کہ میں نے یہ کام کیا ہی نہیں تھا۔اِس کے بعد پھر سے قدم جمانے کی کوشش کی۔مارکیٹ میں کچھ نیک نامی کام آئی ۔دوبارہ اللہ نے کرم کیا۔پھر میں نے خود اپنا ادارہ ’’ مُون ویڈیو ‘‘ قائم کیا۔2005 میں گلوکار راحت فتح علی خان کی سی ڈی ’’ وچھوڑا 5 ‘‘ اپنے ادارے سے ریلیز کی۔پھر بتدریج سی ڈی کا کام کم ہوتے ہوتے 2007 میں بہت ہی کم رہ گیا لہٰذا دُکان چھوڑ دی۔پھر میں نے پروڈکشن اور ایڈیٹنگ ہاؤس بنا لیا۔ کمرشل / اشتہارات، علاقائی، فوک اور پاپ سی ڈی گیت کی پروڈکشن اور تدوین کے کام کا آغاز کر دیا۔میرا پہلا کمرشل ’’ آملہ آئل ‘‘ تھا۔ جوتوں اور نئے بننے والی رہائشی اسکیموں کے اشتہار ات اور اس کے علاوہ کئی اور کمرشل بھی بنائے ‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’’ ڈائریکٹر کی حیثیت سے میرا پہلا ویڈیو ، نئے گلو کار محمد ارشد کا ’’ وفاواں کُون کرے ‘‘ تھا۔اِس میں ماڈلنگ ماریہ خان اور سوداگر خان نے کی۔کچھ عرصہ پہلے تک گلوکاروں کے البم بنتے تھے۔لیکن اب ’’ سولو ‘‘ گانا بنتا ہے۔ٹی چینل والے اِن گیتوں کے ریلیز کرنے والوں کے رابطے نمبر نہیں دکھاتے۔ ’’ نگار ویکلی ‘‘ کی معرفت میری ٹیلی وژن چینلوں کی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ برائے کرم ہمارے رابطے نمبر تھوڑی دیر اسکرین پر دکھا دیا کریں‘‘۔
ٹی وی چینلوں کے لئے اپنے پروڈکشن ہاؤس سے ڈرامے بنانے کے تجربے کے بارے میں بتایا: ’’ میں نے2007 میں ایک مقامی ٹی وی چینل کے لئے کہانی، کاسٹ اور پیسے طے ہو جانے کے بعد 25 منٹ دورانیے کے ڈراموں کے تین منصوبے ایک ساتھ شروع کیے۔اِن میں ’’ جُرم تے قانون ‘‘ اور ’’ بابل ‘‘ میرے ، جب کہ ’’ چُغلخور ‘‘ میں لالہ شہزاد سے 50 فی صد کی شراکت تھی۔ ڈراموں کی تین تین اقساط تیار بھی ہو گئیں ۔ جب رقم لینے کی نوبت آئی تو اُس ٹی وی چینل انتظامیہ نے معاوضہ گھٹا دیا ۔ یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔جو ڈرامے میرے تھے وہ میں نے اپنے پاس رکھے اور آدھے کی شراکت والا ا ڈرامہ لالہ شہزاد کو دے دیا ۔ بہرحال یہ آج تک نہیں چل سکے جس کا مجھے افسوس ہے‘‘۔
ٹی وی چینل پر نوید رضا کی محنت تو نہ چل سکی البتہ 1807 میں وفات پا جانے والے مشہورِ زمانہ عظیم بیگ عظیمؔ کا مندرجہ ذیل شعر نوید رضا کو بڑی اسکرین تک پہنچانے میں کارگر ثابت ہو ا :
شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مِثلِ برق
وہ طِفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
نوید رضا نے کہا: ’ ’ جب سے ہمارے ہاں کیبل کا آغاز ہوا ہے تب ہی سے معاشرے میں نیا محاورہ ’’ انڈین اسٹائل ‘‘ رچ بس گیا ہے۔ کوئی گیت اچھا بن جائے تو سننے اور دیکھنے والے بیساختہ کہتے ہیں: ’’ واہ جی واہ !! کیا اچھا گیت ہے!! بالکل ایسا لگتا ہے جیسے انڈین ہو ‘‘۔ یہی بات فلم اور ٹی وی کے دیگر شعبوں میں بھی تعریفی انداز میں کہی جاتی ہے۔گویا اب فلم یا فنون میں معیار کا پیمانہانڈین لگنا ہے۔ پھر یہ تاثر بھی ہر خاص و عام کے دل میں ’’ بٹھا دیا گیا ‘‘ ہے کہ پاکستانی فلمیں تو فضول ہوتی ہیں ۔اور پنجابی فلمیں ۔۔۔ توبہ توبہ !! میں نے فلم ’’ کھیڈ مقدراں دی ‘‘ بنا کر یہ دونوں تاثر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب کہ فلم کے ذریعہ پیسہ کمانا میرے مطمع ء نظر نہیں ‘‘۔
