شام سے پہلے آنا ۔۔۔۔۔۔ شاعر محمد ناصرؔ
شام سے پہلے آنا۔۔۔
شاعر محمدناصرؔ
تحریر شاہد لطیف
یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں
تیر ا نام نہیں لوں گا بس تجھ کو شام کہوں گا گلوکار: عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
شام سے پہلے آنا دھوپ ساری ڈھل چکی ہو
پھول سارے کھل چکے ہوں موسم سارے لے آنا گلوکار: عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
ہوا ہو ا اے ہوا خوشبو لُٹا دے
کہاں کھلی ہا ں کھلی زلف بتا دے گلوکار:حسن جہانگیر شاعر: محمد ناصرؔ
کہہ دینا آنکھوں سے سمجھ لینا سانسوں سے
کوئی تو رہتا ہے سانسوں میں گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
پاس آ کر کوئی دیکھے تو پتہ لگتا ہے
دور سے ذخم تو ہر دل کا بھر ا لگتا ہے گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
میں نے تمہاری گھاگر سے کبھی پانی پیا تھا گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
تم میری آنکھیں ہو میں خواب جیسا ہوں
کبھی اپنے جیسا ہو ں کبھی تیرے جیسا ہوں گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
مُحمد نَاصِرؔ
آج تک اِس بھید کا علم نہ ہو سکا کہ ہم پاکستانی ایک بیدار قُوم کی حیثیت سے کسی جیتے جاگتے ، چلتے پھرتے شخص کے بارے میں نہ لکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی پڑھنا۔اِدھر کوئی گزرا نہیں اور اُدھر اُس کی یاد میں ریفرنس شروع ہوا نہیں۔پرنٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ ایک دو روز، گزرنے والے کی یاد میں اُس کی عظمت کے وہ وہ گُن گاتے ہیں کہ ’ وہ ‘ غریب بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہو گا کہ ۔۔۔اُس کے بعد؟ اُس کے بعد آپ جانتے ہی ہیں۔۔۔ راقِم کو کئی ایک نامور شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اُن میں سے کچھ دارِ فانی سے کوچ کر گئیں اور کچھ بفضلِ خدا ابھی بقیدِ حیات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
70 19کی آخری دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن نے گلوکار عالمگیر کو گھر گھر پہنچایا۔ اس مشہوری میں اس کی اپنی محنت، قسمت، اچھی دھنیں، اور دلوں کے تار چھو لینے والے عام فہم گیت بھی کم اہم نہیں۔ ان میں زیادہ تر نغمات محمد ناصرؔ کے لکھے ہوئے ہوتے تھے۔
اکتوبر 1980کے اواخر میں پاکستان ٹیلیوژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام میں راقِم نے جب ذمہ داریاں سنبھالیں تو اول اول مجھے موسیقی کے پروگرام دیئے گئے جن میں ’’ ترنگ‘‘، ’’ امنگ ‘‘ ، ’’ سرسنگم ‘‘ ا و ر ’’ آواز و انداز ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ مجھ کو اُس وقت کے اسکرپٹ ایڈیٹر مُدبِر رِضوی صاحب نے شاعر محمد ناصرؔ سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔
