تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے گلوکار اور موسیقار ایس۔بی۔جون
’’ جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی سرے کا پتھر ہو گیا۔۔۔ ‘‘
تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے گلوکار اور موسیقار ایس۔بی۔جون
Sunny Benjamin John
تحریر شاہد لطیف
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
آج 60 سال بعد بھی جَون بھائی کی آواز میں یہ گیت روزِ اول کی طرح مقبول ہے۔آج بھی نوجوان یہ گیت شوق سے سُنتے ہیں۔ اِس گیت کو بعد کے آنے والے فنکاروں نے بھی ٹیلی وژن چینلوں پر پیش کیا۔لیکن جَون بھائی کا گایا ہوا اصل گیت آج بھی آب وتاب کے ساتھ روشن اور ویسا ہی تازہ ہے۔انٹر نیٹ پر جہاں کوئی ’ری مکس ‘ ہوتا ہے اُس کے ساتھ ہی اصل گیت بھی موجود ہوتا ہے ۔ مذکورہ گیت کے ری مِکس کے ساتھ اصل گیت بھی انٹر نیٹ پر موجود ہے اور سننے والا ’’ فرق ‘‘ صاف محسوس کر لیتا ہے۔
پاکستان ٹیلی وژن کا میں ہمیشہ احسان مند رہوں گا کہ اُس کی بدولت خاکسار کو اِس عظیم فنکار کے پاس بیٹھنے کا کئی مرتبہ اعزاز حاصل ہوا ہے ۔ میرا جَون بھائی سے80کی دہائی سے تعلق ہے۔اِن کے بیٹے روبن جَون کے ساتھ میں نے پاکستان ٹیلی وژن کے کئی موسیقی کے پروگرام کیے۔ جون بھائی سے بھی اکثر ملاقات رہتی تھی مگر کبھی تفصیلی گفتگو کا موقع نہ مل سکا۔چند روز پہلے اُن سے اُن کے کام، شخصیت اور خصوصاََ اُن کے پہچان گیت کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔اور یہ بھی کہ اُس کے بعد مزید فلموں میں گانے کیوں نہیں گائے۔ میرے علاوہ ، اُن کے پرستاروں کے ذہن میں بھی اِس طرح کے سوالات ہیں، میں نے اُن کی نمایندگی کرتے ہوئے جَون بھائی سے اِس بات چیت کے دوران بہت کچھ پوچھا ۔ اِس گفتگو کا خلاصہ قارئین کی نظر ہے:
جَون بھائی کی گلوکاری کا سفر ،20 مئی1950کو ریڈیو پاکستان کراچی سے سیف ؔ الدین سیف صاحب کے لکھے ہوئے گیت سے ہوا۔پھر جلد ہی شہر کے موسیقی کے فنکشنوں اورمحفلوں میں شرکت کرنے لگے۔ ’’ ریڈیو میرا اسکول اور دوسرا گھر تھا۔وہاں شاعر ارمؔ لکھنوی ،بہزاد ؔ لکھنوی وغیرہ اور موسیقاروں میں رفیق غزنوی، مہدی ظہیر اور بہت سے دوسرے لو گوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا تھا۔اُس زمانے میں ایک پروگرام ’ سُنی ہوئی دھنیں ‘ ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر ہو تا تھا ، میں بھی اس میں حصہ لیتاتھا۔اِس پروگرام میں معشوق سلطان، نہال عبد اللہ اور مہدی ظہیر بھی آتے تھے ۔۔۔مہدی حسن میرے پانچ چھ سال بعد ریڈیو پر آئے‘‘۔جون بھائی 1950 سے 1990 کی دہائی تک موسیقی کی دنیا میں فعال رہے۔
