PDF فُٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے بنتے ہیں ۔۔۔ کیا واقعی !!





فُٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے بنتے ہیں ۔۔۔ کیا واقعی !!



تحریر شاہد لطیف

  ٹریفک پولیس نے سڑک پر پیدل چلنے والے افراد کے لئے ایڈوائزریجاری  کی ہے کہ سڑک پر پیدل چلنے والے افراد ہمیشہ فٹ پاتھ کا استعمال کریں۔اوور ہیڈ بریج یا انڈر پاس کا استعمال کریں۔چلتی ٹریفک کے درمیان کبھی سڑک عبور کرنے کی کوشش نہ کریں۔شاہراؤں پر کسی بھی گاڑی / موٹر سائیکل چلانے سے پہلے ڈرائیونگ کے اصولوں سے واقفیت اور سیفٹی قوانین کی آ گاہی مہم شروع کی گئی۔گزشتہ سال بھی 16 نومبر کو مئیر کراچی وسیم اختر نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے تمام فٹ پاتھ پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کریں گے: ’’ میں اکیلا نہیں ہوں سپریم کورٹ، رینجرز اور پولیس سمیت ادارے ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔دونوں باتوں کا بھلا کوئی کیا جواب دے۔کیا سٹی ٹریفک پولیس کو علم نہیں کہ کراچی کی مصروف سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر چلنا پُلِ صراط پر چلنے کی مشق ہے؟اوور ہیڈ برجوں پر بھکاریوں اور نشئیوں کا قبضہ ہے۔ لڑکیاں اور خواتین بے چاری ان کو استعمال کرنے سے رہیں۔


مئیر صاحب!! کیا فٹ پاتھ اب بھی نیلام نہیں ہو رہے؟جب فٹ پاتھ بکتے اور نیلام ہونے لگتے ہیں تو اس سے بلدیہ کو ایک روپیہ حاصل نہیں ہوتا۔پولیس اور بلدیہ کے اندر کے مافیا کا ضرور فائدہ ہوتا ہے۔ اُلٹا فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے پر بلدیہ کا خرچہ ضرور ہوتا ہے۔ذرائع کے مطابق صدر، نارتھ ناظم آ باد، طارق روڈ، لیاقت آباد اور کریم آباد وغیرہ میں معمولی سا پتھارہ اب بھی چار سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے میں ’ فروخت ‘ ہو رہا ہے۔ پولیس اور بلدیہ کو یومیہ تین کروڑ روپے مل رہے ہیں جو درجہ بدرجہ آپس میں تقسیم ہوتے ہیں۔اور بے چارے شہری۔۔۔سڑک پر چلنے پر مجبور !!اس سے اُن علاقوں میں چھوٹے بڑے حادثات روز کا معمول ہیں۔مگر تمام ’’ ذمہ دار ‘‘ محض کاغذی کاروائی کر کے ’ فرض ‘ سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔


ایک عذاب اور بھی پیدل چلنے والوں کو درپیش ہے۔وہ ہے ہیوی جنریٹروں کی کھلے عام شہر کے تجارتی علاقوں میں تنصیب۔ان سے عوام کو پیدل چلنے میں نہ صرف دشواریوں کا سامنا ہے بلکہ یہ جنریٹر ماحول میں بہت زیادہ آلودگی پھلا رہے ہیں۔ان کا کثیف دھواں سانس کی بیماریوں کا موجب بن رہا ہے۔ان کے دفاع میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ میونسپل ایڈمنسٹریٹر کو جنریٹروں کی تنصیب سے لاکھوں روپے ماہانہ وصول ہو رہے ہیں۔جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے فٹ پاتھ پر جنریٹروں کی تنصیب کے خلاف درخواست پر کراچی کے تمام ڈسٹرکٹ میونسپل ایڈمنسٹریٹروں کو 9 فروری کو طلب کیا تھا۔سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کسی ڈسٹرکٹ میونسپل ایڈمنسٹریٹرکو ایسی رقم وصول کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ان جنریٹروں نے فٹ پاتھ اتنی زیادہ جگہ لے رکھی ہے کہ پیدل چلنے والے سڑک پر چلتے ہیں۔یہ بنیادی حقوق کی کیا خلاف ورزی نہیں؟ درخواست گزار سماجی رُکن رانا فیض الحسن نے موقف اختیار کیا کہ صدر ٹاؤن، جمشید ٹاؤن، لیاقت آباد، ناظم آباد اور دیگر علاقوں میں نجی بینکوں نے فٹ پاتھ ، سڑکوں کے کناروں پر ہیوی جنریٹر نصب کر دیے ہیں جن سے پیدل چلنے والوں کو شدید مشکلات ہیں۔ 