مذکورہ فلم کے ہیروشمس رانا نے اِس موقع پر کہا : ’’ ایسی سوچ کے ساتھ سنیما میں جانا بڑی بات ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں نوید رضا نے بتایا : ’’ فلم ’’ کھیڈ مقدراں دی ‘‘ چار سال میں مکمل ہوئی۔ اس کی تیاری میں مختلف مرحلوں میں کئی ایک رُکاوٹیں بھی آئیں ۔جیسے بعض آرٹسٹوں کا وقت پر نہ آنا۔ڈبنگ کے لئے وقت نہ دینا وغیرہ!! ‘‘۔
بڑی اسکرین کے اِس پہلے تجربے کو بیان کرتے ہوئے نوید نے کہا: ’’ جو فلم آپ نے اسکرین پر دیکھی، اُس سے پہلے اِس فلم کے 20 سینوں کی شوٹنگ ہوچکی تھی۔ چونکہ میں خود ایڈیٹر ہوں لہٰذا جب یہ سین دیکھے تو سخت مایوسی ہوئی۔پھر چھ ماہ کے وقفے کے بعد اسٹنٹ ڈائریکٹر غلام حسین تونسوی کے ساتھ نئے سرے سے پوری فلم کی۔عکس بندی، ایڈیٹنگ ،ڈبنگ اور دیگر تمام مراحل کے بعد سنیما کے حصول کے مسائل سے واسطہ پڑا۔ مرضی کی تاریخوں پر مرضی ک کا سنیما نہ مِل سکا ؛ یوں سنیما میں فلم لگانے میں دو سال لگ گئے ۔ پھر کیپٹل سنیما کرایہ پر لے کر یہ مسئلہ حل کیا‘‘۔
’’ اِس فلم میں کرداروں کا انتخاب میں نے خود کیا‘‘۔ فلم کے ہیرو کو کاسٹ کرتے ہوئے انہوں نے ایک دلچسپ بات بتلائی۔ ’’ مجھے شمس رانا کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ اپنی مرضی کرتا ہے اور ڈائریکٹر کی بات نہیں مانتا۔ کہانی کے کردار پر شمس رانا موزوں بیٹھتا تھا لہٰذا میں نے بھی اس پس منظر میں اُسے ہیرو لینے کا چیلنج قبول کر لیا‘‘۔اسی بات کو شمس رانا نے یوں کہا: ’’ جب نوید رضا نے مجھے اِس فلم کا اسکرپٹ دے کر اِس کردار کی پیشکش کی تو میں پہلے ہی کچھ فلموں میں مصروف تھا۔میں نے کہا ایک دو دن میں بتلاؤں گا۔اِس دوران ایک کرم فرما نے کہا کہ سنا ہے تُم فلاں کی فلم میں کام کرنے لگے ہو جِس کے پاس چائے پلانے کے پیسے نہیں۔میں نے چیلنج قبول کرتے ہوئے نوید رضا سے کہا کہ وہ کب فلم کی اوپننگ کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا پرسوں۔اور یوں مقررہ تاریخ کو کام کا آ غاز بھی ہو گیا‘‘۔میں نے مذاقاََ کہا کہ پھر تو اِس فلم کا نام ’’ چیلنج ‘‘ ہونا چاہیے تھا!!۔
لکھنے لکھانے کی دنیا میں اپنی آمد کے بارے میں نویدنے بتایا: ’’لکھنے کا شوق مجھے بچپن ہی سے تھا۔ڈائری لکھتا تھا۔ 1989میں کراچی لالو کھیت المعروف لیاقت آباد سے میٹرک کیا۔1990 میں پاکستان بحریہ میں جانے کی کوشش کی جب شمولیت کا وقت آیا تو گھر والوں نے سختی سے روک دیا۔ جواباََ میں نے بھی گھر سے کھانا پینا چھوڑ دیا اور اُس وقت کی حسن اسکوائر چورنگی پر واقع حئی سنز بلب فیکٹری میں اپنی پہلی نوکری کی۔ جہاں میری تنخواہ 739 روپے ماہانہ مقرر ہوئی۔ اپنی یہ تمام کیفیات اور دنیا کا مشاہدہ میں ڈائری میں لکھتا رہا‘‘۔
اِس سے پہلے خاکسار نے مسرورؔ انور کو ڈائری لکھتے دیکھا تھا ۔ موصوف آندھی آئے یا طوفان، خواہ ملک میں ہوں یا بیرونِ ملک، باقاعدگی سے ڈائری لکھتے تھے۔کہتے تھے کہ اکثر اوقات مجھے فلموں کی کہانیوں، مکالموں یا گیتوں میں اِن ڈائریوں سے بہت مدد ملتی ہے۔ آپس کی بات ہے، میں نے بھی مسرورؔ بھائی کی تقلید میں یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی مجھ پر اُن کی کہی ہوئی حقیقت بالکل عیاں ہو گئی۔ لہٰذا کوئی عجب نہیں جو نوید رضا ڈائری لکھتے رہے تو اِس کی بدولت اُن کو کیا کیا آسانیاں میسر نہیں ہوئی ہوں گی۔