ایس بی جون صاحب قیامِ پاکستان سے پہلے1942یا 1943 میں پنڈت رام چندرا تریویدی کے ہاں طبلہ سیکھتے تھے ۔کراچی کے موجودہ سول اسپتال کے سامنے پنڈت جی کا اسکول ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ طبلہ سیکھنے کے دوران گنگنا نے لگے تو پنڈت صاحب نے کہا گانا کیوں نہیں گاتے۔۔۔ اس طرح طبلے کے ساتھ گائیکی کے اسرار و رموز بھی حاصل کرنے لگے ۔’’ بس یہی میرے ایک استاد ہیں ۔۔۔گلوکار احمد رشدی کو میں ہی سب سے پہلے منظر پر لایا۔میں کسی محفل میں طلعت محمود کے گیت گا رہا تھا۔ احمد رشدی بھی وہاں موجود تھا۔وہ کہنے لگا کہ میں بھی گانا چاہتا ہوں۔میں نے ہارمونیم اُس کے آگے کیا تو کہنے لگا کہ مجھے بجانا نہیں آتا پھر میں نے ہارمونیم بجایا اوراُ س نے طلعت محمود کا گیت: ’ میں پاگل میرا منوا پاگل۔۔۔‘ سُنایا۔یہیں میں نے احمد رشدی کواسٹیج پر روشناس کرایا ‘‘۔
’’ بچے تو پالنے تھے، گھر بھی چلانا تھا لہٰذا ’ گرینڈلیز بینک ‘ میں ٹیکنیکل اور مینٹینینس کے شعبے میں ملازمت کی۔شام اور رات کو موسیقی کاسلسلہ بھی چلتا رہا۔کراچی کے ایک معروف فلم اسٹوڈیو کے چیف ساؤنڈ ا نجنیئر اقبال شہزاد صاحب کے اسسٹنٹ ہاشم قریشی صاحب تھے میرا اُن سے دوستانہ تھا۔ایک دن انہوں نے کہا کہ رفیق رضوی صاحب کی ایک آنے والی فلم میں ، فلم کے موسیقار نئے گلوکاروں کے آڈیشن لے رہے ہیں تم بھی قسمت آزمائی کرو۔ اِس سے پہلے مجھے اکثر یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا تھا کہ میری آواز پلے بیک سنگنگ کے لئے نا موزوں ہے، لہٰذا میں جانے سے ہچکچایا لیکن پھر چلا ہی گیا‘‘ ۔ یہاں جون بھائی نے ایک بہت پیاری اور دل کو لگتی بات کہی۔ وہ کہتے ہیں : ’’ بائیبل مقدس کی ایک آیت ہے: ’’ جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی کونے کے سِرے کا پتھر ہو گیا، یہ خدا کی طرف سے ہوا جو ہماری نظر میں عجیب ہے۔ ‘‘یہ میری زندگی پر پورا اترتا ہے۔ہوا کچھ یوں کہ اُس دن مجھے خاصا ’ فُلو ‘ تھا ۔ماسٹر صاحب نے کہا کچھ سُناؤ میں نے فلوکے ہونے کی بات کی تو اُنہوں نے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ فلو میں آواز اور زیادہ اچھی ہو جاتی ہے ۔ مجھے سننے کے بعد ماسٹر صاحب پیار سے بولے کہ تو پہلے کہاں تھا؟۔۔۔ا ور میرا انتخاب ہو گیا۔جس شخص کو یہ کہا جاتا رہا تھا کہ اُس کی آواز فلموں کے لئے مناسب نہیں اُس کا پہلا گیت ہی اس کی پہچان بن گیا۔لہٰذا میں ’’وہی سِرے کا پتھر بن گیا ‘‘جس کو معماروں نے مسترد کر دیا تھا اور یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہی ہوا ‘‘ ۔
اِس فلم کے موسیقار ماسٹر منظور، شاہ عالمی والے ( لاہور کے مشہور علاقہ شاہ عالمی کی نسبت سے) تھے۔ ایس۔بی۔جون اور فلم ’ سویرا ‘ کے حوالے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔میں بھی کل تک یہی سمجھتا رہا اور انٹرنیٹ پر موجود مواد میں بھی یہی درج ہے کہ فلم سویرا کے مذکورہ گیت کی موسیقی، ماسٹر منظور اشرف نے دی تھی ۔پھر اِس فلم کی ریلیز کے دس سال بعد1967میں منظور اشرف صاحبان کی جوڑی ٹوٹ گئی اور اشرف صاحب ، ایم۔اشرف کے نام سے اپنی وفات تک موسیقی دیتے رہے۔ میری جون بھائی سے اس حوالے سے بات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا : ’’ بے شک اِس گیت کے موسیقار ماسٹر منظور ہی تھے لیکن اُن کا منظور اشرف صاحبان یا موسیقار ایم اشرف سے کوئی تعلق نہیں۔ اُن کی اپنی شناخت ’’ ماسٹر منظور ،شاہ عالمی والے ‘‘ کی حیثیت سے ہے اور اس گیت کے ساتھ اسی نام سے اُن کی پہچان ہونا چاہیے ۔ تم ضرور اِس غلطی کو اپنے کالم کے ذریعے درست کرو ‘‘۔