موصوف سے پہلی ملاقات کا احوال بھی دلچسپ ہے۔ان کے گھر کی اطلاعی گھنٹی پر ایک دبلے سے صاحب برآمد ہوئے۔جب ان سے محمد ناصرؔ کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہی محمد ناصر ؔ ہیں۔ بیساختہ خاکسار کے مونہہ سے نکلا : ’’ حیرت ہے!!‘‘۔ انہوں نے پوچھا ’’ کس بات کی حیرت؟‘‘ ۔ تب تو کہنا پڑا : ’’ آپ تو شاعر ہی نہیں لگتے‘‘۔وہ بہت ہنسے۔ در اصل ان کی آواز میں ویسے ہی کھرج ہے ، اور فون پر کچھ زیادہ ہی بھاری محسوس ہو رہی تھی، مگر دیکھنے میں وہ اِس سے بالکل اُلٹ نکلے۔اِن سے قبل جن مشہور شعراء کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھااُن کے حلیہ، بات چیت، چال ڈھال وغیرہ کے لحا ظ سے یہ حضرت مختلف تھے۔
پہلے اُن کا اور میرا ساتھ واجبی اور سرکاری سا رہا مگر پھر بہت جلد یہ بے تکلف دوستی میں بدل گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ تعلق اب بھی قائم ہے۔راقم نے پا کستان ٹیلی و ژن کراچی مرکز میں کئی شعراء کو موسیقار کی دھن پر بو ل لکھتے دیکھا۔ ان میں سر فہرست شبیؔ فاروقی اور ان کے بعد مُحمد ناصرؔ بہت ہی تیز رفتار کام کرنے والے تھے۔
راقِم خود کئی ایک مرتبہ تخلیق کے اس منظر کا چشم دید گوا ہ ر ہا ہے جب دُھن پر یا ’ ڈمی ‘ بول پر محمد ناصرؔ گیت لکھ رہے ہوتے تھے۔ انہوں نے موسیقار نیاز احمد، کریم شہاب الدین، جاوید اللہ دتّہ ، اختر اللہ د تّہ، محبوب اشرف اور دوسرے موسیقاروں کے لئے گیت لکھے ۔ نثار بزمی صاحب کے ساتھ بھی کام کیا حالانکہ بزمی صاحب کے ساتھ کام کرنا بجائے خود خاصا مشکل کام ہوتا تھا ۔وہ کبھی بہترین سے کم پر مطمئن نہیں ہوتے تھے۔
اب ذر ا محبوب اشرف صاحبان کا زکر ہو جائے۔ حسن جہانگیر کی آواز میں محمد ناصرؔ کا گیت: ’ ہوا ہوا اے ہوا خوشبو لٹا دے ، کہاں کھلی ہاں کھلی زلف بتا دے ‘ کی طرز محبوب اور اشرف صاحبان المعروف محبوب اشرف نے بنائی تھی۔یہ گیت خاص و عام میں مقبول ہو کر سرحد پار بھارت چلا گیا۔وہاں فلم ’’ انصاف اپنے لہو سے ‘‘ ( 1994) میں دوبارہ انہی حسن جہانگیر کی آواز میں موسیقار لکشمی کانت پیارے لال نے آکسٹرا کے ساتھ بمبئی کے کسی اسٹوڈیو میں صدا بند کروایا۔ فلم کی تشہیر کے سلسلہ میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں گلوکار کا نام تو حسن جہانگیر ہی ہے البتہ گیت نگار کا نام سمیر ؔ نظر آتا ہے۔آپ آج بھی انٹرنیٹ پر مذکورہ فلم کی تفصیل میں یہ دیکھ سکتے ہیں۔بہرحال اس گیت کی وجہ سے خاصی ہلچل رہی مگر بقول پروین شاکر : ’ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی ‘ ۔ اگر آپ غیر جانب دار ہو کر بہت سے سازوں اور بمبئی کے صفِ اوّل کے اسٹوڈیو میں صدابند کروائے گئے ’ اُس ‘ فِلمی گیت اور پھر محبوب اشرف کا کم سازوں سے ریکارڈ شدہ اصل گیت ساتھ ساتھ سُنیں ، تو بجا طور پر ہمارا کام اُن سے کہیں بہتر لگے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ باتوں باتوں میں ذکر چل نکلا کہ کیا محفلِ سماع کے لئے باقاعدہ قوالی بھی لکھی جا سکتی ہے؟ جواب میں موصوف نے غلام فرید مقبول صابری قوال کے لئے یہ کام کر کے اس سوال کا جواب دے دیا جو پی ٹی وی کراچی مرکزسے نشر بھی ہوئی۔ یہ بہت عجیب سی بات ہے کیوں کہ قوالی میں کوئی شعر کہیں سے کوئی کہیں سے، کوئی دوہے اور کوئی حضرت امیر خسرو ؒ کے مشہور گیتوں کے شعر ، تو کوئی حمدیہ شعر، کوئی منقبت کے بند۔۔۔ اب پاکستان ٹیلی وژن کی25 منٹ کی قوالی میں اگر یہ سب کچھ شامِل ہو جِس کا اوپر کی سطور میں ذکر ہو چکا ہے تو ایسا کام کرنا خاصی ٹیڑھی کھیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 1981 کا زمانہ ہو گا، میری رہائش کراچی کے علاقہ حسن اسکوائر، گلشنِ اِقبال میں ہوا کرتی تھی۔موصوف شاہ فیصل کالونی میں رہا کرتے تھے اور باقاعدگی سے جوگنگ اور دیگر ورزشوں کے لئے علی الصباح حسن اسکوائر کے قریب ایک میدان میں آیا کرتے تھے۔ پھر وہاں سے میرے غریب خانے آ کر میری والدہ کے ہاتھ کے بنے پراٹھے اور گھر کے دہی سے ناشتہ کر کے واپس اپنے گھر۔۔۔ پھر اپنا کام دھندہ دِن کے گیارہ بجے کے بعد شروع کرتے تھے۔وہ بھی کتنے اچھے اور سادگی سے پُر دِن تھے ۔میری و الدہ کو وہ ’ امی جان ‘ کہا کرتے تھے اور میری والدہ مرحومہ کے لئے وہ بیٹوں کی طرح سے تھے۔
اِن کو شاید ہی کبھی پتلون قمیض میں دیکھا ہو گا۔سادہ شلوار قمیض اور دائیں ہاتھ میں ایک بریف کیس جو اُن کی پہچان تھا۔ دائیں ہاتھ میں بریف کیس ہے سامنے سے آپ آ جا ئیں تو نہایت ہی برق رفتاری سے بریف کیس دائیں سے بائیں ہاتھ میں آ جاتا او ر اپنے خالی دا ئیں ہاتھ سے آپ کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ایسی ’ بے تکلفی ‘ سے دباتے کہ۔۔۔بات محمد ناصر بحیثیت شاعر کے شروع ہو کر کہاں جا اٹکی۔یہ اہلِ قلم اور فنکار وغیرہ پہلے اِنسان ہوتے ہیں بعد میں کچھ اور۔محمد ناصرؔ کے علاوہ راقِم کا اِس قدر دوستانہ کسی اور شاعر یا فنکار سے نہیں رہا۔جلوت میں خلوت میں یہ صلح جو، دھیمے مزاج والے ، وقت کی پابندی میں اپنی مثال آپ۔ زیادہ تر اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان ہیں۔عام طور سے کام کے دوران غصّہ کم کم آتا تھا۔
محمد ناصرؔ نے ہدایتکارہ شمیم آرا کی فلم ’’ کبھی ہاں کبھی نا ‘‘ ( 1998) کے تمام گیت لکھے۔موسیقار امجد بوبی تھے۔اِس فلم کا ایک گیت بہت مشہور ہوا تھا: ’ آج میرا ناچے گی۔۔۔‘۔انہوں نے ہدایتکار فُرقان حیدر کی عید الفطر بروز جمعہ 3 مارچ 1995 نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ مسٹر کے 2 ‘‘ کے بھی گیت لکھے ۔اس فلم کے موسیقار کمال احمد تھے۔
عالمگیر کے منظر سے ہٹنے کے بعد تحسین جاوید، حسن جہانگیر اور کراچی کے دیگرفنکاروں کے سی ڈی البموں کے بیشتر نغمات اِن ہی کے لِکھے ہوئے ہیں۔
پچھلے کئی ایک سال سے آپ ٹی وی ڈراموں کے ’’ ٹائٹل سونگ ‘‘ لکھ رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں اِنہوں نے زیادہ تر موسیقار وقار علی جو گلوکار سجاد علی کے بھائی ہیں،اُن کے لئے لکھے ہیں۔آج کل جیو سے ڈرامہ ’’ حِنا کی خوشبو‘‘ نشرِ مُکرّر ہو رہا ہے۔اس میں ان کا لکھا ہوا عنوانی تھیم گیت ہے۔موسیقی واجد سعید کی ہے۔آنے والے ڈرامے : ’’ کچھ تو کہا ہوتا‘‘اور ’’ چھوٹی سی غلطی‘‘۔اِ ن کے گیت صدابند ہو چکے ہیں ۔