سنسر سرٹیفیکیٹ سے متعلق بات ہوئی تو انہوں نے یہ خوشگوار انکشاف کیا : ’’ میں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ کسی پوش علاقے میں بنائے گئے جدید ترین سنیما میں اپنی فلم کو سنسر چیک نہیں کراؤں گا ۔ لہٰذا کپیٹل سنیما کے حاجی فیصل سے بات کی کہ فلم آپ کے سنیما میں لگاؤں گا اور سنسر چیک بھی آپ ہی کے ہاں ہو گا۔یہ بات بورڈ کو بتائی ۔ سنسر بورڈ نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔مکمل بورڈ نے میری یہ فلم کپیٹل سنیما میں چیک کی۔سنسر کی فیس 30500/ روپے کے علاوہ الگ سے میرا کوئی خرچہ نہیں ہوا۔ نہ کوئی شاٹ/ سین ہی کاٹا گیا۔ لباس، رقص، مکالموں اور گیتوں کے بولوں میں کسی قسم کی کوئی معیوب بات تھی ہی نہیں ‘‘۔
فلم کے ہیرو شمس رانا نے کہا : ’’ نوید رضا نے نئے اور پرانے تمام فلمسازوں کے لئے سنسر شو پر خواہ مخواہ اُٹھنے والے اخراجات کی بچت کر کے ایک اچھی روایت قائم کی ۔اِس سلسلے میں کیپٹل سنیما کے حاجی فیصل صاحب اور اُن کے عملے نے بہت تعاون کیا‘‘۔
ایک اہم موضوع پر بات کرتے ہوئے نوید رضا نے کہا: ’’ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے کچھ سالوں سے تہواروں اور بزنس سیزن کے مو قع پر پاکستانی فلمسازوں کو سنیماؤں میں تاریخیں لینے میں خاصی دشواریوں کا سامنا تھا لیکن اِس کے باوجود یہ کہنا غلط ہو گا کہ بھارتی فلموں کے پاکستانی سنیماؤں میں ریلیز سے ہماری فلمی صنعت زوال پذیر ہوئی۔اِس کے علاوہ بھی کئی ایک اسباب ہو سکتے ہیں ۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہو گا کہ ہم کیوں خراب حالات سے دوچار ہوئے؟ نیز یہ کہ اب ایسا کیا، کیا جائے کہ پاکستانی فلمی صنعت میں دوبارہ وہی پہلے والا اچھا وقت آئے۔اسٹوڈیو کے فلور آباد ہوں۔ یوں فلمی دنیا میں بھی خوش حالی کی نئی لہر آ جائے‘‘۔
نوید رضا اور اداکار شمس رانا سے بات چیت میں بہ حیثیت فلمساز نوید رضا نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں:
1 ۔ یہ کہ سنیما والے فلمی صنعت کے فروغ کے لئے سرمایہ کاری کریں۔یہ کام پہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہا ہے ۔اب بھی ایسا کرنے سے اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔
2۔ یہ کہ صرف ٹیکسوں کی بات نہیں!! حکومت سنیما والوں کی بھی بہبود کرے ۔
3 ۔ یہ کہ حکومت کی جانب سے کسی نہ کسی طور پر نئے فلمسازوں کی حوصلہ افزائی ہونا چاہیے ۔
4۔ یہ کہ سنسر فیس کم ہونا چاہیے ۔
5 ۔ یہ کہ حکومت فلمسازی کے لئے خود فلم ہی کے بدلے 50 فی صد ہونے والی سرمایہ کاری/ اُٹھنے والے اخراجات کے لئے آسان قرضہ جاری کرے۔ یہ بات شیخ رشید احمد کے ثقافت و فلم کے متعلقہ وزارت کے زمانے میں اُٹھی تھی کہ بینک ایکسپوز شدہ فلم نیگیٹیو کے بدلے فلمساز کو قرضہ جاری کریں لیکن۔۔۔ وائے ناکامی کہ دل کی دل ہی میں رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوید رضا کی فلم ’’ کھیڈ مقدراں دی ‘‘ کی کہانی دو خاندانوں کے مابین انا کی جنگ ہے۔