فٹ پاتھ پر موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو پارک کرنا بھی پیدل چلنے والوں کے لئے مصیبت بنا ہوا ہے۔دُکان دار اور وہاں آنے والے محض اپنی سہولت دیکھتے ہیں۔ پیدل چلنے والے اُن کی بلا سے سڑک پر چلیں۔اس سلسلے میں یہ دلیل بالکل بے وزن ہے کہ دُکانداروں اور خریداروں کے لئے پارکنگ کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے یہ انتظام ہونا چاہیے لیکن اس کے نا ہونے کی سزا پیدل چلنے والے کیوں بھگتیں؟۔اب بھی شہر کے مصروف علاقوں کے فٹ پاتھ پر جا بجا پتھارے نظر آتے ہیں۔اور تو اور ایمپریس مارکیٹ کے آپریشن کے بعد ڈرائی فروٹ والیاں اب بالکل سڑک پر آ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔شاید یہ مئیر کراچی اور آپریشن کی ٹیم سے کسی’ علم ‘ کے زور سے غیبی ہو جاتی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ پورے شہر کے فٹ پاتھوں کو تمام طرح کی تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ اور موٹر میکنکوں سے اب کوئی ’ حجاج بن یوسف ‘ ہی آزاد کرا سکتا ہے۔ آپریشن کرنے کے بعد فٹ پاتھ دوبارہ برائے فروخت ہو جاتے ہیں۔ ایسا کون کرتا ہے؟ اس آپریشن کو کرنے والے ہی۔ آپریشن کو مستقل نفاذ درکار ہے جو کبھی بھی نہیں ہوتا۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں پیدل چلنے والوں کے حقوق سرے سے ہیں ہی نہیں۔ٹریفک کے اصولوں کی معلوماتی کتاب میں درج ہے کہ کوئی شخص ٹریفک کے اشارے، چوک، پیدل چلنے والوں کی گزرگاہ اور فٹ پاتھ پر گاڑی پارک نہیں کر سکتا۔ چوک یا اشارے کے قریب گاڑی پارک کرنے پر ٹریفک پولیس برق رفتاری سے حرکت میں آتی ہے لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی پولیس والا فٹ پاتھ پر گاڑی کھڑی کرنے پر توجہ دے۔ 


بقول تنویر ؔ نقوی : ’ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں،ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سناؤں‘۔ یہ آپ کے ساتھ بھی ہوا ہو گا کہ آپ رش کے اوقات میں فٹ پاتھ پر جا رہے ہیں ۔سامنے سے مسلسل موٹر سائیکل والے قطار اندر قطار چلے آ رہے ہیں۔ آپ ’ اِن ‘ کو اگر جگہ نہیں دیتے تو یہ ہارن بجائیں گے۔یہ ’ بائیکر ‘ ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ اِن کی ایک بھاری اکثریت پڑھی لکھی اور اچھی ملازمتیں کرنے والی ہوتی ہے۔لیکن بائیک پر بیٹھ کر ان کی عقل ماری جاتی ہے ۔ یہ عقل سے عاری لوگ ہیں۔فٹ پاتھ کو اپنی خود غرضی اور آسانی کے لئے سڑک کے طور پر استعمال کر کے پیدل چلنے والوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ سڑک پر چلیں۔ اِن بائیکرز سے اگر پوچھیں : ’’ جناب !! آپ فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل چلا رہے ہیں اوپر سے ہارن بجا کر راستہ دینے کو بھی کہتے ہیں۔بتائیے کہ میں کہاں جاؤں؟‘‘۔ اس پر وہ ڈھٹائی سے دانت نکالے جواب دے گا :’’ یہ کراچی ہے !! ‘‘۔ اب آپ کر لیں بحث۔ان بائیکرز کو بالکل بھی احساس نہیں کہ وہ کوئی غلط کام کر رہے ہیں۔ ان کے حق میں یہ دلیل کہ رش کا عالم ہے اسی لئے وہ فٹ پاتھ پر چلنے پر مجبور ہیں بے وزن ہے۔وہ بھی گاڑی والوں کی طرح انتظار اور صبر کریں۔
نہ جانے کیوں فٹ پاتھوں کو ڈیزائن کرنے والے اس کو ایک ہی لیول پر کیوں نہیں رکھتے ۔ مکانوں یا دوکانوں کے سامنے یہ زمین کے ہموار ہو جاتا ہے پھر آگے دوبارہ واپس اپنی پہلے والی اونچائی ہو جاتی ہے۔ چھوٹے بچے، بچہ گاڑی، بزرگ، وہیل چیر والے بار بار تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ بھی خودغرضی ہے کہ مکان والے یا دُ کانوں والے اپنی سہولت دیکھتے ہیں کہ اُن کی گاڑیاں بہ آرام آجا سکیں۔پیدل چلنے والوں کا کیا ہے۔بقول جالبؔ : ’ یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے ‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختتام

یہ تحریر 23 فروری کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر کالم اُلٹ پھیر میں  شائع ہوئی۔
































 

Comments

Popular posts from this blog