آج کل پی ٹی وی کراچی سے پرانے گیتوں کا پروگرام ’’ یادوں کے رنگ گیتوں کے سنگ‘‘ نشر ہو رہا ہے۔یہ بلال نقوی پیش کرتے ہیں۔اس میں بھی محمد ناصرؔ کے گیت تقریباََ ہر ایک پروگرام میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
1981 کے اواخر میں مجھے کراچی مرکز کے ہفتہ وار موسیقی کے پروگرام ’ آواز و انداز ‘ کو جلد ریکارڈ کر نا تھا۔ اُس وقت آس پاس اختر اللہ دتّہ سب سے موزوں موسیقار دِکھائی دئیے۔شام کو ناصرؔ صاحب کوبتلا دیا گیا کہ صبح 10 بجے وہ اختر صاحب کے گھر آ جائیں جہاں 1گیت لکھنے ہیں۔ اُس مذکورہ صبح کے سات بھی نہ بجے ہوں گے کہ میری والدہ نے مجھے اُٹھاتے ہوئے کہا کہ ناصر ؔ کب سے آیا بیٹھا ہے۔ جب تمہیں اُس کے ساتھ کہیں جانا تھا تو اب تک کیوں پڑے سورہے ہو؟۔اب آپ کر لیں بحث۔حضرت پراٹھوں سے انصاف کرتے جاتے اور کھی کھی کرتے جا رہے تھے۔ ہم دونوں 9 بجے اختر صاحب کے ہاں موجود تھے ۔
اِس سے پہلے کہ اختر صاحب گٹار یا کی بورڈ پکڑتے، ناصرؔ صاحب نے اپنا بریف کیس کھولا قلم اور چند سادا صفحات نکال کر سامنے رکھ لئے ۔اختر صاحب نے کہا کہ عابدہ پروین کے لئے سب سے پہلے لکھتے ہیں۔پڑھنے والوں کے لئے یہ بات یقیناََ دلچسپی کا باعث ہوگی کہ گلوکارہ عابدہ پروین اِس گیت سے پہلے صرف سِندھی علاقائی پروگراموں تک ہی محدود تھیں ۔ناصرؔ صاحب اُن کو نہیں جانتے تھے جب اُنکو بتلایا گیا کہ سریلی اور کھلے ’ سبتک ‘ wide octave range والی آواز ہے تو بے ساختہ پہلا لفظ جو اُن کے منہ سے ادا ہوا وہ ’ صبح ‘ تھا۔کہنے لگے سُریلے پرندے اللہ کی ثناء صبح سویرے شروع کرتے ہیں لہٰذا عابدہ کے لئے گیت کا پہلا لفظ بھی صبح ہی ہو گا۔لیجئے جناب مکھڑا تیارہو گیا:
صبح کی پہلی کرن میری آنکھوں سے ملی
جانے کیا بات کہی نینوں نے میرے
سپنوں سے تیرے
ٍ اُردو میں یہ عابدہ پروین کا پہلا گیت تھا جو پروڈیوسر سلطانہ صدیقی اور میرے پروگرام ’ آواز و انداز ‘ میں 1981 کے در میانی عرصہ میں نشر ہوا ۔
پروگرام’ آواز و انداز ‘ میں ایک تجربہ کیا گیا تھا کہ تمام نغمات /گیت /غزل کا دورانیہ ڈھائی منٹ ہو گا ۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔گئے زمانے کے گر ا موفون ریکارڈ بھی ڈھائی سے تین منٹ دورانیہ کے ہوا کرتے تھے۔پھر EP (extended play) کا زمانہ آیا اوراُس کے بعد LP (long play) ریکارڈ بننے لگے اور ساتھ ہی گانوں کا دورانیہ بھی بڑھ گیا۔ آڈیو کے سلسلہ ایک بحث آج تک چل رہی ہے کہ گانے کا وہ کیا دورانیہ ہے جِس سے اِنسانی کان لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔اور کہاں سے یہ لطف بتدریج کم ہو کر دماغ پر گراں محسوس ہونے لگتا ہے۔اِس سلسلہ میں امریکی اور برطانوی محققوں نے وہی پرانا دورانیہ ، یعنی ڈھائی سے تین منٹ کا بتلایا ہے۔چونکہ راقِم نے اپنی عملی زندگی میں اوّل کام گراموفون کمپنی آف پاکِستان۔ EMI.Pakistanکراچی اسٹوڈیو سے صدابندی کا ہی سیکھا تھا لہٰذا پی ٹی وی میں اپنے سینئیر سے اجازت لے کر 25 منٹ کے دورانیہ کے پروگرام میں 9 سے 10 گیت رکھے گئے ۔