جون بھائی نے کہا: ’’ جس طرح ہر پڑھا لکھا شخص مصنف نہیں ہوتا اسی طرح موسیقی جاننے والا کمپوزر نہیں ہوتا۔پاکستان اور ہندوستان میں ہلکی پھلکی موسیقی / لائٹ میوزک کو جب بھی عروج ملا وہ Amature یا اُن کی وجہ سے ملا جن میں موسیقی کی خدا داد صلاحیت موجود تھی اور اُنہوں نے اپنی محنت سے موسیقی کے اسرار و رموز بھی حاصل کیے پھر ا نہیں استعمال کرتے ہوئے لاجواب کام انجام دیے ۔ مثلاََ مدن موہن صاحب، شنکر اور جے کشن صاحبان، لکشمی کانت اور پیارے لال صاحبان، خواجہ خورشید ا نور صاحب، نثار بزمی صاحب وغیر ہ ۔اسی طرح فلمی گلوکاروں میں لتا منگیشکر اور آشا بھونسلے صاحبہ، مُکیش ، طلعت محمود اور محمد رفیع صاحبان ‘‘۔
ایک اور دلچسپ واقعہ سُناتے ہوئے کہا:’’ یہ 60کی دہائی کا ذکر ہے۔ سی ارجُن نام کے ہمارے ایک پیر بھائی تھے جن کی پاکستان چوک میں گھڑیوں کی دُکان تھی۔ہم دونوں کے ایک اور پیر بھائی، سی لکشمی چند، بمبئی میں رہا کرتے تھے۔میرا بمبئی جانے کا ارادہ ہوا۔ارجُن صاحب بھی ساتھ چلے۔وہاں میں نے لتا جی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔وہاں جِس نے بھی اِس بات کو سُنا اُس نے کہا کہ وہ کب کسی سے ملتی ہیں۔میں نے کہا کوشش کر دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ اِس طرح میں اور سی ارجُن لتا جی کے گھر پہنچ گئے۔اُس زمانے میں وزٹنگ کارڈ کہاں ہوتے تھے لہٰذا ایک پرچہ پر ایس بی جون، پاکستان سے، لکھ کر ملازم کو دروازہ پر دیا۔تھوڑی ہی دیر بعد اُسی ملازم نے ہم دونوں کو ایک بڑے سی بیٹھک میں پہنچا دیا۔اِس وسیع کمرے میں ایک بھی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے اندازہ ہوتا کہ یہ کسی گلوکارہ کی بیٹھک ہے۔کمرے میں ایک ’’گرنڈک‘‘ کا ریڈیو گرام رکھا ہوا تھا جِس پر فریم میں امریکی پیانسٹ اور گلوکار نیٹ کنگ کُول Nat King Cole کی تصویر رکھی ہوئی تھی۔ ۔تھوڑی ہی دیر میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑے خوش دلی کے ساتھ لتا جی نمودار ہوئیں ‘‘ ۔ اور کہا: ’’ آپ کا نام بہت سُنا اب مل کر بہت اچھا لگ رہا ہے‘‘۔’’ اِس ملاقات میں پاکستان کی فلموں اور موسیقاروں، گلوکاروں پر کافی باتیں ہوئیں۔پھر میں اور ارجُن لتا جی سے اجازت لے کر اُوشاکھنّاسے ملنے ایک ریکارڈنگ اسٹوڈیو چلے گئے۔ اُوشاکھنّابھارتی فلمی صنعت کی تین خواتین موسیقاروں میں سب سے زیادہ معروف میوزک ڈائریکٹر تھیں۔1959میں بحیثیت موسیقار، اُن کی پہلی فلم ’’ دل دے کے دیکھو‘‘ تھی‘‘۔1979میں گلوکار کے جے یسوداس کو اِن کی ترتیب دی ہوئی طرز پر بہترین گلوکار کا ’’ فلم فیئر‘‘ ایوارڈ مِلا۔وہ فلم ’’ دادا ‘‘ میں کَلوَنت جانی کا لکھا ہوا گیت ہے :
دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مسکرا کے چل دئیے