فلم میں واضح پیغام دیا گیا ہے کہ کسی کے ساتھ زیادتی کرنے والے انسان کا ضمیراُٹھتے بیٹھتے اُس کو احساس دلاتا رہتا ہے کہ یہ غلط بات ہے۔ لیکن انا پرستی زیادتی کی تلافی میں رُکاوٹ بنتی ہے ۔کہانی میں تجسس کا عنصر تقریباََ آخر وقت تک قائم رہا۔تمام اداکاروں نے اچھی ڈبنگ کی۔ایک دو چیزیں پنجابی فلموں کی روایت سے ہٹ کر محسوس ہوئیں۔جیسے ایک منظر میں لڑکی جان بچا کر بھاگتے ہوئے کسی کے ہاں آ کر پناہ کی طالب ہوتی ہے ۔وہ شخص روایتی جملہ بولتا ہے کہ تم کو اب کوئی میری لاش پر سے گزر کر ہی لے جا سکتا ہے۔یہ ا کیلا ہے جبکہ لڑکی کو لے جانے والے تعداد میں کہیں زیادہ ہیں اورمسلح بھی۔نتیجہ ؟؟ نتیجہ یہ کہ کچھ دیر مقابلے کے بعد واقعی اُس شخص کو مار دیا جاتا ہے۔ نوید رضا کا کہنا ہے کہ فلم کی معاون کہانی نگار رُخسانہ کنول نے دو سال اِس منصوبہ اور کہانی پر میرے ساتھ بہت محنت کی ہے ۔ انشاء اللہ اگلی اُردو فلم ’’ ایک رِشتہ ‘‘ کی کہانی اور اسکرپٹ وہی لکھ رہی ہیں ۔
نوید رضا نے ’’ کھیڈ مقدراں دی ‘‘ کے بارے میں بتایا: ’’ میرے پاس کچھ گیت پہلے ہی موجود تھے۔کچھ کہانی لکھنے کے بعد لکھوائے ۔ایک کے علاوہ سب گیت مجھے تحفہ ہیں ۔ یہ فلم مکمل طور پر ایک ٹیم ورک تھا۔تمام شعبوں کے ہنرمندوں نے اپنی اپنی جگہ بہت محنت کے ساتھ کام کیا۔جیسے معاون ہدایات کار غلام حسین تونسوی، کیمرہ میں سعید احمد اور سجاد پرویز، رقص کے شعبے میں اشتیاق بھٹی، افتخار سوہنی اور ندیم پرنس، ایکشن کے لئے عباس علی المعروف عارف گوندل، موسیقی میں چار موسیقار تھے: طابو خان ، حکیم الدین میواتی ، امتیاز علی اور چھکو لہری ، گیت نگاروں میں : عارف شہزاد، شہزاد خان ، مشتاق علوی ، دلداراحمد رندھاوا اور امتیاز علی، گلوکاروں میں نصیبو لال ، راگنی ، حوریہ خان ، نِرمَل شاہ ، رضی علی ، ناصر علی ، وجیہیٰ منیر ، ثمنیہ ملک اور شہزاد علی خان قوال اور ہم نوا ‘‘۔
’’ فلم کی کاسٹ نے بھی محنت سے مثبت نتائج دیے۔شمس رانا، مدھو، صائمہ جان، ساجِد علی، سُو نو جان، سلطان بِلّا، عابدہ بیگ، ولی محمد، نایاب، شاہد خان، عادی جان، عارف گوندل، مِٹھو بَرال، نوشین بَٹ، پلک ندیم، رفیق کمبوہ، بِلّو راجہ، زبیر چوہدری، احمد علی، جاوید احمد اور سلیم حسن سب نے بخوبی کردار نبھائے‘‘۔
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ نوید رضا فلم برائے پیسہ کے قائل نہیں بلکہ فلم برائے فلمی صنعت کی بہبود کے قائل ہیں۔خاکسار کی کیپٹل سنیما کے حاجی فیصل سے بھی اِس فلم سے متعلق بات ہوئی۔اُن کا کہنا تھا : ’’ یہ فلم کچھ دے کر نہیں بلکہ کچھ لے کر ہی جا رہی ہے‘‘۔ایسے دو ایک اور فلمساز آ جائیں تو ہماری فلمی صنعت میں بہتری اور حوصلہ آ سکتا ہے۔ یہ وہی باری اسٹوڈیو ہے جہاں کے فلوروں پر دن رات کام ہوتا تھا۔ اداکار، موسیقار، میوزیشن، گیت و کہانی نگار، اور تمام شعبوں کے ہنر مند با وقار روزی کما رہے تھے۔ فلمساز، تقسیم کار اور ایگزی بیٹر ایک تثلیث ہیں۔باہم مل کر اب بھی فلمی صنعت میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
نگار ویکلی کی جلد 70۔شمارہ 14۔مئورخہ 05 اپریل 2019 کے صفحہ 5 پر شائع ہونے والی تحریر
Comments