آیا یہ عوام نے پسند کیا یا مُسترد ؟ یہ شاید کم اہم بات ہو۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گلوکاروں/ موسیقاروں/شاعروں اور سازندوں کے لئے یہ ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ کیسے؟ ایسے کہ کہاں تین سے چار گیتوں کا معاوضہ کہاں 10 گیتوں کا!!!۔
اگلا گلوکار محمد علی شہکی تھا۔راقِم نے اختر صاحب سے فرمائش کی کیوں نہ ایک گیت خالص کلاسیکی انگ میں تیار کیا جائے۔راگوںکے نام لے کر چھیڑا جانت لگا مثلاََ ایمن، جونپوری، پیلو، دیس، مالکوس، درباری، بہار، میگھ، بھیرو، ملہار، گونڈ سارنگ اور کئی دوسرے۔ کچھ سے تو یہ خاکسار بھی آشنا تھا ۔ سب راگ اپنی اپنی جگہ بھر پور تاثر والے ہوتے ہیں، لیکن کیا کیجئے اُ ن ڈھائی منٹ دورانئے کو۔تب اختر صاحب نے ایک راگ کے بنیادی سُر چھیڑے یقین مانئے کہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں راقِم اور ناصرؔ صاحب، دونوں کے دِل کو گویا راگ نے اپنی مُٹھی میں جکڑ لیا۔ راقِم نے بیساختہ کہا کی یہی ہے جسکی تلاش تھی۔ وہ راگ ’ جھنجھوٹی ‘ تھا۔ فیض احمد فیض کی لکھی اور مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل ’ گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے۔۔۔ ‘ اِسی راگ میں ہے۔فوراََ غزل انگ میں بول لکھے گئے:
تیرے بِن کیسے بیتیں یہ راتیں
نیندیں کہاں ہیں کون بتائے
ڈھائی منٹ کے اِس گیت میں ’ آکار ‘ بھی تھی۔اختر صاحب کے بڑے بھائی ، جاوید اللہ دتّہ صاحب اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر خاص طور پر صرف اِس گیت کے لئے سِتار بجانے آئے ۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آج بھی اگر آپ یہ گیت ٹی وی پر دیکھیں یا اِس کا آڈیو سنیں، تو ایسا بھر پور ماحول رچتا ہے کہ یہ خاکسار بھی حیران ہو جاتا ہے کہ کتنے کم وقت میں یہ لکھا گیا، طرز بنی ، محمد علی شہکی نے جی توڑ کر محنت کی اور اِس کی صدابندی میں کِس مہارت سے شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کے شریف صاحب نے گلوکار کے اندر سے اِس گیت کی روح کو نچوڑ لیا۔کیا کمال کے لوگ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ! لکھتے وقت اکثر محمدناصرؔ کو ردھم کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ایک اِس کا بھی قصّہ ہو جائے۔اِتفاق سے اِس میں بھی موسیقار اختر صاحب ہی تھے۔ ’ آواز و انداز ‘ میں گلوکارہ مہناز کے لئے گیت لکھنے تھے۔شاعر کوئی مشین نہیں کہ اِدھر خام مال ڈالو اُدھر بول تیار ۔ کبھی کبھار گیت میں بولوں کی آمد رُک بھی جاتی ہے۔ ہو ا یوں کہ ایک مُکھڑے کے پہلے مصرعے پر سوئی اٹک گئی۔ حضرت نے فوراََ کہا کہ کسی گُردہ کلیجی یعنی کھٹا کھٹ بنانے والے کے پاس بٹھا دو ، منٹوں میں گیت تیار ہو جائے گا۔میرے عزیز دوست اور موسیقی میں میرے اولین اُستاد جناب عدنان الحق حقّی جِن کے نامور اور قابلِ فخر والدین، جناب شان الحق حقّی اور جناب سلمیٰ حقّی صاحبہ ہیں، اُن دِنوں کراچی میں کارساز کے علاقے میں ’ اِگلو اِن ‘ Igloo Inn کے نام سے ایک فاسٹ فوڈ اور باربی کیو کا کاروبار کرتے تھے۔میں سیدھا اختر اور ناصرؔ صاحبان کو لے کر اُ ن کے پاس پہنچا ۔