جاتے جاتے یہ تو بتا جاہم جئییں گے کس کے لئے
بات سے بات نکلتی ہے،یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ پنکھج اُداس، ہیم لتا، محمد عزیز، شبیر کُمار اور سونو نگم کو موسیقار اوشا کھنہ نے ہی سب سے پہلے گانے کا موقع دیا تھا۔’’ اوشا سے میری بہت اچھی دعا سلام تھی۔وہاں آشا بھونسلے کے کسی فلمی گیت کی صدابندی ہو رہی تھی۔ اتنے میں گلوکار سریش واڈیکر آ گئے۔ اوشا نے جب تعارف کرایایہ یہ ایس بی جون ہیں، پاکستان سے آئے ہیں تو رواج کے مطابق اُٹھ کر پاؤں چھوئے‘‘۔
آج کل کی موسیقی کے معیار پر بات ہوئی تو اُنہوں نے کہا: ’’ پہلے گانا سُنا جاتا تھا اب دیکھا جاتا ہے ۔اب فنکار ، فنکار نہیں ، بلکہ Entertainer یا تفریح مُہیا کرنے والا بن گیا‘‘۔
جون بھائی نے اپنا مقام بنا نے کے لئے ان تھک محنت کی ہے۔اِن کی کامیابی کئی میدانوں میں ہے۔موسیقی اور گلوکاری میں ریڈیو ، اسٹیج ، فلم اور ٹیلی وژن۔اپنے گھر میں بچوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت ۔رزقِ حلال کے لئے ملازمت کی کیوں کہ موسیقی اور گلوکاری اُن کا معاش نہیں تھا۔منطق کے لحاظ سے، پہلے ہی فلمی گیت کی کامیابی کے بعد، اُن کا اگلا قدم لاہور جانے کا ہونا چاہیے تھا جہاں کامیابی ان کی منتظر ہوتی ، حالات کے اشارے بھی یہی کہہ رہے تھے۔لیکن اپنی زندگی کے اس قدر اہم موڑ پر جون بھائی نے اپنے خاندان، گھر اور شہر کو ترجیح دی۔وہ ایک بنا بنایاسیٹ اپ چھوڑ کر نئی جگہ کا رسک لینے کے لئے تیار نہ تھے۔اُن کا یہ فیصلہ بالکل ٹھیک ثابت ہوا اور اللہ نے اسی شہر میں جون بھائی کو عزت اور مقام عطا کیا۔
باتوں باتوں میں ذکر آیا کہ ایک مرتبہ ہندوستان سے نامور ہدایت کار مہیش بھٹ، ڈیفنس کراچی میں کسی کے ہاں مہمان ٹہرے ۔ اگلی صبح اُنہوں نے فرمائش کی کہ ایس بی جون کا گایا ہوا گراموفون ریکارڈ ’’ تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘ درکار ہے۔وہاں پر صدف آڈیو ویڈیو والے خالد موجود تھے ۔وہ جَون بھائی کے مداح تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر اُن سے ملاقات ہی کروا دیں تو؟ اِس پر مہیش بھٹ بہت پُرجوش ہو گئے اورجون بھائی سے ملنے اور اُن کو سننے کی درخواست کی۔ اس طرح اسی شام، جون بھائی اپنے بیٹے، گلین جون Glenn John کے ساتھ ڈیفنس میں موجود تھے ۔ اس ملاقات کے بارے میں جون بھائی نے بتایا : ’’ مہیش بھٹ نے کہا کہ میری امّی آپ کا گایا ہوافلم سویرا کا گیت اکثر گنگنایا کرتی تھیں۔پھر کہیں سے ہمارے ہاں وہ گراموفون ریکارڈ بھی آ گیااور میں بھی وہ گیت سُنا کرتا تھا۔آج آپ کو دیکھ رہا ہوں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں! ۔ پھر جب گیت اور غزلوں کا دور چلا تو اس دوران کچھ نغمات گلین نے بھی سُنائے اس پر بے ساختہ مہیش بھٹ صاحب نے اُس سے کہا کہ تم اپنے والد کا گایا ہوا گیت : تو جو نہیں ہے ۔۔۔ سُنا سکتے ہو؟ جب اُس نے سنایا تو ایک دم اُنہوں نے کہا کہ میں ایک فلم بنا رہا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو گلین کی آواز میں آپ کا گیت ریکارڈ کروا کر فلم میں شامل کر لوں؟ یوں وہ گیت فلم ’ وہ لمحے ‘ کے لئے ریکارڈ ہوا ‘‘۔ مہیش بھٹ نے ، مصنف اور فلمساز کی حیثیت سے فلم ’ وہ لمحے ‘ بنائی جو29 ستمبر2006 کو ہندوستان میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔
یہ درست ہے کہ جَون بھائی نے پلے بیک سنگنگ نہیں کی لیکن گائیکی اور دھنیں مرتب کرنے میں اپنا ایک نام بنایا۔1960کی دہائی میں ہمارے ملک کے نامور موسیقار سہیل رعنا نے اپنے والد ، رعنا اکبر آبادی کی لکھی ہوئی غزل : ’ اُڑے ہوش اُس در پہ جانے سے پہلے۔۔۔‘ EMI ،گراموفون کمپنی آف پاکستان میں ایس۔بی جون۔ کی آواز میں ریکارڈ کروائی۔
ریڈیو پاکستان سے ابنِ انشاء کی غزل: ’ کل چودھویں کی رات تھی ۔۔۔ ‘ جَون بھائی کی آواز میں اکثر نشر ہو تی ہے۔اِس کی دھن انہوں نے خود مرتب کی۔میں بھی کبھی کبھار شوقیہ محفلوں میں گا لیا کرتا ہوں اور جب بھی یہ غزل سُناتا ہوں تو اِن ہی کی طرز والی سُناتا ہوں۔
احمد فرازؔ کی غزل: ’ تیرے ملنے کے زمانے آئے۔۔۔ ‘ کی دھن جون بھائی نے بھی بنائی اور اپنی ہی آواز میں ریکارڈ کروائی۔
’’ میں پہلے پاکستانی، پھر عقیدہ کے لحاظ سے کرسچن ہوں۔۔۔ مجھے اکثر یہ شکایت سننے کو ملتی تھی کہ ہم کرسچن لوگوں کو آگے بڑھنے کے کم مواقع ملتے ہیں۔میں ہمیشہ اُنہیں کہتا کہ اقلیت کو اکثریت کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں! بلکہ یہ ایک عالمی حقیقت ہے ۔ فنکار کی صلاحیت اور اہلیت اسے آگے بڑھا تی ہے۔ فنکار کو اُس کے مذہب اور نام سے نہیں اُس کے کام سے واہ واہ یا ستائش ملتی ہے۔ مجھے بھی میری عمر بھر کی محنت اور کاوشوں کا صلہ 2011 میں مِلا جب صد رِ پاکستان نے مجھے تمغہ حسن کارکردگی دیا۔‘‘
جَون بھائی ایک با عزت کر سچن گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔اتنی شہرت اور عزت کے باوجود اُنہوں نے پیسے کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا۔گانے کو شوق کی حد تک رکھا اور قناعت کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کی۔اِس کے نتیجے میں اُن کی اولاد سعادت مند اور فرماں بردار نکلی۔اب جَون بھائی ریٹائرڈ زندگی کا لطف لے رہے ہیں۔آنا جانا کم ہو گیا ہے لیکن اُن کی محبت ، خلوص اور مہمان نوازی میں کوئی فرق نہیں آیا۔سنی بینجیمن جَون المعروف ایس بی جَون پاکستان کا ایک قابلِ فخر اثاثہ ہیں، اسی کے اعتراف میں اُنہیں صدارتی ایوارڈ برائے حُسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کا ذکر ہوا تو ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’ ادھر شاعر گیت لکھتے اُدھر موسیقار فنکاروں کوریہرسل کروانے لگتے اور کم سے کم وقت میں ریکارڈ کرنے کی کوشش کرتے‘‘۔
ریڈیو پاکستان کے سابقہ لائبریرین آفتاب بھائی (م) نے مجھے 1984میں بتایا تھا کہ جون بھائی نے جنگِ ستمبر میں 8 گیت ریکارڈ کروائے۔
’’ جون بھائی 71 کی جنگ میں آپ نے بھی کچھ جنگی گیت ریکارڈ کروائے تھے۔اِن کے بارے میں کچھ بتائیں؟‘‘۔میں نے اُن سے سوال کیا۔
’’ اِس جنگ کے دوران ساقیؔ جاوید کے لکھے ہوئے ایک گیت کی بہت تاریخی حیثیت ہے۔ جس کو میں نے کمپوز کیا اور اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا ‘‘:
اے ارضِ وطن تو ہی بتا تیری صدا پر
کیا ہم نے کبھی فرض سے ا نکار کیا ہے
بات سے بات نکل رہی ہے۔ساقیؔ جاوید کا ایک اور ملی نغمہ بہت مشہور ہوا: ' چاند میری زمین پھول میرا وطن، میرے کھیتوں کی مٹی میں لعلِ یمنٗ جسے اُستاد امانت علی خان نے گایا تھا۔
بہرحال جون بھائی نے اپنے اُس نغمے کے ذکر میں ایک دلچسپ بات بتلائی۔
کہنے لگے: ’’ بھٹو صاحب کا بالکل ابتدائی دور تھا جب اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر ایک مینارٹی کانفرنس Minority منعقد ہوئی۔ بھٹو صاحب اور کوثر نیازی کے بعد مجھے روسٹرم پر بلوایا گیا۔ میں نے وہاں یہی ملی نغمہ سنایا۔ابھی پہلا شعر ہی ادا کیا تھا کہ بھٹو صاحب نے اور دیگر حاضرین نے خوشی کا اظہار کیا اور حوصلہ بڑھایا۔نغمہ ختم ہوا تو بھٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کس کا لکھا ہوا ہے؟ میں نے ساقیؔ جاوید کا نام لیا۔پھر پوچھا کہ کس نے دھن بنائی تھی۔جب میں نے کہا کہ میں نے، تو اپنے پاس بلوایا اور کہا کہ شام کے سیشن میں بھی یہ نغمہ سنانا‘‘۔ پھر جون بھائی نے شام کو بھی یہ نغمہ سنایا۔گویا پاکستان کی اقلیتیں کہہ رہی ہیں کہ جنگ ہو یا امن ! ہم نے اپنے فرائض نہایت ذمہ داری سے ادا کیے اور جنگوں میں اپنے وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ! ‘‘۔
جون بھائی نے بیشک صحیح کہا۔ اسکوارڈن لیڈر ( میجر) پیٹر کرسٹی Peter Christy جنہوں نے جنگِ ستمبر میں حصہ لیا اور 6 دسمبر 1971 کو بھارتی ائیر فورس کے بیس جام نگر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر واپسی پر ملک اور قوم کی خاطر شہید ہو گئے ۔انہیں تمغہ جرات (1965)، ستارہ جرات( 1971)سے نوازا گیا۔پھر سسل چوہدری کا نام بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے ۔ یہ 1965 کی جنگ میں لاہور شہر کے اوپر ڈاگ فائٹ اور6 ستمبرہلواڑہ ایر بیس کے ’’ رن وے ‘‘ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ’ ہلواڑہ پیٹنے ‘ والے معرکہ کے ہیرو ہیں۔ہم ان کے یوں بھی شکر گزار ہیں کہ ان کے وجہ سے نیا محاورہ ’’ ہلواڑہ پیٹنا ‘‘ وجود میں آیا۔سسل چوہدری نے 1971 کی جنگ میں اسکورڈرن لیڈر کی حیثیت سے بھی حصہ لیا۔ انہیں 1965 کے معرکہ میں ستارہ جرت اور 1971کی جنگ میں تمغہ جرت دیا گیا۔ جون بھائی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ سسل چوہدری اُن کی بیٹی کے چچا سسر تھے۔ ہم ان پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔اور یقیناََ یہ کرسچن برادری کے لئے بھی ایک اعزاز ہیں ۔
ہم جَون بھائی کی زندگی، صحت اور عافیت کے لئے دعا گو ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر نگار ویکلی کراچی کی 15 فروری 2019 کی اشاعت میں شائع ہوئی۔
Comments