ابھی تو شام ٹھیک سے اُتری بھی نہیں تھی، کاروبار کی سیج ہی سجائی جا رہی تھی۔بہر حال کھٹا کھٹ والے کو خالی اور ٹھنڈے توے ہی پر کھٹا کھٹ کرنے پر لگا دیا گیا۔ راقِم، عدنان اور اختر صاحبان قریب ایک میز پر بیٹھ گئے۔محمدناصر یکسوئی سے نظریں خالی صفحہ پر مرکوز کر کے بیٹھ گئے اور چند ہی لمحات میں قلم کاغذ پر دوڑنے لگا اور گیت مکمل ہوا۔گیت کے بول میرے ذہن سے نکل گئے ہیں۔
ایک مر تبہ موصوف سے میں نے سوال کیا: ’’ پاکستان ٹیلی وژن کے لئے کِس پروگرام کے لئے سب سے پہلے گیت لکھے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا : ’’ کراچی مرکز کے پروگرام ’ نغمہ زار ‘ کے لئے جِس کے پروڈیوسر امیر امام صاحب تھے۔میرا پہلے گیت کا مکھڑا تھا: ’ آج چلی ہوں میں بن ٹھن کے،اپنے پیا کے دیس‘۔گلوجارہ مہناز اور موسیقار اُستاد نذر حسین تھے‘‘۔
جب پوچھا : ’’ آپ کے گیتوں میں ’ شام ‘ کا کافی ذکر مِلتا ہے۔یہ اِتفاق ہے یا کچھ اور‘‘ ؟ جواب میں کہا: ’’ میں شام سے بہت متاثر ہوں‘‘۔۔پھر اُلٹا مجھ ہی سے پوچھا: ’’ اگلا سوال کرو‘‘۔
بہرحال اللہ سے دعا ہے کہ محمد ناصرؔ صحت سے آسودہ زندگی گزاریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریریکم مارچ کے نگار ویکلی میں شائع ہوئی۔
Comments
Well done keep it up.
Muhammad Burhan Mirza
بہت شکریہ کہ آپ نے ایک غیر دلچسپ موضوع کو بھی دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔
آپ عام طور سے کِن موضوعات کو دل چسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں؟
نوازش
خیر اندیش
شاہد لطیف
pk news urdu
urdu news from pakistan
current news in urdu pakistan
pakistan news live in urdu
urdu news.com
pakistan news paper in urdu
pk urdu news
urdu news in pakistan
daily news pakistan in urdu
pakistani urdu news
latest news in pakistan urdu
urdu news paper pakistan
pak urdu news
pakistani urdu news papers
latest news of pakistan in urdu
pk news urdu
urdu news from pakistan
current news in urdu pakistan
pakistan urdu news latest
latest urdu news pakistan
pk urdu news
daily news pakistan in urdu
pakistani urdu news
urdu news from pakistan
breaking news pakistan urdu
latest news pakistan in urdu
latest pakistani news in urdu
latest pakistan news urdu
breaking news urdu pakistan
www.urdu news
pakistan news paper urdu
karachi urdu news
pakistan news urdu today
urdu news pk
urdu news
daily urdu news
urdu news pakistan
today news urdu pakistan
pakistan urdu news
urdunews
latest news pakistan urdu
pak urdu news today
pakistan latest news urdu
www pakistan news com urdu
pak news in urdu
urdu news karachi
latest news urdu pakistan
Urdu fresh news